نریندر مودی عالمی میڈیا ، مظاہرین اوردانشوروں کے نرغے میں

بھارت میں مودی سرکار اور انکی جماعت BJP مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے خلاف اپنے متعصبانہ رویہ کے باعث دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہے۔مودی کے حالیہ دورہ برطانیہ کے دوران دھرنے، احتجاج، مظاہرے اس کا واضح ثبوت ہیں۔ لندن کے ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کے باہر ہزاروں کی تعداد میں افراد نے احتجاج اور مودی واپس جاؤ کے نعرے لگائے۔ لندن قاتل مودی کے نعروں سے گونج اٹھا ۔ احتجاج میں پاکستانیوں ، کشمیریوں کے علاوہ ہندوستان کے سکھوں، دلتوں اور نیپالیوں نے بھی حصہ لیا ۔ انہوں نے مودی ناٹ ویلکم کے علاوہ شیم شیم کے نعرے لگائے اور مودی واپس جاؤ کے نعرے لگائے۔ سکھ اپنے مذہب کی بے حرمتی ، کشمیری کشمیر پر غاصبانہ قبضے اور مظالم ، نیپالی بھارتی محاصرے کے خاتمہ کے لئے ، جبکہ پاکستانی بھارت میں مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جانے والے متعصبانہ رویہ کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ لندن کے علاوہ برطانیہ کے کئی شہروں میں مودی سرکار اور بھارت اقلیتوں کے خلاف کئے جانے والے ظلم و ستم کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے ۔ لندن میں کئے جانے والے احتجاج کے باعث اکثر سڑکیں بند ہو گئیں ۔ مودی کے ساتھ ساتھ مظاہرین نے برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو بھی نہ بخشا اور انکے خلاف بھی نعرہ بازی کی لیکن اردو کا محاورہ ہے کہ ـــ’’ بندہ ڈھیٹ ہو شرم آنے جانے والی چیز ہے‘‘۔

عوامی شدید رد عمل کے باوجود مودی اور ڈیوڈ کیمرون عوام کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے رہے۔بر طانوی رکن پارلیمینٹ لارڈ نزیر نے بھی احتجاج میں حصہ لیا۔جبکہ برطانوی حکومت کا کوئی وزیر بھی استقبال کے لئے نہ آیا۔ مودی کا حالیہ دورہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ مودی کے برطانیہ دورہ کے دوران حالت ولن اور ہیرو جیسی ہے انکا استقبال اور انکے خلاف مظاہرے دونوں ہو رہے ہیں ۔ برطانوی اخبار گارڈین نے بر طانوی محکمہ تعلیم کے پروفیسر کا ایک خط شائع کیا جس میں انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مودی کا استقبال برطانیہ میں نہ کیا جائے کیونکہ وہ بھارت میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں اور سینکڑوں مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے قتل میں ملوث ہے۔ یاد رہے کہ برطانیہ نے مودی پر گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد 3سال کے لئے پابندی لگا دی تھی۔ لیکن مغربی قوتیں اپنے مفادات کی خاطر دوغلے پن کا شکار ہیں۔ مودی کے دورہ برطانیہ کے دوران وزیر اعظم دیوڈ کیمرون سے گارجین اخبار کے صحافی نے سوال کیا کہ انکے پچھلے دو سال کے دوران مودی برطانیہ میں مدعو ہی نہیں تھے اب انکے استقبال کے بعد آپ کیا سوچتے ہیں۔؟ تو برطانوی وزیر اعظم کا جواب تھا کہ انکا ملک اب مستقبل کی طرف دیکھ رہا ہے مجھے انکے استقبال میں خوشی ہو رہی ہے۔ بھارت میں قانون گجرات واقعہ کے خلاف اپنا کام کر چکا ہے۔اب ہم مستقبل کے بارے میں خیال کر رہے ہیں۔ جبکہ مشترکہ کانفرس کے دوران وزیر اعظم نریند مودی سے بھی ایک صحافی نے دادری اور گجرات واقعات کے بارے میں سوال کیا انکا جواب تھا کہ ہمارے لئے ایک دو واقعات اہم نہیں ہیں ہمارے لئے ہر واقعہ اہم ہے ۔ مودی سرکار کی مثال ہنوز ولی دور است والی ہے۔انہوں نے جو رویہ بھارت میں بسنے والی 45کروڑ اقلیتوں کے خلاف اپنا رکھا ہے۔ اسکا رزلٹ انہوں نے بہار کے الیکشن میں بری طرح پٹنے کے بعد دیکھ لیا ہے۔ بھارتی دانشور، فنکار، ریٹائرڈ آرمی و دیگر افسران اسکی دہائی دے رہے ہیں۔لیکن میں نہ مانوں کے مصداق مودی سرکار ، BJP، شیو سینا کی انتہا پسندی عروج پر ہے۔ جسکے بعد بھارت کی اپنی سالمیت خطرے میں ہے۔ بھارتی خفیہ اداروں کی اپنی رپورٹ کے مطابق مذہبی انتہا پسندی کے باعث بھارت کو باہر کی بجائے اندرونی عناصر کے خطرات لاحق ہیں۔خفیہ اداروں نے وزارت داخلہ کو بھیجے گئے ایک نوٹس میں کہا ہے کہ BJP کی جانب سے 45 کروڑ اقلیتوں کو نظر انداز کیا جانا بھارتی سالمیت کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندو انتہا پسند وں کی پالیسیاں ، اقدامات اقلیتوں کو بھڑ کانے کا باعث ہے۔جسکا نتیجہ آنے والے وقت میں بھارت کے ٹکڑے کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ بھارتی مسلمان دانشوروں نے بھی بھارت میں پھیلنے والی نفرت کو لمحہ فکریہ قرار دیا ہے۔ انکے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی آمد کے باعث جس مشترکہ تہذیب نے جنم لیا اس میں مذہبی رواداری، بھائی چارہ ، محبت ، اخوت ، مساوات کے ساتھ ساتھ کھانے پینے اور رہنے سہنے کے آداب میں بھی تبدیلی آئی۔ مسلمان بادشاہوں نے جس مذہبی رواداری کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آپ ہیں۔بابر سے لے کر اورنگ زیب عالمگیر تک حکمرانوں نے غیر مسلم رعایا کیساتھ انصاف اور رواداری کا معاملہ کیا ہمایوں نے راکھی کے تقدس کی ایسی تاریخ لکھی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ عدل جہانگیر کو کون نہیں جانتا۔ شاہجہان نے ہندوستان کو جو طرز تعمیر دیا وہ ہماری دنیا بھر میں شاخت بنا۔ اردو زبان مشترکہ زبان کے طور پر پیدا ہوئی ، جوان ہوئی اور اب ضعیفی کا شکار ہے۔ ہندوستان میں اقلیتوں خصوصاً 25کروڑ مسلمان کے خلاف ایک طرف ظلم و بربریت کی بد ترین مثال دیکھنے کو ملتی تو اسکے بر عکس وزیر اعظم نواز شریف کا یہ بیان ہندوستانی اخبارات کی شہ سرخیوں میں تھا کہ جسمیں انہوں نے کراچی میں ہونے والی دیوالی ی تقریب میں ہندؤں سے خطاب میں کہا کہ اگر کوئی مسلمان پاکستان میں ہندو پر ظلم کرے گا تو میں ہندو کا ساتھ دوں گا۔پاکستان کے کسی بھی وزیر اعظم کی ہندؤں کی تقریب دیوالی میں پہلی شرکت تھی۔ جسے صوبہ ہندو میں ہندوؤں کی نمایا ں شخصیت مکھی ایشور نے خوش آئند قرار دیا ۔

اگر ہم پاکستان کا مقابلہ اقلیتوں سے سلوک کے سلسلے میں بھارت سے کریں تو ہمارے ہاں صور تحال بد ر جہاں بہتر ہے۔ انفرادی طور پر اکا دکا واقعات کبھی کبھار ہو جاتے ہیں لیکن عوامی اور حکومتی سطح پر اقلیتوں کو مکمل مذہبی ، معاشی آزادی حاصل ہے۔ الٹا انکا کوٹہ سرکاری ملازموں میں موجود ہے بڑے بڑے عہدوں پر اقلیتی فائز ہیں۔ تعلیم کے معاملے پر ان پر کوئی قد فن نہیں کاروبار کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ سب سے بڑی بات مذہبی آزادی کی ہے جو بھارت کے مسلمانوں دیگر اقلیتوں کے لئے 1947 سے دور سر ہے۔ جسکا نتیجہ بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ جس کے اثرات تمام خطے پہ پڑیں گے۔ ہمیں ایسے خطرات سے بچنے کے لئے مذہبی رواداری ، بھائی چارہ ، اتحاد و یگانگت ، اخوت ، انصاف ، عفو و درگزر کو مزید پروان چڑھانا ہوگا۔
Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 138022 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.