پاکستان کسی بات میں خود کفیل ہو یا نہ ہو لیکن سیاسی جماعتوں کے مقابلے
میں پاکستان خود کفیل ضرور ہے 309 جماعتیں الیکشن کمیشنآف پاکستان میں
باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں ایسی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو زیر زمین
پاکستان میں کام کر رہی ہیں اس لئے خواص کو چھوڑ کرعام عوام کو ان کے بارے
میں کوئی آگاہی نہیں ہے۔ عظمت السلام موومنٹ کے نام سے ایک ایسی جماعت بھی
پاکستان الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے جس کے امیر میجر جنرل ظہیر الا سلام
عباسی ہیں۔ میجر جنرل ظہیر الا سلام عباسی کو تو سبھی جانتے ہیں،ان پربے
نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں حکومت گرانے یعنی مبینہ بغاوت کا الزام
تھا، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب "ایکنسیلی ایشن ، اسلام ،
ڈیموکریسی ایڈ ڈی ویسٹ( مفاہمت: اسلام ، جمہوریت اور مغرب) میں اٹھارہ
اکتوبر کے حوالے سے لکھا تھا کہ ان کے استقبالیہ جلوس پر حملے کی منصوبہ
بندی لاہور میں ہوئی تھی اس کام کیلئے قاری سیف اﷲ اختر کی خدمات حاصل کی
گئی تھیں۔یہ وہی قاری سیف اﷲ اختر ہیں جن پر اکتوبر1995ء میں میجر جنرل(ر)
ظہیر السلام عباسی کی سربراہی میں فوجیوں کے ایک گروہ اور قاری سیف اﷲ اختر
کی حرکت الانصار کے ساتھ ملکر نظام خلافت کیلئے بھٹو حکومت کو گرانے اور
انھیں قتل کرنے کی سازش کا الزام عائد کرکے گرفتار کیا گیا تھا جس پرمیجر
جنرل(ر) ظہیر السلام عباسی کوکورٹ مارشل میں سات سال سزا دیکر ان کی
جائیداد ضبط کرلی گئی تھی ، جبکہ قار ی سیف اﷲ اختر پر متعدد الزامات ثابت
نہ ہونے کے سبب انھیں قاری سیف اﷲ اختر کے وکیل حشمت حبیب کے مطابق سپریم
کورٹ کے دباؤ کے تحت خاموشی سے چکوال کے قریب رہا کردیا گیاتھا ، گذشتہ سال
ان کی رہائی پر امریکہ نے پاکستان سے احتجاج کرتے ہوئے ان کے خلاف کاروائی
کا مطالبہ کیا تھا، قاری سیف اﷲ اختر کا شمار افغان طالبان کے متوفی امیر
ملا عمر کے مشیر کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی جہاز کے اغوا ،
سانحہ کارساز سمیت کئی اہم واقعات میں بھی ان کا نام لیا جاتا ہے کہ عسکری
تربیت قاری سیف اﷲ اختر کی زیر سایہ ہوتی رہی ۔ میجر جنرل ظہیر الا سلام
عباسی کی امارات میں قائم یہ جماعت آج بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان میں
باقاعدہ رجسٹرڈ ہے۔اور جماعت کا صدر مقام راولپنڈی میں ہے۔
بیدار پاکستان جن کے صدر میاں عبدالرزاق ہیں جو "نوبل قرآن اسٹی ٹیوٹـ"اور
"میاں کوٹ گروپ آف انڈسٹریز"کے امیر مجلس ہیں۔بیدار پاکستان کا صدر مقام
جوہر ٹاٗون لاہور میں واقع ہے۔بیدار پاکستان سود سے پاک اسلامی مملکت کے
قیام کیلئے بنائی گئی ہے۔اسلامی انقلاب پارٹی نامی ایک سیاسی جماعت کا نام
اس وقت سامنے آیا جب 2013ء کی خواتین کی مخصوص نشستوں کیلئے دو نام ان کی
جانب سے الیکشن کمیشن کو ارسال کئے گئے ۔
اسلامی انقلاب پارٹی کے مرکزی چیئرمین ڈاکٹر علامہ ایاز ظہیر ہاشمی ہیں۔
ڈاکٹر علامہ ایاز ظہیر ہاشمی کو سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے ستمبر 2006ء
میں مرکزی چئیرمین برائے قومی امن کمیٹی برائے بین المذاہب ہم آہنگی
پاکستان بنایا تھا۔ یہ مسلم لیگ ن کیعلما ء مشائخ ونگ کے چیئرمین بھی رہ
چکے ہیں۔انھیں ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا ان پر بحرین پولیس میں بھرتی
کے نام پر ایک سو سے زائدلوگوں سے 90/90 ہزار روپے وصول کرکے بھرتی نہ کرنے
کا الزام تھا ۔اس سے قبل بھی علامہ ایاز ظہیر چینی حاجیوں سے فراڈ کے الزام
میں گرفتار ہوکر جیل جاچکے ہیں ، جبکہ بحیثیت چیئرمین قومی امن کونسل اضلاع
میں کوآرڈینیٹر نامزد کرنے پر لاکھوں روپے رشوت وصول کرنے کا بھی الزام لگ
چکا ہے۔علاوہ ازیں ایف آئی اے نے البلال ریکروٹنگ ایجنسی کیخلاف
12درخواستوں پر جب کاروائی کا آغاز کیا تو وہاں سے 600پاسپورٹ ملے ، اس کیس
میں ایک سو افراد نے ایف آئی نے جو بیانات قلم بند کرائے ذرائع کے مطابق ان
کی وصولی بھی ڈاکٹر علامہ ایاز ظہیر ہاشمی نے کی تھی۔ ڈاکٹر علامہ ایاز
ظہیر ہاشمی کی سیاسی جماعت اسلامی انقلاب پارٹیبھی آج تک الیکشن کمیشن آف
پاکستان میں رجسٹرڈ ہے اور عام پاکستانی اس جماعت سے ناواقف ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ایک اور سیاسی جماعت بھی رجسٹرڈ ہے جو سوشل
میڈیا کی سماجی وب سائٹ فیس بک میں پائی جاتی ہے ۔ اس جماعت کے سربراہ ایک
نوجوان ڈاکٹر زاہد افضل ہیں جو ایک ویب سائٹ کے ذریعے پاکستان میں اسلامی
بیداری کی تحریک چلا تے ہوئے ممبر سازی کر رہے ہیں ۔اپنا موازنہ بلاول
زرداری سے کرتے ہیں کہ عوام کو انتخاب کرنا چاہیے کہ وہ بلاول زرداری سے
بہتر اس لئے ہیں کہ وہ لوکل بسوں میں سفر کرتے ہیں ، معمولی دکان والے کا
بیٹا ہے اور ساری عمر پاکستان میں ہی رہے ہیں۔جبکہ بلاول کا بچپن سے جوانی
لندن میں ، آگے پیچھے گاڑیوں کی لائنیں ، لمبی چوڑی جائیدار اور اردو بھی
درست طریقے سے نہیں بول سکتا ۔ اس لئے ڈاکٹر زاہد افضل خود بلاول سے بہترین
قیادت دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت کا
صدر مقام ملتان میں ہے۔
اس کے علاوہ اسلام کے نام پر ، اسلامی سیاسی تحریک ، صدر عبدالمجید حیدری
راولپنڈی، اسلامک ریپبلکن پارٹی صدر سلطان عالم راولپنڈی،اتحاد عالم اسلام
چیئرمین جان محمد ، قصور،پاکستان حزب اسلامی پارٹی صدر محمد امین اسلام
آباد، پاکستان اسلامی جسٹس پارٹی صدر محمد ادریس فیصل آباد، پاکستان محمدی
پارٹی خادم اعلی پاکستان ، مہربان سائیں رانا عبدالغفور میاں ، تحریک ایمان
پاکستانچیئرمین غلا یاسین ، منڈی بہا و الدین،تحریک اتحاد امت پاکستان
مرکزی صدر سید چراغ الدین شاہ راولپنڈی،اسلامی پیپلز پارٹی صدر خوریشد انور
قریشی،اسلامی لاء پاکستان پارٹی چیئرمین محمد آصف خان ، ضلع دیر اور دیگر
ایسی سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ میں ہیں جن کے بارے میں
پاکستانی عوام کچھ بھی نہیں جانتے کہ ان کے منشور کیا ہیں ، مقاصد کیا ہیں
اور انھیں انتخابات میں کبھی عوام نے دس ووٹ بھی ڈالے ہیں کہ نہیں۔ یہ تو
وہ اسلام کے نام پر قائم جماعتیں ہیں جنھوں نے اسلام کے نام پر عوام کے
جذبات استعمال کرنے کا منشوربنا کر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں خود کو
رجسٹرڈ کرایا ہوا ہے۔
جبکہ قارئین کی معلومات میں اضافے کے لئے چند اور سیاسی جماعتوں کے نام ہی
لکھوں گا ، جیسے’ عالی کلام اﷲ فرمان رسول اﷲ‘ ، آپ جناب سرکار پارٹی ،
افغان نیشنل پارٹی ، افغان قومی موومنٹ(پاکستان)، آل پاکستان بے روز گار
پارٹی،اﷲ ا کبر تحریک،آزاد پاکستان پارٹی،ہومین ڈولیپمنٹ موومنٹ،جنت
پاکستان پارٹی،کاکڑ جمہوری پارٹی پاکستان،خود مختار پاکستان پارٹی ، لوئر
مڈل پارٹی،مددگار پاکستان، مونو کریسی ایکشن پارٹی، محب وطن موومنٹ، موو آن
پاکستان ، محب وطن روشن پاکستان، مستقبل پاکستان،پاک مسلم اتحاد، پاکستان
عوامی قوت پارٹی، غریب عوام پارٹی، پاکستان بچاؤ پارٹی، پاکستان سیٹیزن
موومنٹ،پاکستان گرین پارٹی ، پاکستان غربا پارٹی،پاکستان مدر لینڈ پارٹی
اور دیگرغیر معروف جماعتیں جن کا نام لکھتے لکھتے کالم میں کچھ اور لکھنے
کیلئے جگہ ہی نہ بچے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ309سیاسی جماعتوں میں تھوک کے حساب سے
ایسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں جن کا کوئی سیاسی ماضی ہے اور نہ ہی کوئی مستقبل
ہے ، چند افراد پر مشتمل این جی اوز کے طرز پر اپنے علاقے میں ایک جماعت
بنا لی اور اب ان کی کیا سرگرمیاں ہیں اور یہ کس طرح کام کر رہے ہیں ان سے
پاکستان کی 99فیصد عوام آگاہ نہیں ہے۔جس نے سوشل میڈیا پر ویب سائٹ بنائی
اس نے ایک سیاسی جماعت بھی بنا لی اور چند مقامی اخبارات میں کمیشن پر کام
کرنے والے جُز وقتی صحافیوں کوخرچہ پانی دے کر کبھی کھبار تصویر کے ساتھ
خبر بھی لگا لی۔اب مقامی اخبارات کو اپنے خرچے پورے کرنے کیلئے ایسی
جماعتوں کے لیڈر کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے ایک انٹرویو کے بدلے میں ان
کے اخبار کی پانچ سو کاپیاں خرید لیتے ہیں۔اس طرح مقامی صحافی کا بھی خرچہ
نکل آتا ہے۔معروف اخبارات ایسی جماعتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں کیونکہ وہ
جانتے ہیں کہ اگر309جماعتوں کی بیانات شائع کرنے شروع کردئیے تو پھر۔تاہم
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سیاسی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک ضابطہ اخلاق
بھی ضرور ہونا چاہیے کہ وہی سیاسی جماعتیں باقاعدہ رجسٹرڈ ہوں جنھیں عوام
قبول بھی کرے۔ گو یہ بھی درست ہے کہ عوام انھیں بھی قبول نہیں کرتی جو بار
بار اقتدار میں آتی رہتی ہیں لیکن جب تک جمہوری نظام ہے تو عوام کی اقلیتوں
کے ووٹ سے اکثریت پرحکومت کرنے والے آتے رہیں گے کیونکہ یہ جمہوریت ہے ۔
لیکن یہ کیسی جمہوریت ہے کہ عوام کے نام پر جگ ہنسائی کا موجب بننے والی
ایسی جماعتیں جو کبھی الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیتی ، اگر لیتی بھی ہیں تو
کبھی ایک نشست تک نہیں جیت سکیں ، بلکہ اپنی ضماتیں تک ضبط کرالیتی ہیں۔
انھیں کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ جمہوریت کے نام پر جو کچھ کرتے چلے آئیں ،
انھیں اس لئے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ
ہیں۔ہمیں اس بات پر بھی اعتراض نہیں کہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کیوں ہیں ،
لیکن کوئی حدود بھی تو مقرر ہونی چاہیے ۔بہرحال الیکشن کمیشن کو پاکستان کی
یتیم سیاسی جماعتوں کے حوالے سے کوئی قانون ضرور بنانا چاہیے ۔ |