22نومبر2015ء کوہفتے اور اتوار
کے درمیانی رات 12:55بجے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکرٹری جنرل علی احسن
مجاہد اور بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما صلاح الدین قادر چودھری
کو پھانسی کی سزا دے دی گئی ۔ دونوں رہنماؤں کو بیک وقت تختہ دار پہ لٹکایا
گیا۔ جیل کے جلاد شاہجہان نے بنگلا دیش میڈیا کو بتایا کہ دونوں رہنماقرآن
پاک کی تلاوت کرتے ہوئے مردانہ وار تختہ دار کی طرف بڑھے ۔ وہ انتہائی ہشاش
بشاش اور پر سکون تھے۔ جب ان کے گرد نوں میں پھندا ڈالا گیا تو انھوں نے
نعرہ تکبیر بلند کیا ۔ شاعر نے ایسے ہی لوگوں اور ایسے ہی موقع کے لیے
کہاہوگا۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں
دونوں شہدا کی میتوں کو تدفین کے لیے اپنے اپنے آبائی علاقوں کی طرف لے
جایا گیا صلاح الدین قا درچودھری شہید کی نماز جنازہ چٹاگانگ میں ادا کی
گئی۔ جبکہ علی احسن مجاہد کی نماز جنازہ ضلع فرید پور ،کھباش پور میں جماعت
اسلامی بنگلہ دیش کے زیر انتظام آئیڈیل کیڈٹ مدرستہ الاسلام میں صبح سات
بجے ادا کی گئی ۔صرف اہل خانہ اور محدود لوگوں کو جنازہ پڑھنے کی اجازت دی
گئی۔بنگلہ دیشی اخبار پروتھوم اَلو کے مطابق سکیورٹی فورسز نے ہزاروں لوگوں
اور میڈیا کے نمائندوں کو جنازے میں شرکت سے روکا۔
صلاح الدین قادر چودھری اور علی احسن مجاہد پر ۱۹۷۱ ء کے جنگ کے دوران میں
پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر اغوا ،تشدد، قتل اور آبروریزی جیسے گھناونے
الزامات لگائے گئے تھے۔
جس ٹربیونل سے ان کو سزائیں سنائی گئیں اس کو عوامی لیگ اور بھارتی حکومت
کے علاوہ کوئی بھی عدالت ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل سمیت
دنیا بھر کے انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کی جانب داری اور بین الاقوامی
نظام انصاف کے تقاضوں سے فروتری کوبارہا تنقید کا نشانہ بنایا ۔
صلاح الدین قادر چودھری کے والد فضل الحق چودھری مسلم لیگ کے معروف رہنما
اور متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر تھے ۔ 1971ء کے جنگ کے آغاز سے
لے کر اختتام تک مغربی پاکستان میں رہے۔ پنجاب یونی ورسٹی میں شعبہ
پولیٹیکل سائنس میں پڑھتے رہے اور کچھ عرصہ کراچی میں مقیم رہے۔ ان کے والد
فضل الحق چودھری محب وطن پاکستانی تھے۔ انھوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی
کی مخالفت کی جس کی پاداش میں شیخ مجیب نے بنگلہ دیش بننے کے بعد انھیں
گرفتار کروایا۔1974ء میں ڈھاکا جیل ہی میں اس کا انتقال ہوا۔
1974ء کے بعد بنگلہ دیش بھارت کے دباؤسے نسبتاً آزاد ہوا تو صلاح الدین
قادر چودھری سیاست میں آگئے ۔ 1979ء سے2008 ء تک وہ سات مرتبہ بنگلہ دیشی
پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ بی این پی کی حکومت میں وہ خالدہ ضیا کے مشیر
تھے۔ 2010 ء میں حسینہ واجد کی سکیورٹی فورسز نے انھیں اُٹھایا اور دھان
منڈی کے ایک مکان میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ 2011 ء میں ان پر نام
نہاد جنگی ٹربیونل میں مقدمے کا آغاز ہوا اکتوبر 2013 ء میں انھیں سزائے
موت سنائی گئی۔ ان پر 1971ء میں بنگالی ہندوؤں کے قتل اور پاکستانی فوج کا
ساتھ دینے کا الزام تھا۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکرٹری جزل علی احسن مجاہد کے والد عبدالعلی
بھی مشرقی پاکستان اسمبلی کے رکن اور جماعت اسلامی فرید پور کے امیر تھے۔
علی احسن مجاہداسلامی چھاتروشبر کے مرکزی رہنما تھے۔بعد میں جماعت اسلامی
کے سیکرٹری جنرل بنے۔ 2001ء میں بنگلہ دیش اسمبلی کے رکن بنے اور 2001 ء
تا2006ء سوشل ویلفیئر کے وزیر رہے۔ انھیں جون 2010ء میں گرفتار کیا گیا
تھا۔ اور جولائی 2013ء میں موت کی سزا سنائی گئی ۔ ان پر جماعت اسلامی کے
تمام رہنما ؤں کی طرح قتل عام اغوا، تشدد اور بے حرمتی کے الزامات عائد کیے
گئے تھے۔ ان دونوں نے سپریم کورٹ میں ان سزاؤں کے خلاف نظر ثانی کی
درخواستیں دی تھیں۔18نومبر کو سپریم کورٹ نے ان کی درخواستیں مسترد کرکے
ٹربیونل کی سزائیں برقرار رکھیں۔
وار کرائم ٹر بیونل آغاز ہی سے متنازع تو تھا ہی لیکن 2012ء میں اس وقت اس
کا رہا سہا بھرم بھی نہ رہا جب اس ٹربیونل کے سربراہ نظام الحق اور بروسل
میں مقیم وکیل احمد ضیاء الدین کے درمیان 17گھنٹوں کی سکائپ گفتگو اور230ای
میل کا ریکارڈ منظر عام پر آیا۔ واضح رہے کہ اس ریکارڈ کو منظر عام پر لانے
والا کوئی مقامی اور معمولی اخبار نہ تھا بلکہ دینا بھر کے صحافتی حلقوں
میں ساکھ رکھنے والا جریدہ دی اکانومسٹ تھا ۔ گفتگو اور ای میل کا یہ
ریکارڈ حکومت کی طرف سے اس نام نہاد ٹربیونل پر دباؤ ظاہر کر رہا تھا کہ
مقدمات کے فیصلے جلداز جلد سنائے جائیں ۔نظام الحق کے یہ الفاظ ریکارڈ کا
حصہ ہیں کہ’’ حکومت فیصلے کے لیے مکمل طور پر پاگل ہو چکی ہے وہ16دسمبر سے
پہلے فیصلہ چاہتی ہے۔ ‘‘اس گفتگو کے منظر عام پر آنے کے بعدٹربیونل کی غیر
جانب داری پر سوالات اُٹھائے گئے جس کے بعد نظام الحق کو اس ٹربیونل کے
سربراہی سے مستعفی ہو نا پڑا۔
بنگلہ دیش کے سپریم کورٹ کا معاملہ اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے ۔اس وقت
سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ایک بھارت نواز ہندو سریندرکمار سنہا
ہیں۔موصوف2013ء،2014ئمیں بھارت کے کئی دورے کر چکے ہیں جس کے بعد انھیں
سپریم کورٹ کاچیف جسٹس مقرر کیا گیا۔چیف بننے کے بعد بھی اکتوبر میں دورہ
بھارت کے دوران میں انھوں نے کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گری قراردینے کے
علاوہ پاکستان کے خلاف بیانات بھی دیے تھے۔
20نومبر 2015 ء کے بنگلا دیشی اخبارات میں’’ بنگلہ دیش میں انصاف نہیں ہوا‘‘
(Justice not served in Bangla desh) کے عنوان سے سٹیفن رِپ (Stephen Rapp)
نامی ایک سابق امریکی ایمبیسڈرکا مضمون چھپاہے۔ وہ لکھتے ہیں’’میں امریکی
سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے عالمی عدالت انصاف میں چھے سال تک( ستمبر 2009 ء تااگست
2015ء )ایمبیسڈرایٹ لارج رہاہوں ۔ میں 2011ئسے 2014ئتک جنگی جرائم کے لیے
قائم کردہ ٹربیونل کے عدالتی طریقہ کار کو جانچنے کے لیے پانچ دفعہ ڈھاکا
گیا ۔ میرا مقصد ملزمان کو انصاف کی فراہمی تھا ۔ میں نے ہمیشہ ٹربیونل کے
عدالتی طریقہ کار کو عالمی نظام انصاف کے معیار کے برابر لانے پرزوردیالیکن
ایسا نہ ہوسکا۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ صلاح الدین قادر چودھری
اور علی احسن مجاہد کے کیس میں انصاف نہیں ہوا۔ میں نے چودھری اور مجاہد کے
کیس کو قریب سے دیکھا ان دونوں کو دفاع کا حق نہیں دیا گیا۔انھوں نے کہاکہ
صرف صلاح الدین قادر چودھری اور علی احسن مجاہد کے کیس ہی میں خامیا ں نہیں
بلکہ وار کرائم کے تمام ملزمین کے مقدمات کاطریقہ کار ناقص ہے ۔اس صورت حال
میں میں بنگلادیش حکومت سے مطالبہ کرتاہوں کہ اس وقت تک سزائے موت کو معطل
کیا جائے جب تک عدالتی طریقہ کار بین الاقوامی معیار کے مطابق نہ کیا جائے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ جنگی جرائم محض ایک بہانہ اور
عدالتیں ایک ڈراما ہے ۔حقیقت کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ شیخ حسینہ بنگلادیش
نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کے اتحاد اورعوامی مقبولیت سے خائف تھی اس
اتحاد کو توڑنے کے لیے ہر کوشش میں ناکامی کے بعد 2010میں انھوں نے
انٹرنیشنل وارکرائمز ٹربیونل کا ڈول ڈالا اور جماعت اسلامی کی چوٹی کی
قیادت پر 1971ء کی جنگی جرائم کے نام پر مقدمات قائم کرکے ان کو سلاخوں کے
پیچھے دھکیل دیا۔ انڈیا نے اس موقع کو غنیمت جان کر کٹھ پُتلی حسینہ کو
عدالتی قتل کا راستا سُجھادیا ۔یوں حسینہ اور بھارتی حکومت کوایک تیر سے
دوشکار کا موقع ملا۔۔
صلا ح الدین قادر چودھر ی کا بھی سب سے بڑا جرم پاکستان سے ان کی نسبت اور
تعلق ہے ۔ایک تو ان کا والد محب وطن پاکستانی تھا۔دوسرا ،انھوں نے خود
تعلیم پنجاب یونی ورسٹی سے حاصل کی تھی ۔ان کے کلاس فیلو اور دوست اب بھی
پاکستانی تھے علاوہ ازیں محب وطن بنگلا دیشیوں کی طرح وہ بھی انڈیا کے خلاف
تھے۔ کہا جاتا ہے کہ خالدہ ضیا کے دور میں وہ انڈیا کی بڑے کمپنیوں کو تین
بلین روپے کے سرمایہ کاری میں رکاوٹ تھے۔اس لیے ایک عرصے سے سے انڈیا کے
اینٹلی جنس ایجنسیوں کے نشانے پر تھے۔
بھارت کی دل چسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ 19 نومبر
2015ء کویعنی بنگلادیشی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے ٹھیک ایک دن بعد
بھارت کے صدر پرناب مکھرجی نے کیولری آفیسرز ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب
کرتے ہوئے کہا کہ’’ 1974ء کے بعد پہلی دفعہ بنگلادیش اور بھارت کے درمیان
تعلقات بہترین سطح پر آگئے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ ہم بنگلا دیش کے ساتھ
1971ء کی جنگ آزادی کے تعاون کا جذبہ بحال کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ظاہر ہے یہ
بیان محض اتفاق نہیں ہوسکتا۔
بنگلادیش کی حکومت پراس وقت عوامی لیگ کے ہائی جیکروں کا قبضہ ہے جن کی
حیثیت بھارتی گماشتوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔عوامی لیگ اپنے پچھلے دور
اقتدار میں مہنگائی ،بے روزگار ،کرپشن اور گارمنٹس سیکٹر کی تباہی کی بدولت
عوامی غیظ و غضب کا شکار تھی ۔ 2013ء کے الیکشن میں اسے اپنی شکست صاف نظر
آرہی تھی ۔اس لیے اس نے نگران حکومت کے بجائے آئین کو پامال کرکے خود اپنی
نگرانی میں الیکشن کرانے اور اس طرح سے وسیع پیمانے پر دھاندلی کا پروگرام
بنایا ۔بی این پی اور جماعت اسلامی کی قیادت میں 18جماعتی اتحاد نے اس کا
بائی کاٹ کیا۔جس کے نتیجے میں عوام انتخابی عمل سے مکمل طور پر لا تعلق
ہوگئے۔اس طرح عوامی لیگ کے نصف سے زیادہ اراکین بلامقابلہ پاس ہوگئے جبکہ
باقی نصف پر انتخابات کا محض ڈھونگ رچایا گیا۔ ایک انڈیا کے علاوہ کسی نے
اس الیکشن کو صاف و شفاف نہیں ماناتھا۔عوامی لیگ حکومت جھوٹ ،پروپیگنڈہ،
دھاندلی ،بدمعاشی،مکروفریب اور منافقت کاہر حربہ اختیا کرتی ہے۔لیکن اس کے
با وجود بنگلادیشی عوام حقائق جانتی ہے ان کے ہاں وار کرائم کی کوئی حقیقت
نہیں ،ان کے دل ا ب بھی بی این پی اورجماعت اسلامی کے ساتھ ہیں۔اس کا ثبوت
پابندیوں کے باوجودملک بھر میں علی احسن مجاہد کے غائبانہ جنازے میں لوگوں
کی بھر پور شرکت اور پیر کے دن پورے بنگلادیش میں جماعت اسلامی کی کا ل پر
ملک گیر کامیاب ہڑتال ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ حسینہ واجد حکومت نے بنگلادیشی عوام کے جذبات کے برعکس
بنگلا دیش کو بھارت کا طفیلی بنا دیا۔بھارت نے حسینہ واجد کے ذریعے سے
پاکستان کے وفاداروں کو پھانسی پر لٹکا کرجہاں بنگلادیش اور پاکستان کے
درمیان ایک دفعہ پھر نفرت کے بیج بودیے وہاں بلوچستان اور قبائلی علاقوں
میں را کے مقابلے میں صف آرا محب وطن عوام کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان کے
ساتھ وفاداری کا انجام کس مپرسی کی عالم میں پھانسی پر لٹکنا ہوگا یا
پھرعلاج معالجے سے محروم ہوکر جیل میں غلام اعظم شہید ،مولاناابوالکلام
یوسف شہیداورعبدالعلیم شہید کی طرح موت کو گلے لگانا ہوگا۔
اس صورت حال میں اس معاملے کوصرف بنگلادیش کا اندرونی مسئلہ قرار دینا اور
مصلحت کا لبادہ اوڑھ کر خاموش رہنا دنیا بھر کی بالعموم اور پاکستان کی با
لخصوص مجرمانہ غفلت ہے۔صلاح الدین قادرچودھری اور علی احسن مجاہد کے عدالتی
قتل پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے رسمی غم وغصے کا اظہار کیا ہے البتہ وزیر
داخلہ چودھری نثار کا یہ کہنا قابل ستائش ہے کہ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہورہا
ہے وہ اخلاقیات ،بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی پامالی ہے۔انصاف
کے قتل پر بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی حیران کن ہے۔انھوں
نے یہ بھی کہا کہ میں انتہائی رنجید ہ ہوں کہ ہم ان کے لیے کچھ نہ کرسکے
قصور صرف یہ تھا کہ انھوں نے آج سے 45سال پہلے اپنے وطن پاکستان سے وفاداری
نبھائی ۔آئندہ کابینہ کے اجلاس میں ،میں یہ مسئلہ اٹھاؤں گاتاکہ بنگلادیش
حکومت کے انتقام کے آگے دیوار کھڑی کی جاسکے۔‘‘
وزیر داخلہ کا بیان مبنی بر حق اور غیرت کے تقاضوں کے عین مطابق لیکن
بعدازوقت واویلاہے ۔کیونکہ یہ معاملہ آج سے نہیں بلکہ 2010ء سے ہے۔ 2013 ء
میں عبدالقادر مُلا کو پھانسی دی گئی۔ اپریل 2015ء میں ۔۔۔۔۔۔۔کو تختہ دار
پر لٹکایا گیا۔91سالہ بزرگ غلام اعظم صاحب اور ان کے دو ساتھیوں کے جنازے
جیل سے نکل گئے۔وزیر داخلہ کے اس بیان پر شاعر کی زبان میں کہا جاسکتا ہے
کہ
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک
ضرورت اس امر کی تھی کہ پھانسیوں سے پہلے بین الاقوامی سطح پر مہم چلائی
جاتی ۔1974ء کے معاہدے کی رو سے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا
جاتااوربنگلا دیش کے سفیر کو واپس کردیاجاتا۔اس وقت امیر جماعت اسلامی
بنگلادیش مطیع الرحمان نظامی کی پھانسی کے لیے انتظامات مکمل ہیں۔16 دسمبر
کا انتظار ہے ۔ جماعت اسلامی کیباقی 7 قائدین کے لیے بھی پھانسی کے پھندے
تیارہیں۔.ان کا جرم پاکستان کے ساتھ وفاداری کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔اب بھی
اگر ہم نے آواز نہ اٹھائی توتاریخ میں ہمارا کردار ’’غیرت نام تھا جس کا
گئی تیمور کے گھر سے‘‘کے عنوان سے درج ہوگا۔ |