ریاست بہار کے اسمبلی انتخاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی شرمناک
شکست کے بعد ویسے لوگوں کو جو مودی اور شاہ کی کرشمائی رہنمائی میں پورے
ملک میں اقتدار حاصل کرنے کا سہانا سپنا دیکھ رہے تھے ، ان کے سپنے بہار کی
شکست کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئے ہیں ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ
بھاجپا کے اندر ہی زبردست خلفشار مچ گیا ہے ۔ ایسے حالات میں ویسے بزرگ
بھاجپا رہنما، جنھوں نے اس پارٹی کو پورے ملک میں ایک شناخت دی تھی ، ان کی
تمام ترکوششوں کو درکنار کر انھیں حاشیہ پر ڈال دیا گیاتھا۔ ان لوگوں نے
بہار کی شکست فاش کے بعد موجودہ لیڈر شپ جو کہ ڈھائی افراد پر مشتمل ہے،پر
باغیانہ تیور دکھاتے ہوئے اپنی طویل خاموشی کو توڑی ہے اور سیدھے سیدھے
مودی اور شاہ کی لیڈر شپ کی کمیوں اور کوتاہیوں پر سوال اٹھاتے ہوئے پارٹی
کو کمزور اور بے وقعت کرنے کی ذمّہ داری قبول کرنے کو کہا ہے ۔اس کے ساتھ
ہی ساتھ بہار کی شرمناک شکست پر ان ذمّہ دار افراد کی عدم موجودگی میں غور
و فکر کرنے کے لئے جلد میٹنگ بلانے کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔ایسی سخت تنقید
کرنے اور طرح طرح کے سوالات اٹھانے والے بھاجپا کے ایسے باوقار اور بزرگ
رہنمأ ہیں کہ جن پر تادیبی کرنا تو دور ، ان کی باتوں کو نظر انداز بھی
نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اس لئے ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی، یشونت سنہا
، شانتا کمار، گووند اچاریہ، آر کے سنگھ ، ارون شوری، حکم دیو نرائن، کریا
منڈا ، بھولا سنگھ اور شتروگھن سنہا وغیرہ جیسے پرانے بی جے پی کے ان
لیڈران کے بیانات پر سخت مؤقف یا تادیبی کاروائی کی ہمت تو نہیں کر سکے ۔
لیکن دبی زبان میں صرف اتنا ضرور کہا کہ ایسے بیانات عوامی نہیں ہونا چاہئے
تھا ، بلکہ پارٹی کے اندر ہی ان مسئلوں پر بات ہونی چاہئے تھی ، جس کا جواب
بھی بہت سخت لہجے میں اڈوانی اور جوشی نے دے کر انھیں خاموش کر دیا ۔
سینئیر بھاجپا رہنما بھولا سنگھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پوری پارٹی میں
کینسر پھیل چکا ہے ، اسے نکالنا ضروری ہے ۔ اسی طرح آر کے سنگھ اور ارون
شوری نے بھی بہت سخت الفاظ میں بھاجپا کی موجودہ لیڈر شپ پر تنقید کی ہے ۔
وزیر مالیات ارون جیٹلی نے بلا شبہ مودی اور شاہ سے اپنی قربت کو نباہتے
ہوئے ان دونوں کادفاع ضرور کیا اور کہا ہے کہ بہار کی شکست کے لئے پوری
پارٹی اجتمائی طور پر ذمہّ دار ہے ۔ لیکن دوسری طرف پارٹی کے دوسرے رہنما
ؤں کا کہنا ہے کہ جب پارٹی کے چند اعلیٰ رہنمأ نے ہی بہار کے انتخاب کے
تمام فیصلے خود لئے ہیں ، تو شکست کی ذمّہ داری بھی انھیں ہی لینی چاہئے ۔
جو اصولی طور پر غلط نہیں ہے ۔ شتروگھن سنہا نے بھی بڑی دلچسپ بات کہی کہ’’
جیت پر جو لے تالی ، ہار پر وہی سنے گالی ‘‘ ۔بہار کی شکست کے بعد تو
شتروگھن سنہا ،اپنی پارٹی سے پوری طرح بغاوت پر اتر آئے ہیں اور کہہ رہے
ہیں کہ پارٹی کے اندر کسی کی اتنی ہمّت اور ایسا کوئی ڈی این اے نہیں ، جو
ان کی سرزنش کرے ۔ مدھم سُروں میں اٹھنے والی مخالفت کی آواز تیز سے تیز تر
ہوتی جا رہی ہے ۔ ان حالات میں مودی اور شاہ سے قربت رکھنے والے بھاجپا کے
موجودہ لیڈران بہت تلملائے ہوئے ہیں ۔ اندر ہی اندر چل رہا طوفان تھمنے کا
نام نہیں لے رہا ہے ۔ اپنی عادت کے مطابق ہر سنجیدہ اور سنگین معاملے میں
جس طرح نریندر مودی چپی سادھ لیتے ہیں ، وہی چپی بھاجپا کی ہونے والی
اندرونی بغاوت میں بھی وہ سادھے ہوئے ہیں ۔ وزیر داخلہ اور پارٹی کے سینیئر
رہنمأ راج ناتھ سنگھ ضرور موجودہ لیڈروں اور باغیانہ تیور اپنائے لیڈران کے
درمیان مصالحت کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان حالات میں شائد یہ کہنا غلط
نہیں ہوگا کہ دلّی کے بعد بہار کے انتخاب میں کراری شکست نے بھارتیہ جنتا
پارٹی کی الٹی گنتی شروع کر دی ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ بھاجپا اب دو حصوں میں
منقسم ہو جائے ۔ ایک طرف اڈوانی ، جوشی ، یشونت وغیرہ اور دوسری جانب مودی
، شاہ اور ارون جیٹلی اور ان کے ہمنوا ہونگے ۔ اس لئے کہ اڈوانی ، جوشی اور
شانتا کماروغیرہ کو جس طرح موجودہ لیڈروں نے ذلیل وخوار کر بالکل حاشیہ پر
ڈال دیا تھا ، وہ اب پوری طاقت سے اپنی ذلّت اور رسوایوں کا بدلہ لینے پر
آمادہ نظر آ رہے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ بھاجپا کے شکست خوردہ لوگ دلّی اور بہار میں اپنی ناقص
کارکردگی پر شرمسار ہونے اور اپنی ذلّت آمیز شکست سے سبق حاصل کرنے کی
بجائے ملک میں منافرت ، بدامنی ، فرقہ پرستی، لاقانونیت ، آئین کی پامالی
کو بڑھانے میں اب بھی کوئی کور کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں ۔یہ لوگ کرناٹک میں
شیر میسور ، عظیم مجاہد آزادی اور اپنے ملک کی خاطر انگریزوں سے لوہا لیتے
ہوئے شہید ہونے والے ٹیپو سلطان پر تاریخی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے
اپنی عدم ناواقفیت کی بنأ پر جس طرح انھیں غدار وطن بتانے کی جاہلانہ
کوششیں کی ہیں اور ٹیپو سلطان کے خلاف محاذ آرائی کر تے ہوئے ، جس طرح
کرناٹک حکومت کے ذریعہ ان کی صدی تقریبات کی مخالفت کی ہے ، وہ جنوبی ہند
کے اس عظیم محب وطن ہی کی نہیں بلکہ ایسے تمام مجاہدین اور شہیدان آزادی کی
تذلیل ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ نامور کنڑ ادیب، ڈرامہ نگار ، فلم اداکار اور
گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ فنکارگریش کرناڈ نے تاریخ کے مطالعہ کی روشنی میں
ٹیپو سلطان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے نام پر بنگلور میں واقع
انٹرنیشنل ائیر پورٹ کا نام رکھنے کا حکومت وقت کو مشورہ دیا ، ساتھ ہی
ساتھ یہ بھی کہا کہ ٹیپو سلطان اگر مسلمان نہ ہوتے تو ان کی حب ا لوطنی کا
اعتراف مہاراشٹر کے شیوا جی طرح کیا جاتا ۔ اس بات پر گریش کرناڈ جیسے
باوقار اور نامور دانشور کی کہی سچّی اورکھری باتوں نے ملک کے مٹھی بھر
فرقہ پرستوں اور فاشسٹوں کو چراغ پا کر دیا ۔ گریش کرناڈ پر ان لوگوں نے
سخت تنقید کرتے ہوئے اور گالیاں دیتے ہوئے انھیں دھمکی دی ہے کہ ایسی بات
کہنے کی پاداش میں ان کا بھی وہی حشر کیا جائیگا، جو پروفیسر کلبرگی کا کیا
گیا ہے ۔ بھاجپا اور شیو سینا جیسی فرقہ پرست سیاسی پارٹیوں میں بیٹھے
زہریلی سوچ اور فکر رکھنے والے لوگوں کے لئے سچ کس قدر کڑوا اور کسیلا ہوتا
ہے اس کا اندازہ ٹیپو سلطان کے سلسلے میں کی جا رہی ان کی جار حیت سے
اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ یہ ہے عدم رواداری اور آئین کی پامالی کی تازہ
مثال۔ کسی کے بولنے پر اس طرح کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ثبوت دینا
کہاں تک درست ہے ۔؟ اس کا فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے ۔ ابھی ملک میں سینکڑوں
مصنفین ، مؤرخین، سائنس دانوں،، فلم سازوں اورفوجی افسران کے ذریعہ ملک میں
عدم رواداری اورکھانے، بولنے ،لکھنے پر پہرے بٹھائے جانے نیز بڑھتی فاشزم
کے خلاف زبردست احتجاج کا سلسلہ جاری ہی ہے اور ان کی بازگشت ملک و بیرون
ممالک میں گونج ہی رہی ہے کہ ان میں مزید ایک بڑے متنازعہ معاملہ کا اضافہ
ہو گیا ۔
ِادھر ملک میں اس طرح کے ناگفتہ بہ واقعات اور حادثات ہو رہے ہیں اور ا ُدھر
ہمارے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اپنے سہ روزہ دورے پر لندن پہنچے، تو
انھیں یہاں بھی اپنے ملک کے اندراپنی پارٹی کے لوگوں کے ذریعہ پھیلائی جا
رہی ، فرقہ پرستی، بد امنی، منافرت، انتشار، اور عدم رواداری کی شدید
مخالفت کی بازگشت سنائی دی ۔ ملک کے اندر ہونے ایسے المناک سانحات اور
واقعات پر جب ان سے سوالات پوچھے گئے تو انھیں یقینی طور پر سخت خفّت
اٹھانی پڑی ۔ 1921 ء سے بین الاقوامی سطح پرقائم سو ممالک کے مصنفین کی
تنظیم P E N International جو کہ آزادیٔ اظہار کے حقوق کی محافظ ہے ،کی
جانب سے دو سو سے زائد مصنفین نے برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سے دو
بار یہ گزارش کی تھی کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی لندن آمد پر ان سے
بھارت میں بڑھتی عدم رواداری جیسے اہم مدعأ کو ضرور سوال کریں اور یہ بہت
اہم مدعا ٔ لندن کے 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں پورے شد ومد کے ساتھ اٹھا بھی۔
عام طور پر ایسے سوالات پر اپنے ملک میں پوری طرح خاموش رہنے والے مودی جی
کو آخر کار یہاں اپنا مُنھ کھولنا ہی پڑا اور اپنے ملک میں مہاتما بدھ اور
مہاتما گاندھی کی جگہ ویر ساورکر جیسے لوگوں کو یاد رکھنے والے مودی جی نے
مہاتما بدھ اور مہاتما گاندھی کے عدم تشدّد نظریہ کا سہارا لیتے ہوئے ،ان
کی عظمت اور رواداری ذکر کیا اور کہا کہ بھارت بدھ اور گاندھی کی سرزمین ہے
۔ یہاں کوئی حادثہ ہو ، ایک ہو یاتین ہو ، ہر حادثہ کی بہت اہمیت ہے ۔ ہم
ایسے کسی حادثہ کو برداشت نہیں کرینگے ۔ بھارت ایک جمہوری ملک ہے ، جو اپنے
آئین کے تحت چلتا ہے اور عام سے عام شہریوں ، ان کے نظریہ کی حفاظت کے لئے
ہم پابند عہد ہیں ۔اب یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں کہ مودی جی ایسے
معاملات میں کس قدر پابند عہد ہیں یا یہ باتیں بھی ’جملہ‘ ثابت ہوتی ہیں ۔
اسی دوران لندن کے روزنامہ ’دی گارجین ‘ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ
بھارت میں ہندو طالبان تیزی سے پھیل رہے ہیں نیز اظہار آزادی ختم ہونے اور
عدم تحمل جیسے بڑھتے معاملات پر مودی کا رویہ سست ہے ۔ برطانیہ میں اس کے
خلاف آواز اٹھائی جانی چاہئے ۔ اس سلسلے میں ہند نژاد اور برطانیہ کے مشہور
مجسمہ سازانیش کپور نے اس اخبار میں مزید لکھا ہے کہ ہم نے صدیوں تک مظالم
برداشت کئے ہیں ، پھر بھی ہم نے خیر سگالی اور اتحاد کی مثالیں پیش کی ہیں۔
اگر ہندو دہشت پسند اسی طرح بھارت میں حاوی ہوتی رہی تو یہ ملک کے لئے خطرہ
بن سکتا ہے ۔ انیش کپور نے بڑے سخت الفاظ میں شدت پسندی اور جارحیت کی
مذّمت کرتے ہوئے مذید کہا کہ یہاں بولنے والوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ۔گزشتہ
مہینہ ہی بھارت کے کئی دانشوروں اور مصنفین عدم رواداری کے خلاف اپنے
ایوارڈ واپس کر چکے ہیں۔ برطانیہ میں ہم اپنی زبان بند نہیں رکھ سکتے ،
ہمیں بولنے کی آزادی ہے اور یہ ہماری ذمہّ داری بھی ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ
ڈیوڈ کیمرون حقوق انسانی کو بالائے طاق رکھ کر کوئی تجارتی معاہدہ نہ کریں
۔ انیش کپور کی اتنی سخت اور سست لیکن حقیقت پر مبنی باتوں کو عالمی میڈیا
میں کافی جگہ دی گئی ہے ۔سچ بولنے کی پاداش میں راجتھان حکومت نے انھیں کئی
ریاستی کمیٹیوں سے نکال دیا ہے ۔ اس سے زیادہ یہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ مودی
کے لندن دورہ میں سرکاری استقبال کے ساتھ ساتھ جس طرح شدید عوامی احتجاج
اور مخالفت ہوئی ہے ، وہ اس امر کا متقاضی ہے کہ اب ملک کی فرقہ پرست اور
فاشسٹ لوگوں کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اب اپنے ملک کی مزید بدنامی نہ ہو ،
اور اپنے ملک کا کوئی بھی سربراہ بیرون ملک جائے تو اسے ایسے شرمندہ کرنے
والے سوالات نہ سننا پڑے ، اور نہ اتنی ذلّت اور رسوائی جھیلنا پڑے۔ جس سے
ملک کے سربراہ کو شدید خفّت کا سامنا ہو۔ ملک کے موجودہ حالات میں ، مٹھی
بھر لوگ ،جس طرح ملک کی عزت اور وقار کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں ، انھیں اب
ملک کے آئین ، اس میں دئے گئے حقوق انسانی اور روادی کا خیال رکھنے کا
پابند عہد ہونا ہی چاہئے، تاکہ ملک کی سا لمیت اور اس کے وقار پر اب
مذیدکسی طرح کا حرف نہ آئے ۔ |