جنرل راحیل شریف کاایک ہفتے
کادورہ امریکابالآخر۲۰نومبر کو اپنے انجام کوپہنچا۔ان کے دورے کی شروعات جس
ماحول میں ہوئی تھیں وہ ماضی سے کافی مختلف تھا۔ محض چند ہفتے قبل وزیراعظم
نوازشریف امریکی دورہ کرکے پاکستان واپس آچکے ہیں دوسری جانب اس دورے سے
قبل پاکستان کی سول قیادت کے ساتھ آپریشن ضرب کے تناظرمیں قومی اتفاق رائے
سے ترتیب دیئے گئے نیشنل کمیشن پلان پر عمل درآمدمیں کمزوری پرکور
کمانڈرزکی میٹنگ کے بعدگورننس کامسئلہ پراپنے تحفظات کا اظہارعوامی سطح
پرکیاگیا۔پاکستان میں سول ملٹری ریلیشن شپ کاایک مخصوص پس منظر ہے جس کی
وجہ سے قیاس آرائیاں اورافواہیں پھیلناشروع ہوگئیں جس کی بناء پرپاکستانی
قوم کی آگاہی کیلئے آئی ایس پی آرنے جنرل راحیل کے دورۂ امریکاکے دوران ان
کی مصروفیات کاخصوصی انتظام کیا تاکہ ٹرانسپیرنسی قائم رہے کہ ملک میں سب
کویہ معلوم ہوکہ اگرجنرل راحیل امریکی حکومتی اور فوجی رہنماؤں سے مل رہے
ہیں توکن موضوعات پرگفتگو ہو رہی ہے جبکہ حکومتی ردّعمل کی پرواہ کئے
بغیرسپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب انور ظہیرجمالی کی طرف سے بھی گورننس کے
بارے میں ایسے ہی سوالات اٹھا دیئے گئے جس کے بعدمیڈیانے بغیرکسی تحقیق کے
اس دورے کے بارے میں سول اورعسکری اداروں میں غلط فہمیوں کاتاثردیناشروع
کردیا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ قومی سلامتی کے حوالے سے اندرونی خطرات کواہم ترین
سمجھنے والی ڈاکٹرائن کے خالق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے جس قوت
واستقلال کے ساتھ ملک کے اندر فوجی آپریشن ضربِ عضب کی قیادت کی ہے اسے
اندرون اوربیرونی ممالک بڑی پذیرائی مل رہی ہے۔ دراصل ضربِ عضب صرف
فاٹااورشمال مشرقی سرحدوں تک محدود نہیں رہابلکہ سارے ملک میں ملک دشمن
عناصرافرادکی سرکوبی کیلئے دن رات کام ہورہاہے ۔آرمی چیف ان اندرونی خطرات
کوباہرسے ملنے والی حمائت اورامدادکوبھی اسی آپریشن ضربِ عضب کی زدمیں لانے
کاعزم رکھتے ہیں تاکہ معاملہ ایک ہی مرتبہ پوری طرح صاف ہوجائے۔اس ناطے
انہوں نے اپنے دورہ کاآغاز۱۶نومبرکو سی آئی اے سربراہ جان برینن سے کیا۔
انہیں خطے میں درپیش مشکلات،پاکستان میں متحرک رہنے والے دہشتگردوں کوبھارت
اورافغانستان سے براہ راست یا بالواسطہ ملنے والی امدادوحمائت،افغانستان کے
موجودہ حالات اورامن مذاکرات، نیوکلیر توانائی اورخطے میں سلامتی کے حوالے
سے دوٹوک،واضح اورخطے میں بھارت کے خطرناک عزائم کے بارے میں پاکستان کے
تحفظات سے آگاہ کیا۔
جنرل راحیل نے پاکستان کادورہ کرنے والی امریکی سیکورٹی ایڈوائزرسوزن رائس
کو۳۱/اگست ۲۰۱۵ملاقات میں دوٹوک اندازمیں یہ پیغام دیاتھاکہ اب پاکستان
کونہیں بلکہ امریکاکو ''ڈومور''کافریضہ اداکرناہوگا۔اس کاایک واضح
اظہارجنرل راحیل کے ساتھ امریکاجانے والے فوجی ترجمان جنرل عاصم باجوہ نے
اس دورے کے شروع میں ہی کردیاتھاکہ ''پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن
کوکامیاب کرنے کیلئے افغانستان نے تعاون نہیں کیا''۔یقینا افغانستان کی طرف
سے عدم تعاون پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ پورے خطے کیلئے ضررسانی کاباعث
ہے۔اس کاادراک اشرف غنی حکومت کونہ ہواتو امریکاپربھی ذمہ داری آئے
گی۔١٧نومبرکوامریکی سیکرٹری دفاع ایشٹن کارٹراوربعدازاں دفاعی اعلیٰ حکام
سے اپنی ملاقات میں واضح اندازمیں یہ بھی بتا دیاگیاکہ پاکستان کی سلامتی
کیلئے کسی بھی معمولی سے خطرے کوبھی نظراندازنہیں کیاجائے گا،غالباً ماضی
میں اس نوعیت کی کھلی بات کم ازکم اتنے کھرے لہجے میں نہیں کی جا سکی جتنی
پرعزم طریقے سے اب کی گئی ہے۔
۱۸نومبرکوسیکرٹری خارجہ جان کیری سے اپنی ملاقات میں جہاں ہندوستان اور
مسئلہ کشمیرپربات کی وہاں افغانستان میں بھارتی ''را''کے گھناؤنے کردارکا
بھی ذکرکیااورمضبوط شواہدکے ساتھ مطلع کیاکہ کس طرح بھارت پاکستان میں دہشت
گردی کوسپانسرکررہاہے۔فاٹا،بلوچستان اورکراچی میں ''را''نے دہشت گردی کیلئے
باقاعدہ نیٹ ورکس قائم کررکھے ہیں جس کی سرکوبی کیلئے شب وروزآپریشن جاری
ہیں،اس لیے پاکستان اورخطے میں امن وسلامتی کاخواب شرمندہ تعبیرہوتا دیکھنے
کیلئے بھارت کواس دہشتگردانہ ریاستی پالیسی سے بازرکھنے کیلئے ہر ایک
کواپنی ذمہ داریاں پوری کرناہوں گی۔
١٩نومبرامریکی سینیٹ کی مسلح سروسزکمیٹی کے ممبران سے اپنی ملاقات میں
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قومی مؤقف کابھی کھل کراظہار کیا گیا کہ افغان
امورمیں بھارت کانہ توپہلے لینادیناقبول تھانہ ایسااب قابل قبول ہے۔فقط
پاکستان کی سلامتی ہی نہیں بلکہ اس خطے کی امن وسلا متی کیلئے بھارت سب سے
بڑا خطرہ ہے اوراس خطرے کوختم کرنے کیلئے بھارتی ریشہ دوانیوں کامکمل خاتمہ
انتہائی اہم ہے۔
امریکی دورہ سے قبل میڈیامیں یہ افواہ بھی سامنے آئی کہ شائدامریکی مطالبہ
کریں گے کہ جوہری استعدادکوکم یامحدود کریں ۔آرمی چیف نے امریکا روانہ ہونے
سے ایک دن پہلے ہی جوہری سے ایک دن پہلے ہی جوہری ڈویژن'' کاخصوصی دورہ
کیاتھاکیونکہ اس دورے سے قبل ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت بعض ممالک کے توسط سے
عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس خوف کا اظہارکیاکہ اگلے پانچ سالوں میں
پاکستان کی جوہری صلاحیت اس قدربڑھ جائے گی کہ وہ دنیاکی بعض عالمی طاقتوں
کوبھی پیچھے چھوڑ دے گا۔اس اہم موضوع کیلئے ۱۹نومبرکواپنی اگلی ملاقات
امریکی نائب صدر جوبائیڈن سے کی جس میں افغانستان میں پائیدارامن اور
مفاہمتی عمل کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دنیابھرمیں مثالی حیثیت رکھنے والے
''کمانڈاینڈ کنٹرول سسٹم''کاذکرکیاکہ پاکستان جوہری صلاحیت رکھتے ہوئے
عالمی سطح پرایک انتہائی ذمہ دارملک کاکرداراداکر رہاہے لیکن خطے کے حالات
کی بناء پرپاکستان جسے اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی ایک بڑے اورعیاردشمن کا
سامنا ہے ،جس نے اس وقت پاکستان کواپنے حملوں اورریشہ دوانیوں کانشانہ
بنائے رکھا،جب تک پاکستان نے غیرروایتی میدان میں صلاحیت پیداکرکے جوہری
ڈیٹرنس حاصل نہیں کرلیا۔بھارت اپنی تمام ترخواہش اورکوشش کے باوجوداب
پاکستان پر چڑھائی کرنے کی صلاحیت کھو چکاہے ۔ایساایک سے زائدبارہوچکاہے کہ
بھارت اپنی خواہش کے مطابق فوج کوپاکستان کے خلاف متحرک کرتے کرتے یاحملے
کاحکم دیتے دیتے رہ گیا،اس کی بنیادی رکاوٹ بھی پاکستان کی یہی جوہری
صلاحیت بنی۔ پاکستان کی اس صلاحیت کے پیش نظربھارت نے ''کولڈ سٹارٹ
ڈاکٹرائن''کی تشکیل کی لیکن پاکستان کے سائنسدانوں کی کاوشوں سے بننے والے
پاکستان کے ''ٹیکٹیکل '' ہتھیاروں نے اس برہمن ڈاکٹرائن کا ''ٹائٹینک''بھی
عملاً ڈبودیاہے ،اس لئے اپنے دفاع کیلئے ضروری ڈیٹرنس رکھناپاکستان کاحق
ہے۔
پاکستان اپنی جوہری صلاحیت پرکسی صورت سمجھوتہ نہ کرنے کی قومی پالیسی
کواختیارکئے ہوئے ہے۔ پاکستان کی اس غیرمعمولی صلاحیت کے سامنے بھارتی بے
بسی کودیکھتے ہوئے امریکاپاکستان پرپچھلے دوبرسوں سے ایک مرتبہ پھرآہستہ
آہستہ پاکستان کے جوہری پروگرام کوقدغنوں کی زدمیں لانے کے لئے کوشاں
ہے۔بعض حلقے وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ امریکامیں سامنے آنے والے
مشترکہ اعلامئے کو امریکاکے اسی ہتھکنڈے کے طورپردیکھتے ہیں،جس میں
بظاہربڑے معصوم الفاظ استعمال کئے گئے تھے کہ دونوں ملک جوہری دہشت گردی کے
خلاف ہیں۔ان حلقوں کے مطابق پاکستان کی عسکری قیادت نے یہ تہیہ کیا تھاکہ
امریکی دورے میں اس مشترکہ اعلامیہ کے جواب میں اپنے اس عزم کا ضرور اظہار
کیا جائے گاکہ پاکستان کوایک ذمہ دارجوہری ملک کے طور پر سمجھاجائے اوراس
کے جوہری پروگرام کوبالواسطہ یا بلاواسطہ زدمیں لانے سے بازرہاجائے۔اگرکوئی
طاقت کسی دباؤ کے تحت پاکستان کووقتی طورپرکسی حدتک قائل کرنے میں کامیاب
رہی توبھی توپاکستان کی سلامتی کی براہِ راست ذمہ دارپاک فوج ایسے کسی
''دباؤ'' کو قبول نہیں کرے گی۔وجہ صاف ظاہرہے کہ پاکستان کے عسکری ادارے
اورعوام پاکستان کے جوہری پروگرام کوپاکستان کی سلامتی کی ضمانت کے طورپر
دیکھتے ہیں۔ان حلقوں کے خیال میں اس طرح کے حساس معاملے کوسلامتی سے متعلق
اداروں کے دائرہ کارسے باہررکھ کرڈیل نہیں کیاجاسکتا ہے ۔اس حوالے سے
۲۰نومبرکوقائم مقام امریکی قومی سلامتی کے مشیرسے دہشتگردوں کی مالی معاونت
کی روک تھام کیلئے مفصّل مذاکرات بھی ہوئے۔
آرمی چیف جن کے دورۂ امریکاسے پہلے ان کی اپنی خواہش پرکیاجانے والا دورہ
باورکرایاگیالیکن پاک فوج کے ترجمان لیفٹیٹنٹ جنرل عاصم باجوہ نے اس تاثرکی
نفی کی ہے۔اس سے قطع نظر کہ یہ دورہ کس کی خواہش پراورکس کی کوشش کی
بنیادپرہوا،یہ طے ہے کہ جنرل راحیل شریف کم ازکم پاکستان کی سلامتی کے
امورپرسمجھوتے کاکوئی رحجان نہیں رکھتے۔بھارت پاکستان کے جدید''ٹیکٹیکل
''ہتھیاروں کی غیرمعمولی صلاحیت کے بڑھتے چلے جانے سے سخت پریشان ہے اوراس
سلسلے میں بھارت امریکاکی منت سماجت کررہاہے کہ پاکستان پردباؤ بڑھایاجائے
،اس ماحول میں جنرل راحیل شریف کادورۂ امریکاکا فوری ہوجاناپاکستان کے حق
میں بہت بہترثابت ہواہے لیکن اس دورے کے پاکستان کی اندرونی سیاست میں
بظاہرمکمل خوشی کاتاثرنہیں دیاگیالیکن پاکستان کی سلامتی کیلئے ایک
بڑاچیلنج قبول کرکے جنرل راحیل شریف پاکستانی عوام کانہ صرف دل جیت چکے ہیں
بلکہ انہیں ایک ہیروکادرجہ حاصل ہوگیاہے۔ عسکری حلقوں کا مزاج سمجھنے والے
یہ جانتے ہیں کہ جنرل راحیل اپنی فوجی سربراہی کے آخری سال کے پہلے چھ ماہ
میں ملکی سلامتی کو درپیش اندرونی اوربیرونی سطحوں سے درپیش چیلنجوں
کاہرممکن قلع قمع کرنے کاتہیہ کئے ہوئے ہیں۔
کہایہ جارہاہے کہ وہ آپریشن ضربِ عضب کواس کے منطقی انجام تک پہنچائے
بغیرچین سے نہیں بیٹھیں گے کہ اس آپریشن کے مکمل نتائج حاصل کئے بغیر پاک
چین اقتصادی راہداری اوراس سے منسلک اقتصادی ترقی کے تمام منصوبوں کوآگے
نہیں بڑھا یاجاسکتا۔اس ناطے وہ دہشتگردی کوملنے والی سیاسی ومعاشی امدادکے
سوتے بھی مکمل طورپربندکرنے ضروری ہیں۔ہوسکتاہے کہ سیاسی حکومت کااس مرحلے
پرآپریشن مکمل کے مکمل ہونے کا تاثردینے والی آوازیں بلندکی جائیں تاکہ
متاثرہ سیاسی جماعتیں اس کی مزیدسختیوں سے محفوظ رہ سکیں لیکن اس مرتبہ ان
معاملات کوہرحال میں اپنے انجام کوپہنچناہے ۔سیاسی اورجمہوری زاویہ نگاہ سے
دیکھنے والے اس معاملے کوقدرے مختلف اندازسے دیکھتے ہیں نیزوہ اگلے انتخابی
منظرنامے اور انتخابی اتحادکی ضرورتوں کوبھی نظراندازکرنے کے حق میں نہیں
ہیں۔ |