گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی
سیاست اور کارکردگی تاریخ کے ایک انتہائی نازک اور اہم موڑ سے گزر رہی ہے
جہاں شاید اب یہ بات طے ہو گئی ہے کہ وہ اپنی گورنری کے آخری ایام سے گزر
رہے ہیں۔ بعض مبصرین اور سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ وہ ذاتی طور پر اب
گورنرکے عہدے پر نہیں رہنا چاہتے لیکن کسی ان دیکھے اور غیر معمولی دباؤ کے
پیش نظر وہ گورنر سندھ رہنے پر مجبور ہیں او ر اب جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ
نیم دلی کے ساتھ کر رہے ہیں تاہم کچھ سیاسی مبصرین یہ بھی رائے رکھتے ہیں
کہ پاکستان کے کسی بھی صوبے کی گورنری اور خاص طور پر سندھ کی گورنری ہاتھ
آئے بٹیر کی طرح ہے جسے کوئی بھی شکاری یوں ہی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ کچھ
حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اب گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد بہادر شاہ ظفر
کی طرح کی زندگی گزار رہے ہیں جن کی بادشاہت کو آخری ایام میں محض لال قلعے
تک محدود کردیا گیا تھا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ آخری ایام میں بہادر شاہ ظفر
کا حکم لال قلعے کی حدود میں بھی نہ چلتا تھا۔ بعض بے رحم تجزیہ کاریہ بھی
کہتے ہیں کہ 1857 کے بہادر شاہ ظفر اور 2015 کے گورنر سندھ کی کیفیت اور
اختیارات میں اب کچھ خاص فرق نہیں رہا۔ آج کل ڈاکٹر عشرت العباد کی طرف سے
کمشنر کراچی یا شاید بلدیہ عظمیٰ کے ناظم اعلی کی طرز کی کچھ سرگرمیاں
دیکھنے میں آ رہی ہیں جن سے شاید یہ تاثر دینا مقصود ہو کہ ع
نکلا نہیں ہوں میں، ابھی بیٹھا ہوں بز م میں!
گزشتہ دنوں گورنر سندھ نے کراچی میں جاری چند ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیا
اور حیران کن طور پر برہمی کے بعد موقع پر احکامات بھی جاری کئے۔ اس موقع
پر گورنر صاحب نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملیر 15 فلائی اوور
وسط دسمبر 2015 اور ناظم آباد انڈر پاس تین ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا۔
ایک ماہ میں گرین اور اورنج لائن منصوبے شروع ہوجائیں گے۔ دونوں منصوبوں کو
ایک برس میں مکمل کرلیا جائے گا۔ گورنر سندھ نے یہ بھی بتایا کہ 150 ارب
روپے کے کراچی پیکیج میں چار کوریڈورز کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ کراچی کے
لیے دیگر عظیم الشان منصوبے جلد منظور کیے جائیں گے۔ اس موقع پر صوبائی
وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ اور کراچی میٹروپلیٹن کارپوریشن کے
ایڈمیسٹریٹر اور دیگر حکام بھی موجود تھے۔ ملیر 15 فلائی اوور 20 جنوری
2014 کو شروع ہوا تھا جس کی پی سی ون میں تخمینی لاگت 53 کروڑ 10 لاکھ روپے
تھی۔ یہ منصوبہ ایک برس میں مکمل کیا جانا تھا۔ تاخیر کے باعث پی سی ون
دوبارہ بنایا گیا جس میں لاگت بڑھ کر 99 کروڑ 90 لاکھ روپے تھی۔ محض ایک
سال میں لاگت دگنی ہونے پر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد برہم ہوئے نہ حیرت
کا اظہار کیا۔ انہوں نے صرف تاخیر پر خفگی ظاہر کی۔ انھوں نے یہ بھی ہدایت
کی کہ زیر تعمیر منصوبے کے اطراف متبادل راستے یقینی بنائے جائیں تاکہ عوام
کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بعد ازاں گورنر سندھ زیر تعمیر
ناظم آباد انڈر پاس بھی گئے اور کام کی رفتار کا جائزہ لیا۔ یہ منصوبہ 18
اپریل 2015 کو شروع کیا گیا تھا۔ یہ انڈر پاس 373 میٹر کا ہے۔ لاگت کا
تخمینہ 45 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ یہ منصوبہ 37 فیصد مکمل ہوچکا ہے۔ حکام
نے گورنر کو بتایا کہ منصوبہ وقت پر مکمل کرلیا جائے گا۔ یہی بات گورنر نے
صحافیوں سے بیان کردی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس کا
بنیادی سبب فنڈز کا نہ ہونا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ فنڈز مختص تو
ہیں، فراہم نہیں کیے جارہے۔ گزشتہ دنوں کام روک دیا گیا تھا۔ گورنر نے
بتایا کہ محرم الحرام کے باعث کام روکا گیا تھا۔ شاید انہیں یہی بتایا گیا
تھا۔ جب گورنر صاحب سے فنڈز کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ
انتظامی سطح پر چند ایک مشکلات ہیں۔ ان کا حل تلاش کرلیا گیا ہے۔ اب فنڈز
کی کمی کا مسئلہ درپیش نہ ہوگا۔
کورنگی کراسنگ پر انڈر پاس کا منصوبہ ختم کردیا گیا ہے۔ اب یہاں صرف بھٹائی
کالونی سے کورنگی کریک جانے والی سڑک پر فلائی اوور تعمیر کیا جائے گا۔ کے
ایم سی نے فلائی اوور کی تعمیر کا معاہدہ کرلیا ہے۔ ورک آرڈر بھی جاری کیا
جاچکا ہے۔ ابتدا میں فلائی اوور کے ساتھ کورنگی سے قیوم آباد اور ڈیفنس
جانے والی ٹریفک کے لئے انڈر پاس بھی تجویز کیا گیا تھا اور اس پروجیکٹ کی
مجموعی لاگت کا تخمنہ 45 کروڑ روپے لگایا گیا تھا اور اس کا باقاعدہ ٹینڈر
بھی جاری کر دیا گیا تھا لیکن کمشنر کراچی شعیب صدیقی نے جب ایڈمنسٹریٹر کے
ایم سی کا اضافی چارج سنبھالا تو انھوں نے اس منصوبے کی لاگت کم کرنے کے
لئے انڈر پاس کی تعمیر کا منصوبہ اچانک ختم کر دیا جس کے بعد اب صرف فلائی
اوور 25 کروڑ روپے میں تعمیر ہوگا۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ کورنگی سے قیوم
آباد جانے والی اس سڑک پر ٹریفک بہت زیادہ ہے۔ فنڈز موجود ہونے کے باوجود
کمشنر کراچی شعیب صدیقی کی طرف سے منصوبے کا سائز چھوٹا کرنا اور انڈر پاس
کے منصوبے کو ختم کرنا حیران کن ہے۔ یہ درست ہے کہ طویل عرصے سے کراچی کے
تعمیراتی منصوبوں کے لئے فنڈز کی فراہمی رکی ہوئی تھی لیکن اب تمام رکاوٹیں
دور ہوگئی ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ کورنگی کراسنگ فلائی اوور منصوبے پر
آئندہ ہفتے باضابطہ کام شروع ہو جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ جب انڈر پاس
اور فلائی اوور کی ایک ساتھ تعمیر شروع کی جاسکتی تھی اور عوام کو مستقبل
میں ایک بار پھر تعمیراتی مشکلات اور راستے کی دقتوں سے بچایا جاسکتا تھا
تو پھر کمشنر کراچی نے فنڈز دستیاب ہونے کے باوجود محض منصوبے کی لاگت کم
کرنے کے لیے ایسا قدم کیوں اٹھایا۔ کیا گورنر سندھ، وزیر اعلیٰ سندھ اور
صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کو کراچی کے عوام کی خاطر کوئی قدم نہیں
اٹھانا چاہیے؟ |