پروردگار کے فیصلے کا خیر مقدم

پروردگار کے فیصلے کا خیر مقدم
بنی اسرائیل میں ایک عبادت گزار تھا۔اُس نے پہاڑ کی کھوہ میں اپنا مسکن بنا رکھا تھا۔وہ لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل تھا، لوگ اُس کی نظروں سے دور تھے۔ اس کے قریب پانی کا ایک چشمہ تھا جس سے وہ وضو کرتا، اپنی تشنگی دور کرتا اور نباتات سے اپنی غذا حاصل کرتا تھا۔ دن کو روزے سے رہتا اور رات اللہ کی عبادت میں گزارتا۔اس کا ہر پل اور ہر لمحہ اطاعت اور بندگی کی نذر ہوتا تھا،چنانچہ سعادت و کامرانی کے آثار اس کے چہرے سے نمایاں تھے۔

حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کو اس عبادت گزار کی خبر ہوئی تو آپ ایک دن اس کے پاس پہنچے لیکن اسے نماز اور ذکر اذکار میں مشغول دیکھ کر واپس چلے گئے، پھر رات کو اس کے پاس گئے تو اسے عزیز و غفار رب العالمین کے دربار میں سرگوشی اور مناجات میں مگن پایا۔

حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نے اسے سلام کیا اور فرمایا : جنابِ والا ! اپنے اپ پر نرمی کیجیے۔

عبادت گزار نے کہا: اے اللہ کے بنی!مجھے حدشہ ہے مبادہ اچانک غفلت میں انتقال کر جاؤں اور اپنے پروردگار کے حضور مجھ سے کوئی کوتائی ہو جائے۔

حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نے کہا : کیا آپ کی کوئی حاجت ہے؟

عبادت گزار نے جواب دیا: آپ میرے لیے پروردگار سے اس کی رضا و خوشنودی کی دعا کر دیں اور میری یہ التجا بھی پہنچا دیں کی وہ مجھےزندگی بھی صرف اپنی ہی خوشنودی کے کاموں میں مشغول رکھے حتیٰ کہ میں اس سے جا ملوں ۔

حضرتِ موسیٰ علیہ السلام دعا و مناجات میں مشغول ہوگئے اور اپنے مولیٰ سے لذتِ کلام میں اس قدر ڈوب گئے کہ عبادت گزار کی باتیں یاد ہی نہ رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا: آپ سے میرے عبادت گزار بندے نے کیا کہا سے فرمایاتھا؟

موسیٰ علیہ السلام نےعرض کیا: میرے پروردگار! تو ہی ز یادہ جانتا ہے۔اس نے تیری رضا و خوشنودی طلب کی ہے اور یہ درخوست بھی کی ہے کہ اس کی زندگی تیری ہی یاد میں گزرے حتیٰ کہ وہ تیرے دربار میں حاضر ہوجائے۔

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا : اے موسیٰ!اس عبادت گزار کے پاس جائیے اور کہئیے کہ رات دن جتنی عبادت چاہے کر لے ، ہے وہ بہر حال جہنمی کیونکہ میرے صحیفے میں اُس کا نام گناہ گاروں کی فہرست میں درج ہے۔

موسیٰ علیہ السلام اس عابد کے پاس گئے اور پروردگار کےفیصلے اسے آگاہ کیا تو عابد نے کہا:سبحان اللہ!میں اپنے پروردگار کے فیصلے کو خوش آمدید کہتا ہوں ، ہر چیز میرے پروردگار کے فیصلے کے مطابق رواں دواں ہے۔ اس کے حکم کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔یہ کہہ کر وہ عبادت گزار زور زورسےگریہ و زاری کرنے لگا۔۔۔پھر کچھ دیر بعد بولا
اے موسیٰ میرے پروردگار کے جاہ و جلال اور عزت وشان کی قسم!میں اس کے در سے پلٹنے والا نہیں اور اس فیصلے کو سن کر ہر گز مایوس نہیں بلکہ اب اپنے پروردگار سے میری محبت دوبالا ہوگئی ہے

اس کے بعد جب موسیٰ علیہ السلام دوبارہ اپنے پروردگار سے دعا و مناجات میں مشغول ہوئے تو عرض کیا: میرے رب! جو کچھ تیرے عبادت گزار بندے نے کہا ہےاس سے تو اچھی طرح واقف ہے۔ اللہ نے فرمایا: اے موسیٰ میرے اس بندے کو یہ خوشخبری سنا دیجیے کہ وہ جنتی ہے۔ میری رحمت نے اسے جا لیا ہے۔ اسے یہ بھی بتا دیجیے کہ
اس نے میرا یہ خوش کن فیصلہ اپنے صبر و رضا کے عوض حاصل کیا ہے کیونکہ میرا سابقہ کڑوا فیصلہ سن کر بھی وہ چیں بہ جبیں نہ ہوا۔ اگر وہ آسمان و زمین بھر گناہ ساتھ لائے، تب بھی میں اسے بخش دوں گا۔ میں کریم اور غفار ہوں۔

جب موسیٰ علیہ السلام نے یہ خوشخبری اس عبادت گزار کو سنائی تو وہ سجدے میں گِر گیا، اور پروردگار کی حمد و ثنا کرنے لگا اور پھر اس طویل سجدے میں ہی اس نے جاں جان آفریں کے حوالے کردی
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381791 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.