امریکی جنگوں کا بھاری بوجھ

گزشتہ 60 سال میں امریکہ نے دنیا بھر میں جنگیں مسلط کر کے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ہے ۔ مختلف ممالک میں ان جنگوں پر بے تحا شا جنگی اخراجات آئے۔ اب یہی جنگی اخراجات امریکہ کے معا شی نظام کے لئے سخت خطرہ بن چکے ہیں۔ امریکہ ان جنگوں کے مقاصد کے حصول میں تو نا کام رہا لیکن انکے بھا ری اخراجا ت نے امریکہ کو بری طرح مقروض کر دیا ہے اور اب ہر امریکی یہ قرضہ طویل مدت تک ادا کرتا رہے گا۔ امریکہ جنگوں کے بجائے ا ن کے لئے مختص کھربوں ڈالرکو اپنی قوم اور دیگر اقوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کر کے اپنا کھویا مقام حاصل کر سکتا ہے۔

امریکی سر براہی میں نیٹو افواج کے ہاتھو ں معصوم انسانوں کی ہلاکت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہر نیا دن افغانستان ، عراق اور شام میں جاری جنگ کے میدانوں سے ظلم و بربریت کی بری خبریں لے کر آ تا ہے۔ امریکہ کی ’’وار انڈسٹری ‘‘ کو رواں دواں رکھنے کے لئے ، جھوٹ کا سہارا لیکرکمزور ملکوں اور قوموں پر جنگیں مسلط کر کے ، امریکہ نہ صرف لا کھوں معصوم انسانوں کی ہلاکت کا ذمہ دار بن گیا ہے بلکہ سپر پاور کے اس توسیع پسند سامراجی عمل سے خود امریکی قوم و ملک کو بھی شدید معاشی، سماجی اور اخلاقی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

جناب پوپ فرانسس بھی اس امریکی ’’ٹریڈ وار ‘‘ کے تحت کمزو ر ملکوں پر مسلط کی جانے والی بے مقصد جنگوں کے خلاف بولنے لگے ہیں ۔ گزشتہ مئی میں ویٹی کن سٹی کا دورہ کرنے والے بچوں سے پوپ نے کہا ، ’’اسلحہ کی تجارت موت کی صنعت ہے‘‘۔ ایک بچے نے پوپ سے پوچھا، ’’ یہ طاقتور لوگ امن کیوں نہیں چاہتے‘‘۔ پوپ نے سادگی سے جواب دیا، ’’ کچھ لوگ اسلحہ کی تجارت سے خوب پیسہ کماتے ہیں۔ اس لئے وہ امن نہیں چا ہتے‘‘۔ ا تنی بڑی سچائی کا اتنی بڑی سطح پر ایسا جرا ئتمندانہ اظہار بتاتا ہے کہ امریکی جنگوں کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ امریکی ٹریڈ وار سے مغرب کے دیگر باضمیر اور با شعو ر طبقات بھی اب نالان دیکھا ئی دیتے ہیں ۔ خاص طور پر افغانستان، عراق اور اب شام کی تباہ کن جنگ نے لوگوں کو امریکی جنگوں کی تبا ہ کا ر یوں کے خلاف کھل کر جنگ مخا لف بنا دیا ہے۔

اسی سلسلے میں ایک اور جنگ مخالف ممتاز امریکی ریسرچر نوم چوسکی کا کہنا ہے کہ ’’ آپ افغانستان ، عراق ، لبیا اور اس سے بھی آگے جہاں کہیں دیکھتے ہیں، آپکو امریکہ کی سرپرستی میں جارحیت اور غیر قانونی جنگوں سے وسیع ہلاکتیں اور تباہی نظر آ ئے گی ۔‘‘

3 اکتوبر کو قندوز میں 4 سال سے قائم ڈاکٹروں کی عالمی تنطیم ایم ایس یف کے ہسپتال پر وحشیانہ امریکی بمباری نے امریکی فوج کی بے حسی، بے تدبیری اور بوکھلاہٹ کو آشکار کیا ہے جس میں طبی عملہ کے12 افراد سمیت کل 22افراد ہلاک اور 37 زخمی ہوئے۔ افغانستان میں نیٹو افواج کے سربراہ جنرل کیمبل نے کانگرس کو بتایا کہ
ــــــ ـــ’’ امریکی فوج غلطی سے ہسپتال پر حملے کی ذمہ دار ہے‘‘۔ ؒ ؒ لیکن شوا ہد بتاتے ہیں کہ امریکہ کو ہسپتال کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا۔

10 اکتوبر کو سینکڑوں جنگ مخالف امریکیوں نے قندوز سانحہ اور امریکی بربریت کے خلاف وائٹ ہاوس پر مظاہرہ کیا۔ وکی لیکس نے قندوذ ہسپتال حملے کی ویڈیو دینے والے کے لئے پچاس ہزار ڈالر انعام کا علان بھی کیا۔

امریکی جنگوں اور قتل و غارت کی کہانی نئی نہیں ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ا گست 1945 میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر سوچ سمجھ کر دو ایٹم بم گرا کر لاکھوں بے گناہ جاپانیوں کو آگ کا ایندھن بنا دیا تھا۔

اسی طرح امریکی جنگی جنون کے سلسلے میں ایک اور جنگ ’’جنگ ویتنام‘‘ کا تذکرہ بھی لازم ہے جس سے امریکہ کے خون آشامی اور انسان کشی کا ثبوت ملتا ہے۔ ویتنام جنگ 1959-1973) ( میں8 5ہزار امریکیوں سمیت کل 30 لاکھ افراد جنگ کے نذر ہو گئے۔ 150,000 امریکی فوجی زخمی ہوئے۔ صرف اس لئے کہ امریکی ’’کیپٹل ازم ‘‘ کے مقابلے میں ’’سوشل ازم ‘‘ کا راستہ روکا جا سکے ۔ ویتنامی جیت گئے امریکہ جنگ ہار گیا۔ اور لا کھوں بے گناہ انسانوں کے خون سے ویتنام کے جنگل اور میدان انسانی خون سے رنگین ہو گئے ۔ امریکہ نے اپنے حامی جنوبی ویتنام کے ۱یک کروڑ 30 لاکھ فوجیوں کو ٹرینڈ کیا لیکن 1973 میں جیسے ہی امریکی افواج ویتنام سے آئی ، امریکہ کی تربیت یافتہ جنوبی ویتنام کی فوج ڈھیر ہو گئی اور خانہ جنگی شروع ہوئی اور وہی سوشلسٹ بر سر اقتدار آگئے جنہیں ختم کرنے کے لئے امریکہ خود 14 سال تک لڑتا رہا۔ ٰؒۃک اس جنگ کے حوالے سے امریکی قوم کے کردار کا ایک خوش کن پہلو بھی قابل ذکر ہے۔ 1968 میں امریکہ میں جنگ مخالف تحریک شروع ہوئی ۔ جنگ مخا لف احتجاج نے کالجوں اور یو نیورسٹیوں کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ 4 مئی 1970 کو کینٹ سٹیٹ یونیورسٹی اُہایؤ کے 4 احتجاجی سٹوڈنٹس کو نیشنل گارڈ کے سپاہیوں نے گولی مار کر ہلاک کرد ٰٓ ٰٰٰٓٓٓ یا۔تحریک میں مزید شدت آئی اور صدر نکسن نے ویتنام سے فوج واپس بُلانے کا اعلان کر دی جنگی اخراجات۔۔۔۔۔۔مریکی افواج افغانستان میں 2001 اور عراق میں 2003 داخل ہوئی۔ دونوں ملکوں میں 10,10 لاکھ بے گناہ انسانوں کا خون بہایا گیا۔ وار ٹریڈوووووووو جب جبض جب تک سویٹ یو نین امریکہ کے مقابل سپر پاور رہا ، امریکہ کسی ملک پہ جارحیت اور چڑ ھا ئی سے پہلے کئی بار سوچتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لیبیا میں کرنل قذ افی اور عراق میں صدر صدام 30 سال تک سو شل ازم کا جھنڈا تھام کر بر سر اقتدار رہے۔ لیکن سویٹ یونین کے ٹوٹنے کے بعد جب امریکہ واحد سپر پاور بن گیا تو اس نے اپنے مخالف ملکوں کو تاراج کر کے رکھ دیا۔ لیبیا ، عراق اور اب شام کو خا نہ جنگی اور فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا دی گیا جہاں آج بھی ہم وطن امریکی اشاروں پر ایک دوسرے کے گلے بے درد ی سے کاٹ رہے ہیں۔ اب تک لاکھوں انسان ان ملکوں میں امریکی چالوں کی نذر ہو چکے ہیں اور ملک برباد ہو ر ہے ہیں۔

2001 میں امریکی سربراہی میں تقریباََ دو لاکھ نیٹو افواج افغانستان میں طالبان حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے داخل ہوئی جسکے نتیجے میں طالبان حکومت جلد ہی ختم ہوئی۔ 2014 تک 13 برسوں میں تقریباََ 10 لاکھ معصوم افغانیوں کا خون بہایا گیا۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا امریکہ نے وہ مقاصد حاصل کر لئے جن کے خاطر ظلم و بربریت کا یہ بازار گرم کیا گیا ؟ اسکا جواب 9 اکتوبر کو ایک روزنا مہ میں جنرل
ریٹا یئرڈ اسلم بیگ کا انٹر ویو میں ہے۔

ـانکا کہنا ہے کہ ’’ امریکہ نے شکست کا اعتراف کر لیا ہے۔ اوباما نے اقوام متحدہ میں کہا کہ صرف عسکری طاقت اور سرمایا جنگوں میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہوا کرتے‘‘ ۔

جنرل اسلم بیگ کی اس بات کی تصدیق قندوز پہ طالبان کے عارضی قبضے او ر اب صدر اوباما کے حالیہ بیان سے ہوتی ہے کہ طالبان سے مذاکرات ہونے چاہئے۔ ایسی اطلاعات آ رہی ہیں کہ طالبان قندھار اور کابل کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔

ایک جھوٹ کا سہارا لیکر 2003 میں امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ عراق میں داخل ہوا۔ اب تک ,10 لاکھ بے گناہ انسانوں کا خون بہایا ۔ صدام دور میں امریکی پابندیوں کی وجہ سے لاکھوں عراقی بچوں اور بو ڑھوں کی ہلاکتیں اسکے علاوہ ہیں۔

عراق میں خانہ جنگی اور فرقہ واریت امریکی پیداوار ہے۔ داعش کا وجود بھی امریکی؂ آمد کے مرہون منت ہے۔افغانستان کی طرح عراق میں بھی امریکی مقاصد کا حصول ڈراونا خواب بن گیا ہے۔

شام کی خانہ جنگی مزید کیا شکل اختیار کریگی ؟ یہ بتانا کافی مشکل ہے ۔ ویتنام جنگ میں امریکہ جنوبی ویتنامیوں کی سرپرستی کر رہا تھا۔ اور شام جنگ میں امریکہ اسد مخالف حزب اختلاف کی مدد کر رہا ہے۔ روس امریکی دہمکیوں کو خا طر میں لائے بغیر اسد کی مدد کو آ چکا ہے۔ کچھ لوگوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ پھر سے ’’کولڈ وار‘‘ کا آغاز ہو۔

امریکہ ان جنگوں پر کیا لوٹا رہا ہے؟ یا امریکہ کو ان بے مقصد جنگوں سے کیا کیا نقصانا ت در پیش ہیں ؟ اسکا مطالعہ ہمیں امریکہ کے مستقبل میں مزید جنگیں برپا کرنے یا ان سے باز رہنے میں مدد دیگا۔
مفتوحہ قوم یا ملک جنگ کی قیمت اپنی جان و مال سے ادا کرتا ہے ، لیکن جارح حملہ آور ملک کو بھی جنگ کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

امریکی جنگوں کے سلسلے میں ایک بہت ہی اہم ریسرچ رپورٹ کا تذ کرہ ضروری ہے۔ ’’ ہارورڈ یو نیورسٹی کا کینڈی سکول آف گورنمنٹ ‘‘ 377 سال سے قائم معتبر علمی ادارہ ہے۔ اس ادارے نے 2013 میں امریکی جنگوں کے اخراجات پر ایک چشم کشا ریسرچ رپور ٹ جاری کی تھی ۔ ’’دی نیوز انٹر نیشنل‘‘ نے 19ستمبر2013 کو یہ رپورٹ شائع کی تھی ۔ اس رپورٹ کے مطابق ’’افغانستان اور عراق میں امریکی تصادم ، امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی جنگ ہے۔ جسکے بھاری اخراجات امریکی قوم کئی عشروں تک برداشت کرتی رہے گی‘‘۔

رپورٹ کے مطابق ہے کہ اس جنگ کا ابتدائی تخمینہ 100 سے 200 بلین ڈالر لگایا گیا تھا لیکن 12سالہ افغان اور 10سا لہ عراق جنگ امریکہ کے ٹیکس دہندہ گان کو 6 ٹریلین ڈالر کی خطیر رقم میں پڑ ی ہے۔ اسکا مطلب ہے ہر امریکی کے جیب پر 75 ہزار ڈالر کا بوجھ پڑے گا۔ بش انتظامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ عراق جنگ کے اخراجات عراقی تیل سے پورے کئے جائینگے۔ لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ جنگ کے لئے بیرونی قرضہ لینا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے 60 2 بیلن ڈالر بیرونی قرضے پر محض سود کی مد میں ادا کئے یہ قرضہ ان جنگوں کے لئے لیا گیا ہے جسکا سود مستقبل میں کئی ٹریلن ڈالر تک پہنچے گا۔ افغانستان میں ایک امریکی فوجی کا سالانہ خرچ ایک میلین ڈالر ہے۔

2004 میں فوجی بھرتی کے رجحان میں کمی کو دیکھتے ہوئے ان جنگوں میں بھرتی کر نے کے لئے فوجیوں کے مراعات میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے جنگی اخراجا ت میں خاصا اضافہ ہوا۔

ان جنگوں میں 30 ہزار فوجی 100 فی صد اور ایک لاکھ 50 ہزار فوجی 70/90 فی صد جسمانی معذ وری کا شکار ہوئے ۔ اس طرح ’’میڈیکل کیئر اینڈ ڈیس ا بیلیٹی بینیفٹس‘‘ کی مد میں حکومت 134 بیلین ڈالر پہلے ہی ادا کر چکی ہے جبکہ آنے والے عشروں میں یہ رقم 836 بیلین ڈالر سے تجاوز کر جائیگی۔

شائد یہی وجہ ہے کہ اوباما نے اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا،
’’ صرف عسکری طاقت اور سرمایہ جنگوں کامیابی کی ضمانت نہیں ہوا کرتے‘‘۔

امریکی جنگوں سے امریکہ کی ’’وار انڈسٹری ‘‘ کو مالی فوائد حاصل ہو رہے ہیں لیکن امریکہ کے جنگی اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ مثلاََ ایک ڈیل کے تحت سعودی عرب کو 60 بیلین اور اسرایئل کو 45 بیلین ڈالر کا اسلحہ بیچا جائے گا۔ لیکن لیکن افغان اینڈ عراق وارز میں امریکہ تقریباََ 6 ٹریلین ڈالر پھونک چکا ہے۔

اس رپورٹ کی تفصلات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جنگوں کے اخراجات کا بوجھ امریکی معیشت کے لئے کافی بھاری ہو تا جا رہا ہے۔

ملکوں پر جنگیں مسلط کرنے کے لئے امریکہ اربوں ڈالر بیرونی قرضہ لیکر خرچ کر چکا لیکن اسکا بھاری سود اسے عشروں تک ادا کرنا پڑیگا۔ دوسری اہم بات یہ کہ ان جنگوں میں ہلاک یا زخمی ہو ئے ہزاروں ، لاکھوں فوجیوں کو امریکہ لمبی مدت تک پینشن ، کمپین سیشن ، میڈیکل کئیر اور دیگر فوجی مراعات بھی دیتا رہیگا۔ ان اخراجات کی پیمنٹ یا تو امریکہ کو مزید جنگوں پہ آمادہ کریگی یا اسے جنگوں سے باز رکھے گی۔ غا لب امکا ہے کہ امریکہ وار ٹریڈ سے باز آجا ئیگا۔ کیوں کہ رائے عامہ جنگوں کے خلاف ہو تی جا رہی ہے۔ ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ چین جنگوں کے بغیر بڑے وقار کے ساتھ مستقبل کا سپر پا ور بنتا جا رہا ہے جبکہ امریکہ براہ راست جنگوں، پراکسی وارز، اور کئی مما لک میں خانہ جنگیوں کا ذمہ دار ہو نے کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنام ہو تا جا رہا ہے۔

گزشتہ ستمبر میں امریکی کانگریس سے اپنے تاریخی خطاب میں پوپ نے مغرب لیکن خاص طور پر امریکہ کو آئینہ دکھا یا۔

انھوں نے اپنے خطاب میں سوال کیا کہ ’’ ہلاکت خیز اور تباہ کن ہتھیار اُن (ملکوں اور تنظیموں ) کو کیوں فروخت کئے جا رہے ہیں، جو ا ن ہتھیاروں سے افراد اور ملکوں پر نا قا بل بیاں تباہی لا تے ہیں؟ ‘‘۔

انھوں نے خود اسکا تاریخی جواب دیا کہ ’’ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اسکا جواب ہے ـــپیسہ، وہ پیسہ جو خون میں ڈوبا ہوا ہے ، اکثر بیگناہوں کا خون ۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ اب اس شرمناک خامو شی کو توڑ کر اس مسئلے کا سامنا کریں ، اور ’’جنگ کی تجارت ‘ ‘ کو روک دیں ۔‘‘

حقیقت یہی ہے کہ جنگوں میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کی ہلاکت اور ان جنگوں پر کھربوں ڈالر کے بھاری اخراجات کے باوجود امریکہ اپنے جنگی مقاصد کے حصول میں ناکام رہا ہے۔ یہ اخراجات امریکہ کے معاشی نظام پر مستقبل میں بھی بہت منفی اثرات مرتب کرینگے۔ ان جنگوں کی وجہ سے دنیا بھر میں امر یکہ کا امیج ایک جارح اور ظالم ملک اور سفاک قوم کا بن چکا ہے۔ اگر امریکہ کمزور ملکوں پر جنگیں مسلط کرنے کی بجائے اپنے بنیادی سنہرے اوصاف۔۔۔ آذادی، برداشت ، احترام آدمیت اور امن عالم ۔۔۔ کی طرف رجوع کر لے تو نہ صرف ناقابل برداشت بھاری جنگی اخراجا ت سے نجات حاصل کر لے گا بلکہ اپنا کھویا ہوا مقام بھی پا سکتا ہے ۔
akbarkhan
About the Author: akbarkhan Read More Articles by akbarkhan: 10 Articles with 13802 views I am MBA Marketing and serving as Country Sales Manager in a Poultry Pharmaceutical Pakistani Company based at Karachi. Did BA from Punjab University... View More