کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد
نواز شریف کا 341 ارب روپے کا کسان امدادی پیکج کسانوں کو ریلیف دینے کی
بجائے ان کے لئے درد سر بنا ہوا ہے لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں ایک ایک
سنٹر پر سینکڑوں لوگ اپنے روز مرہ کے کام کاج چھوڑ کر منہ اندھیرے آکر بیٹھ
جاتے ہیں تاکہ اپنی باری پر انٹری ہوسکے ہر شخص یہ سوچ کر جلدی آتا ہے کہ
میں سب سے پہلے پہنچوں گا لیکن جب آتا ہے تو پہلے سے ہی کچھ یا اکثر لوگ
لائن میں لگ چکے ہوتے ہیں ۔ ابھی دفتر بند ہے، بنک بند ہے تحصیلدارقانونگو
پٹواری گھر پر سکون کی نیند سورہے ہیں بنک عملہ ابھی تک نہیں پہنچا ہے لیکن
یہ مظلوم اور قسمت کے مارے کاشتکار اور کسان سینکڑوں کی تعداد میں آچکے ہیں
کچھ تو ایسے ہیں جو مسلسل تین دنوں سے آرہے ہیں لیکن ابھی تک ان کی باری
نہیں آئی یہ لوگ وزیراعظم پاکستان کسان پیکج کے مارے اور ستائے ہوئے لوگ
ہیں جو وزیراعظم کی سخاوت اور دریا دلی سے دیئے گئے 341 ارب روپے کی امداد
میں سے اپنا حصہ وصولنے آئے ہیں ان میں سے کوئی دو ایکڑ کا مالک ہے تو کوئی
تین ایکڑ کا مستاجر جنہیں پانچ ہزار روپے فی ایکڑ ملنا ہے دو دو تین تین
دنوں سے گھروں سے نکلے ہوئے کام کاج کو تیاگ کر تازہ مزدوری کرنے والے یہ
حالات کے ڈسے لوگ صبح صادق کے وقت پہنچتے ہیں اور پھر اکثر خالی ہاتھ اگلے
دن ملنے کی امید میں رات گئے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ۔
شہر شہر تحصیل و ضلع کی سطح پر یہ کھیل جاری ہے انتظام و انصرام ہمیشہ کی
طرح مفقود ہیں ہر شخص کی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے جو جس کے جی میں آرہا
ہے نت نئے تجربات کرکے کسانوں کو ذلیل و رسوا کرنے پر تلا بیٹھا ہے محکمہ
مال ہو کہ بنک کاعملہ اور تحصیل و ضلعی انتظامیہ وزیراعظم پاکستان نواز
شریف کے لنگر کو تقسیم کرنے میں جتی ہوئی ہے جبکہ اس محکمہ جات سے متعلقہ
دوسرے امور تاخیر اور بدنظمی کا شکار ہیں جائیداد و وراثت کے معاملات تاخیر
کاشکار ہیں بنک کے معمولات میں خلل پڑچکا ہے کسٹمر پریشان ہیں اقربا پروری
اور سیاسی نوازشات کی شکایات عام ہیں دن بھر کے تھکے ماندے بے بس و بے کس
کاشتکار اکثر و بیشتر دست و گریباں دکھائی دیتے ہیں۔ میری باری میرا نمبر
کی رٹ ہر شخص کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن دیگر بہت سے دوسرے امور کی
مانندیہاں پر بھی کوئی منظم یا ترتیب شدہ کام اور تربیت یافتہ عملہ ناپید
ہے
معزز قارئین بات اگر یہیں تک محدود وورہتی تو بھی شاید پاکستانی بھولی
بھالی قوم اسے معمول سمجھ کر اور حکومتی ناکام انتظام جان کر پس پشت ڈال
دیتی لیکن دلچسپ بلکہ مضحکہ خیز بات آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ ابھی
چیکس کی تقسیم کا عمل مکمل نہیں ہوا بنک سے رقوم کی ادائیگی ہنوز باقی ہے
کہ اب حکومت نے’’کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے ا س ہاتھ لے‘‘ کے مصداق
زرعی ٹیکسز کی مدات میں ریکوریز کا عمل تیز کرنے کی ہدایات تمام ڈی سی اوز
کو جاری کردی ہیں اور انہوں نے اپنے ماتحت اور ریکوری سے متعلقہ محکمہ جات
کو متحرک کرنا شروع کردیا ہے کسان جوکہ ابھی تو اپنے ہرے زخم سہلارہے ہیں
کہ ان پر مزید نمک و مرچ کا تڑکہ لگانے کی تیاری شروع ہوچکی ہے فصل تباہ
زمین فارغ قرضہ سر کھانے کو روٹی کے لالے رقوم کی ادائیگی ندارد جیسے عوامل
اورمسائل کیا کم تھے کہ حکومت نے آبیانہ ،مالیہ ،زرعی انکم ٹیکس و دیگر کی
ریکوری کا عمل بھی شروع کرنے کا عندیہ دے دیا ہے کسان تو کسان محکمہ مال کے
چھوٹے سے لیکر بڑے افسر تک سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ ایک عفریت تو ابھی گلے
سے نکلا نہیں دوسرا بھی سرتھوپا جارہا ہے
اگر وزیر اعظم اپنی کچن کیبنٹ سے نکل کر کسی سیانے بندے سے مشورہ کرلیتے تو
شاید ایسی صورت حال سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔ مثال کے طور پرجس طر ح ان تمام
کسانوں اور کاشتکاروں کی فہرستیں مرتب کی گئیں کہ جنہیں امدادی رقوم دینا
مقصود تھا تویہی فہرستیں اور ان میں شامل دہقانوں کو بجائے بھیک دینے اور
ذلیل و خوار کرنے کے سے اندازکے،ان کے ذمہ واجب الادا ٹیکسز کو معاف کردیا
جاتا ان کو لائنوں میں لگا کر رسوا کرنے کی بجائے باعزت طریقے سے مطلع
کردیا جاتا ان کے ذمہ واجب الادا ریکوریز کو ختم کردیاگیا ہے انہیں ریلیف
دیا گیا ہے اس سے ایک توکسان ٹکاٹوکری ہونے سے بچ جاتا دوسرے یہ کہ حکومت
کو بھی مظلوم و محکوم کاشتکاروں کی دعائیں سمیٹنے کا موقع میسر آجاتا اور
تیسرا یہ کہ وہ اخراجات جو کہ حکومت ان امور کو سرانجام دینے میں صرف کررہی
ہے وہ بھی بچ جاتے ۔ محکمہ مال ان دنوں میں کسانوں کے ذمہ بچ جانے والی
ریکوریز بھی وصول کرنے میں آسانی محسوس کرتا اور حکومت کو تمام ریکوریز
باآسانی وصول ہوجاتیں ۔ایک اور دل چسپ امر یہ ہے کہ اگر امدادی رقوم دیتے
وقت محکمہ مال ریکوری کی کوشش کرتا ہے تو کسان آسمان کو سر پر اٹھا لیتا ہے
اور اس بات کو ہوادی جاتی ہے کہ ہم سے رشوت وصول کی جارہی ہے حالانکہ کسان
کو معلوم ہے کہ وہ یہ ریکوریز دینے کا پابند ہے لیکن اس نے بھی سوچ لیا ہے
کہ جس طرح حکومت انہیں ذلیل و خوارکررہی ہے اسی طرح وہ حکومتی نمائندوں کو
ذلیل و رسوا کرکے دم لیں گے |
|