خواجہ نظام الدین اولیاءرحمةاللہ علیہ سے عداوت رکھنے والے

خواجہ نظام الدین اولیاءرحمةاللہ علیہ سے عداوت رکھنے والے
ظاہری علوم میں دستار فضیلت حاصل کرنے کے بعدآپ نوجوانی میں ہی شیخ المشائخ بابا فرید الدین مسعود گنج شکررحمةاللہ علیہ کی خدمت میں دہلی سے پیدل بغیرکسی زاد راہ کے لوٹا اور مصلیٰ لیے ہوئے جمعرات کے دن عصر کے وقت اجودھن(پاکپتن) پہنچے آپ پر نظر پڑتے ہی جو پہلی بات باباصاحب کی زبان سے نکلی وہ یہ شعر تھا اے آتش فراقت دلہاکباب کردہ۔۔ سیلاب اشتیاقت جانہاخراب کردہ( اے محبوب تیرے فراق کی آگ نے دل کو جلاکر کباب بنا دیاہے اور تیری زیارت کئی سیلاب نے جان خراب کر دی ہے) بابا جی فرمایاکہ ہم نے بارہ ارادہ کیا کہ ہند کی ولایت کسی کو تفویض کر دیں پھر قلب میں ایک ندا پیدا ہوئی کہ انتظارکیاجائے ابھی نظام الدین بدایونی راستے میں ہے، بابا فرید الدین رحمةاللہ علیہ کی طرف سے مولانا بدر الدین اسحاق تعویذات لکھاکرتے تھے ایک بار وہ غیرحاضر تھے تب باباجی نے آپ کو تعویذ لکھنے کاحکم دیاخلق خدا کاہجوم تھا لہٰذا آپ کو تنگی محسوس ہوئی شیخ المشائخرحمةاللہ علیہ نے پوچھا نظام الدین کیابات ہے تنگ پڑ گئے ہو عرض کی حضور پر سب روشن ہے فرمایانظام اللدینرحمةاللہ علیہ جب تمہارے لنگرمیں سترمن نمک لگا کرے گا اور آدمی ایک دوسرے پر گرے پڑے ہونگے تب کیاکرو گے۔ دہلی اس وقت دارالحکومت تھا جلد ہی آپرحمةاللہ علیہ کو دہلی کی خلافت دےکر روانہ کر دیاگیاباباصاحب نے فرمایاکہ خلافت نامہ جمال الدین ہانسویکو دکھا لینا حالانکہ اس سے پہلے آپ اپنے چھوٹے بھائی شیخ نجیب الدین متوکل رحمةاللہ علیہ کو بھی خلافت نامہ دکھانے کاکہتے تھے شیخ نظام الدین اولیاءیہ سوچ کر پریشان تھے کہ شاید آپرحمةاللہ علیہ شیخ نجیب الدین متوکل سے ناراض ہیں لیکن جب آپ دہلی پہنچے تو پتہ چلاکہ شیخ نجیب الدین متوکل کا انتقال ہو چکاہے اس وقت دہلی میں علاﺅالدین خلجی کی حکومت تھی شروع میں تو آپ کو بہت تنگی برداشت کرناپڑی پھر ایک مجذوب کی دعا سے فتوحات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور آپ کے لنگر خانے میں ستر من نمک استعمال ہونا شروع ہو گیاہزارہا آدمی کھاکر جاتے تھے لیکن آپ روزے سے ہوتے تھے اور نہایت سادہ کھاناکھاتے تھے، ادھر علاﺅ الدین خلجی کو خدشہ پیدا ہو گیا کہ اتنی زیادہ پیری مریدی ہے کہیں حکومت پر قبضہ ہی نہ کر لیں اس نے آپ رحمةاللہ کو ایک خط لکھا کہ آپ آکر مجھے حکومت کے بارے میں مشورے دیاکریں اس کا مقصد آپ کی نیت جانناتھی ہرکارہ خط لے کر آیاتو آپ نے اسے کھولے بغیرفرمایاکہ بادشاہ سے کہ دو کہ میں ایک کونے میں اہل اسلام اور بادشاہ اسلام کیلئے دعائیں کرتا رہتاہوں مجھے حکومت اور بادشاہی سے کیاسروکار ہماری بادشاہی ہمارے حجروں کے اندرہی ہوتی ہے اگر بادشاہ کو میرارہناپسندنہیں تو میں کہیں اور چلاجاتاہوں اللہ کی زمین بہت وسیع ہے آپ نے خط کھولے بغیر اس میں موجودتما م سوالوں کے جواب دے دیے ایک بات بادشاہ کے دل میں تھی اس نے وہ خط میں نہیں لکھی تھی آپ نے اسکا بھی جواب دے دیاہرکارہ جب خط لے کر واپس گیاتو بادشاہ یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ خط کی سیل بدستور لگی ہوئی ہے اور اس میں موجودتمام سوالوں کے جوابات ترتیب واردیے گئے ہیں اور جوبات دل میں تھی اس کابھی جواب موجودتھا وہ تو آپ کا بےحد معتقد ہو گیا لیکن آپ ساری زندگی اس سے ملنے نہیں گئے نہ ہی اسے اپنے ہاںآنے دیا تاہم وہ عمر بھر آپکاتابعدار رہااور آپ کی دعاﺅں سے بہت سی بلاﺅں سے محفوظ رہانذرانے بھیجتا رہا اور برکتیں سمیٹتا رہااسکے بعد کچھ سیاسی جوڑ توڑ ہوئی اور علاﺅ الدین خلجی کابیٹاقطب الدین مبارک شاہ بادشاہ بن گیا یہ صاحب ہم جنس پرست تھے خسرو نامی گجرات کے ایک نومسلم پہلوان ہندوپرعاشق ہو گئے جو دل سے مسلمان نہیں ہواتھا ایک رات بادشاہ دلہن بنتا خسرو دلہا بنتا دوسری رات بادشاہ دلہا بنتا اورخسروصاحب دلہن درباری مبارکیں اورتحائف دیتے بادشاہ عورتوں والے لباس میں درباریوں کے سامنے آجاتاتھا اس نے آپ کودربار میں طلب کیا جس پرآپ نے انکارکردیا اور فرمایایہ ہمارے چشتی خانوادے کا طریقہ نہیں کہ بادشاہوں سے ملنے جائیں خیر خاصی لے دے کے بعد اس نے سرکاری آرڈر جاری کر دیا کہ اگر نظام الدین اولیاءاس سے ملنے چاند کی پہلی تاریخ کو نہ آئیں تو انہیں زنجیروں سے باندھ کر پیش کیاجائے مشائخ وقت شاہ رکن الدین ملتانی(جن کامزار ملتان کا ٹریڈ مارک ہے) اور دیگر نے صلح صفائی کروانے کی بے حد کوشش کی لیکن آپ ملاقات سے انکاری رہے آخر چاند کی پہلی تاریخ آ گئی شام کو خادموں نے عرض کی کہ حضور پالکی حاضر کی جائے ’آپ خاموش ہو گئے ابھی رات کی دو گھڑیاں گزری تھیں کہ خبرآئی کہ بادشاہ کے معشوق خسرو نے اس کا سرتن سے جداکرکے محل سے نیچے پھینک کر حکومت پر قبضہ کرلیاہے کئی دن تک اس کی لاش بے گوروکفن پڑی رہی اس نے خلجی خاندان کے تمام مردوں کو قتل کر کے انکا نام ونشان تک مٹا دیا اور ساری عورتوں پر قبضہ کرلیاخسروبادشاہ بناتواس کے دربار میں قرآن کو بطور کرسی استعمال کیاجانے لگا دیپالپور کے گورنرغازی ملک جو منگولوں کو چھتیس بار شکست دے کربہت نام کما چکا تھا اسکا بیٹاجوناخان(جوبعد میں محمد تغلق کے نام سے ہندوستان کی تاریخ کا سب سے خوفناک اور خطرناک بادشاہ ہواہے) خسرو کے دربار می رہن کے طور پر ملازم تھا ایک دن وہ موقع پاکر بھاگ نکلا اور باپ کے پاس دیپالپور جاپہنچاغازی ملک منگولوں سے لڑنے کاتجربہ رکھتاتھا اس نے ملتانی لشکر کو ساتھ ملاکر لشکر مرتب کیا اور اورخسرو کو جالیاجنگ کے بعد خسرو کو شکست ہوئی وہ تین دن ایک باغ میں چھپارہابھوک سے تنگ آکر باغ کے مالک کو انگوٹھی دی کہ بیچ کر کھانے کوکچھ لے آ انگوٹھی پہچانی گئی خسرو گرفتارہوا اور اسی جگہ قتل کیاگیاجہاں اس نے مبارک شاہ کو قتل کیا تھا غازی ملک غیاث الدین تغلق کے نام سے تخت نشین ہوگیارجسٹر میں ان مشائخکے نام لکھے تھے جنہیں خسرو نے روپیہ بھیجا تھا اس میں خواجہ نظام الدین اولیاءکانام بھی شامل تھا باقی سب نے امانت سمجھ کر روپیہ رکھاہواتھا جسے شاہی خزانے میں داخل کروادیا لیکن آپنے جواب دیاکہ غریبوں کامال تھا ہم نے غریبوںمیں بانٹ دیابادشاہ بےحد جز بز ہواپھر اسے پتہ چلا کہ آپ بادشاہوں سے ملاقات بھی نہیں کرتے اب تو اسکاغصہ آسمان کو چھونے لگا وہ بنگال کی مہم پر گیا اور فتح یاب ہ وکر واپس لوٹنے لگاتو اسنے آپ کو پیغام بھیجا کہ جب میں دہلی آﺅں تو آپ وہاںموجود نہ ہوں ورنہ خود ذمہ دارہونگے کیونکہ آپ لوگوں کے شور سے میرے اقرباکو تکلیف ہوتی ہے خط ملتے ہی خانقاہ میں سناٹا چھا گیا آپ نے اسی کے خط کی پیشانی پر لکھ بھیجا” ہنوز دلی دور است“ بادشاہ جوں جوں دلی کے قریب آرہاتھا مریدوں کااضطراب بڑھ رہاتھا آخر بادشاہ نے دلی سے چندمیل دورپڑاﺅڈال دیا اس شام آپ کے عاشق مرید امیر خسرو روپڑے اور عرض کی حضور یاتوبادشاہ کاکچھ بندوبست کریں یا مجھے قتل کردیں میں اس بادشاہ کامصاحب رہا ہوں مجھے پتہ ہے کہ وہ کتناکینہ پرور ہے تب فرمایا ٹھیکہےجو اللہ کاحکم آپنے امیرخسرو کو ایک سرخ کپڑا اور تربوز دے کر سید احمد بہار کے پاس بھیجاجو مجذوب تھے انکی روٹین تھی کہ صبح کچی دیوارتعمیرکرناشروع کرتے اور شام کو ڈھا دیتے ساری زندگی یہی وطیرہ رہا آپ نے امیر خسرو سے فرمایاکہ سید بہارشاہ سے کہنا کہ شیخ نے آّپ کے ملاحظے کیلئے بھیجا ہے جب امیرخسرو وہ لال کپڑا اور تربوز لے کر سید بہارشاہ کے پاس پہنچے تو وہ دیواربناکر فارغ ہوئے ہی تھے تربوز اور سرخ کپڑا دیکھ کر سید بہارشاہ کا رنگ متغیر ہوگیاانہوں نے کہاکہ خسرو جب کسی کوتاج پہناناہو تو تمہارے شیخ اپنے ہاتھوں سے پہناتے ہیں اور جب جنازہ اٹھاناہو توہماری ڈیوٹی لگا دیتے ہیں خیر وہ اللہ کے محبوب ہیں انکے حکم کی تعمیل بھی تو ضروری ہے۔ سید بہارشاہ نے تربوز اور کپڑالیا اوردونفل پڑھنے کے بعد اپنی تعمیر کردہ کچی دیوار پر دے مارا اور زبان سے کہا برسرِتغلق(تغلق کے سر میں) اس وقت بادشاہ دہلی سے باہر نو تعمیر شدہ محل میںکھانا کھا رہاتھا اور کل ہی اس نے دلی میں داخل ہوناتھا عین اسی وقت محل کی چھت دھڑام سے سے بادشاہ کے سرپر آپڑی اور وہ اپنے ولی عہد بیٹے سمیت دب کر مر گیا شاہ رکن الدین ملتانی بھی اس کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے انہوں نے فرمایاکہ یہ محل گرنے والا ہے اور ہاتھ دھوئے بغیر باہر نکل آئے بادشاہ نے کوئی نوٹس نہ لیا شہزادہ جوناخان بھی ان کے ساتھ نکل آیاجوبعد میں بے حدخطرناک بادشاہ بنا اسی سے مشہور سیاح ابن بطوطہ کی ملاقات ہوئی تھی اور وہ کچھ عرصہ اس کی ملازمت میں بھی رہاتھا۔ مورخ فرشتہ لکھتاہے کہ حاجی محمد قندھاری کابیان ہے کہ آسمان سے بجلی گری اور محل کی چھت کو توڑتی ہوئی غیاث الدین تغلق کے سرپرآپڑی اور وہ وہیں بھسم ہو گیا اور آپ کا فرمان ضرب المثل بن گیاہے کہ ”ہنوز دلی دور است“۔ دلی کے اصل بادشاہ تو آپ تھے جنہیں بابا فرید نے بادشاہ بناکر بھیجا تھا،ایک بار چنگیزخانی منگولوں نے دلی کا محاصرہ کیاتو علاﺅ الدین خلجی اس مصیبت سے نجات کیلئے دعاکامتمنی ہوا کیونکہ شاہی لشکر بھی دلی سے باہر گیاہواتھا اور دارالحکومت بس اللہ کے آسرے پر تھا،آپ کی دعا سے وہ اتنے خوف زدہ ہوئے کہ راتوں رات محاصرہ اٹھا کر بھاگ گئے۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1305177 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.