سوچنے کی فرصت

سلطان صلاح الدینؒ ایوبی کو کون نہیں جانتا مسلم حکمرانوں میں ان کا نام اور کام بہت معتبرہے آج بھی یہودی اور عیسائی۔۔۔۔سلطان صلاح الدینؒ ایوبی سے نفرت کرتے ہیں فاتح بیت المقدس، اردن ،شام،فلسطین ،لبنان اور مصرکا جب انتقال ہوا تو اہل ِ خانہ کے پاس ان کی تدفین کیلئے کچھ نہ تھا لہذا قرض لے کر آپؒ کی تجہیزو تدفین کی گئی۔۔۔ وہ سلطان صلاح الدینؒ ایوبی جس کی ہیبت سے اسلام دشمن طاقتوں پر لرزہ طاری رہتا تھا انہوں نے اپنے ترکہ میں ایک گھوڑا،ایک زرہ بکتر،ایک تلوار،1دینار،26درہم چھوڑے تھے آپ شدید خواہش کے باوجود حج کے لئے نہ جا سکے کیونکہ ان کے پاس وسائل ہی نہ تھے جبکہ آج کے حکمران اکثر غیرملکی دوروں پر رہتے ہیں اور ایسے ایسے ملکوں کے دورے کئے جارہے ہیں جن کے نام بھی عرف ِ عام نہیں یعنی غیر ملکی دوروں کے نام پر دنیا کی سیاحت کی جارہی ہے اوران دوروں میں اپنے عزیزواقارب ،دوستوں اور سیاستدانوں کے جہاز بھرکر لے جایا جارہاہے جس سے قومی خزانے پر ہر سال اربوں کا بوجھ ڈالا جاتاہے موجودہ وزیر ِ اعظم نے اپنی کوئی عید اپنے وطن میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ گذارنا پسندنہیں کی جبکہ ایک سابقہ صدر نے اپنے دور میں سب سے زیادہ غیر ملکی دورے کرنے کااعزاز حاصل کرکے نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا شاید اس حوالہ سے ان کانام گینز آف بک میں شامل کردیا جائے۔۔۔ حیف ہے آج کے حکمرانوں نے اپنے اسلاف سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔۔۔۔ دور نہ جائیے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد سفرکے دوران تن تنہا فٹ پاتھ پرہی نماز ادا کرلیا کرتے تھے کیا پاکستانی حکمرانوں نے کبھی ایسا کیاہے؟ شنیدہے کہ اکثرو بیشتر پاکستانی حکمرانوں،وزیروں مشیروں اور اشرافیہ کو سرے سے نمازہی نہیں آتی بلکہ وہ کئی بار قرآنی آیات بھی غلط تلاوت کر جاتے ہیں جس سے دنیا کو پاکستان پر ہنسنے کا موقعہ ملتاہے۔۔۔

پاکستان کے پہلے و زیر ِ اعظم لیاقت علی خان اپنی ہزاروں ایکڑ اراضی ہندوستان میں چھوڑ کر پاکستان کی محبت میں آگئے تھے وہ چاہتے تو اس کے عوض زرعی اراضی الاٹ کروانے کا حق رکھتے تھے لیکن انہوں نے ایسا کرنا پسند نہ کیا آج کل کے حکمرانوں کا حال سب کے سامنے ہے انہوں نے اپنے لئے دولت کے پہاڑ جمع کرلئے لیکن عوام کے لئے کچھ نہیں کیا شہیدِ ملت لیاقت علی خان جب اپنے خالق ِ حقیقی سے جاملے ان کی جیب سے فقط 32روپے 50پیسے برآمد ہوئے تھے ہے کوئی ایسی مثال ۔۔۔ انہوں نے ایک شاندار روایت قائم کی سوچئے۔۔۔ذہن پر زورڈالیں آج کے حکمرانوں میں کوئی اس معیار کو چھو سکتاہے یقینا کوئی بھی ایسی ایک مثال نہیں ہوگی ۔۔۔ واقعہ یہ ہے پاکستان کے پہلے و زیر ِ اعظم لیاقت علی خان قیام ِ پاکستان کے بعد جس مکان میں رہائش پذیرہوئے وہ کسی بھی لحاظ سے ان کے شایان ِ شان نہ تھا انہوں نے خالصتاً جاگیردارانہ ماحول میں پرورش پائی تھی برطانیہ سے بیرسٹر بن کر واپس لوٹے وہ انگریزوں کے ہمنوا بن جاتے تو انہیں خان بہادر، سر یا کوئی اور خطاب سے ضرور نوازا جاتا لیکن ن کے دل میں پاکستان کی محبت موجزن تھی ۔۔۔ شنیدہے کہ ایک مرتبہ شدید بارشوں میں لیاقت علی خان کے گھرکی چھتیں ٹپکنے لگیں جس کی وجہ سے ان کے اہل ِ خانہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا DCکراچی نے لیاقت علی خان کو آکر کہا آپ کے لئے بہتر مکان کااہتمام کردیا گیاہے آپ وہاں شفٹ ہوجائیں کہیں یہ مکان گرنہ جائے تو پاکستان کے پہلے و زیر ِ اعظم نے مسکراکرکہا ہم یہیں ٹھیک ہیں اس وقت لاکھوں مہاجرین سکولوں،فٹ پاتھوں اور کھلے آسمان تلے پڑے بارش میں بھیگ رہے ہیں میں ان کی مکمل آبادکاری تک کسی اور جگہ منتقل ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا آ ج غورکریں پاکستان کے تمام قومی سیاستدانوں کی رہائش محلات جیسی ہیں غیرممالک میں الگ سے اربوں کھربوں کی جائیدادیں ہیں ہمارے ملک میں کسی ایک بھی ارکان ِ اسمبلی کا لائف سٹائل عام آدمی جیسا نہیں پھر بھی وہ عوام سے محبت کے دعوے کرتے نہیں تھکتے -

شاید آپ میں سے بیشترلوگ نہیں جانتے ہوں گے کہ ایک ملک کا صدر ایسا بھی ہے جسے روئے زمین پر سب سے زیادہ غریب صدر ِ مملکت کہا جاسکتاہے یہ ملک ہے یورا گوئے۔۔۔ جس کے صدر کا نام ہے’’جوسے مو جیکا‘‘ جو اپنی تنخواہ12500 ڈالر میں سے اپنی فیملی کے ضروریات کے لئے صرف1200امریکی ڈالر خرچ کرتاہے باقی رقم ہر ماہ غریبوں میں بانٹ دیتاہے دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے جواب دیں آپ نے ایسا سادہ،غریب یا قناعت پسند صدر دیکھا یا سناہے ہمارے وطن ِ عزیز کے موجودہ یا ماضی کے ادوارمیں ایسی کوئی ایک مثال ہوتو ضرور دوسروں کو بتا دیں۔ ہاں البتہ حکمرانوں کی اختیارات سے تجاوز،کرپشن،لوٹ مار کی عجب عض غضب ناک کہانیاں جابجا بکھری پڑی ہیں ۔

خلیفۃ المسلمین حضرت ِ عمر ِفاروق ؓ کا یہ کہنا دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مرجائے تو قیامت کے روز عمرؓ اﷲ کے حضور جوابدہ ہوگا۔۔۔ انسانیت کا اتنا جامع، مکمل اور بہترین منشورہے کہ یہ انداز ِ حکمرانی دنیا میں جس نے اپنایا کامیاب ہوگیا۔۔ پہلے خلیفۃ المسلمین حضرت ِ ابوبکرؓ صدیق مدینہ شریف میں کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے آپ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اپنا چلتا کاروبار بندکردیا لوگوں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا خلیفہ بننے کے بعد لوگ میری دکان سے خریداری کرنا زیادہ پسند کریں گے جس سے دوسرے دکانداروں کا معاشی استحصال ہوگا جو مجھے بھی گوارانہیں۔۔۔۔حضرت ِ ابوبکرؓ صدیق نے تو یہاں تک وصیت کی تھی کہ مجھے پرانے کپڑوں میں ہی دفن کردیا جائے نئے کپڑوں کی ضرورت زندہ لوگوں کو زیادہ ہوتی ہے۔۔۔ پاکستان کے عام شہری چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو ترس رہے ہیں۔۔غربت، بھوک اورمعمولی معمولی باتوں پر دلبرداشتہ ہوکر خودکشیاں کرنے پر مجبورہیں لیکن حکمرانوں کے کان پر سے جون تک نہیں رینگتی اس ماحول میں۔۔۔ ان حالات میں ہمیں اپنے اسلاف یاد آتے ہیں انکی مثالیں دل کوتسکین دیتی ہیں مگر حکمران کچھ حاصل نہیں کرنا چاہتے وہ حال مست اور مال مست کی تفسیر بنے بیٹھے ہیں وہ یہ بھی نہیں سوچتے حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز کا طرز ِ زندگی حکمران بننے سے پہلے کیسا تھا اور خلیفہ بننے کے بعد کتنے بدل گئے تھے۔۔۔وہ یہ بھی نہیں سوچتے تین تین چار چار باریاں لینے کے باوجود پاکستان کی حالت اور غریبوں کے حالات کیوں نہیں بدلے ۔۔۔شاید انہیں کچھ سوچنے کی فرصت نہیں ہے۔
اے موج ِ بلا ذرا ان کو بھی
دوچار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل پر
موجوں کا نظارہ کرتے ہیں
Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 218 Articles with 176310 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.