شجرِ خبیثہ کی شاخِ نازک پرزعفرانی آشیانہ - (قسط اول)

پندرہ ستمبر کواشوک سنگھل کے سالگرہ کے موقع پرموہن بھاگوت اور راجناتھ سنگھ ان سے ملنے گڑگاوں کے اسپتال میں پہنچے اور رام مندر کی یاد تازہ کی۔ ۱۷ نومبر کو اشوک سنگھل کا انتقال ہوگیا توان کے تعزیتی اجلاس میں ۲۲ نومبر کو موہن بھاگوت نے کہا ’’سنگھل کے صرف دو ارمان تھےایودھیا میں رام مندر بنانا اورویدوں کاپرچار کرنا ۔ امید ہے کہ آنے والے سالوں میں ہم رام مندر کی تعمیر کے سپنے کو پورا کرنے کی سمت بہتر قدم اٹھا پائیں گے۔ اس بیان کی بے یقینی ’آئندہ سالوں میں‘ ،’ امید ہے‘،’ سمت بہتر قدم‘ کے الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے لیکن اسی نشست میں امیت شاہ نے بھاگوت کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔ شاہ نے کہا آزاد ہندوستان میں رام جنم بھومی کی تحریک سب سے بڑی تحریک تھی اور اس کے خالق اشوک سنگھل تھے ۔ امیت شاہ نےرام مندر کی تحریک کو ماضی کی داستان پارینہ قرار دےکر اسے زندہ کرنے کا عزم نہ کر کے رام مندر کاخواب چکنا چور کردیا۔

اشوک سنگھل جی اس دنیا سے جاتے جاتے رام مندر کے بجائے اپنے اور اپنی تحریک وشوہندو پریشد کے اوپریہ سنگین الزام چھوڑ گئے کہ اس نے رام مندر کے نام پر جمع کئے گئے ۱۴۰۰ کروڈ روپئے غبن کئےہیں ۔ ۲۵ سال قبل جمع کی گئی اس رقم کو آج کے حساب سے دیکھیں تو یہ ۳۰۰۰ کروڈ کے آس پاس بنتی ہے۔ سنگھ پریوار پریہ الزام کسی ہندوتوا کے دشمن نے نہیں بلکہ ہندو مہا سبھا نے لگایا ہے ۔ اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کے قومی ترجمان دیویندر پانڈے نے اس رقم کا حساب مانگنے کیلئے وزیراعظم نریندر مودی ، سرسنگھ چالک موہن بھاگوت اور اشوک سنگھل کو ماہِ جولائی میں ایک خط لکھا تھا جس کا جواب نہ ملا ہے اور نہ ملے گا۔

اشوک سنگھ جس وقت بستر مرگ پر آخری سانسیں لے رہے تھے ہندو مہاسبھا ناتھو رام گوڈسے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ’’بلیدان دیوس ‘‘ منا رہی تھی۔ گوڈسے کی خدمات کو خوشنما بنا کر پیش کرنے کیلئے ویب سائٹ کا اجراء کیا جارہا تھا اور ملک بھر میں ۲۰۰ سے زیادہ مقامات پر ناتھورام کیلئے ہون کیا جارہا تھا ۔ ایسا اہتمام تو بابائے قوم گاندھی جینتی پر بھی نہیں کیا جاتا ۔ ہندو مہاسبھا کی ان حرکات پر سیکولر حضرات نے بی جے پی اور آرایس ایس پر دھاوا بول دیا جس سے وہ لوگ مدافعت میں آگئے اور آر ایس ایس کے حوصلے بھی پست ہوگئے ۔ناتھو رام گوڈسے کی پھانسی کے دن کو ’بلیدان دیوس ‘ کے طور پر منانے پر آرایس ایس کے معمر رہنما ایم ایس ویدیہ نے کمال تجاہلِ عرفانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایامیں نہیں جانتا یہ کون لوگ ہیں؟ لیکن ہم ناتھو رام گوڈسے کی عزت و تکریم کے خلاف ہیں اس لئے کہ وہ قاتل تھا ۔

سنگھ پریوار کے مذہبی اخلاص پر ویسے بھی ہندو مہاسبھا مشکوک رہی ہےلیکن مودی جی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس کو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ اب ان کے اچھے دن آگئے ہیں۔ چند ماہ قبل جب ان لوگوں نے ناتھو رام گوڈسے کا مندر تعمیر کرنے کا اعلان کیا اور مہاراشٹر میں گوڈسے کی یاد میں شوریہ دیوس منایا۔ اس پر راجیہ سبھا میں کانگریسیوں نے ہنگامہ کھڑا کردیا تومرکزی حکومت نے گوڈسے کی پذیرائی کی مذمت کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ اس کے بعد اب ویدیہ کے بیان نے ہندو مہا سبھا کو چراغ پا کردیا ۔مہا سبھا کے نائب صدراشوک شرما نے کہا کہ آریس ایس نہ صرف غدارِوطن ہے بلکہ اس نے ہندووں سے بھی غداری کی ہے ۔ کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ہندومہاسبھا ہی آرایس ایس کی سرپرست تھی لیکن گاندھی جی کے قتل کے بعد جب وہ معتوب ہوئی تو یہ لوگاس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر نہرو سے جاملے اور سارے روابط منقطع کردئیے اس لئے یہی سب سے بڑے دغابازہیں ۔

اشوک شرما کے مطابق آج بھی آرایس ایس صرف اقتدار کی بھوکی ہے اور بی جے پی نے ہندو وقار کی بحالی کیلئے ابھی تک کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ مہا سبھا کا بی جے پی یا آرایس ایس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ شرما نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بہت جلد ایک تحریک چلا کر عوام کو بتائیں گے کہ کس طرح بی جے پی نے ہندووں کے جذبات کا استحصال کرکے اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔ شرما کے مطابق بی جے پی نے صرف ووٹ کیلئے مسلم مخالف جذبات بھڑکائے اور ان مسائل کو اغواء کرلیا جو ہندو مہاسبھا نے اٹھائےتھے۔ شرما نے سوال کیا کہ ؁۱۹۴۸ میں جس وقت مہاسبھا نے رام جنم بھومی کا مسئلہ اٹھایا تھاتو اس وقت جن سنگھ یا آر ایس ایس کہاں تھے ؟ پولس کی رپورٹ میں جن سنگھ کا نہیں بلکہ مہاسبھا کا نام درج ہے۔

سنگھ پریوار کی فسطائی سیاست کے نتیجے میں فی الحال سارا ہندوستان کارزار بنا ہوا ہے۔ نت نئے مسائل آئے دن کھڑے کئے جاتے ہیں اور اس میں ملک کی پرامن عوام کو ایندھن کی مانند جھونک کر اس پر سیاسی روٹیاں سینکی جاتی ہیں ۔ کرناٹک کی کانگریسی حکومت نے پچھلے دنوں مسلمانوں کو خوشنودی کیلئے ٹیپو سلطان جینتی منانے کا فیصلہ کیا ۔ ہندو احیاء پرستوں کو اس سے فرقہ واریت پھیلانے کا نادر موقع ہاتھ آگیا اور انہوں نے ٹیپو سلطان کو ہندو دشمن بنا کر مخالفت شروع کردی حالانکہ ٹیپو سلطان کی کے دربار اور فوج میں ہندوبڑیتعدادمیں موجود تھے۔ ٹیپو سلطان کی لڑائی دراصل انگریزوں سے تھی ۔ غیر ملکی استعمار کے خلاف چھیڑی گئی وہ جنگ آزادی ہندو مسلم سب کیلئے تھی اس لئے لوگ بلاتفریق مذہب و ملت ان کے ساتھ تھے ۔ اس تاریخی حقیقت سے بھلا تنگ ذہن سنگھ پریوار کے لوگ کیونکر واقف ہو سکتے ہیں ۔ جس پارٹی کا وزیر ثقافت اور مظفر نگر فساد کا ملزم مہیش شرما بڑی بے حیائی کے ساتھ یہ کہتا ہو کہ سابق صدر عبداکلام مسلمان ہونے کے باوجود ایک اچھے انسان تھے اور اسے ایسی حماقت کے بعد عبدالکلام کا مکان عنایت کردیاجاتا ہو تو ایسے لوگوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟
آج کل ہمارے ملک یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاتی ہے کہ رواداری ہمارے خون میں شامل ہے جبکہ تاریخ اس کے خلاف شہادت دیتی ہے۔ اسی طرح اتحاد و اتفاق سے بھی اس دھرتی کے باسیوں کا کبھی یارا نہ تھا ۔ معاشرے کو منوسمرتی کی بنیاد ذات پات میں اس طرح تقسیم کیا گیا تھا کہ جس کی کوئی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ کسی مخصوص خاندان میں پیدائش کے سبب جو ناروا سلوک دبے کچلے لوگوں کے ساتھ روا رکھا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مذہب کے ذریعہ ان مظالم تقدس عطا کیا گیا اور سیاست کے زور سے نافذ کیا گیا۔ پراچین کال میں مختلف راجا مہاراجہ ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار رہتے تھے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال بابر کی ہندوستان میں آمد ہے جسے ایک ہندو راجہ نے مسلمان بادشاہ کے خلاف آنے کی دعوت دی اور جب بابر نے اس ملک کو اپنا وطن بنا لیا اور یہاں کی عوام کے فلاح بہبود میں لگ گیا تو وہ اس کے دشمن ہوگئے۔ یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ گئورکشا کے معاملے میں وزیرداخلہ راجناتھ بابر کی مثال دیتے ہیں اور رام مندر کی بات آتی ہے تو اسی مثالی بادشاہ کو ظلم کا پیکر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بابر کے نام پرچلائی جانے والی رام مندرتحریک جنوبی ہندوستان پر اثر انداز نہیں ہوسکی اس لئے بابر کے بجائے ٹیپو سلطان کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

۱۰ نومبر کو ٹیپو جینتی منانے کے خلاف بجرنگ دل نے ریاست گیر بند کا اعلان کردیا۔ اس احتجاج کے دوران جنوبی کنڑ میں ناوور کے قدیم دروازے کے قریب ہریش پجاری نامی ایک فرد ہلاک کردیا گیا ۔ ذرائع ابلاغ نے خبراس طرح سے گول مول کرکے پیش کیا کہ سمجھ میں نہیں آتا تھا وہ شخص احتجاج کرتے ہوئے پولس کی گولی سے مرا یا مسلمانوں نے جلوس پر حملہ کرکے اسے ہلاک کردیا۔ لیکن اب پولس کی تحقیقات سے ایک نئی حقیقت اجاگر ہوگئی۔انتظامیہ کے مطابق بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے بھاوت شیٹی اور اچھیوت ایک ماروتی اومنی میں وہاں آئے اور ان لوگوں نے ہریش کے ساتھ موجود سمیع اللہ پر حملہ کیا ۔ سمیع اللہ تو کسی طرح بچ نکلا لیکن ہریش ہلاک ہوگیا۔ حملہ آور یہ نہیں جانتے تھے کہ سمیع اللہ کے ساتھ کون ہے ؟ان کا گمانرہا ہوگا کہ وہ مسلمان ہے۔ حملہ آوروں نے جب لوگوں کو ان کی جانب آتے دیکھا توفرار ہوگئے۔

بھاوت شیٹی اور اچھیوت کے خلاف ضلع کے بنٹاوال علاقہ پولس تھانے میں کئی مجرمانہ شکایات درج ہیں ۔ بھاوت کو معروف کنڑ دانشور کے ایس بھگوان کو دھمکی آمیز ٹویٹ بھیجنے کے سبب گرفتار بھی کیا جاچکا ہے ۔ اس نے بھگوان کو لکھا تھا کہ تم کو بھی پروفیسر ایم ایم کالبرگی کی طرح گھر میں گھس کر مارڈالیں گے۔ اس دھمکی سے پتہ چلتا ہے کہ ہریش پجاری کا قتل انہوں نے مسلمان سمجھ کر بھول سےضرور کردیا لیکن وہ لوگ اپنے مخالف نظریات کے حامل ہندووں کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔کالبرگی کے قتل میں گرفتار ہونے والاپرشانت پجاری بھی ایک ہندو ہی ہے اور کرناٹک کے وزیرابھئے چندر جین کو دھمکی دینے والا بھی کوئی اور نہیں ہندو ہی ہے۔ وزیراعلیٰ سدھاّ رمیاّنے جب کہا کہ ویسے تو وہ بیف نہیں کھاتے لیکن اگر کھانا چاہیں تو کون روک سکتا ہے ؟اس کے جواب بی جے پی رہنما چینا باسپا نے کہا اگر انہوں نے ایسا کرنے کی جرأت کی تو میں بھرے بازار میں ان کا قتل کردوں گا ۔ ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اب یہ فسطائی عناصر مسلمانوں کے علاوہ اپنے ہم مذہب لوگوں کے بھی دشمن بن گئے ہیں۔
انتشار و نااتفاقی ایک ایسا زہر ہے کو اپنے استعمال کرنے والوں کے درمیان تفریق امتیاز نہیں کرتا بلکہ ہر کسی کو یکساں طور پر تباہ تاراج کرتا ہے ۔ اسپین سے مسلمانوں کے نکلنے میں جس قدر حصہ دشمن کی چالوں کا تھا اس سے بڑا کردار آپسی رنجشوں نے نبھایا تھا۔ یوروپ کی تباہی و بربادی میں ان کی درمیان لڑی جانے والی عالمی جنگوں کا کردار کسی تحقیق کا محتاج نہیں ہے ۔ عیسائیوں نے کیتھولک اور پرٹسٹنٹ فرقوں میں بنٹ کر جو خوں ریزی کی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ یہودیوں کی بابت قرآن میں گواہی موجودہے کہ وہ باہمی رقابت کے پیش نظر متحارب گروہوں کا ساتھ دیتے اور شکست وریخت کے بعدانہیں اپنا دین یاد آتا اور قومی حمیت جاگتی ۔ ہندوستان کے اندر اشتراکی تحریک کی ہوا اکھاڑنے والا سب سے بڑا آسیب آپسی انتشار ہے جو اس قدر تاخیر سے اتحاد میں بدلا کہ تحریک پوری طرح بے وزن ہو چکی تھی۔ اب یہی بیماری ہندو فسطائیت کی حامل تحریکوں کو بھی لگ گئی ہے۔

قرآن حکیم ہمیں اس مرض کی وجہ اور اس کے انجام دونوں سے آگاہ کرتا ہے۔ اس کارگہہ ہستی میں خس وخاشاک کو بھی عارضی طور پر پنپنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ سورہ ابراہیم میں ارشاد ہے’’ اور کلمہ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اُس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے‘‘۔اس کے برعکس دین حق کے صدا بہار شجرِ سایہ دار کی بابت فرمایا ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے ‘‘۔ عصر حاضر میں یہ امت کی بد بختی ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اس مثال کی مصداق نہیں بنایا۔نہ عقائد کی جڑیں ہمارے قلب و ذہن میں گہرائی تک اتری ہوئی ہیں اور نہ ہمارا عمل دین کا ترجمان ہے۔ اسلامی شجر رحمت سے نہ خود ہم مستفیدہوتےہیں اور نہدوسروں کو اس کے لذیذ پھلوں سےاستفادہ کا موقع دیتے ہیں ۔

ہندو مہاسبھا اور آریس ایس کا جھگڑا ۔ شیوسینا اور بی جے پی کی لڑائی ۔ بی جے پی کے اندر چھڑی ہوئی مہابھارت یہ سب ہمارے کسی کام نہ آسکےگی۔ اس صورتحال میں اہل ایمان اس خوش فہمی کا شکار نہ ہوں کہ ان کی سر پھٹول کے نتیجہ میں اقتدار کا عقاب اپنے آپ ہمارے شانے پر آکر بیٹھ جائیگا۔ اقتدار کا پھل محنت ومشقت کے بغیر کسی کو نہیں ملتا اور اہل ایمان تو جب تک آزمائش کی بھٹی میں جل کر کندن نہیں بن جاتے انہیںبارگاہِ خداوندی سے دین حنیف کو قائم کرنے کی سعادت نہیں مل سکتی۔ اللہ کے دوست حضرت ابراہیم ؑ کی بابت ارشادِ ربانی ہے کہ’’یاد کرو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزما یا اور وہ اُن سب میں پورا اتر گیا، تو اس نے کہا: ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘ ابراہیمؑ نے عرض کیا: ’’اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ‘‘میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے‘‘۔ امت مسلمہ نے اللہ کے دین اور اس کے بندوں کے ساتھ جو ظالمانہ رویہ اختیار کررکھا ہے اگر وہ اس سے باز نہیں آتی تو اس پر علامہ اقبال کی بیان کردہ قرآنی پیشن گوئی صادق آکر رہے گی ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کوخیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
(جاری ان شاء اللہ)
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450963 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.