آج بیٹھے بیٹھے معلوم نہیں
کیوں ۲۰۱۳ کے الیکشن یاد آگئے اور اس کے ساتھ اخبارات کی وہ خبریں جو بہت
زیادہ دلچسپ تھیں۔ ابھی الیکن نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ امیدواران کے کاغذات جمع
ہو تے تھے۔ اخبارات میں بھی اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی ریٹرننگ افسران
اور امیدواران کے درمیان گفتگو بہت خوب شائع ہوئی اور نشر ہوئی۔ جو امیدوار
نہیں تھے لیکن ذی شعور تھے، صحیح معنوں میں محب وطن تھے، انھوں نے ان
سوالات پراس طرح اعتراض کیے کہ ان سوالا ت کا فائدہ؟ میرے ایک دوست نے تو
یہاں تک کہہ دیا کہ کیا پاکستان کے آئین میں منافق ہی ایم ۔پی۔ اے یا ایم۔
این اے بن سکتا ہے؟ میں نے کہا کہ خدا کو خوف کرے، وہ کیسے یہ سند دے سکتا
ہے کہ کون کیا ہے؟ اس نے کہا منافق کی چار نشانیاں فرمائی گئی ہیں کہ جب
بات کرے جھوٹ بولے۔ امانت میں خیانت کرے۔ جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے
اور جب بات کرے تو بیہودہ گئی کرے۔اس کی بات مجھے لاجواب کر گئی۔ آج صبح اس
کا فون آیا حال احوال پوچھنے کے لیے تو مجھے اس کی باتیں یاد آگئیں۔
ان الیکشنزمیں ریٹرننگ آفیسرز نے امیدواروں سے قرآن پاک کی آیات، مختلف
سورتیں، دعائے قنوت وغیرہ پوچھیں، کسی نے جواب میں سنا دیں، کوئی اٹک گیا۔
اور پھر یہ بھی پوچھا گیا کہ دو شادیاں کیوں کیں؟ بیٹا اچھا لگتا ہے یا
بیٹی، گرمی کا موسم پسند ہے یا سردی کا؟ کیا ان سوالات سے انکی کاغذات کی
صحت پر کچھ اثر پڑنا چاہیے تھا؟ کیا ان سوالات کی بنا پر انکے کاغذات مسترد
کیے جا سکتے تھے؟ نہیں، کیونکہ آئین کے آرٹیکل 62 میں اس حوالے سے ذکر تو
ضرور ہے لیکن اس طرح نہیں کہ اس بات کو بنیاد بنایا جائے۔ البتہ جس بات کو
یا جن شقوں کو بنیاد بنایا جا سکتا تھا، ان پر شاید ہی کسی ریٹرننگ آفیسر
نے توجہ دی ہو۔ ان شرائط کے مطابق:۔
ہ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو ، اور اسلام کے منشور کردہ
فرائض کا پابند ہو ، نیز کبیرہ گناہ سے اجتناب کرتا ہو۔
و) وہ سمجھدار ہو ، پارسا ہو،ایماندار اور امین ہو،اور کسی عدالت کا فیصلہ
اس کے برعکس نہ ہو۔
چلیں یہ تو درست کہ ان سے پوچھ لیا کہ فلاں نماز میں کتنی رکعت ہوتی ہیں یا
نماز جنازہ سنائیں۔۔ درست۔ لیکن یہ جو لکھا ہے کہ اسلام کے منشور کردہ
فرائض کا پابند ہو۔۔ کیا کسی نے کسی امیدوار سے یہ پوچھا کہ وہ پانچ وقت کا
نمازی ہے؟ اس نے پچھلے دس سالوں میں کتنے روزے نہیں رکھے؟ فرائض ہیں نا۔۔۔
کیا کسی سے بھی یہ پوچھا گیا کہ اس نے اپنی حلال کمائی میں سے اڑھائی فیصد
زکٰوۃ سالانہ دی ہے؟ کیا اس نے حج فرض ہوتے ہی یعنی صاحبِ استطاعت ہوتے ہی
حج کا فریضہ ادا کیا ہے؟ نہیں۔ یہ سوالات کسی سے بھی نہیں پوچھے گئے۔
اسی شق میں مزید لکھا ہے کہ گناہِ کبیرہ سے اجتناب کرتا ہو۔ کیا کسی نے یہ
سوال کیا کہ وہ شراب کیوں پیتا ہے؟ وہ غیبت کیوں کرتا ہے؟ وہ جھوٹ کیوں
بولتا ہے؟ شراب کو احادیث میں ام الخبائث کہا گیا۔ غیبت کو اپنے مردہ بھائی
کا گوشت کھانے کے برابر کہا گیا۔ جھوٹ کو تمام برائیوں کی جڑ کہا گیا۔ کیا
یہ گناہِ کبیرہ نہیں ہیں؟ کیا ریٹرننگ آفیسران کو نہیں معلوم کہ کون سا
امیدوار کس حد تک خطا وار ہے۔ اگر کوئی امید وار کہے کہ اس نے تو کبھی جھوٹ
نہیں بولا، اس نے کبھی غیبت نہیں کی تو اسکو اسکے کسی بھی ٹیلیویڑن پروگرام
کی ریکارڈنگ دکھا دی جائے۔ جس میں وہ جھوٹ بھی بول رہا ہو گا اور غیبت بھی
کر رہا ہو گا۔ دوسری شادی کیوں کی، بیٹی یا بیٹا۔۔ یہ نہیں بلکہ ان بنیادوں
پر ریٹرننگ آفیسران کاغذات مسترد بھی کرتے تو ثواب بھی کماتے اور اگر عدالت
میں بھی جانا پڑتا تو دھڑلے سے جا سکتے تھے۔
آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے کاغذات جس حلقہ سے منظور ہوئے وہاں کے
ریٹرننگ افسران نے وجہ یہ بتائی کہ چونکہ ابھی انھیں سزا نہیں ہوئی اسلیے
کاغذات مسترد کرنے کی وجہ کوئی نہیں بنتی۔یعنی کہ شق (و) میں جو ایماندار
اور امین کا ذکر ہے وہ بے کار ہے۔ امین ہوتا ہے امانت دار۔ اور ڈاکٹر عافیہ
اس قوم کی بیٹی ، اس قوم کی امانت تھی۔ اور اسکو امریکہ کے حوالے کر دیا
گیا۔ افغانستان میں اسلامی حکومت تھی۔ صرف ایک ٹیلیفون کال پر اپنے اڈے بھی
امریکہ کو دے دیے اور کھلی راہ داری بھی کہ جہاں سے چاہو حملہ کرو، جہاں سے
چاہو اسلحہ لے جاؤ۔ اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف ایک غیر مسلم قوم کا ساتھ
دیا۔ کیا یہی ایمانداری ہوتی ہے؟ پھر اسی شق میں "اور کسی عدالت کا فیصلہ
اس کے برعکس نہ ہو" کا جو ذکر ہے تو صرف ایک بات ہی کافی ہے کہ جناب کا
بنایا ہوا این آر او کا قانون کالعدم قرار دیا گیا تو کیا عدالت کا فیصلہ
اسکے برعکس نہ ہوا؟ کیا یہ بنیاد کافی نہیں تھی جناب کے کاغذات مسترد کرنے
کے لیے۔
انھوں نے سربراہ آل پاکستان مسلم لیک کے کاغذات مسترد نہیں کیے ، اس وقت کی
ق لیگ جو کہ انکے ساتھ تھی، جس کے بل بوتے پر وہ ملک کے صدر تھے، کے
امیدواران کے کاغذات بھی مسترد نہیں ہوئے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ ریٹرننگ آفیسرز
10 اکتوبر کے اقدام کو غلط ہر گز تصور نہیں کرتے۔ ایک جمہوری حکومت کا دھڑن
تختہ کیا گیا۔ آئینِ پاکستان کو معطل کر کے اپنے کچھ وضع کردہ قوانین پورے
ملک میں نافذ کر دیے۔ وہ بھی ٹھیک تھا۔ انھوں نے دو بار ملک میں ایمرجینسی
نافذ کی (جو کہ ہرگز نہیں تھی) وہ بھی درست اقدام تھا۔ انھوں نے سپریم کورٹ
کے ججز کو ایک عرصے تک بنا کسی قانونی وجہ کے انکے بیوی بچوں سمیت نظر بند
کیے رکھا ، وہ بھی صحیح تھا۔ انھوں نے لال مسجد میں سینکڑوں معصوم بچیوں
اور طالبعلموں کو شہید کروایا اور ان معصوموں پر بھاری مقدار میں اسلحہ
رکھنے کا الزام لگایا۔ وہ بھی درست اقدام تھا۔ واہ چترال کے ریٹرننگ
آفیسران واہ۔ آپ کو آپ کی اعلیٰ خدمات کی بدولت تمغہ حسن کارکردگی دینے کو
جی چاہتا ہے۔
کیا مختلف شہروں کے ریٹرننگ افسران کو اپنے علاقے کے سیاستدانوں اور دوسرے
امیدواروں کا علم نہیں تھا کہ کون کتنا باکردار ہے اور کون کتنا داغدار ہے؟
کون پہلے کیا تھا ، کتنے پانی میں تھا اور اب کتنے سمندر میں ہے؟ کون کس
جرم میں سزا یافتہ ہے اور کون ضمانت پر رہا ہوا ہوا ہے؟ کس نے کس دورِ
حکومت میں رہتے ہوئے کیا کچھ کتنا کمایا؟ کیا یہ باتیں کافی نہیں تھیں
کاغذات مسترد کرنے کے لیے۔ لیکن مجال ہے کہ ان باتوں کو کسی نے بھی بنیاد
بنایا ہو کاغذات کو واپس کرنے کے لیے۔ (بیشک میرا یہ آرٹیکل دیر سے ہے،
لیکن ریٹرننگ افسران کے علاوہ عام عوام کے لیے بھی ہے۔)
ریٹرننگ افسران نے تو کارنامے انجام دے دیے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے
انکی اور امیدواروں کے درمیان ہونے والی باہمی موشگافیوں کو بہت اچھے طریقے
سے کور کیا۔ لیکن عام عوام کو اس سے کیا فائدہ حاصل ہو گا۔ کاش یہ سادہ
عوام بہت سی باتوں سنجیدہ طور پر لے ، اور پھر ان پر غور کرے اور سمجھے کہ
اگلے الیکشن 2018 میں انھوں نے ووٹ کس کو دینے ہیں؟ کیا ان کو جو آرٹیکل
62، 63 پر پورا اترتے ہیں یا ان کو جو امریکہ ، برطانیہ ، اسرائیل، بھارت
کی شرائط پر۔یا پھر ان لوگوں کو جو منافق کی چاروں علامتوں پر صد فیصد پورا
اترتے ہیں؟
ویسے تو لگتا ہے کہ ووٹ اس کو ہی ملیں گے جس نے پاکستان کے لیے ہسپتال
بنائے اور ان میں مفت علاج فراہم کیا۔ ان کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا۔
سکول بنا کر ان میں تعلیم مفت فراہم کی اور ساتھ میں نصابِ تعلیم میں ہماری
اسلامی تاریخ اور پاکستان کی تاریخ کے نامور شخصیات کے حوالے سے تحریریں
شامل کی گئیں۔ عوام کو انصاف ان کی دہلیز پر دنوں میں فراہم کیا گیا۔ اگر
کسی پر ظلم ہوا تو اس سے پہلے کہ وہ خود کو آگ لگائے، اس کو وہیں پر ظالم
کے سامنے انصاف دیا گیا اور ظالم کو پھانسی پر چڑہایا گیا۔ اگر کوئی کسی
جرم میں گرفتار ہوا تو کسی بھی سیاستدان نے اس کی ضمانت نہیں کروائی کہ
انھوں نے انصاف کا وعدہ کیا ہوا تھا۔یقینا ہماری عوام ووٹ ان کو ہی دے گی۔
نہ کہ ان کو جنھوں نے میٹرو تو بنا دی شب بھر میں لیکن مزدور پھر بھی گھروں
میں تین وقت کا کھانا پیٹ بھر کر نہ خود کھا سکا اور نہ ہی اپنے اہل و عیال
کو کھلا سکا۔جنھوں نے اورنج بس سرورس اور بلٹ ٹرین بنانے کے لیے ہیلتھ اور
ایجوکیشن کے فنڈ اُدھر بھجوا دیے کہ صحت کا کیا ہے آنی جانی چیز ہے، لیکن
اگر آج اورنج بس اور ٹرین نہ چلی تو پھر کبھی نہیں چلے گی کہ کیا پتہ اگلی
باری ملتی بھی ہے یا نہیں۔ عوام جی، سوچ سمجھ کر۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا |