دخترانِ ملت زیر عتاب
تاریخ اسلام میں خواتین کا کردار مثالی نظر آتا ہے۔ہر محاذ پر شانہ بشانہ
ان کی تاریخ عظیمت سے انکا ر ممکن نہیں ۔ناقابل انکار سچائی یہ ہے کہ جن
بزرگ ہستیوں نے کمالاتِ دینی اور دنیوی سے اپنانام روشن کیا ہے ان کے
کمالات میں جوہرِ حقیقی ان کی پاک طینت مائیں تھیں ۔عورت پیغمبرنہیں بن سکی
مگر پیغمبروں کو جنم دینے والی عورت ہی تھی مرد نہیں۔اس عالمِ رنگ و بو کی’’
داستانِ انسانی‘‘ کی ابتداء مرد نے اکیلے نہیں کی ،عورت ہر لمحہ ساتھ تھی
فرق صرف اتنا رہا کہ پہلا قدم کبھی مرد نے اور کبھی عورت نے اٹھایا ۔دورِ
حاضر کے فتنوں میں ایک نئی بحث یہ بھی چلی کہ عورت کو مرد کے مماثل قرار
دیا جائے پھر اسلام کو اس کے مقابل اور مخالف بناکریہ تاثر اور بھی گہرا
کردیا گیا کہ اسلام سے قبل سب نے عورت کی لاج رکھی اگر اس کے حقوق پر کسی
نے ڈاکہ ڈالا تو وہ صرف ’’اسلام‘‘تھا۔جب کہ اس کائنات کی ازلی صداقت یہ ہے
کہ اسلام نے عورت کو مرد سے کم نہیں بلکہ ہر مقام پر برابر شریک رکھا اگر
کہیں کسی کور دماغ کو کمی دکھائی دیتی ہے تو وہ صرف یہ کہ جہاں منع کیا گیا
وہاں عورت کے شایانِ شان وہ کام نہیں تھالہذا ’’احترامِ مادر کے پسِ منظر
میں‘‘اس کو احتیاطاََاور حکمتاََ روکاگیا تاکہ ’’اصلاحِ ارض کے بعد فتنہ
عظیم ‘‘برپا نہ ہو اور اگر مغرب کی طرح اس کے برعکس وہی کچھ کرایا جائے تو
یقیناََاسے عورت کا قد گھٹ جائے گا مگر افسوس یہ کہ حقوقِ نسواں پر مرثیہ
وہ کرتے ہیں جن کے ہاں ’’انسانی قدروں‘‘میں اس قدر تغیر آچکا ہے کہ جو
ہمارے نزدیک خیر ہے وہ ان کے نزدیک شر ہے اور جو ہمارے نزدیک شر ہے وہ ان
کے خیال میں خیر ہے لہذا یہ کیسے اور کس طرح ممکن ہے کہ ہم بھی ان کے سُر
میں سُر ملا کر ’’من تو شدم تو من شدی‘‘کہہ کر ’’حُریت زن کا جبہ‘‘زیب تن
کریں؟
میرا عنوان حقوقِ نسواں سے گرچہ ہٹا ہوا محسوس ہوتا ہے مگر حق یہ ہے کہ یہ
اس کے ذیل میں نہیں بلکہ اس کا ایک ’’شہ عنوان‘‘ہے کہ کشمیر میں حقوقِ
نسواں پر اگر کوئی قدیم تحریک یا تنظیم موجود ہے تو وہ ’’دخترانِ ملت جموں
و کشمیر‘‘ہے ،جس کے لئے نئی کولیشن سرکار کے وجود میں آتے ہی ظلم و تشدد کی
بھٹی کوایسے سلگایا جا چکا ہے کہ تصور سے ہی مردانہ جبیں عرق آلود ہوتی ہے
۔حقوقِ نسواں کے جھوٹے علمبرداروں کے لئے ا گرچہ ڈوب مرنے کا مقام ہے مگر
ان کی سرشت میں ایسی خمیر ہے کہ ان کے نزدیک ’’مظاہراہ بے شرمی‘‘ہی غیرت ہے
،پھر مقابل یا مخالف ماں بیٹی ہو تو ان کے ہیجڑے وجود میں شیر کی بجلی
کوندنے لگتی ہے ،ورنہ کیایہ المیہ نہیں کہ ’’فکری اور سیاسی‘‘مخالفین کو
زیر کرنے کے ہزار ہا شریفانہ طریقوں کو بالا ئے تاک رکھ کر ایسے مسخرے پن
کا مظاہرا کیا جائے کہ ساری دُنیا ’’نریندر مودی ‘‘پر ہنسنے کے بعد
’’خیالات کی جنگ‘‘کیالفاظی گورکھ دھندے والوں پر شرمندہ ہو۔میرے مضمون میں
تلخی کے اسباب جاننے ہوں تودخترانِ ملت کا یہ بیان پڑھ لیجیے ’’ آسیہ
اندرابی کی بار بار گرفتاری کو سیاسی انتقام گیری اور عمر قید سے بھی گئی
گذری صورتحال قرار دیتے ہوئے دختران ملت نے کہا کہ جب سے بی جے پی اور پی
ڈی پی کی حکومت آئی ہے تب سے ظلم کی راتیں سیاہ ہوگئی ہیں اور عوام کْش راج
شروع ہوچکا ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دختران ملت کی جنرل
سیکریٹری ناہیدہ نسرین نے کہا کہ آسیہ اندرابی کو سیاسی انتقام گیری کے تحت
آئے روز گرفتار کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آسیہ انداربی کے خلاف ایف آئی
آر درج کرنا یا پی ایس اے لگانا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ 1990ء سے یہ
سلسلہ چلا آرہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی مہذب سماج میں اس کی گنجایش
نہیں ہے مگر جب سے جموں و کشمیر پی ڈی پی کی وساطت سے بی جے پی کی گرفت میں
آیا ہے تو ظلم کی راتیں اور سیاہ ہوگئیں اور اب تو یہاں باضابطہ طور جنگل
کا قانون شروع ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ امسال اگست سے ہی آسیہ اندرابی کے
گھر پر چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور انہیں مہینوں روپوش ہونا پڑا۔
ناہیدہ نسرین نے کہا کہ آسیہ اندرابی کو جب ستمبر میں گرفتارکیا گیا۔ تو
22دنوں میں ان کے خلاف پے درپے6ایف آئی آر درج کئے گئے۔ ناہیدہ نسرین نے
کہا کہ جب عدالت کے ذریعے آسیہ اندرابی رہا ہوئیں تو ان کے گھر میں قدم
رکھنے سے پہلے ہی گھر اور تمام رشتہ داروں کے ہاں چھاپوں کا سلسلہ پھر سے
شروع ہوا جس کے نتیجے میں انہیں پھر سے روپوش ہونا پڑا۔انہوں نے کہا کہ
2نومبر کو انہیں پھر سے گھر سے گرفتار کیا گیا اور 10نومبر کو رہا کیا گیا
اور 13نومبر رات دیر گئے انہیں پھر گرفتار کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ 15نومبر
کو انہیں رہا کیا گیا اور اب 17نومبر کو پھر رات کے دوران انہیں گھر سے
گرفتار کیا گیا۔ ناہیدہ نسرین نے کہا کہ اب گرفتار کرنے والے یہ بتانے سے
قاصر ہیں کہ آسیہ اندرابی کو کیوں بار بار گرفتار کیا جاتا ہے۔دریں اثنا
ملین مارچ کے سلسلے میں جن 21 دختران ملت کی ارکان کیخلاف کیس درج کیا گیا
تھا ان کو فاریسٹ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا اور ان کو آج بھی حتمی
ضمانت نہیں دی گئی بلکہ ان کو26 نومبر کی تاریخ دے کر پھر سے پیش ہونے کا
حکم دیا گیا‘‘۔
دخترانِ ملت خواتین کشمیر کی وہ واحد تنظیم ہے جو 1990ء سے پہلے وجود میں
آئی ہے۔اس کی بانی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی ریاست کی وہ باحمیت خاتون ہے
جس نے ’’دخترانِ ملت‘‘ کی بنیاد دعوتِ دین ،اصلاح بین المسلمات اورمسئلہ
کشمیر کے پسِ منظر میں یہاں روز نئے دینی،سماجی اور سیاسی مسائل کے جنم
لینے اور خواتین کومتحرک اور منظم رکھنے کے لئے رکھی ہے۔مگر آسیہ اندرابی
اور ان کی رُفقائے کارکے ساتھ قید و بندکا معاملہ 1990ء سے لیکر آج تک
برابر جاری ہے ۔حیرت کا مقام یہ کہ جمہوریت کی علمبردار حکومتوں کو اتنا
بھی گوارا نہیں ہے کہ سیاسی مخالفین کی بات سن لیں ۔ عسکری دور کے اوائل
میں’’ بندوق نہیں سیاست‘‘ کا نغمہ گانے والے حکمران اپنے ہر دعوے میں جھوٹے
ثابت ہو رہے ہیں ۔جب عسکریت قوت میں ہو تو سیاست اور جب سیاستدان سامنے ہوں
تو ’’منتخب نمائندگی‘‘کی غزل سنائی جاتی ہے ۔اس سے بڑھکر مذاق کیا ہو سکتا
ہے کہ ایک حکومت چند روز بھی اپنے بیان ثابت قدم نہیں رہ پاتی ہو۔وہ از خود
ایسے اقدامات اٹھاتی ہے جس سے اس کی حیثیت پر سوالات اٹھتے ہوں ۔پھر معاملہ
عورت ذات کا ہو تو قلب نرم پڑ جاتا ہے وہ بھی آسیہ اندرابی جیسی مریض عورت
جس کا چلنا پھرنا بھی دشوار ہوتا جا رہا ہوتو مسائل سنگینی کا پتہ دیتے ہیں
۔
آسیہ اندرابی وہ عورت ہے جس کے شوہر ڈاکٹر محمد قاسم کو پہلے ہی عمر قیدکی
سزا کے تحت سرینگر سینٹرل جیل میں گذشتہ دو دہائیوں سے قید کیا جا چکا ہے
اور ان کی رہائی کے سبھی امکانی اور قانونی دروازے بند کئے جا چکے ہیں۔آسیہ
اندرابی دو بیٹوں کی ماں بھی ہے جنہیں عمر بھر والدین کے مصائب کی مار
جھیلنی پڑ ی ہے ۔بچپن سے لیکرلڑکپن تک سینکڑوں بارانھیں خون کے آنسوں رُلا
دیا گیا ۔آسیہ اندرابی کے چھوٹے بیٹے احمد نے 2008ء میں سرینگر کورٹ میں
موجود سبھی مرد و زن کو اس وقت رُلادیا جب ماں کو جج نے دوبارہ کوٹ بلوال
جیل جموں میں بند رکھنے کا حکم صادر کیا ۔مصائب کی مار جھیلنی کے عادی احمد
کے صبر کا پیمانہ اُس وقت لبریز ہو گیا اوروہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔صابر
و شاکر ماں نے ہمت تو بندھائی اور اﷲ کی مرضی کے سامنے سر جھکا کر جموں
پولیس کی معیت میں روانہ ہو گئی مگر حکمرانانِ کشمیر کا دل روتے بلکتے احمد
کی اخبارات میں شائع تصاویر سے کبھی نہیں پسیجا ،شاید یہ ان کی مردانگی کے
اعلیٰ ترین وصف میں تقویت کا باعث بن رہا ہوجس کے نتیجے میں عورت ذات یا
معصوم بچوں پر مظالم ڈھاناباعث عار فعل کے برعکس باعث فخر محسوس ہو رہا ہو
نہیں تو ’’حقوق نسواں و معصوماں کے جھوٹے علمبردار‘‘اس جبر پر خاموش کیوں
ہیں؟
ملین مارچ کی کال دینے پر جو سلوک مودی جی اور ان کی اتحادی جماعت پی ڈی پی
نے حریت پسند لیڈران کے ساتھ کیا نے ان کے ’’خیالات کی جنگ‘‘کے غبارے سے
ہوا نکال دی ہے اور نیشنل و کانگریس کولییشن سرکار میں چیخ و پکار کے
معاملے کی اصلیت سے پردہ ہٹا دیا ہے کہ دراصل یہ صرف شور شرابا ہوتا ہے
کوئی سچائی نہیں ۔آخر احتجاج کرنا یا پر امن ذرائع اختیار کرتے ہو ئے اپنی
بات مخالف تک پہنچا دینا گناہ کیوں ہے ؟نریندر مودی کے خلاف جو ’’ریکارڈ
احتجاج‘‘برطانیہ میں ہوا کو کیا نام دیا جائے سوائے اس کے کہ نریندر مودی
اینڈ کمپنی معصوموں ،عورتوں اور بچوں پر شیر ہے ورنہ جس منطق کی بنیاد پر
بیرون ہندوستان احتجاج کرنا عوام کا حق ہے بالکل اسی طرح اندرون ہندوستان
بھی یہاں کے شہریوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی’’ آواز‘‘ ان تک پہنچا دے مگر
نرالے ہندوستان کا نرالا میعار ہی شرمندگی کے لئے کافی ہے کہ انھوں نے
نوجوان لڑکیوں کو اپنی تنظیمی سربراہ سمیت تھانوں میں بند رکھدیا ؟سوال
پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کے تماشوں سے یہاں کے حالات نارمل ہو جائیں گے
؟کیا اسی طرح امن لوٹ آئے گا ؟کیا یہی مطلب ہے بات چیت کے ذریعے مسئلہ
کشمیر حل کرنے کا ؟کیا یہی آزادی یہاں کے سیاستکاروں کو میسر ہے ؟کیا یہی
ہے حقوقِ نسواں اور تحفظِ معصوماں ؟کیا انہی طریقوں سے یہاں نفرت پھیلے گی
یا محبت ۔ |