عشق رسولﷺ ہی ہمارا امام
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
زخموں سے رِستا ہوا لہو
اور محبوب کے فراق کے لمحات دونوں میں فرق نہیں دونوں کی حثیت عمومیت کی
حامل ہوتی ہے۔نہ تو فراق کوئی اجنبی شے ہوتی ہے عاشق کے لیے اور نہ ہی
زخموں سے لہو کا رِسنازخموں کے لیے کوئی انوکھا کام ہوتا ہے۔عاشق کا عشق
سلامت ہے تو پھر یہ راہ عشق کے اندازبھی جاری ہیں ۔ورنہ کہاں کے زخم اور
کہاں کے فرقت کے لمحات۔جب عشقِ مصطفی ﷺ کے حوالے سے کسی بھی دنیا وی تگ
وتاز کا تذکرہ ہوتا ہے تو حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ
حضرت علی حیدر کرار، امامِ عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ وامام حسنؓ صحابہ
کرامؓ کی زندگی ہمارئے لیے مشعل راہ بن جاتی ہے۔تابعین تبعہ تابین
اولیااکرام شھداء اِ ن تمام عاشقان رسولﷺ کا ایک ہی نصب العین ہمارئے سامنے
آتا ہے کہ جو ہو نہ عشق مصطفےﷺ تو زندگی فضول ہے۔غلامی ِ رسولﷺ میں موت بھی
قبول ہے۔اﷲ پاک نے یہ کائنات اپنے محبوب بندئے نبی پاکﷺ کے لیے تخلیق کی
اور آپﷺ کی بدولت ہیں سارئے جہانوں کے اندر جان ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ کے
بقول ہر مسلمان کے اندر روح محمد ﷺ ہے ۔ اب اگر روح محمد کے حامل انسان
عاشقِ رسول نہیں ہوگا تو پھر کیسے ہوگا؟۔ گویا خالص انداز ِ توحید کا مطلب
ہی یہ ہے کہ اﷲ اور اُس کے محبوب نبی ﷺ کی اطاعت کی جائے۔ اِس لیے ادب
احترام کا دامن کبھی بھی چھوڑا نہ جائے۔کیونکہ جہاں جبریل جیسے قرب الہی
رکھنے والے فرشتے کو بھی ااجازت پیش ہونے کی ہمت نہیں جہاں عالم یہ ہو کہ
نبی پاکﷺ اُس وقت بھی نبی تھے جب آدم ابھی آب وگل میں تھے۔ جہاں اﷲ پاک خود
نبی پاکﷺ کے مقام کے تحفظ کی قسم کھاتا ہو۔ جہاں ابوبکرؓکی لیے صرف خدا کا
رسولﷺ ہی سب کچھ ہو۔ جہاں عمر فاروقؓ کی عدالت کا فیصلہ صرف اِس بات پر ہو
کہ نبیﷺ کا فرمان حتمی ہے اور عمر فاروقؓ نبیﷺ کے فرمان میں تاولیں پیش
کرنے والے کی گردن اُڑانے کیبعد کہیں کہ اگر تمھیں نبی پاکﷺ کا فیصلہ پسند
نہیں تو پھر میرا فیصلہ تو یہ ہے۔ جہاں عثمان غنیؓ دو انوار کے حامل ہوں
جہاں حیدر کرارؓؓ کی تربیت نبیﷺ نے خود فرمائی ہوئی جہاں امام عالیٰ مقام
حسن و حسین کو اپنے کاندھوں پر جھولے دئیے گئے ہوں ایسی ہستی کے حوالے یہ
گمان کرنا کہ اُس کی حثیت عمومیت کی حامل ہے یا وہ عام انسانوں جیسے ہیں یا
اُن کا حلقہِ اثر صرف عرب کی سرزمین ہے۔جو نبی پاکﷺ کی شان کو کم کرکے اﷲ
کی شان بڑھانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہوں تو ایسے لوگوں کے لیے
بہترین راستہ یہ ہی ہے کہ وہ نبی ﷺ کا اُمتی بننے کی بجائے یہودی اور
عیسائی بن جائیں کیونکہ اُن کے اور ہمارئے درمیاں فرق صرف مصطفے کریمﷺ کی
نبوت کا ہے ورنہ یہود نصاریٰ بھی اﷲ کو ایک مانتے ہیں ۔ اِس لیے ایسے لوگوں
کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے ۔ جب اﷲ پاک خود فرماتا ہے کہ ائے میرئے
محبوب ﷺاگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو زمین وآسمان پیدا نہ کرتا بلکہ اپنے
رب ہونے کا اظہار نہ کرتا۔ تو پھر چوں کہ چنانچہ کی گردانیں پڑھنے کی کوئی
حثیت نہیں ہے۔اﷲ پاک نبی پاک ﷺ ہمارئے ایمان کی بنیاد ہیں۔ قران کو ماننے
کی رٹ لگانے والے صاحب قران نبی ﷺ کی عزت و توقیر کیے بغیر کس طرح قران پر
من وعن ایمان رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ نبی پاکﷺ پر چوبیس سال تک قران نازل
ہوا۔ جس بات کو نبی پاکﷺ کی زبان مبارک نے فرمادیا کہ میرئے صحابہ قران میں
اﷲ پا ک نے یہ فرمایا ہے تو صحابہ اکرامؓ نے اُسے قران سمجھ کر تحریر کر
لیا اور جب نبی پاکﷺ نے فرمادیا کہ میرئے صحابہ اکرامؓ یہ بات جو میں کہہ
رہا ہوں یہ حدیث ہے تو اُسے صحابہ اکرام ؓنے حدیث کا درجہ دئے دیا۔ جب تعین
ہی نبی پاکﷺ نے کرنا ہے کہ یہ قران ہے اور یہ بات قران نہیں ہے تو قران سے
زیادہ فضیلت تو صاحب قران نبی پاکﷺ کی ہے ۔ جن پر قران نازل ہوا۔ جن کیوجہ
سے خالص توحید سے آشنائی ہوئی ۔ جن کی وجہ سے کائنات کا وجود ظہور پذیر ہوا۔
وجہ صرف یہ ہی ہے کہ جب نبی پاکﷺ کا بولنا چلنا پھرنا ایک ایک عمل رب کے
حکم سے ہے تو پھر جو کچھ بھی نبی پاکﷺ کاعمل ہے وہ اﷲ کا عمل ہے اور جو بھی
محبت اور تکریم نبی پاک ﷺکے لیے ہے وہ درحقیت اﷲ پاک سے محبت اور تکریم
ہے۔اِس لیے نبی پاکﷺ کے بغیر نہ تو اﷲ پاک کو راضی کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی
ہم مسلمان ہو سکتے ہیں کیونکہ اﷲ کو ماننے والے تو یہودنصاریٰ بھی ہیں۔ جن
کے متعلق اﷲ پاک کا فرمان ہے کہ وہ کبھی کسی مومن کے دوست نہیں ہوسکتے ۔ |
|