پاکستان میں شدت پسندی و انتہا
پسندی کا مسئلہ نیا نہیں البتہ اس نے گزشتہ ایک عشرے میں وطن عزیز کو نقصان
پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملکی
معاملات ، ادارے مفلوج اور اس میں بسنے والے لوگ مفلوک الحال ہوگئے ہیں ۔
کسی بھی ادارے کی کارکردگی بہتر صرف اس وجہ سے نہیں ہورہی کیونکہ یہاں
سیکیورٹی خدشات پائے جاتے ہیں ، ملکی معیشت کا بیٹھ چکا ہے ، کوئی بھی شخص
کو مذہبی ، سماجی ، اقتصادی و معاشرتی سرگرمیاں انجام دینے کیلئے آزادانہ
ماحول میسر نہیں ۔ آپ بجا طور پر کہہ سکتے ہیں جس آزادی کا تصور لیکر ہمارے
اجداد اور اقابرین ایک مکمل مذہبی اور جمہوری ریاست کا قیام عمل میں لایا
تھا وہ اس طرح کی کیفیت و نتائج سے خالی ہے ۔ گڈ گورننس تو کجا گورننس جیسی
کوئی شے ملک میں قیام سے تاحال دستیا ب نہیں جبکہ فی زمانہ تو اس کا فقدان
بہت شدت سے محسوس کیا جارہا ہے حالانکہ ان دنوں ملک میں ایک جمہوری حکومت
مکمل طور پر قائم و دائم ریاست کی بھاگ سنبھالے ہوئے ہے ۔ ایک آزاد اور اور
خو مختار ریاست فقط تصور ہی کرنا اب سراب سے مشابہ ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ ہر دور میں یہاں غیر ملکی و غیر جمہوری قوتوں نے مداخلت کی
جس سے کوئی بھی جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت نہیں پوری کرسکی جس کی وجہ سے
جمہور کی حالت نہ بدلی اور نہ ملکی تعمیر و ترقی میں کسی قسم کی مثبت پیش
رفت ہوسکی ہے ۔بہت سوں کا کہنا ہے کہ ملک میں با ر بار کی آمریت نے قوم کا
ستیا ناس کردیا جبکہ بعض کا خیال ہے کہ دراصل یہ فوجی ادوار ہی ہیں جن کی
بدولت وطن عزیز کی حفاظت ہوئی اور انہی کے کار حکومت سنبھالنے سے قوم متحد
اور ملک کسی بھی انتشاری قوت سے بچا رہا ہے ، اختلاف رائے رکھنے والوں کا
موقف ہے کہ ہمارے جمہوری اداروں نے یا منتخب نمائندوں سمیت حکمرانوں نے
کبھی ملکی ترقی و خوشحالی کی جانب عملی قدم نہیں بڑھایا اگر کوئی اقدام کیا
بھی گیا تو اس میں زیادہ تر ذاتی نوعیت کا مفاد شامل حال رہا ہے ۔ انہوں نے
کبھی کوئی ایسی حکمت عملی وضع نہیں کی جس ہم کہہ سکیں کہ جمہور یا جمہوری
اد اروں کو فروغ ملا ہو یا پھر ریاست تر قی کی راہ پر گامزن ہوئی ہو۔ ان
نام نہاد جمہوری قوتوں نے سب سے زیادہ اپنے گھر بھرنے کیلئے وہ اقدامات کئے
جس سے ان کی آئندہ آنی والی نسلیں آسودہ ہوں ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ
لوگ عوام کو ان کی بنیادی سہولیات ان کی دپلیز پر فراہمی کیلئے منصوبہ بندی
کرتے تاکہ یہ بھی پاکستان کودنیا میں ایک ترقی یافتہ ملک کی طرح پہچان دینے
میں معاون ثابت ہوتے لیکن انہیں اپنے کنبے کی فلاح و بہبود نے اس قدر غافل
کردیا کہ وہ عوام کا حق اپنا سمجھ بیٹھے ۔یہ بات کسی حد تک اگر درست مان لی
جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا سابقہ دور ملکی سا
لمیت اور ترقی و خوشحالی کے لحاظ سے بہتر نہیں رہا ہے ۔ جس قدر سیکیورٹی کے
مسائل پی پی کے دور میں عوام کو درپیش آئے وہ مشرف دور سے کئی گنا زیادہ
تھے ۔زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں رہا تھا جہاں سے سیکیورٹی خدشات کا نہ
کہا گیا ہو۔ چہار جانب بس ایک خوف کی فضا قائم ہوگئی تھی جس نے شدت پسندی ،
فرقہ واریت اور انتہاپسندی سمیت تما م تر تخریبی قوتوں کو جلا بخشی ۔ پی پی
دور کے وزیر داخلہ اٹھتے بیٹھتے اپنی سہولت کے مطابق کسی بھی دہشت گردی کے
واقعے کو بھلا ہیل وحجت طالبان سے مسنوب کردیتے تھے جو ان کیلئے تو جان
چھڑانے کے مترادف تھا لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک ایسا ماحول
بنارہے ہیں جس سے کسی کوکوئی فائدہ یا نقصان ہو یا نہ ہو ملک اور اس
باشندوں کو ضرور خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور دیگر تخریب کا ر عناصر اس سے
بھر پور فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور ہوا بھی ایسا ہی ، جو کام کوئی اور بھی
کرتا طالبان کا ٹیگ لگاکر چلاجاتا ۔ ہم یہاں طالبان کی حمایت نہیں کررہے
بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ پی پی کے وزیر موصوف نے کوئی ایسا قدم نہیں
اٹھایا کہ جس سے دہشت گردوں کی سرکوبی ہو اور وہ چاہے طالبا ن ہوں یا کوئی
اورمجرماناقوتیں ، انہیں یہ اندازہ ہوجانا چاہئے تھا کہ پکڑ ضرور ہوگی تو
وہ سزاکا خوف محسوس کرتے جس سے ممکن تھا کہ وہ با زآجاتے ۔
ہمارے ملک میں اکثریت کی رائے ہے کہ یہاں کوئی تخریب کاری کی کارروائی ہوتی
ہے تو اس میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے اس کو ہم خارج امکان تصور نہیں کرتے لیکن
اس تاثر کا سب سے زیادہ فائدہ آج تک
حکمرانوں نے ہی اٹھایا ہے ۔ انہوں نے جان لیا کہ یہ معصوم اور بے شعور عوام
کو جس جانب ہانک دو کام چل جائے گا تاہم حکومتی سطح پر داخلی و خارجہ
پالیسی پر کسی نے توجہ دی اور نہ ہی اسے بہتر اور موثر بنانے کی حکمت عملی
وضع کی گئی ، ریاست مخالف قوتیں چاہے وہ اندرونی ہوں یا بیرونی ان کی ہر
طرح سے ایک ہی کوشش ہوتی ہے کہ دہشت گردی ، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کا
چلن عام ہو، داخلی سطح پر امن وامان کی صورتحال خراب سے خراب تر ہو، اور
سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان قائم مثالی ہم آہنگی میں دراڑیں ڈالی جائیں
تاکہ فوجی آپریشن ، قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں اور ملک میں قائم
سیاسی حکومت کا ریاست کی بقا کیلئے قائم مشترکہ میکینزم ٹوٹ جائے ۔ ضرب عضب
سمیت ملک کے دہشت زدہ علاقوں میں جاری آپریشن کے اہداف یہی ہیں کہ ملک میں
کہیں بھی انتشار کی کیفیت نہ ہو ، لوگ عدم تحفظ کے احساس سے عاری ہوکر ایک
آزادانہ زندگی بسر کریں اور ملکی سلامتی اور اس کی ترقی میں اپنا موثر اور
بھر پور کردار ادا کرسکیں ۔ لیکن مسائل یہ ہیں کہ ہم جس طرح کے سیاسی کلچر
کا حصہ ہیں یہاں سیاسی جماعتوں میں ھٹ دھرمی بہت گٹھیا حد تک ہے ۔ ہر بار
کہیں نہ کہیں سے تنقید برائے تنقید اور ملکی مفاد بالائے طاق رکھتے ہوئے بے
ہنگم محاذ آرائی کی جاتی ہے جس سے یقینی طور پر مقاصد کی جانب سے نظر ہٹ
جاتی ہے اور کئے کرائے پر یقینی طور پر پانی پھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ضرب
عضب سمیت ملک میں جاری تمام آپریشنز دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا
مکمل خاتمہ کرنا مقصود ہے تاکہ تحفظ سے متعلق تما م خدشات دور کئے جاسکیں
،یاد رکھنے کی بات ہے کہ اس طرح کے آپریشنز سے ملک میں تخریب کاروں کے خلاف
بلاامتیاز کارروائی کی جائے اور ریاستی رٹ قائم کی جائے جس سے کسی بھی قسم
کی اندرونی اور بیرونی مداخلت یا مصلحت پسندی کی روک تھام ہوسکے اور حکومتی
سطح پر امن وامان کی صورتحال بہتر بنائی جاسکے کیونکہ گمراہ کن طاقتوں کی
کمر اس وقت کی توڑی جاسکتی ہے جب سیاسی اور عسکری طاقتوں کے مابین ہم آہنگی
ہو اور سیاسی سطح پر آپریشن سے متعلق امور طے ہوجائیں جبکہ عسکری قوت کو
رسد پہنچانے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ اس وقت ملک میں جاری شدت پسندوں
اور انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن کو عوامی سطح پر بھر پور پزیرائی حاصل ہے
اور عوام ان کارروائیوں پر عسکری قیادت کی مکمل حمایت کررہے ہیں جس سے
فورسز کے حوصلے بھی بلند نظر آتے ہیں اور یہ قوم کی بھلائی اور روشن و بہتر
مستقبل کیلئے ہر لحاظ سے کوشان جانوں کے نذرانے پیش کررہی ہیں البتہ آرمی
چیف جنرل راحیل شریف کو حکومت سے شکات ہے اور وہ نالاں ہیں کہ حکومتی سطح
پر کئے جانے والے اقدامات ناکافی ہیں جس کا اظہار انہوں نے گزشتہ دنوں کور
کمانڈر کانفرنس میں بھی کیا ہے ۔ ان کے مطابق جس قدر اقدامات کی ضرورت
محسوس کی جارہی ہے حکومت کی جانب سے اس طرح کے اقدامات نہیں کئے جارہے جس
سے آپریشنز کے سیر حاصل نتائج برآمد نہیں ہورہے ۔گوکہ آرمی چیف اب کے نتائج
سے مطمئن ہیں لیکن منطقی انجام تک پہنچنے کیلئے انہیں حکومت کے مکمل اور
بروقت تعاون کی ضرورت محسوس ہورہی ہے ۔ خدشہ ہے کہ اگر گورننس کی بہتری نہ
ہوئی تو جاری آپریشنز کی راہ میں رکاوٹیں آسکتی ہیں جو کسی بھی لحاظ سے قوم
کے بہتر مفاد اور مسقبل کیلیئے خوش کن نہیں یعنی نیشنل ایکشن پلان پر
عملداری میں سستی ، فاٹا اصلاحات میں ، تاخیر ، جے آئی ٹیز کو ترجیح نہ
دینے جیسے دیگر اقدامات کیلئے پیش رفت نہ ہونا آپریشنز کو متاثر کرسکتے ہیں
۔آرمی چیف کے اس خدشہ کے اظہار سے ایوان سیاست میں ہل چل سی مچ گئی ہے ،
سینٹ سمیت قومی اسمبلی میں اراکین گورننس کی عدم دستیابی کی جانب اشارے کو
مارشل لاء سے تعبیر کررہے ہیں ، کئی اراکین نے یہاں تک محسوس کرلیا ہے کہ
اس ملک میں جمہوریت آمریت کے راستے ہموار کررہی ہے جبکہ یہی وہ لوگ تھے
جنھوں نے باہمی اتفاق سے آپریشنز کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ فوجی عدالتوں
کے قیام کیلئے اپنے حق رائے دہی سے آئینی ترمیم بھی عمل لائی تھی مگر اب اس
سے روگردانی کرکے قوم کو پھر کسی دوراہے پر کھڑا کیا جارہا ہے جس سے تکلیف
کا احساس سوائے عوام کے کسی اور کو نہیں ہوگا۔
یہ ایک اٹل اور نہایت تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ملک بہت سنگین حالا ت سے گزر
رہا ہے اور کسی بھی ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کوئی بھی آپریشن قلیل مدتی
نہیں ہوتا ، اس کیلئے بھرپور اور وسیع پیمانے پر واسئل درکار ہوتے ہیں جو
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے مشکل اور ناممکن ہیں لیکن اﷲ کے نام پر
قائم اس پاک سر زمین اور اس کے باشندے ہر طرح سے قربانیاں دینے کو تیار ہیں
۔ نیشنل ایکشن پلان جسے ترتیب دینے کیلئے جس طرح کا اتفاق رائے ملک کی تما
م سیاسی جماعتوں میں پایا جاتا تھا ، ضرورت اس امر کی ہے کہ اب بھی یہ تمام
اسٹیک ہولڈر ز مل جل کر دہشت گردی جیسے ناسور کے خاتے کیلئے کام کریں اور
اتفاق رائے کا اظہار کریں تو بہت جلد اور نہایت موثر اندازمیں یہ کٹھن
مرحلہ بھی طے ہوجائے گا ۔ حکومت کو ہماری صلاح ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے
ساتھ مل بیٹھ کر ملک میں دیر پا امن اور فوجی آپریشن کے طویل مدتی فوائد
سمیٹنے کیلئے ہم آہنگی پیدا کرے اور ان کے تمام تحفظات کو دور کرے تاکہ یہ
آپریشن جلد مکمل ہو اور بے گھر خاندان اپنے گھروں میں جاکر آباد ہوں ، تب
ہی ملک ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن ہوسکے گا ۔ |