انسانیت یاد آگئی
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
پیرس میں آٹھ حملہ آوروں کی
فائرنگ سے 130 کے لگ بھگ لوگ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے یہ ایک بڑا المناک
واقعہ تھا اور قابل مذمت بھی۔ اس پر مغربی ممالک سے بھرپور انداز میں مذمتی
بیانات آئے قرار دادیں منظور ہوئیں سکیورٹی ہائی الرٹ ہوئی سرحدیں سیل کردی
گئیں کرفیو کا نفاذ ہوا مغرب کیلئے یہ ایک انہونا واقعہ تھا پہلے پہل تو
لوگوں کو یقین ہی نہ آیا کہ فرانس میں یہ دہشت گردانہ کارروائی عمل میں
لائی جارہی ہے پراامن کے دینا کے باسیوں کیلئے یہ قتل عام ہے جس پر امریکی
صدر اوبامہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ پوری انسانیت اور آفاقی اقدار پر حملہ
ہے‘‘برطانوی وزیراعظم فرانسیسی صدر و دیگر نے اسے انسانیت پر حملہ سے منسوب
کیا۔ ہم بھی کہتے ہیں مسلمان بھی کہتے ہیں اور آج سے نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ
چودہ سو سال قبل سے کہہ رہے ہیں ہمارے آقائے نامدار وجہ تخلیق کائنات سرور
دوعالم محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی ناحق کسی
انسان کو قتل کرتا ہے گویا کہ وہ پوری انسانیت کا قاتل ہے آپؐ نے کسی
مسلمان کا لفظ استعمال نہیں فرمایا مسلم غیر مسلم، عربی عجمی، گورے کالے،
بڑے چھوٹے کی تفریق سے بالاتر ہوکر چودہ سو سال قبل فرمارہے ہیں کہ ایک
انسان کا قتل ساری انسانیت کو مارنے کے مترادف ہے بیت اﷲ جسے تما م دنیا
میں بالخصوص مسلم امہ میں عزت و تکریم عظمت و تقدس کا منبع جانا جاتا ہے
اور حضور اکرمؐکی اس سے محبت عقیدت اور لگاؤ کا اندازہ لگانا ہمارے بس کی
بات ہی نہیں آپ ؐ نے اس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے بیت اﷲ تو اﷲ کا
گھر ہے اگر تجھے کوئی سو مرتبہ گرائے اور سو مرتبہ بنائے تو مجھے اتنا دکھ
نہ ہوگا جتنا کہ ایک انسان کے ناحق خون بہانے پر ہوتا ہے-
جی ہاں یورپ والو!یہ ہیں ہماری اقدار ہماری روایات جنہیں ہم اب تک نبھانے
کی کوشش میں لگے ہیں لیکن تم نے کبھی بھی اپنے رویے اپنے خیالات اور اپنی
منفی سوچیں ہمارے بارے میں تبدیل نہ کی ہیں برما میں مارنے جانے والے کیا
انسان نہیں تھے بوسنیا میں قتل عام میں جان گنوانے والے انسان نہیں تھے
گجرات میں مذہب کے نام پر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے انسان نہیں تھے
فلسطین و کشمیر لیبیا میں جو بربریت کے کھیل کھیلے جارہے ہیں مسلمانوں کو
تہہ و تیغ کیا جارہا ہے کیاوہ انسان نہیں تھے؟انسانیت کے نام نہاد
علمبردارو! کیا انسانیت صرف تم تک محدود ہے کیا صرف تم ہی انسان کہلانے کے
حقدار ہوکیا مسلمان انسانیت کی معراج پر پورانہیں اترتے یا تمہارے پیمانے
گڑبڑاگئے ہیں۔ ہاں یقینا تمہارے پیمانوں میں فتور آگیا ہے اور آج سے نہیں
بلکہ اس وقت سے ہے جب ہمارے نبی مکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہود و نصاری کبھی
بھی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے لیکن بہت سی اور دوسری باتوں کی طرح یہ باتیں
بھی ہماری سمجھ میں نہیں سمارہی ہیں۔ہمارے ملک کے وزیر خزانہ فرماتے ہیں کہ
وہ لوگ ہمیں قرضے(بھیک) نہیں دیتے 10 مانگو تو ایک ملتا ہے تو بابا جی یہ
کوئی نئی بات نہیں جب بھکاری کسی کے پاس آکر سوال کرتا ہے اور کہتاہے کہ اﷲ
کے نام پر سو روپے کا سوال ہے باباتواسے دیکھ کر آپ کے تن بدن میں آگ لگ
جاتی ہے اسے کڑوی کسیلی سناتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ہٹے کٹے ہوکر مانگتے
ہوئے شرم نہیں آتی اور پھر اگر اسے کچھ دینا پڑ جائے تو پانچ دس ر وپے دے
کر جان چھڑا لیتے ہو کیونکہ تم اس کی ڈیمانڈ کے مطابق اسے دینے کے پابند
نہیں ہو چونکہ وہ بھکار ی ہے۔ ہماری گورنمنٹ کا بھی یہی حال ہے ۔ یورپ والے
ا سے بھکاری گردانتے ہیں اور پھر اپنی مرضی کی بھیک دیتے ہیں اور اس بھیک
پر بھی قدغن اور ٹیکس کاتڑکہ الگ ہوتا ہے جو کہ عوام کے جوڑ جوڑ کڑکڑا دیتا
ہے کیونکہ وہ یورپ والے جانتے ہیں کہ سوال کرنے والے ہٹے کٹے ہیں ان کی
ہمارے ملکوں کے بنکوں میں موجود رقوم اتنی ہیں کہ اگر وہ اپنے ملک میں لے
جائیں اور اسے استعمال میں لائیں تو قرض کی والامعاملہ ہی ختم ہوجائے لیکن
انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ عادی بھکاری ہیں یہ صرف ہاتھ پھیلانا جانتے
ہیں ان کا ہاتھ کبھی اوپروالہ نہیں ہوسکتا لہذا وہ اپنی مرضی و منشا کے
مطابق شرائط رکھتے ہیں جلی کٹی سناتے ہیں اور پھر ڈیمانڈ کا ایک دو فیصد
کشکول میں ڈال دیتے ہیں اورحکمرانوں کو یہ جلی کٹی بھی بری محسوس نہیں ہوتی-
دراصل ہمارے حکمرانوں نے کبھی عوام کو یہ باور نہیں کرایا کہ وہ یہ بھیک
عوام کیلئے مانگتے ہیں کیونکہ وہ مانگتے ہی اپنے لئے ہیں اسی لئے انہیں یہ
سب برا بھی محسوس نہیں ہوتااور پھر جو رقم مملکت خداداد میں بطور قرض آتی
ہے کہاں پر خرچ ہوتی ہے کیسے خرچ ہوتی ہے کس پر خرچ ہوتی ہے کمیشن میں کتنی
استعمال ہوتی ہے اس کا کوئی حساب نہیں بس یہ پتا چلتا ہے کہ کھایا پیا کچھ
نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کے مصداق پوری قوم کا ہر ہر فرد لاکھوں روپے کا
مقروض ہوچکا ہے اور قرض ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے ہم بطور قرض دار اپنا یہ
فرض سمجھتے ہیں کہ قرض دینے والے کے نیچے لگنا چاہئے۔بہر حال جب تک ہم من
حیث القوم یورپ والوں کو یہ باور نہیں کرائیں گے کہ ہم پاکستانی اور پوری
مسلم امہ بھی انسان ہیں ہمارے بھی احساسات و جذبات ہیں ہیں ہمیں بھی دکھ
محسوس ہوتا ہے کانٹے کی چھبن کا احساس ہوتا ہے زخم لگنے پر تکلیف ہوتی ہے
اس وقت تک ہم دنیا میں کیڑے مکوڑوں کی مانند کٹتے رہیں گے اور یہ لوگ جو
صرف اپنے آپ کو انسان گردانتے ہیں ہمیں کچلتے رہیں گے اس میں کوئی دو رائے
نہیں ہیں کہ پیرس میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائی ننگ انسانیت ہے
انسانیت کا کلنک کا ٹیکہ ہے انسانیت کے منہ پر کالک ہے لیکن یہ تمام حسیات
و کیفیات مسلمانوں کے قتل عام کیلئے بھی عود کر آنی چاہئیں برما بوسینیا
انڈیا فلسطین شام عراق لیبیا چیچنیا کشمیر اور پاکستان میں مرنے والے بھی
گوشت پوست کے انسان ہے ان کی تکلیف پر بھی انسانیت کے ٹھیکیداروں کو دکھ
تکلیف محسوس ہونا چاہئے دوہرے معیارات کو چھوڑنا چاہئے یہی درحقیقت انسانیت
سے محبت کا ثبوت ہے ورنہ تو……؟
|
|