گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کی لبرل و
سیکولر حکومت نے پاکستان سے وفاداری نبھانے کی پاداش میں دوافراد کو
دہشتگرد قرار دے کر تختۂ دار پہ لٹکا دیا۔ ان افراد کا جرم صرف یہ تھا کہ
1971کی پاک بھارت جنگ میں انہوں نے اپنے وطن پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا
تھا اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کی آخری حد تک کوشش کی ۔ وطن سے محبت ہی ان
کا گنا ہ ٹھیہرا۔چونکہ یہ اقدام ایک لبرل و سیکولر حکومت نے اٹھایا ہے اس
لیے اسے انتہا پسندی یا شدت پسندی سے موسوم نہیں کیا گیا اورچپ سادھ لی گئی
۔ فی زمانہ یہ طے پایا ہے کہ شدت پسندی یا انتہا پسندی اس فعل کو کہا جائے
گا جو مذہب خصوصا اسلام کے نام پہ کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سوشل
میڈیا سے منسلک کروڑوں صارفین نے بھی پاکستان سے ہمدردی کے لیے کوئی علامتی
احتجاج تک نہیں کیا ۔ کوئی تصویر پاکستانی پرچم سے رنگین نہیں ہوئی ۔ایک ہو
کا عالم ہے اور ہماری تنہائی ۔ پاکستان کی سیکولر لابی اسے بنگلہ دیش کا
اندرونی معاملہ قرار دے رہی ہے جبکہ پاکستان کی حکومت اپنے تعلقات کے خدشے
سے انگشت بدنداں ہے ۔ دوسری جانب فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہونے والا
دہشتگردی کا واقعہ عالمی توجہ کا مرکر بنا ہوا ہے ۔ کبھی اس حملے کو تمام
یورپ پہ حملہ قرار دیا جاتا ہے تو کبھی پاپائے روم اسے انسانیت کے خلاف جرم
عظیم قرار دیتے ہیں ۔ دیرینہ حریف روس اور امریکہ کے صدور سر جوڑ کر بیٹھتے
ہیں اور داعش کے خلاف عسکری کاروائی کا عندیہ دیتے ہوئے ایک مشترکہ اعلامیہ
بھی جاری کرڈالتے ہیں۔تمام مغربی اہل قلم مسلم حکمرانوں پہ زور دے رہے ہیں
کہ وہ اپنے ممالک میں انتہا پسندی کے رجحانات کا جائزہ لیں اور ان کے
سرچشموں کا قلع قمع کریں ۔ ادھر مسلم ہیں کہ فرانس کے جھنڈے سے اپنی تصاویر
رنگ کر اظہار یکجہتی کر رہے ہیں ۔
پیرس واقعہ یقینا انسانیت پہ شب خون ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔بے
گناہ افراد کی جان لینا عظیم گناہ ہے جس کی کوئی تلافی نہیں ہے ۔ تعلیمات
اسلامیہ کے مطابق کسی ایک انسان کا قتل تمام انسانیت کے قتل کے مترادف ہے ۔
لیکن یہ امر تشویشناک ہے کہ دہشت گردی ، انتہا پسندی اور شدت پسندی کا تعلق
اسلام اور ملت اسلامیہ سے جوڑا جا رہا ہے ۔حالانکہ اس حملے کے دوران بھی
فرانس کے مسلم شہریوں نے اپنی جان پہ کھیل کر لوگوں کی جان بچائی۔مغرب نے
ان مسلمان شہریوں کی انسانی ہمدردی کی کاروائیوں کو پردہ ٔ اخفا میں رکھا
اور دہشت گردی کے تانے بانے مسلم دنیا سے ملانے کی سرتوڑ کوشش کی۔ عالم
اسلام کو شدت پسندی اور انتہا پسندی کا مورد الزام ٹھیہرانا مغرب کے دوہرے
معیار کی عکاسی کرتا ہے ۔ اگر قلب سلیم اور چشم بینا کے ساتھ ان واقعات کا
تجزیہ کیا جائے تو حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔
مغرب خود کوجمہوری اقدار کا علمبردار کہلاتا ہے جس کی اساس شخصی آزادی اور
انسانی حقوق ہیں لیکن فرانس کی پارلیمنٹ نے ماضی قریب میں مسلم دشمنی پہ
مبنی جو قانون سازی کی ہے وہ شخصی آزادی اور اقلیتوں کے انسانی حقوق کے
تمام تردعوؤ ں کی قلعی کھول دیتے ہیں ۔اکیسویں صدی میں فرانس کی جانب سے
اسلامی اقدار اور مسلم شہریوں کے ساتھ تعصب پہ مبنی سلوک کو محض اسلیے
برداشت کیا جا رہا ہے کہ یہ فرانس کی سیکولر حکومت کی جانب سے ہے ۔ اس
اقدام کو انتہا پسندی یا شدت پسندی بھی اسی لیے نہیں قرار دیا جاتا کہ یہ
اقدام مغرب کے ایک سیکولر ملک نے اٹھا یا ہے ۔ڈنمارک میں ٓزادی ٔ رائے کی
آڑ میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا معاملہ کسی انتہا پسندی کا شاخسانہ قرار
نہیں دیا جاتاکیونکہ دل آزاری مسلم دنیا کی ہوئی ہے اور کرنے والا سیکولر
ملک ہے ۔ امریکہ کے چرچ میں قران پاک کی بے حرمتی کو انتہا پسندی اور شدت
پسندی سے منسوب اس لیے نہیں کیا جاتاکہ وہ پادری مسلمان نہیں تھا۔ جرمن
حکمران مسلم دشمنی پہ مبنی بیانات دیتے ہیں تو اسے بھی انتہا پسندی و شدت
پسندی سے تعبیر نہیں کیا جاتا کیوننکہ اسکے مرتکب مسلم نہیں بلکہ مغرب کے
سیکولر ہیں ۔
جو پائمال کرو گے ادب کے خوابوں کو
تو واقعات کی صورت میں خواب ابھریں گے
مغرب جمہوریت کا علمبردار توہے لیکن عالم اسلام میں جمہوریت مغرب کو ایک
آنکھ نہیں بھاتی ۔ترکی میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی جیت مغرب کو کسی
صورت ہضم نہیں ہو رہی ۔ ماضی میں بھی اسلام پسند جماعتوں کو فوجی طاقت سے
کچلا گیا یہاں تک کہ منتخب وزیر اعظم تک کو تختۂ دار پہ لٹکایا گیا ۔لیکن
مغرب کی حکومتوں نے اسے انتہا پسندی یا شدت پسندی نہیں گردانا کیونکہ
جمہوریت کو پٹری سے اتارنے والے سیکولر تھے ۔الجزائر میں اسلامک سالویشن
فرنٹ کی منتخب حکومت کوفرانس کی براہ راست مداخلت سے فوجی طاقت کے ذریعے
کچلا گیا ۔ مغرب نے اس پہ سکھ کا سانس لیا۔ فلسطین کی حماس نے الیکشن جیت
کر حکومت سازی کی جو مغربی ممالک کو ہضم نہیں ہوئی۔مصر میں اخوان المسلمون
کی قائم کردہ منتخب جمہوری حکومت کو فوج کے ذریعے ختم کیا گیا ۔ 6000اخوان
کو بے دردی سے قتل کیا گیا اور ہزارہا کارکنان کو اذیت دی گئی لیکن اہل
مغرب نے اطمینان کا سانس لیاکیونکہ قتل عام کرنے والی فوج سیکولر تھی اور
متاثرہ حکومت اسلام پسند ۔ برما میں خون مسلمان سے ہولی کھیلی گئی مگر مغرب
نے اسے انتہاپسندی قرار نہیں دیا بھارت کی سیکولر جمہوریہ میں مسلمانوں کو
اس بنا پہ قتل کیا جاتا ہے کہ وہ مسلم ہیں۔بی جے پی کی حکومت نے علی
الاعلان مسلم دشمنی کی روش اپنا رکھی ہے لیکن اسے انتہاپسندی یا شدت پسندی
سے موسوم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ کشمیر میں بھارتی فوج نے گزشتہ
تین دہائیوں میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کی جان لی لیکن بھارت کو
دہشتگرد، انتہا پسند یا شدت پسند ریاست محض اسلیے نہیں قرار دیا جا رہا کہ
وہ سیکولر ہے ۔
تمہارے فیض سے تھی جن کی خانہ ویرانی
یہی ہے وقت کہ وہ خانہ خراب ابھریں گے
اگر انتہا پسندی کے سوتوں کو تلاش کرنا ہے تو مسلم حکمرانوں کو پکارنے کے
بجائے سپین کی مسجد قرطبہ کے دروازوں پہ پڑے قفل سے پوچھئے شاید وہ
انتہاپسندی اور شدت پسندی کی جڑوں کا کوئی پتہ بتا سکے ۔سپین میں مسلمانوں
کے ان قبرستانون سے پوچھئے جنہیں ہموار کر کے سٹیدیم بنا دیا گیا ہے اور اب
ان پہ سانڈھ دوڑائے جاتے ہیں ۔جرمنی کی اس عدالت کے درو دیوار سے پوچھیے
جہاں ایک خاتون کو محض اس بنا پہ قتل کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق
حجاب پہنتی تھی ۔ڈنمارک کی پرنٹنگ پریس کی مشینیں اور ان پہ لگی سیاہی بھی
انتہا پسندی کے نشانوں کا پتہ دے گی ۔
مغرب کی پالیسیوں کا تجزیہ کریں تواہل غرب کا انتہائی کریہہ چہرہ سامنے آتا
ہے۔ علم وہنر میں آگے ہونے اور ٹیکنالوجی کی چکاچوند نے مغرب کا اصل چہرہ
دھندلا دیا ہے ۔ اقوام مغرب اب بھی خون مسلم کی پیاسی ہیں ۔ تہذیب کے نقاب
اوڑ ھ کر مغرب نے خود کو خوشنما بنا رکھا ہے حالانکہ مغرب کی اجتماعی سوچ
آج بھی درندگی پہ مبنی ہے ۔ پیرس حملے جیسے بیسیوں واقعات کو بنیاد بنا کر
وہ اہل اسلام کے خون سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں ۔9/11 کے واقعات کو بنیاد بنا
کر افغانستان پہ حملہ کیا گیالیکن لاکھوں افراد کی جانیں لی گئیں ، اور
جانوں کے ضیاع کا سسلسلہ تا حال جاری ہے ۔بڑے پیمانے پہ تباہی پھیلانے والے
کیمیاوی ہتھیاروں کی موجودگی کو جواز بنا کر عراق پہ حملہ کیا گیا اور اب
تک 2لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بنائے جا چکے ۔لیکن اب بھی مغرب کی پیاس
بجھی نہیں ہے ۔ اہل مغرب شام میں رقص ابلیس برپا کر کے مسلمانوں کے بہتے
لہو کا تماشا دیکھنا چاہتے ہیں ۔اہل مغرب کا وطیرہ ہے کہ وہ تہذیب کے
خوشنما لبادے میں چھپ کر وار کرتے ہیں ۔ جال تیار کرتے ہیں مہرے تلاش کرتے
ہیں اور پھر شکار پہ ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم مہرہ بھی بن
جاتے ہیں اور شکار بھی ۔
بیسویں صدی کے آغاز پہ ہی امت مسلمہ کی شیرازہ بندی کر دی گئی ۔ علاقائی
اور لسانی بنیادوں پہ تقسیم امت مسلمہ سے روح ایمانی ہی نکال دی گئی ہے ۔
اب ایک ملک کے مسلمانوں کی بربادی پر دوسرے ملک کے مسلمان غمزدہ نہیں ہوتے
بلکہ سب سے پہلے فلاں کا نعرہ لگا کر دوسرے کو دشمن کے ہاتھوں تباہ و برباد
ہونے کے لیے تنہا چھوڑ دیاجاتاہے ۔جیسے ہم نے افغانستان کے ساتھ کیااور بعد
میں ہمیں ساٹھ ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ دینا پڑا اور اب بھی کئی
علاقون میں فوجی آپریشن جاری ہے ۔جبکہ مغرب دوستی کا جھانسہ دے کر امت
مسلمہ کی بیخ کنی کر رہا ہے ۔ وہ ایک طرف دہشت گرد تنظیموں کو مالی امداد
فراہم کرتا ہے عوام کو حکومتوں کے خلاف اکساتا ہے اور پھر خانہ جنگی شروع
ہو جاتی ہے۔دونوں جانب نقصان امت مسلمہ کا ہی ہوتا ہے ۔ کبھی یہی مغرب
ہمارے فقہی اختلافات کو ہوا دے کر مسلکی نزاع پیدا کراتا ہے جو بعدازاں
علاقائی جنگوں کا باعث بنتا ہے ۔عراق ایران جنگ اس کی بین مثال ہے اس جنگ
میں لاکھوں افراد لقمۂ اجل بنے ۔ دونوں ملکوں نے اپنے عسکری اور مالی وسائل
کوبے دریغ ضائع کیا اور جب مغربی ممالک نے عراق پہ چڑھائی کی تو اسکے پاس
مقابلے کی سکت ہی نہیں تھی۔ آج شام کے مخدوش حالات ایک اور جنگ کا پیغام دے
رہے ہیں امت مسلمہ کے حکمران ان مغربی طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں غرض
ہماری رگ و پے مغرب کے ہاتھ میں ہے اور کوزہ ٔ دست ِمغرب خون ِ مسلماں سے
ہے لبریز۔ اس تمام صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل اسلام بیدار ہوں
اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے آگاہ ہوں اور دیوار بن کر ان قوتوں کا
مقابلہ کریں۔امت مسلمہ کے ارباب اختیار کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کا بغور
جائزہ لیں اور ایسی حکمت عملی مرتب کریں کہ امت کا اتھاد دوبارہ قائم
ہوجائے ۔ امت مسلمہ کے اتحاد میں ہی ہماری بقا ہے ورنہ مغربی چنگیزیت ہمیں
دنیا سے فنا کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے ۔ اﷲ تعالی ٰ ہمیں دشمن کے شر سے
محفوظ فرمائے ۔آمین |