باراک اوباما کامسلمانوں کے بارے میں موقف اورمسلمانوں سے مغربی ممالک کاسلوک

ملائشیامیں جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم آسیان کی کانفرنس سے خطاب اورمیڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے امریکی صدرباراک اوباما نے کہا ہے کہ داعش کاخاتمہ امریکہ کاحقیقی ہدف ہے اوروہ ایسا کرکے چھوڑے گا۔ اس سے پہلے طالبان اورالقاعدہ کاخاتمہ امریکہ کاہدف تھا۔امریکہ اپنے اس سابقہ ہدف میں کہاں تک کامیاب ہوا ہے دنیا بخوبی جانتی بھی ہے اورسمجھتی بھی ہے۔عالمی برادری کوداعش کے خلاف متحدہوکرکارروائی کرنی چاہیے۔امریکی صدرنے واضح کیا ہماری جنگ کسی مذہب سے نہیں ہے تمام مسلمان نہیں ایک چھوٹا سا گروہ دہشت گردہے مٹھی بھر دہشت گرد پوری دنیا کویرغمال نہیں بناسکتے۔امریکی صدرباراک اوباما نے یہ جوکہا ہے کہ تمام مسلمان نہیں ایک چھوٹاسا گروہ دہشت گرد ہے۔اس ایک جملہ میں وہ مسلمانوں کے دہشت گردہونے کے امریکی موقف پرقائم ہونے کااعلان بھی کررہے ہیں اورمسلمانوں کے دہشت گردنہ ہونے کااعتراف بھی کررہے ہیں۔انہوں نے تمام مسلمان نہیں ایک چھوٹا سا گروہ دہشت گردہے کہہ کردہشت گردی کالیبل پھربھی مسلمانوں پرلگادیا ہے۔انہوں نے مسلمانوں کے گروہ کوہی دہشت گردکہا ہے۔ان کایہ کہنا بھی غلط ہے کہ ان کی جنگ کسی مذہب کے خلاف نہیں۔زبان سے تو وہ کہہ رہے ہیں کہ تمام مسلمان دہشت گردنہیں ان کی پالیسیاں مسلمانوں کے ساتھ ان کے رویے یہ ثابت کرتے ہیں کہ امریکہ سمیت عالمی طاقتیں اوراکثرغیرمسلم ممالک مسلمانوں کوہی دہشت گردسمجھتے ہیں۔نائن الیون اوراب پیرس میں دہشت گردوں کے حملوں کے بعد جس طرح مسلمانوں کونشانے پرلیا گیا اس سے توواضح ہوتاہے کہ امریکہ اوراس کے اتحادی ممالک مسلمانوں کوہی دہشت گردسمجھتے ہیں۔پیرس حملوں کے بعد امریکہ کی ۳۲ ریاستوں نے شامی پناہ گزینوں کوپناہ دینے سے انکارکردیا ہے۔ان ریاستوں کے گورنروں نے کہا ہے کہ پیرس حملوں میں مبینہ طورپرشامی لوگ ملوث ہیں دہشت گردی کے پیش نظرپناہ گزینوں کواپنی ریاستوں میں جگہ نہیں دے سکتے۔حالانکہ پیرس حملوں کے بعد اخباری رپورٹوں کے مطابق اب تک جتنے بھی دہشت گردوں کی شناخت ہوئی ہے ان میں سے ایک بھی شام کاباشندہ نہیں۔شناخت شدہ دہشت گردتوخود پیرس اوربیلجیئم کے بتائے گئے ہیں۔ایک قومی اخبارمیں پیرس سے خبر ہے کہ پیرس حملے کے تناظرمیں کینیڈا کے سکھ کی تصویرکوڈیجیٹل تبدیل کرکے ایک مسلمان خودکش بمباربناکرسوشل میڈیا کے ذریعے دنیابھرمیں پھیلادیا گیا ۔تبدیل شدہ تصویرخود کش جیکٹ پہنے اورہاتھ میں قرآن تھامے ہوئے ہے۔اس تصویرکواسپین کے سب سے بڑے روزنامے اوراوراٹلی کے دواخباروں نے صفحہ اول پرشائع کیا۔اٹلی کے ایک ٹی وی نے اس تصویرکونشرکیاٹوئٹر پربیس لاکھ سے زیادہ اس امیج کوپوسٹ کیا گیا بھارتی اخبارہندوستان ٹائمز کے مطابق کینیڈا کے ایک سکھ کی تصویرکوڈیجیٹل اندازمیں تبدیل کرکے سوشل میڈیا پرپیرس کے حملہ آوروں میں سے ایک ظاہرکرکے دنیا بھرکی نفرت اس کے حصے میں ڈال دی۔تصویرنے سوشل میڈیاپرطوفان کھڑاکردیاکہ پیرس حملوں میں ملوث خودکش بمباروں میں سے ایک ہے۔ہفتہ واربریفنگ کے کے دوران ترجمان دفترخارجہ قاضی خلیل اللہ نے کہا ہے کہ ملک میں ہرقسم کی دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب اورنیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائی کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلام امن وسلامتی کادین ہے جبکہ دہشت گردی کوکسی مذہب کے ساتھ نہیں جوڑاجاسکتا۔ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ داعش کے خلاف عالمی کوششوں میں پیرس حملوں کے بعد تیزی آئی۔پیرس حملوں کے نتیجے میں کسی پاکستانی کوگرفتارنہیں کیاگیاجبکہ ہم اسلام مخالف جذبات کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ایک اورقومی اخبارمیں پیرس سے ہی خبر ہے کہ پیرس میں دہشت گردی کے بعدلوگوں میں پھراسلام مخالف جذبات ابھرآئے۔امریکہ میں بھی مسلم شہریوں کونفرت انگیزواقعات کاسامناکرنا پڑرہا ہے۔فرانس کاتھرٹین الیون امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے نائن الیون جیسا بن کرسامنے آیا ہے۔پیرس میں دہشت گردی پرساری مسلم دنیا کی مذمت اپنی جگہ آج بھرمغرب میں مسلمان شہریوں کوشک وشبہ کی نظرسے دیکھاجارہا ہے ۔امریکہ میں بھی اسلام کے خلاف جذبات ابھرآئے ہیں۔شامی نژاداوبیدکائفوپناہ گزینوں کوامریکی شہرڈینورمیں بسانے کے لیے کوششیں کررہے تھے مگراب یہ کام ناممکن ہوتاجارہا ہے۔عمل کسیربھی شامی نژادامریکی ہیں۔انہیں بھی اب اپنے حلیے کی وجہ سے خوف محسوس ہوتا ہے۔لوگ ان پرطرح طرح کے جملے کستے بھی ہیں۔پیرس حملوں کے بعد امریکہ میں قرآن پاک کی بے حرمتی سمیت دیگراسلام مخالف واقعات سامنے آچکے ہیں۔جبکہ مسلمان شہری بھی خوف اوردباؤ کاشکارہیں۔مساجد بندکرنے کے اعلانات بھی ہوچکے ہیں۔داڑھی کودہشت گردی کی علامت بنادیا گیا ہے۔پاکستان سے مغربی ممالک میں جانے والوں کے جوتوں کی تلاشی بھی لی جاتی رہی ہے۔توہین آمیزخاکے شائع کرکے اورقرآن پاک کی بے حرمتی کرکے مسلمانوں کے جذبات کوبھڑکایا جاتا ہے اوراس پرمزیدستم یہ کہ اس سب گھناؤنے فعل کوآزادی ء اظہارکانام دے دیا جاتا ہے۔اشتعال انگیزی بھی کسی جرم سے کم نہیں۔مسلمانوں کے مذہبی سیاسی راہنماؤں کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ اپنی تقریروں میں لوگوں کواشتعال دلاتے ہیں جس سے مشتعل ہوکرکچھ لوگ دہشت گردی کرتے ہیں ۔ مغربی ممالک میں بھی توہین آمیزخاکے شائع کرکے ، قرآن پاک کی بے حرمتی کرکے اورشعائر اسلام کامذاق اڑاکربھی مسلمانوں کواشتعال دلایا جاتا ہے اس لیے مغربی ممالک بھی اشتعال انگیزی کرکے خود ہی دہشت گردی کوفروغ دے رہے ہیں۔یورپ کے قلب میں مسلمانوں کے زریں عہدحکومت کی یادگارجامع مسجدقرطبہ کوکلیسائے روم ویٹی کن کے دباؤپرگرجاگھرمیں تبدیل کرنے کی کوششیں عرو ج پرپہنچ گئیں۔سپین کی عیسائی حکومت نے تاریخی جامع مسجد قرطبہ کے مینارپرکلیسائی گھنٹیاں نصب کردی ہیں۔نمازاوراذان پرپابندی عائدکردی گئی ہے۔کچھ دن بعد اس مسجدکومکمل طورپرکلیسامیں تبدیل کرکے یہاں عیسائیوں کی عبادات شروع کردی جائیں گی۔دوسری جانب اسپینش حکومت کے اس اقدام نے مقامی اوردنیابھرکے مسلمانوں کوشدیدتشویش میں مبتلاکردیا ہے۔اگرچہ اس پینی مسلمانوں کی تنظیم نے ۰۸۹۱ء میں اس وقت کے کلیسائی پیشوا پوپ جان پال دوم اور۴۰۰۲ء میں پوپ بینی ڈکٹ کومتعدد تحریری درخواستیں دیں تھیں کہ اس تاریخی مسجدمیں مقامی مسلمانوں کونمازپنجگانہ کی اجازت دی جائے لیکن رواداری وتحمل وانصاف کے علمبرداردونوں عیسائی پیشواؤں نے ان درخواستوں کومسترکردیا تھا۔ایک قومی اخبارمیں برسلزسے خبر ہے کہ برطانوی میڈیا کے مطابق پیرس کے بعد بیلجیئم کے دارالحکومت برسلزمیں دہشت گردی کے خدشات کے باعث سیکیورٹی انتہائی سخت ہے شہرکی سڑکوں پرفوج کے دستے گشت کررہے ہیں اورمبینہ دہشت گردکی تلاش شروع کردی گئی ہے۔بیلجیئم کے انسداددہشت گردی یونٹ نے برسلزکے نواحی علاقے کے ایک پٹرول پمپس پرموجودایمبولینسوں میں موجود۶ افرادکوحراست میں لے کرانہیں متعلقہ پولیس اسٹیشن منتقل کیا گیا جہاں ان کے فنگر پرنٹس لیے گئے جس سے پتہ چلاکہ حراست میں لیے گئے۶ افرادپاکستانی نژادبرطانوی شہری ہیں۔پولیس کے مطابق حراست میں لیے گئے افرادمقامی زبان نہیں جانتے لیکن اس کے باوجودوہ ان سے مکمل تعاون کررہے ہیں۔دوسری جانب وسط امریکی ملک ہونڈراس کی سرحدپرتعینات سیکیورٹی حکام نے ملک میں داخل ہونے والے تین افرادکوحراست میں لے لیامقامی حکام کاکہنا ہے کہ تینوں افرادقانونی دستاویزات کے بغیرملک میں داخل ہوئے تھے ۔گرفتارکیے گئے افرادمیں سے دوپاکستانی شہریت کے حامل ہیں۔جبکہ ایک شامی ہے۔جنوبی کیرولائنامیں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ڈیموکریٹک صدارتی امیدوارہلیری کلنٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس مطالبے کی سختی سے مخالفت کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پیرس حملے کے بعد پیداہونے والی صورت حال کے پیش نظرامریکہ میں مسلمانوں کاڈیٹا بیس بناناچاہیے تاکہ مسلمانوں کی سرگرمیوں پرنظررکھی جاسکے۔انہوں نے کہا اس طرح کے فیصلوں سے یہ تاثرجائے گاکہ امریکہ یہاں بسنے والے مسلمانوں کوتنہاکرناچاہتا ہے۔یاپھروہ اسلام مخالف ہے۔مندرجہ بالاتما م خبروں اوررپورٹوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کوہی دہشت گردسمجھا جاتا ہے۔امریکی صدرباراک اوباما واقعی تمام مسلمانوں کودہشت گردنہیں سمجھتے توانہیں اب ایسے اقدام کرناہوں گے جس سے یہ ثابت ہوکہ امریکہ تمام مسلمانوں کودہشت گردنہیں سمجھتا۔اب امریکہ میں مسلمانوں کوشک کی نظروں سے نہ دیکھا جائے اوران کے ساتھ امتیازی سلوک بھی نہ کیاجائے۔سیکیورٹی کے پیش نظراگرباہرسے آنے والوں کی تلاشی لینا ضروری ہے تو صرف مسلمانوں کی ہی تلاشی نہ لی جائے بلکہ تمام مذاہب سے وابستہ لوگوں کی لی جائے۔ان کاکہنا تھا کہ داعش کومالی معاونت کی فراہمی ہرصورت روکناہوگی۔دہشت گردوں کی مالی معاونت ختم کرنے کے لیے سعودی عرب بھی تعاون کررہا ہے۔براک اوباماکاکہنا تھا کہ داعش سربراہ ابوبکرالبغدادی جہاں بھی ہواسے ڈھونڈ نکالیں گے اوردہشت گردتنظیم کے خوف کوجڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔داعش کوتباہ کرنا ہماراحقیقی مقصد ہے۔داعش کے خلاف جنگ میں سوسے زائدممالک حصہ لے رہے ہیں داعش کوختم کرکے دم لیں گے۔دہشت گردوں سے جنگ کسی مذہب کے خلاف نہیں ۔دہشت گردی کرنے والے مٹھی بھرلوگ ہیں دہشت گردی کے جواب میں انسانی حقوق کونظراندازکرنایاکسی سے تعصب برتنا داعش کی کامیابی ہوگی۔صدرباراک اوباما نے کہا ہم وہ زمین ان سے واپس لے لیں گے جس پروہ اس وقت قابض ہیں۔ہم ان کے پیسہ حاصل کرنے کے ذریعے کوکاٹ دیں گے۔ہم ان کی لیڈرشپ کوپکڑیں گے۔ہم ان کے نیٹ ورک اورسپلائی لائن کوتباہ کردیں گے۔ان کاکہنا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گردوں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتیں گے۔امریکی صدرنے پیرس حملوں کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہوٹلوں، تھیٹرز اورریستورانوں پرہونے والے حملوں کوبرداشت نہیں کیاجائے گا۔یہاں پراوباما تمام مسلمانوں کے دہشت گردنہ ہونے کے اپنے بیان کی نفی کررہے ہیں۔اگروہ اس بات میں سچے ہوتے تویہ بھی کہتے کہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں پرہونے والے حملوں کوبھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔اندلس میں مسجدقرطبہ کوچرچ میں تبدیل کیاجا رہا ہے مسلمانوں کی نمازپڑھنے کی درخواستوں کوبھی مستردکیاجاچکا ہے وہاں بھی پیرس کی طرح حملہ ہوجائے توالزام پھربھی مسلمانوں کی طرف جائے گا۔یہ کوئی نہ دیکھے گا کہ اس کے اصل ذمہ دارکون ہیں۔اوباما تمام مسلمانوں کوواقعی دہشت گردنہیں سمجھتے توانہیں مسجدقرطبہ کی چرچ میں تبدیلی کی بھی مخالفت بھی کرنی چاہیے اوراس تاریخی مسجد کی بحالی میں بھی اپناکرداراداکرناچاہیے۔لیکن ایسا نہ انہوں نے کیا ہے اورنہ ہی کریں گے کیونکہ وہ کوئی ایسا کام کرناہی نہیں چاہتے جس سے مسلمانوں کوکوئی فائدہ ہو۔تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں کی بات بھی انہوں نے اپنے کسی فائدے یااس لیے کی ہوگی کہ کہیں مسلمان زیادہ چوکس نہ ہوجائیں اورہم ان کے خلاف جوکرنا چاہتے ہیں وہ آسانی اورچپکے سے کرگزریں۔

تمام مسلمان نہیں ایک گروہ دہشت گردی میں ملوث ہے۔ہمارے بعض دانشور، تجزیہ نگاراورتبصرہ نگاراوباما کے اس بیان کو اس طرح سمجھ رہے ہوں گے کہ اوباما نے اب اعتراف کرلیا ہے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں۔حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ امریکی صدرکے اس جملہ کوآسان لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ انہوں نے کہاہے تمام مسلمان دہشت گردنہیں تاہم مسلمان ہی دہشت گرد ہیں۔تمام مسلمان دہشت گرد نہیں کہہ کراوباما نے مسلمانوں اوران کے دشمنوں دونوں کوایک ہی جملہ میں یہ باورکرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ان کے حق میں ہیں۔مسلمانوں کواب بھی امریکہ کی باتوں میں نہیں آناچاہیے ۔ اوباما نے کہا ہے کہ ایک گروہ دہشت گردی میں ملوث ہے۔ اس جملہ میں انہوں نے داعش کوایک گروہ کہا ہے حالانکہ وہ طالبان ، القاعدہ اوردیگر تنظیموں کوبھی دہشت گردقراردے چکے ہیں۔ایک گروہ کی بات کرکے انہوں نے مبہم اندازمیں بات کی ہے۔اس میںیاتووہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سے پہلے جتنے گروہ دہشت گردی کررہے تھے اب وہ امن پسندہوگئے ہیں انہوں نے دہشت گردی کی کارروائیاں بندکردی ہیں۔یاوہ یہ بتا رہے ہیں کہ دہشت گرد گروہ ایک ہی ہے کبھی وہ طالبان یاالقاعدہ کے نام سے دہشت گردی کرتا ہے اورکبھی داعش کے نام سے۔ مسلمان ممالک کے سربراہوں،مذہبی اورسیاسی راہنماؤں نے پیرس حملوں کی مذمت کی ہے اورمسلمانوں کے تمام مسالک داعش کومسلمانوں کی تنظیم نہیں سمجھتے اور اسے خارج از اسلام قراردیتے ہیں۔اس کے باوجودبھی مسلمانوں کوہی دہشت گردسمجھا جا رہا ہے اوران کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔اوباما اپنی بات میں سچے ہیں تووہ امریکی پالیسیوں میں ایسی تبدیلی کریں جس سے یہ ثابت ہوکہ وہ واقعی تمام مسلمانوں کودہشت گردنہیں سمجھتے۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350719 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.