شیشہ کیفے کی بندش کا حکم
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
یہ امر باعث ستائش ہے کہ پاکستان
کی سب سے اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک تین رکنی بنچ جس کی سر
براہی چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی کر رہے تھے ، اپنے ایک آڈر میں چاروں
صوبائی حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ ملک میں قائم غیر قانونی ’شیشہ کیفے‘ فوری
طور پر بند کروائے جائیں۔ معزز عدالت نے چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل کو
حکم دیا ہے کہ وہ فوری طور پر صوبوں میں قائم شیشہ گھروں کے بارے میں عدالت
کو رپورٹ پیش کریں۔اعلیٰ عدالت کے اس آڈر کے بعد چند دن قانون نافذ کرنے
والے ادارے متحرک نظر آئے اور اس کے بعد معاملا سرد خا کی نظر ہو گیا ۔
اطلاعات کے مطابق پنجاب اسمبلی میں شیشہ نوشی کو روکنے کے لیے قانونی بل کی
تیاری کی جاچکی ہے لیکن دیگر صوبوں میں تاحال قانونی طور پر اس لعنت سے
نمٹنے کے لیے اقدامات کا آغاز ہی نہیں ہوا۔کراچی میں قانون نافذ کرنے والے
اداروں نے کچھ دن شہر کے شیشہ کیفے پر چھاپے مارے اور شاید انہیں بند
کرادیا گیا ہو اور ان کے خلاف قانونی کاروائی بھی کی گئی جو ایک قابل تعریف
بات ہے لیکن یہ عمل چند دن کے بجائے مستقل جاری رہنے والا ہے۔ قانون نافذ
کرنے والے اداروں کا فرض ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے آڈر پر من و عن عمل کریں۔
حقہ پینا ہماری تہذیب کا ایک حصہ ہے ، یہ صدیوں سے گاؤں ، دیہاتوں اور
چھوٹے شہروں میں پیا جا رہا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال ؔ بھی حقہ پیا کرتے
تھے۔ حقہ دراصل تمباکو کے استعمال کا ایک ذریعہ ہے ۔ جس میں تمباکا مزا یا
نشہ کوئلہ کی آگ کی تپش کے بعد پانی سے ہوتا ہوا دھویں یا بھاپ کی شکل میں
انسان کے منہ کے ذریعہ جسم کے اندر جاتا ہے اور حقہ پینے والا اسے واپس
اپنے منہ کے توسط سے باہر نکالتا ہے۔ اس عمل سے تمباکو کے مضر اثرات تو جسم
کے مختلف حصوں میں اپنا گھر بنا لیتے ہیں اور خالی دھواں باہر نکال دیا
جاتا ہے۔ سیگریٹ یا شیشہ پینے والا باہر نکلتے دھویں کو دیکھ کر مسرور ہوتا
ہے کہ اس نے ایک کش لگایا اور واپس دھویں کا سفید بادل اپنے منہ سے باہر
نکال رہا ہے وہ نادان اس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ کہ سیگریٹ، حقہ، شیشہ کے
مضر اثرات جو جسم کے اندررہ گئے وہ دھواں بن کر باہر نہیں نکلے بلکہ انہوں
جسم کے اندر اپنے شکار تلاش کرنا شروع کردیے ان کا شکار نشہ کرنے والے کا
دماغ ہوتا ہے جسے وہ ماؤف کردیتے ہیں، انسان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم
سے کم ہوتی جاتی ہے، دل کو اندر ہی اندر نقصان پہنچتا ہے، پھیپھڑے متاثر
ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور یہی وہ نشہ ہوتا ہے جو کبھی کینسر کے نام سے،
کبھی دل کے دورے کے نام سے، کبھی دمے کے نام سے ظاہر ہوتا ہے۔ شیشہ پینے
والا یہ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن کر لیتا ہے کہ یہ بیماری تو کسی کو بھی
ہوسکتی ہے مجھے بھی ہوگئی لیکن یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ نشہ کرنے والوں میں
یہ بیماریاں جن کا اوپر ذکر کیا گیا زیادہ ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ
صحت(WHO)کے سروے کے مطابق ہمارے ملک میں پچیس ملین افراد تمباکو کا نشہ
کرتے ہیں، تمباکو کے نشے سے مراد سیگریٹ، شیشہ، سیگریٹ کے ذریعہ استعمال
کیا جانے والا نشہ ہے۔اس تعداد میں مرد 36فیصد ہیں اور خواتین جن میں زیادہ
تر جوان لڑکیاں ہیں نو فیصد ہیں۔اسی سروے کے مطابق پاکستان میں تمباکو کا
نشہ یعنی سیگریٹ، شیشہ سے ہر سال ساٹھ ہزار افراد ان بیماریوں کا شکار
ہوجاتے ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا اور وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے
ہیں۔
نشہ خواہ کوئی بھی ہو انسانی زندگی کے لیے نقصان کا باعث ہوتا ہے۔وقت کے
ساتھ ساتھ نئی نئی قسم کے نشے سامنے آچکے ہیں۔ ان میں ایک نشہ ’شیشہ‘ بھی
ہے۔ شیشہ دیہاتوں کے روایتی حقہ کے بجائے جدید ، مختصر، خوش نما، رنگین حقہ
کے ذریعہ ہی پیا جاتا ہے حقہ میں شیشہ ڈال کر کش لگا یا جاتا ہے ۔ شیشہ،
سیگریٹ اور دیگر نشہ آور چیزوں کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ مضر صحت ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ شیشہ کیفے میں بیٹھ کر بظاہر حقے کے کش لگانا فیشن بن
گیا ہے۔ ملک میں شیشہ گھروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ ہماری
نوجوان نسل تیزی سے اس دَل دَل میں پھنستی جارہی ہے۔شیشہ پینے کا رجحان
تیزی سے پھیل رہا ہے، شیشہ کی تباہ کاریوں کا اندازہ کیے بغیر ہمارے نوجوان
جن میں لڑکے اور لڑکیاں بھی شامل ہیں شیشہ کیفے کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔
انہیں یہ نہیں معلوم کہ جو چیز بظاہر انہیں تسکین دے رہی ہے وہ انہیں اندر
ہی اندر مفلوج کررہی ہے۔ یہ ایک ایسا نشہ ہے جو انسان کے دل و دماغ اور جسم
کے دیگر اعضاء کو متاثر کرتا ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ایک سیگریٹ مشکل سے
پانچ منٹ میں پی لیا جاتا ہے جب کہ شیشے کا سیشن کم سے کم آدھے گھنٹے کا
ہوتا ہے، گویا شیشہ کے کش لگانے والا ایک وقت میں آدھے گھنٹے تک نشہ کی
کیفیت میں رہتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شیشے میں سیگریٹ کے مقابلے میں
36فیصد زیادہ ٹار، 1.7 فیصد زیادہ نیکو ٹین اور 8.3زیادہ کاربن مونو
آکسائیڈ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیشہ سیگریٹ کے مقابلے میں زیادہ اور تیزی
سے انسانی جسم کو نقصان پہنچاتا ہے۔ سیگریٹ تو سیگریٹ نوش کرنے والے کے
پھیپھڑے متاثر کرتا ہے جب کہ شیشہ انسانی دل، دماغ ، گلا، پھیپھڑوں کو
متاثر کرتا ہے۔ شیشے سے دل کی بیماری کا عارضہ ہوسکتا ہے، سانس سے متعلق
بیماریاں جیسے دمہ Asthma،پھیپھڑوں کا کینسرLungs Cancer، گلے کی نالی کا
کینسر(Cancer of esophagus) ،نمونیہ ، حاملہ خواتین میں سانس کی بیماریاں
اور نومولود بچوں میں سانس کی بیماریاں شامل ہیں ہوسکتی ہیں۔
میں نے گلشن اقبال بلاک 6 کے علاقے میں قائم شیشہ کیفے میں دوپہر ایک سے
تین بجے کے درمیان اسکول کے بچوں کو اسکول کا یونیفارم پہنیں شیشہ کیفے میں
ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے شیشہ پیتے دیکھا ہے۔ ان بچوں کے یونیفارم دیکھ کر
اندازہ ہوتا تھا کہ یہ کسی نجی انگریزی میڈیم اسکول کے طالب علم ہیں اور
نویں یا دسویں کلاس کے طالب علم ہوں گے۔ کیا ان کے والدین کو علم ہے کہ ان
کا بچہ اسکول کی چھٹی ہوجانے کے بعد کتنی دیر بعد گھر آیا، اسکو کی چھٹی
ہوجانے کے بعد کا وقت اس نے کہا گزارا انہیں ابھی اس بات کا احساس نہیں
لیکن جب یہی بچہ ، یہی طالب علم نشے کا عادی ہوچکا ہوگا ، نشے نے اس کو نہ
جانے کن کن بیماریوں میں مبتلا کردیا ہوگا اس وقت ان کی آنکھیں کھلیں گی
اور جب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ ہمیں صرف یہی نہیں سوچنا چاہیے کہ حکومت
کی جانب سے شیشہ کیفے کے خلاف کاروئی کی جائے، حکومت ہی انہیں بند کرائے،
ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں، اسکول کی
چھٹی کب ہوتی ہے، انہیں اسکول اور گھر پہنچنے میں کتنا وقت لگتا ہے، اگر وہ
زیادہ وقت لگا رہے ہیں تو خاموشی سے ان کی ریکی کیجئے ، دیکھئے کہ وہ اسکول
کے بعد کا وقت کہا گزار رہے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے میں اپنی گاڑی میں بیگم
کے ہمراہ اپنے چچا کی تیمار داری کے لیے نکلا ، مجھ سے کچھ دیر قبل میرا
چھوٹا بھائی بھی اپنی گاڑی اپنی بیگم کے ہمراہ وہیں جانے کے لیے نکل چکا
تھا۔ میں اپنے چچا کے گھر پہنچ گیا وہ بہت دیر بعد وہاں پہنچے ، میرے
استفسار پر اس نے بتا یا کہ وہ جب گھر سے نکلے تو ان کے چھوٹے بیٹے علی
ندیم کا کوچنگ سینٹر سے نکلنے کا وقت تھا ،آتے آتے انہوں نے چھپ کر اپنی
گاڑی میں بیٹھے بیٹھے بیٹے کی نقل و حرکت کی ریکی کی کہ وہ کوچنگ سینٹر سے
گھر کی جانب کس راستے سے واپس جاتا ہے، راستے میں رکتا ہے یا سیدھا گھر چلا
جاتا ہے۔ مجھے یہ بات سن کر اچھا لگا کہ آجکل کے حالات میں والدین کو اپنے
بچوں پر اسی طرح کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ شیشہ کے کیفے عام دکانوں میں کھلے
ہوئے ہیں ، یہ دکانیں ہم آپ ہی انہیں کرایہ پر دیتے ہیں، خدارا اگر اﷲ نے
آپ کو دولت سے نوازا ہے ، جائیداد دی اور آپ ایک یا کئی دکانوں کے مالک ہیں
تو دکان کرائے پر دیتے وقت یہ لالچ نہ کریں کہ کون زیادہ کرایہ دے رہا ہے
بلکہ اس بات کی چھان بین اچھی طرح کرلیں کہ دکان کرایہ پر لینے والا کیا
کاروبار کرے گا، اس سے واضع الفاظ میں یہ کہہ دیں کہ اس دکان میں شیشہ کیفے
ہر گز ہر گز نہیں
کھلے گا۔ اس عمل سے ہم اپنی آنے والی نسل کو نشہ جیسی خوف ناک لت سے محفوظ
رکھیں گے۔
حکومت پاکستان نے اور عالمی ادارہ صحت نے تمباکو اور اس سے ملتی جلتی تما م
نشہ آور چیزوں پر پابندی عائد کردی ہے ۔ ان کا استعمال قانوناً جرم ہے۔ اس
قانون کے تحت ،سرعام شیشہ کیفیز کو فوری بند کیا جائے،سیگریٹ پر جو
پابندیاں عائد ہوتی ہیں وہ تمام کی تمام شیشہ پر بھی عائد ہوں گی، شیشہ کے
نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے، اس مقصد کے لیے تعلیمی اداروں میں
آگاہی کے پروگرام ترتیب دیے جائیں، انفرادی طور پر والدین اپنے بچوں کو
شیشہ کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ شیشہ استعمال کرنے والے یا کسی بھی قسم کے
نشے کے عادی لوگ اپنے سینسز کھو بیٹھتے ہیں، انہیں اچھے اور برے کی تمیز
نہیں رہتی، ان کا دماغ ماعوف ہوجاتاہے، کھوئے کھوئے رہتے ہیں، چلتے ہوئے
لڑکھڑاتے ہیں، ان کی آنکھوں کی رونق اور چمک ماند پڑجاتی ہے، وہ دوسروں سے
نظریں چرانے لگتے ہیں، ان کا اپنے اوپر کنٹرول ختم ہوجاتا ہے، غیر اخلاقی ،
نازیبا ، گری ہوئی حرکات کرنا ان کے لیے عام سی بات ہوجاتی ہے۔ وہ لوگ جو
اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں وہ پیسے کی لالچ میں پاکستان کی نئی نسل
کو تباہی کی جانب لے جانے پر عمل پیرا ہیں یہ پاکستان کے مستقبل کو تباہ و
برباد کرنے کے مترادف ہے،پاکستان کا مستقبل نئی نسل سے وابستہ ہے اور شیشہ
کا کاروبار کرنے والے پاکستان کے مستقبل کو تباہ کررہے ہیں۔ ایسی صورت میں
پاکستان کی عدالت اعظمیٰ کا فیصلہ روشنی کی ایک کرن کی مانند ہے۔ یہ وقت کی
ضرورت اور آنے والی نسل کے مستقبل کو محفوظ کرنے کی جانب اہم قدم ہے ۔ اس
فیصلے پر اس کی اصل روح کے ساتھ ، انصاف اور ایمانداری سے اور سختی کے ساتھ
عمل ہونا چاہیے۔(روزنامہ جناح، اسلام آباد، لاہور، کراچی اور روزنامہ ابتک
لاہور میں 13نومبر2015کو شائع ہوا)
|
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.