بنگلا دیش میں متحدہ پاکستان کے حامیوں کے خلاف حسینہ واجد کی انتقامی
کارروائیوں کا سلسلہ دراز تر ہوتا جارہا ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت نے71ءکی
جنگ میں پاکستان توڑنے پر منتج ہونے والی تحریک مکتی باہنی کی مزاحمت کرنے
والے اس وقت کے پاکستانی بنگالی سیاسی قائدین اور کارکنوں کے خلاف 45 سال
قبل کے اس واقعہ کی بنیاد پر غداری کے مقدمات چلانے اور ان مقدمات میں
سزائے موت دینے کا سلسلہ گزشتہ سال سے شروع کر رکھا ہے۔ اسی ”جرم“ میں
بنگلا دیش کی حکومت نے بنگلا دیش کے دو بزرگ اپوزیشن رہنماﺅں علی حسن مجاہد
سیکرٹری جماعت اسلامی بنگلا دیش اور صلاح الدین قادر قائد نیشنل پارٹی
بنگلا دیش کو تختہ دار پر چڑھا دیا اور یوں بنگلا دیشن میں شہادت کے منصب
پر فائز ہونے والے اکابرین کی تعداد 9 ہوگئی ہے، جن میں جماعت اسلامی کے
زعما بطور خاص قابل ذکر ہیں، جنہوں نے پاکستان کو توڑنے کی کوششوں کی بطور
محب وطن سیاسی رہنما مزاحمت کی۔ بھارتی شہہ پر حسینہ واجد کی حکومت میں
بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کے معمر سربراہ غلام اعظم کو بھی نہ بخشا گیا،
ان پر جنگی جرائم کے الزامات عاید کر کے انہیں 90 برس قید کی سزا سنائی
گئی۔ دسمبر 2013ءکو جماعت اسلامی کے اہم رہنما عبدالقادر ملا کو بھی پھانسی
دے دی گئی۔ نومبر 2014ءمیں جماعت اسلامی کے سینئر رہنما میر قاسم علی کو
بھی سزائے موت سنائی گئی۔ اپریل 2015ءمیں جماعت اسلامی بنگلا دیش کے نائب
سیکرٹری قمر الزمان کو ڈھاکا میں پھانسی دے دی گئی، ان پر بھی 1971ءکی نام
نہاد جنگ آزادی میں جنگی جرائم میں مرتکب ہونے کا الزام تھا، جبکہ مطیع
الرحمن نظامی کو بھی بنگلا دیشی ٹربیونل کی جانب سے سزائے موت مل چکی ہے
اور ان کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ جبکہ اس وقت جماعت اسلامی
بنگلا دیش کے عہدیداران میرقاسم علی، مولانا عبدالسبحان اور اظہار الاسلام
سمیت 30 ہزار کے قریب اپوزیشن کے سیاست دان اور کارکنان پاکستان کے ساتھ
وفاداری کے جرم میں جیلوں میں پڑے اپنے خلاف مقدمات بھگت رہے ہیں۔ اس طرح
گزشتہ ایک سال سے بنگلا دیش میں ایک ایسے جرم میں حکومت کے مخالفین کی
گرفتاریوں اور انہیں موت کی سزائیں دینے کا سلسلہ جاری ہے، جو وقوعہ کے وقت
جرم میں شمار ہی نہیں ہوتا تھا۔
بنگلا دیشی حکومت نے اس انتقام کو قانونی جواز فراہم کرنے کی خاطر ایک نام
نہاد ”انٹرنیشنل وار کرائمز ٹربیونل“ کا ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ اس ٹربیونل کی
تمام کارروائی بین الاقوامی قانونی ضابطوں اور انصاف کے تقاضوں کو پامال
کرکے چلائی جارہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی متعدد بین
الاقوامی تنظیمیں اس ٹربیونل کی تشکیل، ساخت اور طریقِ کار کو ہدفِ تنقید
بنا چکی ہیں۔ یہ تمام کارروائی بنیادی طور پر پاکستان کے ازلی دشمن بھارت
کی ایما پر ہورہی ہے، جو 1971ءمیں مشرقی پاکستان کے خلاف اپنی جارحیت کی
مزاحمت کرنے والے پاکستانیوں کو نشانِ عبرت بنانے پر ت ±لا ہوا ہے۔ بنگلا
دیش کی موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے احکامات پر قائم کیے گئے
ٹربیونلز کا مقصد 1971ءکی بنگلا دیش کی نام نہاد جنگ آزادی کے دوران ہونے
والے جنگی جرائم کا جائزہ لینا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ واجد
پاکستان کے بارے میں انتہائی متعصبانہ رویے کا اظہار کرتی چلی آ رہی ہیں
اور نام نہاد عدالتوں کے ذریعے 1971ءمیں پاکستان سے وفاداری نبھاتے ہوئے
وطن کی حفاظت کرنے والوں کو تختہ دار پر لٹکا رہی ہیں۔
بنگلادیش میں پاکستان سے محبت کے ”جرم“ میں بھارتی ایما پر دو رہنماﺅں کو
تختہ دار پر چڑھائے جانے پر وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے کہا کہ
میں انتہائی رنجیدہ ہوں کہ ہم ان لوگوں کے لیے کچھ نہ کر سکے جن کا قصور
صرف اتنا ہے کہ انہوں نے آج سے 45 سال قبل اپنے وطن پاکستان سے وفاداری
نبھائی اور اس وقت کی آئینی اور قانونی حکومت کا ساتھ دیا۔ ان کا کہنا تھا
کہ بنگلا دیش میں انسانوں کا قتل عام ہو رہا ہے، مگر انسانی حقوق کے بین
الاقوامی ادارے اس قتل عام پر خاموش ہیں۔ بنگلا دیش میں انسانیت کے قتل اور
پاکستانیت سے انتقام کی آگ کو اب ٹھنڈا ہو جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ
بنگلا دیش میں ایک گروہ دونوں ممالک کے عوام میں بھائی چارے کی فضا بحال
ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ ہمیں اندازہ ہے کہ اس گروہ کے پیچھے کون ہے اور
1970-71 کے واقعات کے پیچھے اس کا کیا کردار تھا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے وہ محسوس کرتے ہیں کہ جو کچھ
بنگلا دیش میں ہورہا ہے، وہ اخلاقیات، بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق
کی پامالی ہے۔ میں حیران ہوں کہ دنیا اور بالخصوص بین الاقوامی انسانی حقوق
کے ادارے انصاف کے اس قتل پر خاموش کیوں ہیں؟۔ دوسری جانب دفتر خارجہ
پاکستان نے بنگلا دیش میں معمر بنگالی سیاسی رہنماﺅں کو پھانسی دیے جانے پر
شدید دکھ اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بنگلا دیش سے ماضی کو بھول کر آگے
بڑھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ڈھاکہ میں پاکستانی ہائی کمشنر نے گزشتہ روز
ان پھانسیوں پر بنگلا دیش حکومت کو پاکستان کا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا، جس
پر بنگلا دیش نے پاکستان پر الزام عاید کیا کہ وہ 1971ءکے جنگی جرائم میں
ملوث دو اپوزیشن رہنماو ¿ں کی پھانسیوں پر تنقید کر کے اس کے داخلی معاملات
میں مداخلت کر رہا ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ 9اپریل 1974ءکو پاکستان اور بنگلا دیش کے مابین ایک
معاہدہ طے ہوا تھا جس کے تحت سقوط ڈھاکا کے بعد پاکستان کی سلامتی کے لیے
مکتی باہنی کے خلاف جنگ لڑنے والے اس وقت کے بنگلا دیشی پاکستانیوں کے خلاف
بنگلا دیشی حکومت کی جانب سے درج کیے گئے غداری کے مقدمات ختم کرنے پر شیخ
مجیب الرحمن کی جانب سے رضامندی کا اظہار کیا گیا تھا۔ یہ مقدمات 45 سال تک
سرد خانے میں پڑے رہے اور اس دوران بنگلا دیش میں حکومتوں کی تبدیلی کا
سلسلہ جاری رہا، لیکن حسینہ واجد نے بنگلا دیشن میں اقتدار میں آکر بنگلا
دیش میں ”پاکستانیت“ کو ختم کرنے کے لیے وہ کھیل کھیلنا شروع کردیا ہے، جو
پاکستان کی سالمیت کے درپے بھارت کا مطمع نظر ہے۔ غداری کے مقدمات کا جو
معاملہ حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمن نے خود حکومت پاکستان کے ساتھ
باضابطہ معاہدہ کرکے طے کردیا تھا، اسے حسینہ واجد اب گڑھے مردے کی طرح
اکھاڑ کر زندہ کررہی ہیں۔ مبصرین کے مطابق اس سارے معاملے کے پس پردہ
محرکات میں بھارتی ہاتھ کار فرما ہے۔ بھارت بنگلا دیش کو عملاً اپنی کالونی
بنا چکا ہے اور حسینہ واجد نے بنگلا دیش کی خودمختاری بھارت سرکار کے پاس
گروی رکھ دی ہے۔ شیخ حسینہ واجد بھارت کے ساتھ ہمدردی اور دوستی کا اظہار
کرتی رہتی ہیں۔ گزشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 1971میں پاکستان
کو توڑنے میں کردار ادا کرنے کا اعتراف کیا تو خوش ہو کر شیخ حسینہ واجد نے
نریندر مودی کو اعلیٰ اعزاز سے نوازا تھا۔
دوسری جانب بنگلا دیش میں دو محب پاکستان رہنماﺅں کو تختہ دار پر لٹکائے
جانے پر چند کے سوا پاکستان کی تمام قومی اور بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین
کی زبانیں گنگ ہوگئی ہیں اور انسانی حقوق کے نام پر پیسے بٹورنے والی والی
این جی اوز کی زبانوں پر بھی آبلے پڑ گئے ہیں، دوسری جانب عالمی برادری،
اقوام متحدہ اور امن کی علمبردار این جی اوز اندھی، گونگی اور بہری ہوچکی
ہیں۔ بنگلا دیش حکومت کی اس جابرانہ، متعصبانہ پالیسی کے خلاف انسانی حقوق
کی خلاف ورزیوں کے ناطے بھی دنیا میں کہیں سے کوئی آواز بلند نہ ہوئی۔ حد
تو یہ ہے کہ بنگلا دیش کے جو باشندے حسینہ واجد کی حکومت کے ہاتھوں اپنی
پاکستانیت کی سزا بھگت رہے ہیں، ان کی لیے پاکستان کی جانب سے بھی حکومت کی
سطح پر کسی عالمی فورم پر کوئی آواز نہ اٹھائی گئی۔ اگر پاکستان کی جانب سے
بنگلا دیش میں 45 سال قبل کے مقدمات کے ٹرائل شروع ہوتے ہی احتجاج کا سلسلہ
شروع ہو جاتا اور حکومت اقوام متحدہ، او آئی سی، سارک تنظیم اور دوسرے
عالمی و علاقائی تعاون کے اداروں سے رجوع کرلیتی تو شاید بنگلا دیش حکومت
پر عالمی دباﺅ پڑنے سے وہاں اپوزیشن لیڈروں کو تختہ دار تک لے جانے کی نوبت
ہی نہ آتی۔ |