ہندو ازم پر مبنی انتہا پسندانہ،
جارحانہ انداز رکھنے والی تنظیموں کی حامی و اتحادی سیاسی تنظیم بھارتیہ
جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈر نریندر مودی نے وزیر اعظم بننے کے بعد وزیر
اعظم نواز شریف کو اپنے حلف میں شرکت کی دعوت تو دی لیکن شاید اس وقت نئے
وزیراعظم مودی کو اسٹیبلشمنٹ کی بریفنگ نہیں ملی تھی۔مودی کی مضبوط نظر آنے
والی ہندوستانی قیادت سے عمومی طور پر یہ توقع بھی کی جا رہی تھی کہ وہ
انڈین اسٹیبلشمنٹ کی پیروی اختیا رکرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام
بھارت کی رہنمائی کریں گے ۔لیکن وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھتے ہی نریندر
مودی کے انتہا پسندانہ اور جارحانہ عزائم اعلانات میں بدلنے لگے۔اس کا
نظارہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ریاستی الیکشن میں نمایاں طور پر دیکھنے میں
آیا۔اسی وقت ’بی جے پی‘ کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں ’ڈیموگریفک چینجز‘ سمیت
مختلف طریقے بیان کئے گئے جس سے کشمیریوں کے عزم آزادی اور ان کی جدوجہد کو
ختم کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر طاقت کے بل بوتے اپنے حق میں طے کیا جا
سکے۔مقبوضہ ریاست کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ’بی جے پی‘ کے ان اقدامات کا
سخت ردعمل ہوا،مسلم اکثریتی علاقوں سے’ بی جے پی ‘کو کوئی سیٹ نہیں ملی
تاہم لداخ اور جموں میں ’بی جے پی‘ نے اتنی سیٹیں حاصل کر لیں کہ الیکشن
میں ایک دوسرے کی مخالفت کرنے والی مفتی سعید کی ’پی ڈی پی‘ کو اپنی حکومت
بنانے کے لئے ’بی جے پی‘ سے اتحاد کرنا پڑا۔ اس الیکشن کے موقع پر ’بی جے
پی ‘ کے صدر امیت شا سمیت کئی مرکزی رہنما اور انتہا پسند ہندو تنظئم
’راشٹریہ سیوک سنگھ‘(آر ایس ایس) کی رہنما مقبوضہ ریاست کے ہر حلقے میں
بیٹھ کر اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کی کوششوں میں مصروف رہے ،ہندوستان سے
سرکاری اور غیر سرکاری روپے کا وافر استعمال کیا گیا،لیکن مقبوضہ کشمیر کے
مسلم اکثریتی علاقوں نے ’بی جے پی ‘ کے عزائم کو ناکام کر دیا ۔
انہی دنوں انڈین ریاست بہار کے ریاستی الیکشن میں بھی ’بی جے پی‘ نے بہار
اسمبلی کو فتح کرنے کے اعلانات شروع کر دیئے اور یہ بھی کہا گیا کہ بہار
الیکشن میں ’بی جے پی ‘ کی ناکامی کا مطلب پاکستان کی کامیابی ہے۔ بہار کے
243 کے ایوان میں مودی کی قوم پرست پارٹی اور اس کے اتحادیوں کو صرف 58
نشستیں حاصل ہو سکیں۔ جبکہ ان کے مدمقابل بہار کے سابق وزیراعلی نتیش کمار،
لالو پرشاد اور کانگریس کے گرینڈ الائنس جنتا دل کو 178 نشستیں حاصل ہو
گئیں جو ایوان کی دو تہائی اکثریت ہے۔ اس انتخاب میں بی جے پی کی اپنی صرف
53 نشستیں ہیں جو اس بات ثبوت ہے کہ بہار کے عوام نے مودی کی انتہا پسند
پالیسیاں یکسر مسترد کر دی ہیں اور پاکستان دشمنی اور ’گائے کارڈ ‘بھی ان
کے کسی کام نہ آیا۔ انہوں نے بہار میں اپنی پارٹی کو کامیابی دلانے کے لیے
ریکارڈ 30 انتخابی جلسے کیے اور مسلم دشمنی کے جذبات ابھارنے میں کوئی کسر
نہ چھوڑی مگر بہار کے عوام نے ان کو اس انتہا پسندانہ سوچ کو مسترد کر دیا۔
مودی حکومت نے ریاستی اسمبلی بہار کے انتخابات کے حوالے سے ہندوازم کے فروغ
پر مبنی جارحانہ پالیسی اختیار کی اور اس پالیسی کے تابع ہندو انتہا پسند
تنظیم شیو سینا اور آر ایس ایس نے بھارتی مسلمانوں کے خلاف پرتشدد جارحانہ
کارواؤیں کا سلسلہ شروع کیا۔’بی جے پی‘ نے الیکشن سے پہلے بہار کے لیے ایک
بڑا اقتصادی پیکج بھی دیا تھا لیکن بہار کے عوام نے ’بی جے پی‘ کو مسترد
کرتے ہوئے مودی حکومت کو ایک بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔یہ بات صاف طور پر نظر آ
رہی تھی کہ اگر ’بی جے پی‘ بہار کا الیکشن جیت گئی تو وہاں مسلمانوں کا قتل
عام ہو گا،یوں بی جے پی کی مودی حکومت کے خواب بہار میں بھی بکھر کر رہ
گئے۔مودی حکومت اور ’بی جے پی ‘ کی اتحادی انتہاپسند ہندو تنظیموں کی طرف
سے مسلمانوں اور شودروں کے خلاف پرتشدد کاروائیوں کے متعدد واقعات کے خلاف
بھارت میں اس کی مخالفت میں ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔متعدد ادیبوں نے سرکاری
میڈلز اور سرکاری اعزازات بطور احتجاج واپس کر دیئے اور مودی حکومت کے اس
طرز عمل کو بھارتی سلامتی کے خلاف بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
’بی جے پی ‘ حکومت کی اقلیتوں کے خلاف پرتشدد اور انتہا پسندی پر مبنی اس
طرز عمل سے ہندوستان کے مسلمانوں،مقبوضہ کشمیر اور پاکستان میں بھی ردعمل
اور پیدا ہوا ہے۔’بی جے پی‘ اس بات پہ فخر کرتی ہے کہ مودی نے وزیر اعظم
بننے کے بعد بھی گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی افسوس ظاہر نہیں
کیا اور اقلیتوں کے خلاف انتہا پسندی کے مظاہرے پر بھی کوئی کاروائی کرنے
کے بجائے انتہا پسند ہندوؤں کی پشت پناہی کا تاثر غالب طور پر نظر آتا
ہے۔جو عناصر،جو لوگ نظرئیہ پاکستان کے حقائق بھول گئے تھے،آج نظرئیہ
پاکستان کی حقیقت کھل کر ان کے سامنے آ گئی ہے اور وہ ہندوؤں کی انتہا
پسندی سے پیدا قتل و غارت گری کے خطرات کو واضح طور پر محسوس کر رہے
ہیں۔بھارت میں ہندو انتہا پسندی اور اقلیتوں کو قبول نہ کرنے کی سرکاری
حمایت والی کاروائیوں سے دنیا کے سامنے بھی یہ حقیقت سامنے آ گئی ہے کہ
بھارتی سیکولر ازم کا مطلب ہندو ازم ،ہندووانہ عزائم کی تکمیل کے سوا اور
کچھ نہیں۔یوں ہمیں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ
ان کے طرز سیاست کی وجہ سے نظرئیہ پاکستان ایک بار پھر ایک جغرافیائی تقسیم
کی حقیقت کی ضرورت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔شکریہ مودی،آپ کی وجہ سے
بھارت اس راستے پہ چلنے پر مصر ہے جس پر چلتے ہوئے بھارت کو اس کی بڑی فوجی
طاقت بھی محفوظ نہیں رکھ سکتی۔اس طرز عمل سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں
میں اپنی، اور اپنی شناخت کی حفاظت کا احساس مضبوط ہوا ہے،شودروں کو ایک
بار پھر پیغام ملا ہے کہ ہندو ان کو خود کا حصہ نہیں سمجھتے۔وزیر اعظم مودی
،جنوبی ایشیا کے عوام کو تاریخی حقائق پر مبنی سبق یاد کرانے کا شکریہ۔ |