نظام عدل و انصاف کی بنیادیں !
(Muhammad Asif Iqbal, India)
یہ صحیح ہے کہ ملک،معیشت و
معاشرہ ہر سطح پر سیاست کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس کے باوجود سیاسی میدان
میں ظہور پذیر سرگرمیاں کُل نہیں ہیں۔جہاں ایک جانب اہل اقتدار اور ان کا
نظریہ معیشت اور معاشرہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔وہیں ذہین و
فطین اور بالغ نظر افراد،ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں اور سرگرمیاں بھی
معیشت و معاشرہ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔لیکن اگر یہ سوچنے سمجھنے کی
صلاحیتیں اور اہل اقتدار،قوت تشکیل کے دو الگ دائرے نہ ہوکرایک ہوں تو پھر
یہ نظریہ کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔اور اگر کسی نظریہ کو اقتدار حاصل
ہو جائے تو پھر نہ صرف معیشت بلکہ معاشرت و تمدن بھی ایک خاص رخ اختیار
کرتا چلا جاتا ہے۔الّہ یہ کہ کوئی دوسرا نظریہ موجود ہو۔وہیں جب دوسرا
نظریہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے تو لازماً نظریوں کے درمیان محاذ
آرائی ایک فطری عمل ہوگا۔اس موقع پر یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ
نظریہ کی بنیاد اور اس کی برتری اقلیت اور اکثریت پر نہیں بلکہ دلائل و
براہین کی بنیاد پر ہواکر تی ہے۔
گزشتہ دنوں وطن عزیز ہند کی ریاست بہار میں اسمبلی الیکشن اختتام پذیر
ہوئے۔اس موقع پر دو نظریوں کے درمیان جو کھل کر اختلافات سامنے آئے،ان کی
بنیاد پر ایک نظریہ غالب تو دوسرا مغلوب ہوا۔گرچہ بظاہر مغلوب ہونے والوں
کے پاس بے شمار وسائل تھے،تعداد کے اعتبار سے وہ اکثریت میں تھے،اہل اقتدار
ہونے کے نتیجہ میں بھی انہیں کئی طرح کی آسانیاں فراہم تھیں،اس سب کے
باوجود وہ مغلوب ہو گئے۔کیونکہ جس نظریہ و فکر کی بنیاد پر انہوں نے اپنے
افرادکی فکری ،نظریاتی اور عملی تربیت کی تھی،وہ ناقص اورحد درجہ کمزورتھی
۔ساتھ ہی وہ خود اندرونی طور پرایک عجیب و غریب کشمکش میں مبتلا تھے اور آج
بی ہیں۔وجہ؟اﷲ تعالیٰ نے انسان کو جس فطرت سلیم پر پیدا کیا ہے،وہ فطرت
سلیم اور نظریۂ مخصوص ،ہر دوسطح پر تضاد موجود ہے ۔اس کے باوجود باطل نظریہ
پر تربیت یافتہ افراد جب اپنے ضمیراور اس کی آواز کو خود ہی زک پہنچاتے اور
کچل ڈالتے ہیں ، تو پھر انہیں باطل نظریہ کو فروغ دینے میں ہی سکون و
اطمینان حاصل ہوتا ہے۔اس کے باوجود اگر انہیں وقتاً فوقتاً ٹٹولا جائے،ان
کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگایا جائے،اوران کو اظہار محبت و ہمدردی کا نہ صرف
درس دیا جائے بلکہ فرد واحد یا گروہ عملی ریوں سے ثابت کردے کہ وہ متعلقہ
فرد یا گروہ سے واقعی ہمدردانہ تعلق برقرار رکھنا چاہتا ہے،تو عین ممکن ہے
کہ کبھی نہ کبھی باطل نظریہ کی بنیاد پر زندگی کے شب و روز گزارنے والے
افراد،اِس دوسرے محاذ پر بھی مغلوب ہوجائیں،جہاں بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ وہ
غلبہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔اور اگر ایسا نہیں بھی ہوا تو ہمدردی و اخلاص اور
اس کا اظہارآنے والی نسلوں کو خدا اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر مجبور کردیں گی۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔اقلیت یعنی وہ ،تعداد کے
لحاظ سے کم ہیں بالمقابل ہندوؤں کے۔اور ہندو وہ جو ایک خدا کی پرستش نہیں
کرتے،شرک و الحاداور باطل افکار و نظریہ جن کی اساس کار ہے،اور معاشرتی
زندگی و اس میں انجام دیئے جانے والے رسم و رواج میں ان کی ایک خاص پہچان
ہے۔کئی مرتبہ ہمیں یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ ہندو درحقیقت وطن عزیز میں
اکثریت میں نہیں ہیں۔کیونکہ خود ان کے درمیان اس قدر طبقات اور عبادات کے
مظاہر موجود ہیں،جن کی بنا پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ایک ہیں۔"یہ تو بس
بہت تھوڑے سے لوگ ہیں جو 'منووادی نظریہ 'کو فروغ دینا چاہتے ہیں"۔برخلاف
اس کے دیگر ہندو ان سے الگ ہیں،ان کے نظریہ سے اتفاق نہیں رکھتے،وہ مختلف
بھگوانوں(مورتیوں ) کی پوجا کرتے ہیں،یہاں تک کہ ان کی مذہبی کتابیں بھی
الگ ہیں۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اہل علم کی باتیں درست ہیں تو
پھر وہ مختلف طبقات و گروہ اپنے شادی بیاہ اور زندگی و موت کے مراسم کون سے
طریقہ سے ادا کرتے ہیں؟یہی نہیں بلکہ جس مورتی پوجا کے وہ قائل ہیں اس کی
بنیاد کیا ہے؟شاید یہ اُن کے نظریہ،فکراور رسم و رواج کو سمجھنے کے لیے
کافی ہیں ۔پھر یہی دوباتیں شاہد ہیں کہ ہندو گرچہ مختلف طبقات و گروہ میں
منقسم ہیں اس کے باوجود وہ ایک ہیں۔ان کا نظریہ ایک ہے،ان کا عمل ایک ہے،ان
کا نصب العین ہے،اور وہ جس نظام کو قائم کیا چاہتے ہیں،گرچہ اس میں بے شمار
خرابیاں ہیں،کسی گروہ پر حددرجہ ظلم و زیادتیاں تو کسی کے لیے بے شمار
آسانیاں،اس کے باوجود ہندوؤں کا ہر طبقہ چار و ناچار،اُس نظام کے قیام کا
حصہ ہے۔اور دیگر افکار و نظریات جو بظاہر ان سے برسرپیکار ہیں،ان کی
موجودگی ،بقا اور ترقی ،انہیں پسند نہیں ہے۔ایسا کیوں ہے؟ اس کا سیدھا جواب
تو یہی ہونا چاہیے کہ قائم شدہ فکر کی بنیادایک جانب لاعلمی ہے تو دوسری
جانب تعصب اور غلط فہمیوں کی موجودگی و اضافہ ہے،وہیں تیسری اہم وجہ دیگر
افکار و نظریات کے حاملین کی زندگیاں ،ان کے معاملات ،رویے اور تعلقات
ہیں،جہاں ہر ایک سطح پر اِن میں بے شمار کمزوریاں نمایاں ہیں۔لہذا اگر
مسلمانوں کی بات کی جائے تو مسلمانوں کو ہر سطح پر خود میں سدھار کی ضرورت
ہے،ساتھ ہی اُس جذبہ ہمددردی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے،جس کے نتیجہ میں وہ
خود کواور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ،دو الگ خانوں میں تقسیم نہ
کریں۔لازم ہے کہ جس ایک خدا نے انہیں پیدا کیا وہی خدا تمام انسانوں کو
پیدا کرنے والا ہے،لہذا ملک میں پائے جانے والے تمام ہی مذاہب کے افرادایک
خدا کے بندے ہیں۔آدمؑ کی اولاد ہیں ۔لہذا وہ اور ہم ایک ماں باپ کی اولاد
اور بھائی بھائی ہیں ۔
گفتگو کے پس منظر میں ملک و اہل ملک کی بہتری ،اس کے افراد کی کامیابی کے
لیے لازم ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں۔نیز ذمہ داریوں کی ادائیگی
تب ہی ممکن ہے جبکہ ہم خو اپنی ذمہ داریوں سے واقف و متوجہ بھی ہوں نیزغفلت
سے پرہیز کریں۔حالات کے پس منظر میں ذمہ داریوں کے تعلق سے مسلمانوں کی
بنیادی ذمہ داریوں میں دین سے واقفیت اور اس پر عمل آوری ہے تو وہیں دوسری
اہم ذمہ داری وطن عزیز میں موجود برادران وطن کو اسلام کی آفاقی تعلیمات سے
آگاہ کرنا ہے۔اس پہلو سے ہمارا ہر عمل چاہے وہ حددرجہ چھوٹا ہو یا بڑا،ہر
دو پہلوسے اہم ہو جاتا ہے۔جس کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہر عمل خود اس بات کی
شہادت ہے کہ ہم دین کی تعلیمات سے کس درجہ واقف وعمل پیرا ہیں ،تو وہیں
ہمارے باطن میں خدا ورسول ؐکی محبت کا درجہ کیا ہے،اس کو بھی واضح کرتا
ہے۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمارا ہر عمل دیگر افکار و نظریات کے لوگوں کو یا
تو اسلام سے قریب کرنے کا ذریعہ بنتا ہے یا اسلام سے بدظن کرنے کی وجہ ۔اس
موقع پر لازم ہے کہ اسلام کی دعوت لوگوں میں پہنچانے کی شعوری کوششوں کے
ساتھ مسلمانوں کی اصلاح وان میں دین کا شعور پیدا کرنے کی بھی منظم کوششیں
کی جائیں۔یہاں یہ بات کہنے کی نہیں ہے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ 'شعور
دین'کے معنی چند عبادات اور مخصوص طرز معاشرت نہیں بلکہ دین بحیثیت نظام
عدل و انصاف ہے۔لہذا نظام عدل و انصاف کا شعور نہ صرف تحریر و تقریر تک
محدود ہو نا چاہیے بلکہ فکری نظریاتی اور عملی تربیت کا بھی اہتمام کیا
جانا چاہیے ۔یہاں تربیت سے مراد علم و عمل کے عملی مظاہر ہیں۔جہاں ہر سطح
پر علم بھی بہم پہنچایا جائے گا،صلاحیتوں کا ارتقاء بھی ہوگا،اورمختلف محاذ
پر سعی و جہد کا آغاز بھی کیا جائے گا۔ساتھ ہی سعید روحوں کو منظم و منضبط
بھی ایک بڑا عمل ہے ۔یہ کام اگر کوئی فرد انجام دینے کی جرات رکھتا ہے تو
وہ ضرور کرے بصورت دیگر موجود ہ پرامن و صالح تحریکات کاحصہ بننا
چاہیے۔اجتماعی سعی و جہد کے نتیجہ میں ممکن ہے کہ نہ صرف غلط فہمیاں دور
ہوں ،لاعلمی کا خاتمہ ہوبلکہ تعصب کی فضا جو چہار جانب پروان چڑاھائی گئی
ہے،وہ ختم ہویا کم از کم اس کی شدت میں ہی کمی آجائے ۔لیکن اس موقع پر
لازماً یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ دعوت و تربیت اور عملی جدوجہد کا
اولین میدان کار داعی کی شخصیت اور ذاتی کردار ہے۔وہ مخاطب تو تمام انسانوں
کو کرتا ہے ۔اس لیے کہ بندگی رب کا پیغام تمام انسانوں کے لیے نفع بخش ہے،
لیکن سب سے پہلے اس کو اپنی فکر ہونی چاہیے۔وجہ یہ ہے کہ اپنی اصلاح سب سے
مشکل کام ہے! |
|