دورہ برطانیہ....انتہا پسندی نے مودی کو رسوا کردیا

نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بھارت میں انتہا پسندی بڑھی ہے اور بھارتی معاشرہ تعصب و منافرت کے ہاتھوں بری طرح یرغمال ہو چکا ہے، جس کے باعث بھارت میں آئے روز نچلی ذات کی قوموں، مسلمانوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف انتہا پسندانہ کارورائیاں سامنے آتی رہتی ہیں۔ کئی علاقوں میں صرف گائے کا گوشت کھانے پر مسلمانوں کے قتل اور ہندوﺅں کے علاوہ دیگر اقوام کی عبادت گاہوں پر حملے کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی خود بھی پاکستان اور مسلمانوں کی دشمنی کی سیڑھی چڑھتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچے ہیں، اس لیے مودی سرکار نے شیوسینا سمیت ہندو انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ نریندر مودی کی حد سے بڑھی ہوئی انتہا پسندی کی وجہ سے خود ان کو اور ان کی حکومت کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ مودی سرکار کی انتہا پسند پالیسیوں سے خود بھارت کے سنجیدہ حلقے نالاں ہیں۔ مودی سرکار کے زیر سایہ انتہا پسندوں کی پر تشدد کارروائیوں کے خلاف درجنوں ادیب، فنکار، سائنسدان، دانشور اور دو ہزار سے زاید سابق فوجیوں نے اپنے میڈلز واپس کر دیے ہیں۔ فوجیوں نے دھمکی دی تھی اگر ان کے میڈلز واپس نہ لیے گئے تو سڑکوں پر پھینک کر چلے جائیں گے۔ دنیا بھر کے میڈیا پربھی مودی کی انتہا پسندی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بی جے پی کی انتہا پسندی کے سبب دہلی سے پارٹی کا صفایا ہو گیا تھا، جبکہ دوسری جانب گزشتہ دنوں بہار میں ہونے والے انتخابات میں بھارتی وزیراعظم کی جماعت کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عوام نے انتہا پسند حکمرانوں کو ووٹ کی طاقت سے مستر د کر دیا۔ لالوپرساد کے جے ڈی یو اتحاد نے 243 میں سے 151 سیٹیں حاصل کیں ، جبکہ مودی کی جماعت بی جے پی کو صرف 80 نشستیں مل سکیں۔ کانگریس کے رہنما احمد پٹیل کا کہنا تھا کہ بی جے پی نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی الیکشن میں پاکستان مخالف کارڈ کا خوب استعما ل کیا، مگراقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر ظلم و ستم، مخالفین پر ملک دشمنی کے الزامات اور انتہا پسندی کو فروغ دینے جیسی پالیسیاں مودی سرکار کا بھرم لے ڈوبیں۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھارت کو انتہا پسندی کی آگ میں جھونک کر جمعرات کے روز 3 روزہ دورے پر برطانیہ پہنچے، جہاں ان کی آمد پر کشمیریوں، سکھوں، دلت برادری، نچلی ذات کے ہندو، تامل، بھارتی گجرات کے مسلمان اور نیپالی باشندے نے ان کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ احتجاجی مارچ کی قیادت برطانوی پارلیمنٹ کے رکن لارڈنذیر اور بیرسٹرسلطان محمود کر رہے تھے۔ مظاہرین نے اس موقع پر کشمیر اور خالصتان کے پرچم اٹھا رکھے تھے۔ برطانیہ میں قیام پذیر سکھوں نے بھارت میں اپنی مذہبی کتاب کی بیحرمتی، کشمیر یوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور انڈین عوام نے بھارتی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں کتبے، پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر نریندر مودی کے خلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرین نے ”گو مودی گو“، ”مودی ناٹ ویلکم“ کے نعرے لگائے، ٹین ڈاﺅننگ اسٹریٹ ”گو مودی گو“ اور مودی قاتل کے نعروں سے گونج اٹھی۔ جیسے ہی وزیر اعظم نریندر مودی کا قافلہ ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ پہنچا، فضا مودی شیم شیم کے نعروں سے گونج اٹھی،احتجاج کے باعث مقررہ راستے کی بجائے پچھلے دروازے سے لے جانا پڑا۔ اپنے خلاف نعرے سننے کے باوجود مودی ڈھٹائی کے ساتھ مظاہرین کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے رہے۔ مظاہرین وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے خلاف بھی نعرے بازی کرتے رہے۔ نیپالیوں کا کہنا تھا کہ بھارت نیپال کا محاصرہ ختم کرے۔ صدر خالصتان تحریک نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ مودی کی لندن آمد پر برطانوی حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہوگئی، برطانوی حکومت کا کوئی بھی اہم وزیر استقبال کو نہ پہنچا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی برطانیہ یاترا ان کے لیے کانٹوں کی سیج ثابت ہو رہی ہے۔ ایک جانب برطانیہ کے ساتھ بڑے معاہدے ہورہے ہیں، تو دوسری جانب برطانوی میڈیا پر مودی کی شخصیت موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ مودی کی برطانیہ آمد کے موقع پر 200 سے زاید ادیبوں نے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے نام کھلا خط تحریر کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ مودی سے بات کے دوران بھارت میں اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے تحفظات کو بیان کریں۔ برطانیہ کی مختلف یونیورسٹیوں کے 130 ماہرین تعلیم اور اساتذہ نے برطانوی اخبار گارجین میں ایک خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ نریندر مودی سے ان کے دورہ برطانیہ کے دوران بھارت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر سوال کیا جائے۔ برطانوی اخبار گارجین میں شائع مضمون میں مودی کی پالیسوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مودی نے بین الاقوامی سطح پر بھارت کا امیج بہتر بنانے کے لیے چین کے نعرے ”سرمایہ کاری کے پرکشش مواقع کے ساتھ ابھرتی ہوئی معیشت“ چرایا اور نتیجے کے طور پر ہندو انتہا پسندی کی لہر کے سامنے انسانی حقوق پامال ہو گئے۔ اخبار نے نریندر مودی کی شخصیت پر تبصرہ بھی کیا کہ وہ ایسے شخص نہیں ہیں جو اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو تحمل سے سنیں، ان کے دور حکومت میں 9 ہزار غیر سرکاری تنظیموں کو غیرملکی دشمن کہہ کر ان کی رجسٹریشن ختم کر دی گئی، صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر بغاوت کے الزامات لگا کردھمکایا گیا۔ مودی کی پالیسیوں کے خلاف برطانیہ میں رہنے والے خاموش نہیں رہ سکتے، انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھانا ان کی ذمہ داری ہے۔ جبکہ دورہ برطانیہ سے ایک روز قبل برطانوی اخبار “‘دی گارجین” نے وزیراعظم مودی کو لوگوں میں تفریق پید اکرنے اور اپنی طرف مائل کرنے والا چالاک شخص قرار دیا تھا اور برطانوی روزنامہ فنانشل ٹائمز کا کہنا تھا کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی اور عدم برداشت ان کی شکست کا باعث بنی ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق مودی کے دورہ برطانیہ کی حالت ہیرو اور ولن جیسی ہے، ان کے مداح ان کا استقبال کر رہے ہیں، جبکہ ان کے مخالفین ان کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ برطانوی اخبار ٹیلی گراف اور ڈیلی میل کا کہناہے کہ لندن پہنچنے پر مودی کو گارڈ آف آنر تو پیش کیا گیا، لیکن اس کی آواز احتجاجی مظاہروں میں دب گئی۔ دلت، نیپالی، سکھ اور مسلمان سب مودی کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں، لیکن حقیقت سے نظریں چرائے ہوئے بھارتی میڈیا سب اچھا کی رپورٹ دے رہا ہے۔

گزشتہ روز دورہ برطانیہ کے موقع پر پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے مودی سے چبھتے سوالات بھی کیے ،جن میں سے متعدد کا جواب مودی نے گول کردیا۔ مودی سے سوال کیا گیا کہ بھارت میں انتہا پسندی اور عدم برداشت تیزی سے پھیل رہی ہے تو مودی کا جواب تھا کہ حکومت بھارت میں ہونے والے ہر واقعہ کی ذمہ دار نہیں۔ صحافی کا مودی سے کہنا تھا کہ ویمبلی اسٹیڈیم میں آپ خطاب کرنے جا رہے ہیں، مگر یہ جو لندن میں لوگ مظاہرے کر رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم ان سے آپ کیا کہیں گے، کیونکہ گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے آپ کا ریکارڈ ہی ایسا ہے۔ آپ اس قابل نہیں ہیں کہ آ پ کو وہ عزت دی جائے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے رہ نما کے شایانِ شان ہوتی ہے۔اس چبھتے ہوئے سوال پرمودی دانت پیستے رہ گئے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں دورہ کشمیر کے موقع پر بھی عوام نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف سخت احتجاج کیا تھا۔ پوری وادی سراپا احتجاج بن گئی تھی۔ مودی کا اعلان کردہ 12.1 ارب ڈالر (8 سو ارب بھارتی روپے) کا اقتصادی پیکیج بھی کام نہ آیا۔ مودی کی وادی مےں آمد کے موقع پر سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ مودی کے جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے خصوصی طور پر دہلی سے شیو سینا کے کارندے بھی بلائے گئے تھے۔ مقبوضہ وادی میں کرفیو اور پابندیوں کے باوجود مودی کی آمد پر کشمیریوں نے احتجاجی مظاہرے کیے۔کشمیریوں نے سیاہ پرچم لہرائے۔ کشمیری رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ نریندر مودی عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ مودی کی جماعت بھارت میں فسادات کرنے کی ذمہ دار ہے جس میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ کشمیریوں کا احتجاج اور شدید ردعمل دیکھ کربھارت سرکار کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701358 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.