کتناعجیب سیاسی سفر، کہاں مینارِپاکستان پر اکتوبر 2011ء کے جلسے کی
بلندی اورکہاں بلدیاتی انتخابات میں ذلت آمیزپستی ۔ہمیں اکتوبر 2011ء کے
بعدکاوہ ماحول بھی اَزبَر جب گھرگھر میں کپتان کے چرچے۔ تب لوگ کہتے تھے کہ
ہرگھر سے بھٹوتو نہیں نکلا لیکن ’’سونامیہ‘‘ ضرورنکلتا ہے۔ کپتان صاحب کی
شخصیت کاجادو سَرچڑھ کر بول رہاتھا اورپاکستان میں سوائے تحریکِ انصاف کے
اورکوئی سیاسی جماعت نظرہی نہیں آتی تھی ۔پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کے لیے
کپتان صاحب بہت مرغوب ومحبوب اورکالم نگاردھڑا دھڑ اُن کی شان میں قصیدے
لکھ رہے تھے۔ وہ جہاں بھی جلسہ کرتے خلقِ خُدا ٹوٹ ٹوٹ پڑتی ۔۔۔۔ پھرچشمِ
فلک نے یہ عجب نظارہ بھی دیکھاکہ خاں صاحب کولاہورکے صرف ایک حلقے (122) کے
ضمنی انتخاب میں جیت کے لیے گلی گلی کی خاک چھاننی پڑی لیکن کامیابی پھربھی
مقدرنہ ٹھہری۔حقیقت یہی کہ کپتان صاحب شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کرتیزی سے
پستیوں کی جانب گامزن ہوگئے ۔ وہ غلطی پہ غلطی کرتے چلے گئے اورنوازلیگ اُن
غلطیوں سے بھرپورفائدہ اُٹھاتی رہی ۔پہلی غلطی یہ کہ اُنہوں نے نوجوان
سونامیوں سے وعدہ توصاف ستھری قیادت دینے کاکِیا لیکن اپنے گرد کرگسوں کا
انبوہِ کثیراکٹھا کربیٹھے جس سے نہ صرف سنجیدہ طبقے بلکہ ’’سونامیے‘‘ بھی
بَددِل ہوئے۔ دوسری غلطی 2013ء کے انتخابات سے پہلے ’’اِنٹراپارٹی الیکشن‘‘
جس میں کھُلم کھُلادھاندلی ہوئی اورپیسے کابے دریغ استعمال بھی ۔نتیجہ یہ
کہ تحریکِ انصاف اندرونی ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوگئی ۔تیسری غلطی ، تقریباََ
تمام سیاسی جماعتوں کے بارے میں انتہائی غیرپارلیمانی زبان کااستعمال جسے
سنجیدہ طبقوں نے شدیدنا پسندکیا ۔چوتھی اورسب سے بڑی غلطی 2013ء کے
انتخابات کوتسلیم نہ کرنااور دھاندلی کاشور مچاتے ہوئے احتجاجی سیاست کی
طرف رُخ۔ حیرت ہے کہ اُدھرقومی وبین الاقوامی سَرویز خاں صاحب کی مقبولیت
کوپستیوں کی طرف گامزن دیکھ رہے تھے لیکن پھربھی وہ پتہ نہیں کس برتے پہ
کہتے رہے کہ تحریکِ انصاف دوتہائی اکثریت حاصل کرلے گی۔ انتخابات ہوئے
اورنتیجہ سنجیدو طبقوں اور بین الاقوامی سرویزکے عین مطابق نکلااوردو تہائی
اکثریت کی دعویدار تحریکِ انصاف تیسرے نمبرپر۔
خاں صاحب کی ایک اور غلطی خیبرپختونخوا حکومت کاحصول تھا۔ اُنہوں نے
حکمرانی کے شوق میں حکومت توبنالی مگر پھراُس کی طرف مطلق توجہ نہ دی
۔اگروہ خیبرپختونخوا کواپنے دعووں کے عین مطابق ’’ماڈل صوبہ‘‘ بنانے کی تگ
ودَوکرتے توہوسکتاتھاکہ 2018ء کے انتخابات اُن کے خوابوں کی تعبیر میں ڈھل
جاتے لیکن اُنہیں تو وزیرِاعظم بننے کی جلدی ہی بہت تھی اِس لیے اُنہوں نے
احتجاجی سیاست اوردھرنوں کا راستہ اپنایاجس نے رہی سہی کسربھی نکال دی۔خاں
صاحب کوتو یقین دلایا گیاتھا کہ اُدھر خاں صاحب ڈی چوک اسلام آبادپہنچے
اوراِدھر امپائرکی انگلی کھڑی ہوئی لیکن وہ انتظار ہی کرتے رہے لیکن
’’انگلی‘‘ کھڑی نہ ہوسکی۔ بہترہوتا کہ خاں صاحب مولاناقادری کی طرح کوئی نہ
کوئی بہانہ بناکر بستربوریا لپیٹ لیتے لیکن اُن کی ضد اورہَٹ دھرمی نے
اُنہیں روکے رکھا۔ 126 روزہ دھرنے میں خاں صاحب کے حصّے میں کچھ بھی نہیں
آیا البتہ سیاسی طورپر اُنہیں بے تحاشہ نقصان ضرور پہنچا۔ یہی وجہ ہے کہ
دھرنوں کے بعدجتنے بھی ضمنی الیکشن ہوئے کسی ایک میں بھی تحریکِ انصاف سُرخ
رو نہ ہوسکی ،حتیٰ کہ اُن کی اپنی حکومت کے زیرِ انتظام ہری پورمیں ہونے
والے ضمنی انتخاب میں اُن کے اُمیدوار کو 40 ہزارسے زائد ووٹوں سے شکست
کاسامنا کرناپڑا حالانکہ عام انتخابات میں یہ فرق محض چھ ،سات سوووٹوں تک
محدودتھا۔
ویسے توتحریکِ انصاف کے لیے لال حویلی والے شیخ رشیدہی کافی تھے لیکن ہوایہ
کہ چودھری سروربھی گورنری ’’تیاگ‘‘ کرتحریکِ انصاف سے آن ملے اورستم بالائے
ستم یہ کہ اُنہیں پنجاب کاچیف آرگنائزر بھی بنادیا گیاجس کاشاہ محمودقریشی
نے بہت برامنایا اوروہ عملی طورپر ’’نُکرے‘‘ لگ گئے۔ نتیجہ سب کے سامنے کہ
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تحریکِ انصاف کوہزیمت کاسامنا
کرناپڑااوروہ تیسرے نمبرپر آئی البتہ چودھری سروربڑے فخرسے کہہ رہے تھے کہ
اُنہوں نے جو اندازہ لگایاوہ بالکل درست نکلاکیونکہ اُنہوں نے توتحریکِ
انصاف کے لیے دَس فیصد کااندازہ لگایاتھا جودرست نکلا ۔ 19 نومبرکو بلدیاتی
انتخابات کے دوسرے مرحلے پرنتیجہ پھروہی ۔اِس مرحلے پرخاں صاحب کواپنے
آبائی حلقے عیسیٰ خیل میں بھی بدترین شکست کاسامنا کرناپڑااورتحریکِ انصاف
16 میں سے 15 نشستیں ہار گئی۔ اب چودھری سرورایک دفعہ پھرکہہ رہے ہیں’’
ضابطۂ اخلاق کی دھجیاں اُڑائی گئیں ،اربوں روپے کے فنڈزسے نالیاں اور گلیاں
بن رہی ہیں اورسوئی گیس کے پائپ بچھائے جارہے ہیں۔ عوام جانتے ہیں کہ
بلدیاتی انتخابات سے حکومت تبدیل نہیں ہوتی اِس لیے بلدیاتی انتخابات حکومت
کے ہوتے ہیں‘‘۔ اِس کے باوجودبھی وہ خوش کہ تحریکِ انصاف نے پہلے مرحلے سے
زیادہ ووٹ لیے ۔اگرچودھری صاحب کی اِس بات کوتسلیم کرلیا جائے کہ بلدیاتی
انتخابات حکومت ہی کے ہوتے ہیں تو پھرسوائے حکمران جماعت کے کوئی بھی سیاسی
جماعت بلدیاتی انتخابات میں حصّہ ہی نہ لے۔ ویسے اطلاعاََ عرض ہے کہ صوبہ
سندھ میں پیپلز پارٹی بلاشرکتِ غیرے حکمران ہے لیکن پھربھی بدین (جوپیپلز
پارٹی کاگڑھ سمجھا جاتاہے) میں آصف زرداری صاحب کے سابق دوست اورموجودہ
بدترین دشمن ذوالفقار مرزانے پیپلزپارٹی کاجنازہ نکال دیا اور حیدرآباد ایم
کیوایم لے اُڑی ۔نوازلیگ کے کسی بھی نامی رہنماء نے سرے سے سندھ کارُخ ہی
نہیں کیا لیکن پھربھی اُس کے حصّے میں100 سے زائد نشستیں آئیں جبکہ بلاول
زرداری کے نئے ’’چاچا‘‘ عمران خاں سندھ میں جلسے کر کرکے تھک بلکہ ’’ہَپھ‘‘
گئے لیکن ملاکیا ؟صرف 8 نشستیں۔ تسلیم کہ حکمران جماعت کاتھوڑا بہت اثر
ضرورہوتا ہے لیکن اتنابھی نہیں جتنا چودھری صاحب بتارہے ہیں۔اگر ایساہی
ہوتا تو وفاقی وزیرسارہ افضل تارڑ کے والد افضل حسین کو شکست کاسامنا نہ
کرناپڑتا ۔
دوسرے مرحلے کے انتخابات کی ہمارے نزدیک سب سے بڑی خوبی یہ کہ پہلے مرحلے
کی طرح خونریزی دیکھنے میں نہیں آئی اوردوسری یہ کہ تحریکِ انصاف بھی
’’ٹھنڈی ٹھار‘‘ ہوکے بیٹھ رہی۔ حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب میں تو چودھری
سرورنے آسمان سرپہ اُٹھارکھا تھا کہ تحریکِ انصاف کے ووٹرزکو راتوں رات
دوسرے حلقوں میں شفٹ کردیا گیالیکن ثبوت وہ کوئی ایک بھی پیش نہ کرسکے
(اُنہوں نے اعلان کررکھا ہے کہ اگروہ ثبوت پیش نہ کرسکے توسیاست چھوڑ دیں
گے۔ پرویز رشیدصاحب اسی کوبنیاد بناکر اُن سے ایفائے عہدکا تقاضہ کررہے
ہیں)۔ اب دیکھیں بلدیاتی انتخابات میں چودھری صاحب شکست کاکیا بہانہ تراشتے
ہیں۔ |