فری میسن.... امدادی سرگرمیوں کی آڑ میں صیہونی مقاصد کی تکمیل کے لیے سرگرم
(عابد محمود عزام, Karachi)
فری میسنری یہودیوں کی سب سے بڑی
اور خفیہ عالمی تنظیم ہے، جس کے ارکان کا تعلق مختلف مذاہب اور اقوام سے
ہوتا ہے، جن کو فری میسن کہا جاتا ہے۔ فری میسنری کے مراکز دنیا کے تمام
ممالک میں موجود ہیں، جن کو ”لاج“ کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں
اس خفیہ یہودی تنظیم کے دفاتر موجود تھے، لیکن اس کی تخریبی سرگرمیوں کی
وجہ سے پاکستان میں اس پر پابندی لگائی گئی ہے، جبکہ دنیا بھر میں یہ تنظیم
تیز رفتاری کے ساتھ اپنے مقاصد کی تکمیل میں سرگرم ہے۔ گزشتہ روز ایک نجی
ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق فری میسنری دنیا بھر میں یہودیت پھیلانے کی کوشش
کررہی ہے، اس تنظیم کا مقصد دنیا بھر کی حکومتوں، وسائل اور نشر و اشاعت کے
اداروں پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ یہ خفیہ تنظیم دنیا بھر کی حکومتوں کے
ذریعے اپنا راج چلانے کی خواہش رکھتی ہے، یہودی خفیہ تنظیم فری میسنری نے
اپنا کام تیز کردیا۔ اس تنظیم میں 20 برس سے بڑی عمر کے لوگ ممبر بنائے
جاتے ہیں، امریکا میں فری میسنری کے ممبروں کی تعداد80 لاکھ سے زیادہ ہے۔
تنظیم کے 20 لاکھ برطانوی ارکان کا ریکارڈ آن لائن کردیا گیا۔ 16 بشپس اور
ایک بھارتی شہزادہ بھی فری میسنری کے ارکان میں شامل ہے۔ فری میسن سوسائٹی
نے برطانوی ارکان کی فہرست جاری کردی۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے
کہ خفیہ تنظیم فری میسنری کا ایک دفتر کراچی میںبھی تھا، فری میسنری
سوسائٹی پاکستان میں بھی 25 سال تک سرگرم رہی۔ 1973ءمیں فری میسنری کے اس
مرکز کوسیل کردیا گیا تھا۔ اسٹریچن روڈ پر واقع ہوپ لاج میں فری میسنری کا
مرکز تھا۔ یہ عمارت وائلڈ لائف میوزیم میں تبدیل کردی گئی ہے۔
فراہم معلومات کے مطابق فری میسنری کی ابتدا 24 جون 1717ءکو انگلستان میں
ہوئی۔ فری میسنری کے آئین کی تشکیل اور منظوری 1723ءکو کی گئی، جس کے خالق
مشہور فری میسنری شخصیت ”ڈاکٹر اینڈر سن“ تھے۔ 1723ءسے لے کر 1750ءکے دوران
فری میسن نے انگلینڈ اور ارد گرد میں تیزی سے اپنا مقام بنا لیا۔ یہ اس وقت
ہوا کہ جب شاھی خاندان، امرا، وزرا اور اعلیٰ طبقہ فری میسن سے وابستہ ہوا۔
انگلینڈ میں پہلے گرینڈ لاج کے قیام اور باضابطہ طور پر نئے سرے سے نئے
مقاصد و عزائم اور لائحہ عمل کے ساتھ جدید فری میسن کے قیام نے انتہائی
پذیرائی حاصل کر لی۔ ماسٹر مائنڈ نے 1730ءمین آئر لینڈ اور 1736ءمیں اسکاٹ
لینڈ میں گرینڈ لاج قائم کر لیے۔ فری میسنری مورخین کے مطابق 1721 میں
بلجیم اور 1725 میں فرانس میں لاج قائم کیے گئے۔ اس خوفناک تنظیم نے خون
آشام اغراض کی تکمیل کے لیے جو طریق کار وضع کیا، اس کے تین بنیادی اصول
مرتب کیے جو یہ تھے:1۔ صاحب اقتدار اور بااثر و رسوخ لوگوں کو قابو میں
لانے کے لیے مالی رشوت سے کام لیا جائے اور گوہر مقصود تک پہنچنے کے لیے
جنسی رشوت بھی پیش کرنی پڑے تو دریغ نہ کیا جائے، تاکہ ہمارے مطلوبہ لوگ
ہماری جماعت کے مقاصد کے نفاذ کی راہ میں روڑا نہ بنیں، بلکہ انہیں اپنے
ہاتھوں کا کھلونا بنا لیا جائے۔ 2۔ ہماری جماعت کے وہ اساتذہ جو
یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض سر انجام دے رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ
ذہنی، ثقافتی اور علمی اعتبار سے فوقیت رکھنے والے طلبا کو زیرِ نظر رکھیں۔
ان کے اذہان میں اپنے نظریات بھرے جائیں اور جب وہ ہمارے نظریات مکمل طور
پر قبول کر لیں پھر انہیں اپنے مخصوص اداروں میں تربیت دی جائے۔ 3۔ وسائلِ
نشرو اشاعت مثلاً ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات و جرائد پر تسلط حاصل کیا جائے،
تاکہ انہیں اپنی مرضی سے استعما ل کیا جائے۔
فری میسنری کی رکنیت کے کئی مدارج ہیں جو ڈگری کہلاتے ہیں۔ ہر ڈگری کا رکن
صرف اپنے برابر کی ڈگری والوں سے رابطہ رکھ سکتا ہے۔ اس درجہ بندی پر اس
قدر سختی سے عمل کیا جاتا ہے کہ ایک ڈگری کا رکن دوسری ڈگری کے رکن کے رکن
کے مقاصد اور خفیہ منصوبوں سے کسی طرح آگاہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اونچے درجے کے
اراکین کے مقاصد دوسرے اراکین سے، خواہ ان کی پوری زندگی فری میسن تنظیم کے
رکن کی حیثیت میں گزری ہو انتہائی خفیہ اور رازداری میں رکھے جاتے ہیں۔ اس
تنظیم کا طریقہ کار انتہائی خفیہ ہے۔ لاجوں کی روئیدادیں غیر معمولی طور پر
خفیہ اور انتہائی رازداری میں رکھی جاتی ہیں اور ان کے ارکین کے علاوہ کسی
اور کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ لاج کے اراکین ایک
دوسرے سے خفیہ کوڈمیں بات چیت کرتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو اپنے خفیہ
اشاروں اور الفاظ کے ذریعہ پہچانتے ہیں۔ فری میسنری عام طور پر ملک کے
افسران یا غیر ملکی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان او رعہدیداروں کو اپنا رکن
بناتے ہیں۔ رکن بننے کے لیے کسی خاص رنگ، مذہب، نسل یا قومیت کی قید نہیں
ہے، بلکہ اس ملک کے شہریوں کو رکن بنانے کی ہمت افزائی کی جاتی ہے اور اس
کے بعد منصوبے کے مطابق انہیں اپنے ڈھب پر لایا جاتا ہے۔ ان لوگوں کو اس
طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ انہیں یہ پتا بھی نہیں چلتا کہ انہیں کس مقصد
کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں فری میسنری پر بہت پہلے پابندی عاید کی جاچکی ہے۔ قیام پاکستان
کے وقت مشرقی پاکستان کے بڑے بڑے شہروں ڈھاکا، چٹاکانگ، مرشد آباد وغیرہ
میں فری میسنری لاجیں قائم تھیں، جن کا تعلق گرینڈ لاج انگلینڈ سے تھا۔ اسی
طرح مغربی پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بھی فری میسنری لاجیں کام کر رہی
تھیں، جن کی تعداد 30 تھی اور دو ہزار کے قریب ممبران تھے۔ لاہور، سیالکوٹ،
پشاور، راولپنڈی، ملتان، کوئٹہ، حیدرآباد اور کراچی کی لاجیں زیادہ اہم
شمار کی جاتی تھیں، لوگوں میں یہ جادو گھر کے نام سے مشہور رتھیں۔ 1948ءسے
1968ءکے دو عشروں میں فری میسنری بھرپور طور پر پاکستان میں کام کرتی رہی
ہے۔ اس دوران اس کے خلاف کو توانا آواز بلند نہیں ہوئی۔ ایوب حکومت کے خلاف
عوامی تحریک کے دوران فری میسنوں کے خلاف موثر کارروائیاں کرنے کا مطالبہ
پیش کیا گیا۔ مارچ 1969میں ایوب حکومت کے خاتمے کے بعد مارشل لاءلگ گیا، اس
دوران عالمی فری میسنری کی ہدایات پر ڈسٹرکٹ گرینڈ لارج لاہور کے ڈسٹرکٹ
گرینڈ ماسٹر نے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے نام 27اپریل 1969ءکو ایک خط لکھا
گیا، جس میں فری میسنری کے خلاف اٹھنے والی تحریک سے متعلق اپنا نقطہ نظر
بیان کیا گیا تھا۔ 1971ءمیں ذوالفقار کے دور میں فری میسنری پر پابندی
لگانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ 22جولائی 1972ءکو پنجاب اسمبلی میں ایک
قرار داد پاس کر کے مرکزی حکومت کو پیش کی گئی کہ فری میسنری پر پابندی
لگائی جائے اور اس کی املاک ضبط کی جائیں۔ اس مسئلہ کو 21سمتبر 1972ءکو
قومی اسمبلی میں اکوڑہ خٹک کے مشہور عالم دین شیخ الحدیث مولانا عبدالحق نے
قومی اسمبلی میں اٹھایا اور یہ بتایا کہ فری میسنری یہودیوں کی عالمی تنظیم
ہے، جس کا مقصد درپردہ صیہونی عزائم کی تکمیل ہے۔ یہ تنظیم عالم اسلام میں
ملت مسلمہ کے خلاف مختلف سازشوں اور سرگرمیوں کی آماجگاہ بنی رہی ہے، خلافت
اسلامیہ کے زوال اور اسلامی ممالک کے افتراق و بربادی میں اس کا بنیادہ حصہ
ہے۔ 7جون 1973ءکو مولانا عبدالحق نے قومی اسمبلی میں فری میسنری پر پابندی
لگانے کی قرارداد پیش کی۔ وہ ابھی تقریر کر رہی رہے تھے کہ مرکزی وزیر
داخلہ عبدالقیوم نے اٹھ کر اعلان کیا کہ حکومت نے 6دسمبر 1972کو اس تحریک
پر پابندی لگانے اور تمام عمارتوں کو اپنی تحویل میں لے کر تعلیمی مقاصد کے
لیے استعمال کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ اس غیر مبہم اعلان پر مولانا
عبدالحق نے اپنی قرارداد واپس لے لی، لیکن عالمی میسنری نے بیرونی ذرایع سے
حکومت پاکستان پر دباﺅ دالا کہ وہ ایسا اقدام نہ کرے۔ جلد عوام کو بھی
معلوم ہوگیا کہ حکومت نے فری میسنری پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ 4جولائی
1973کو مولانا عبدالحق نے یہ معاملہ قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق کی صورت
میں دوبارہ اٹھایا۔ اسلامی فکر کی حامل جماعتوں کے مسلسل مطالبہ پر حکومت
پنجاب نے 2مئی 1974کے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے فری میسنری کو غیر قانونی
تنظیم قرار دے دیا اور اس کی سرگرمیوں کو امن عامہ کے منافی قرار دیا۔
3اگست 1974کے نوٹیفیکیشن میں فری میسن اجتماعات پر بھی پابندی لگادی گئی۔
بتایا جاتا ہے کہ کراچی میں پہلے لاج یعنی ہوپ لاج کا سنگ بنیاد 7 ستمبر
1843 کو رکھا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں فری میسنری کا دفتر
1973میں سیل کیا گیا، لیکن اس کے باوجود ان کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ 1985
میں ان کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عاید کردی گئی۔
پاکستان سمیت بیشتر اسلامی ممالک میں فری میسنری کی شاخیں اور ” فری میسن
لاجز“ قائم تھے۔ اس خفیہ یہودی تنظیم کے حوالے سے انکشافات منظر عام پر آنے
کے بعد بیشتر اسلامی ممالک میں اس تنظیم پر پابندی لگائی گئی، اس کے دفاتر
سیل اور سرکاری تحویل میں لیے گئے، لیکن یہ تنظیم اب بھی دنیا بھر میں
مصروف عمل ہے اور مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے۔ جن ممالک میں اسے
غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، وہاں اس کا نام بدل دیا گیا ہے۔ بظاہر مخیرانہ
سرگرمیوں میں مصروف عمل غیر سرکاری تنظیموں میں بہت سی ”فری میسن“ کے مقاصد
کی تکمیل کر رہی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ فری میسنری خطرناک صیہونی تنظیم
ہے، جس کے عزائم خطرناک ہیں، مسلم ممالک میں خونریزی پھیلانے میں فری
میسنری کا کافی حد تک عمل دخل ہے۔ گریٹر اسرائیل اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر
فری میسنری کا اہم مقصد ہے۔
|
|