13نومبر کو فرانس میں ہونے
والے حملوں کے بعد جو ردِ عمل سامنے آیا ہے اس نے 9/11کی یاد تازہ کر دی ہے۔
فرانس میں ہونے والے حملے بلاشبہ قابلِ مذمت ہیں۔دہشت گردی کسی بھی جگہ اور
کسی کے بھی خلاف ہو اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی ہے۔انسانی جان کی
قیمت ہر شے سے زیادہ ہے۔بے گناہوں کی ہلاکت پر خدا کبھی راضی نہیں ہو تا
ہے۔انسان کے ذریعے انسان کا خون گرے تو انسانیت کی تذلیل ضرور ہو گی۔انسانی
تاریخ میں ظالموں کے لیے سوائے لعنت کے کوئی اور تعریف موجود نہیں ہے۔ظلم
ہر دور اور ہر حال میں قابلِ نفرت و لعنت رہا ہے۔ان حملوں کے بعد مختلف
سطحوں سے جو ردِ عمل سامنے آیا ہے وہ حوصلہ افزاء نہیں ہے۔الزام تراشی اور
مفاقاتِ عمل کے دروس نے عام انسان کو مایوس کیا ہے۔ان حملوں کے بعد مشرق
اور مغرب کے درمیان تقسیم کی لکیر مزید گہری ہوئی ہے۔پوری دنیا کے لیے
گلوبل ولیج کا تصور تار تار ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔تہذیبوں میں فاصلے بڑھنا
شروع ہو گے ہیں اور اس ردِ عمل کی بدولت دنیا میں تصادم بڑھتا ہوا دیکھائی
دے رہا ہے۔عالمی رہنماؤں نے ذمہ داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ان
حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے اور امریکہ و یورپ نے اس تنظیم کو
صفہِ ہستی سے مٹانے کا عزم کیا ہے۔فرانس اورامریکہ نے شام پر فضائی حملے
تیز کر دیے ہیں۔ان حملوں میں ا س بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ہلاک ہونے
والے تمام افراد دہشت گرد ہی ہوں گے۔ان حملوں میں عام افراد کی ہلاکتیں بہت
زیادہ ہوتی ہیں۔
9/11کے واقعہ کے بعد امریکہ اور یورپ نے نیٹو کے پرچم تلے مسلمان ملکوں میں
جو تباہی پھیلائی ہے اس کے زخم ابھی تک تازہ ہیں القائدہ کا اب کوئی نام
لیوا نہیں رہا مگر اس کی جگہ داعش نے لے لی ہے۔داعش نے جس تیزی سے اپنا اثر
دیکھایا ہے وہ کسی بھی سپر طاقت کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔یہ طاقت مشرق
کی ہو یا مغرب کی البتہ یہ بات طے ہے کہ کسی ریاست کی مرضی کے بغیر داعش
اتنی طاقت ور نہیں ہو سکتی ہے۔ایسے میں اقوامِ متحدہ کا کردار مایوس کن رہا
ہے وہ اپنی ذمہ داریاں اد اکرنے میں غافل رہا ہے۔حکومتوں اور ریاستوں کی
سازشوں کو یہ ادارہ بھانپ ہی نہیں سکا۔یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں دہشت
گردی اپنے عروج پر ہے۔ چند عالمی رہنماؤں نے پوری دنیا کو دھوکے میں رکھا
ہوا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر
رہے ہیں۔فرانس حملوں کے بعد اس بات پر ضرور غور ہو نا چاہیے کہ دہشت گردی
کو فروغ کیوں کر مل رہا ہے ؟ اس کے محرکات کیا ہیں؟ عام طور پر اور اب
فرانس حملوں کے بعد سے مسلمانوں کو زیادہ موردِ الزام ٹھہرایا جانے لگا
ہے۔کوئی اسے مذہبی تضادات کا نتیجہ قرار دیتا ہے مگر یہ اقوامِ متحدہ کا
فرض ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ کن عوامل کی بدولت دہشت گردی بڑھ
رہی ہے۔
وسائل کی غیر مساویانہ تقسیم اور ترقی پذیر ملکوں میں تعلیم کے فروغ میں
رکاوٹیں مختلف تہذیبوں اور معاشروں کے درمیان خلیج بڑھا دیتی ہیں۔ان ملکوں
کا احتساب ہونا چاہیے جنہوں نے عالمی وسائل پر ناحق قبضہ کر رکھا ہے یا
انہیں لوٹا ہے۔تعلیم کے فروغ سے غفلت برتنے والوں کو بھی کٹہرے میں لانا ہو
گا۔اس سب سے بڑھ کر عالمی ادارے کو اس بات پر بھی تحقیقات کرنا ہوں گی کہ
دنیا بھر میں اسلحے کے کاروبار میں کون کون فائدہ اٹھا رہا ہے۔یورپ اور
امریکہ کی اسلحہ کی صنعت نے گزشتہ 25سالوں میں بے پناہ ترقی کی ہے اس صنعت
میں وہاں کے حکمرانوں یا ان کی لابی کرنے والوں کے شئیرز ہیں انہیں لوگوں
نے دولت کمائی ہے۔ اسلحہ کے تاجر اسی وقت خوشحال ہوں گے جب ان کا اسلحہ بکے
گا۔اسلحہ کی مارکیٹ میدان جنگ ہی ہوا کرتی ہے۔دنیا میں جتنا انتشار ہو گا
بدامنی پھیلے گی قتل وغارت بڑھے گی اتنا ہی اسلحہ کی طلب میں اضافہ ہو
گا۔سیاست ہمیشہ بے رحم ہوتی ہے حکمران مفادات کے لیے کسی بھی حد کو عبور کر
سکتے ہیں وہ اپنے اسلحہ کی کھپت کے لیے دنیا بھر کو میدان جنگ بنا سکتے
ہیں۔انتشار کی صورت میں ریاست اور غیر ریاستی عناصر دونوں کو اسلحہ کی
ضرورت ہوتی ہے اور یہ مفاد پرست ان کی ضرورتوں کو منہ مانگے داموں پورا
کرتے ہیں۔لہذا اقوامِ متحدہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ایک تحقیقاتی کمیشن بنائے
اور وہ ان انسانی خون کے تاجروں کے منہ سے نقاب اتارے اور دنیا جان سکے کہ
اصل دہشت گرد کون ہے۔
|