پاکستان نے تمام پڑوسی ممالک سے
ہمیشہ دوستانہ ہاتھ بڑھایا، یہ ایک اچھی روایت ہے کہ پڑوسیوں کیساتھ تعلقات
بہتری کی سطح پر لائے جائیں، تا کہ اپنے خطے میں ایک پرامن ، سکون اور ترقی
کا دور ہو، جس میں بجائے پڑوسی ایک دوسرے سے الجھنے کے ایک دوسرے کے ہمدرد
اور احترام کرنے والے ہوں، لیکن کبھی کبھار پڑوسی ہی آستین کا سانپ بن کر
ایسا نقصان دیتے ہیں کہ جس کے زہر کے اثرات بڑی مدت تک رہتے ہیں۔
ایران کیساتھ تعلقات میں سب سے اہم کردار سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار
علی بھٹو نے ادا کیا، کیونکہ ان کی بیگم نصرت بھٹو ایرانی النسل تھیں، اور
ایرانی شہر اصفہان سے تعلق رکھتی تھیں، بھٹو کے ایرانی محبت کسی سے ڈھکی
چھپی نہ تھی، اور بیگم نصرت بھٹو کا ایران سے تعلق کی وجہ سے بھٹو کی ایران
سے "فطری محبت" کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اور اسی طرح بھٹو کی
جماعت پاکستان پیپلزپارٹی بھی اسی "فطری محبت" کو نبھانے میں کبھی پیچھے
نہیں ہٹی،
ذوالفقار علی بھٹو نے ایران کیساتھ کئی معاہدے کئے، جن میں ایک اہم معاہدہ
بلوچستان میں سو سال تک تیل کے کنوؤں کی کھدائی نہ کرنے کا بھی ہے،
بلوچستان چونکہ ایرانی بارڈر سے بالکل منسلک ہے اس لیے سرزمین بلوچستان میں
جو تیل ہے وہ ایران کے زیرِ زمین تیل کے خزانوں تک بآسانی پہنچ سکتا ہے،
یعنی پاکستان کی جانب سے بلوچستان کے تیل کے ذخائر پر کام نہ کرنے کا فائدہ
مکمل طور ایران کو ہورہا ہے، جس کا ایک کوڑی فائدہ بھی پاکستان کو نہیں،
ممالک کے مابین دوستی کا اصول یہ ہے کہ ایک دوسرے کے مفادات کو مقدم رکھا
جاتا ہے، لیکن یہ عجب دوستی ہے کہ ایک دوست سے لیتے جاؤ اور اسے کوڑی فائدہ
تک نہ دو، بہرکیف یہ پاکستان کی طرف سے بڑی کشادہ دل دوستی تھی، جس کا
ایران نے بھرپور فائدہ اٹھایا، لیکن کیا ہمیشہ "دوست برادر پڑوسی ملک" نے
پاکستان کیساتھ اپنی دوستی نبھائی ہے۔۔۔؟؟
آئیے زیادہ دور نہیں حال ہی میں ایران کی "پاکستان دوستی" پر ایک نظر ڈالتے
ہیں،
ایرانی اور امریکہ و اسرائیل کا مخالفت کے چلمن میں اندرونِ خانہ رومانس سے
کون واقف نہیں، لیکن ایران اب کھل کر پاکستان دشمنوں سے مل کر پاکستان کی
ساکھ کو نقصان پہنچانے میں سرگرمِ عمل ہے، امریکی ایرانی دشمن نما دوستی
اور جھوٹے دشمنی کے نعروں کی حقیقت اب ساری دنیا پر عیاں ہو چکی ہے، جس سے
ایران اور امریکہ کا دوغلا چہرہ پوری دنیا کے سامنے آچکا ہے، ایران کے "مرگ
بر امریکہ" کے دلفریب نعرے کے پیچھے چھپی دھوکہ بازی، مکاری اور چال کا
پردہ فاش ہونے کے بعد اب ایرانی عوام بھی اپنے مسخرے نمائندوں اور سپریم
لیڈر کی حرکتوں سے نالاں نظر آتے ہیں، خیر امریکہ اور ایران کی اس رومانس
برائے نام دشمنی تو ایک کھیل تھا، جس کے ذریعے اقوام عالم کی آنکھوں میں
دھول جھونکی گئی، اب ایران واضح انداز میں پاکستان کے دوست نما دشمن ملکوں
کیساتھ اپنے بڑھتے تعلقات سے ثابت کر رہا ہے کہ وہ شیعہ سٹیٹ ہونے کی بنا
پر سنیت دشمنی میں پاکستان دوستی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، اس کی واضح
مثال یہ ہے کہ. پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے، ایٹمی پروگرام کو
نقصان پہنچانے اور خلیج میں اہم کردار کو روکنے کیلئے امریکی سرپرستی میں
بھارت، ایران، افغانستان اور اسرائیل ایک ہوگئے اور چاروں ممالک کی خفیہ
ایجنسیوں کا پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ کا انکشاف ہوا ہے۔
اسی سلسلے میں چند ماہ قبل نئی دہلی میں بھارتی خفیہ ایجنسی''را''کے ہیڈ
کوارٹر میں افغان خفیہ ایجنسی''خاد''ایرانی ایجنسی'ویواک' اور اسرائیلی
ایجنسی 'موساد'کے اعلیٰ حکام کا اجلاس ہوا۔منصوبے کے مطابق پاکستان کو دنیا
میں دہشت گردی کا مرکز قرار دے کر مقامی اور عالمی میڈیا میں پاکستان کے
خلاف بھرپور پراپیگنڈہ مہم چلائی جائے گی۔بھارت ، افغانستان اور ایران اپنے
ہاں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔یوں
پاکستان کو ایک غیر ذمہ دار اور دہشت گردملک قرار دیا جائے گا اور اس کی
ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنے کوشش کی جائے گی۔ امریکہ بظاہر پاکستان سے دوستی
کا دم بھر رہا ہے اور ایٹمی اثاثوں کے عدم تحفظ کا اظہار بھی سرکاری سطح پر
نہیں کرتا۔ لیکن اس کا مضبوط گٹھ جوڑ بھارت اور اسرائیل کے ساتھ ہے۔ اسی
کیساتھ ایران کی جانب سے پاکستان کو نظر انداز کرکے پاکستان کے روایتی حریف
بھارت کیساتھ روابط اور مسلسل مضبوط تعلقات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ
امریکی آشیرباد میں اسرائیل ،ایران اور بھارت پاکستان دشمنی میں ایک پیج پر
ہیں، ایرانی کے وزیرِ خارجہ نے گزشتہ دنوں ایک میڈیا کانفرنس میں اعلانیہ
کہا کہ ہم بھارت کیساتھ تعلقات کو زیادہ اہمیت دینگے بہ نسبت پاکستان سے،
تو کیا یہ حق دوستی ہے کہ دوستی کا بھرم بھی رکھا جائے اور دشمنوں سے بھی
محبتیں رکھی جائیں۔۔؟؟
اس کے علاوہ پیپلزپارٹی زرداری کے دور حکومت میں پاک ایران گیس پائپ لائن
جو کہ ایران نے پاکستان پر نہایت بھاری معاوضے پر معاہدہ کیا، اور افتتاح
کے بعد بعد ایرانی کی جانب سے اس معاہدے کی خلاف ورزی اور معاہدے سے مکر
جانا بھی ایرانی تعصب کا منہ بولتا ثبوت ہے، اسی کیساتھ ہی بھارتی جنگی
جرائم کے مسلسل اضافے اور آئے روز پاکستانی لائن آف کنٹرول کی تسلسل کیساتھ
خلاف ورزی تو کوئی نئی بات نہیں، بھارت کی طرف سے پاکستان کے سرحدی علاقوں
پر کشیدگی اورجارحیت اکثر وبیشتر جاری رہتی ہے اور جب کبھی بھی انڈیا کی
حکومتوں کو اپنے مفادات پایہ تکمیل تک پہنچانے ہوں تو وہ پاکستان دشمنی کو
بھی ایک اہم ذریعہ کے طور استعمال کرتے ہیں اور اپنے مفادات میں صداقت کا
رنگ بھرنے کے لیے پاکستان کے سرحدی علاقوں پر جارحیت بھی برپا کردیتے ہیں
تاکہ ایک طرف پاکستان کو مرعوب کر سکیں اوردوسری جانب اندرون انڈیا اپنے
مفادات حاصل کرسکیں۔
گزشتہ چند عرصے میں انڈیا کی طرف سے پاکستان کے سرحدی علاقوں خاص کر
سیالکوٹ کے علاقوں پر جو کشیدگی جاری رہی اور بھارت کی طرف سے درجنوں
دیہاتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ متعدد دیہات بھارت کی اس جارحیت کے خوف سے
خالی ہوگئے اور جو مالی نقصانات ہوئے وہ الگ ہیں۔ ہر بار کی جارحیت میں کچھ
نہ کچھ جانی نقصان بھی ضرور ہوجایا کرتا ہے۔ بھارت کے ساتھ اس نوعیت کی
کشیدگی کچھ نئی تو نہیں بلکہ ایک مدت سے یہ سلسلہ جاری ہی رہتا ہے لیکن
موجودہ بھارتی حکومت کا رویہ اوراس کی مسلم وپاک دشمنی تو بالکل عیاں ہے
اور اسی کے زیر اثر موجودہ کشیدگی کو ہوا ملی ہے اور بھارت کی طرف سے بڑی
ہی اشتعال انگیز جارحیت کی گئی ہے ۔ حالیہ جارحیت میں دو درجن سے زائد
افراد نشانہ موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور چالیس سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔
بھارتی وزیر دفاع نے پاکستان پر الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی
فورسز مہم جوئی سے باز رہیں۔ حالانکہ وہ خود مسلسل مہم جوئی میں لگے رہتے
ہیں اور کبھی سیالکوٹ میں تو کبھی آزاد کشمیر کے سرحدی علاقوں پر جارحیت
مسلط کر دیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم کا یہ بیان بھی سامنے
آچکا ہے کہ : میں بھارتی سرحدوں پر تعینات جوانوں کو حکم دیتا ہوں کہ وہ
پاکستان پر ہزار گولے برسائیں‘‘۔
لیکن اب کی بار اُدھر ایران نے بھی سرحدی علاقوں پر جارحیت شروع کر دی ہے
اور ملک پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں، بلکہ صریح دھمکی دینے سے
بھی گریز نہیں کیا گیااور آئندہ خود ہی حدود پاکستان میں کارروائی کا
عندیہ دیدیا گیا ہے۔ ایران کی طرف سے بھی وقتا فوقتا پاکستان پر ایسی نوعیت
کے کچھ الزامات لگتے رہتے ہیں ، اب وہ بڑی دیدہ دلیری کیساتھ بلوچستان کی
سرحدات پر ل اس طرح کھلی جارحیت کی دھمکیاں دینا یہ کچھ اور ہی حقیقت کی
طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ وہی ایران ہے جس کی پاکستان میں کھلی مداخلت کسی سے
بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اور یہ مداخلت اس وقت سے جاری ہے جب ایران میں
خمینی انقلاب آیا اور اس کے منحوس اثرات پوری قوت اور سازش کے ساتھ
پاکستان منتقل کیے گئے اور اب تک کتنے ہی ایسے کیسز پاکستان میں سامنے
آچکے ہیں جس کے ڈانڈے ایران سے جاملتے ہیں۔
اس سب کے باوجود پاکستان تو ہمیشہ ان دونوں ملکوں کے ساتھ دوستی ہی کی بات
کرتا رہا۔ پاکستانی حکمران ہمیشہ ان کے ساتھ دوستی کے لیے مرتے رہے اور
انہیں گلے لگانے کے لیے بیتاب رہے۔ عالمی طاقتیں ہر ایسے موقع پربرائے نام
صلح و صفائی کے نام پر پاکستان کو مزید دبا دیتے ہیں اوران جارح قوتوں کو
مزید تھپکی دے کر دلیر کردیتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے جو مسلسل انسانی حقوق
کی خلاف ورزیاں ہورہیں اس پر کسی کی لب جنبش میں نہیں آتی اور ایران بھی
جو ایک طرف امریکہ کے ساتھ دشمنی کی باتیں کرتا تو دوسری طرف علی الاعلان
سنیوں کے مقابلے کے لیے امریکہ کا اتحادی بن جاتا ہے تو اس یہ واضح ہوتا ہے
کہ ان کی باہمی دشمنی محض ایک ڈھونگ ہے۔ ورنہ سنیوں اورپاکستان کی دشمنی
میں اندرون خانہ یہ ایک ہی لائن میں کھڑے ہیں۔ ان دونوں ملکوں کی سرحدی
جارحیت اوراس جیسے دیگر معاملات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا رویہ دوستانہ
ہرگز نہیں بلکہ دشمنانہ ہے اور پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ ان سے تعلقات کی
وہی نوعیت رکھے جو ایک دوست نما دشمن کے ساتھ رکھی جاتی ہے اور دنیا پر بھی
واضح کیا جائے کہ دوستی کے نام پر اس نوع کی دشمنیوں کو پروان چڑھنے نہیں
دیا جائے گا۔
مذکورہ بالا تمام ایرانی دشمنی کے علاوہ پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی
پھیلانے میں ایران کا بڑا ہاتھ ہے، پاکستان میں ایران کی پسندیدہ عالمی
دہشت گرد جماعت حزب اللہ کی جڑیں مضبوط کرنے کیلئے کئی مختلف ناموں سے
ایرانی تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں
ملوث نکلے، اور یہ بات تو میڈیا پر کئی دفعہ کھل کر سامنے آئی کہ کراچی،
کوئٹہ، اور پاڑہ چنار اور راولپنڈی سمیت دیگر حساس علاقوں میں فرقہ وارانہ
ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں گرفتار ہونے والے دہشت گردوں نے ایران سے تربیت
اور مالی تعاون کے حصول کا اعتراف کیا، ایران کے منظورِ نظر ایک پاکستانی
کالعدم کے مذہبی رہنما حال ہی میں ایران کے دورے کے بعد عالمی دہشت گرد
تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ سے ملاقات کر کے آئے ہیں، تو کیا
بعید ہے کہ انڈیا کی فنڈنگ سے پاکستانی اداروں اور عوامی مقامات پر معصوم
لوگوں پر دھماکے کرنے والے را کے کارندوں کی طرح یہ ایرانی وفادار بھی
پاکستان دشمنی میں اپنی نمک حلال میں دیر کرینگے۔۔؟؟
اس لئے اربابِ اختیار تمام پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات بنانے کی بھرپور
کوشش کریں، مگر اپنے دوست نما دشمنوں کو پہچاننے میں بھی کسی غلطی کا
ارتکاب مت کریں، ایسے تمام ممالک جن کی دوستی کی بھیک ہمارے حکمران شکنجے
دربار پر جا کر مانگتے ہیں اور وہ وقتی ٹال مٹول سے کام لیکر اپنی روش
برقرار رکھتے ہیں، تو ہمیں چاہیئے کہ ہم ان عیار دوست نما دشمن ممالک سے
بھی اسی نہج کے تعلقات استوار کریں جس سے ہمارا قومی ، نظریاتی اور ملکی
وقار مجروح نہ ہو۔ |