تبدیلی کے ڈکار اور امداد کی تقسیم
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبر پختونخواہ میں زلزلہ آئے ہوئے بھی تقریبا ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے متاثرین کی امداد کیلئے دی جانیوالی رقوم کیساتھ تصویریں اور سیلفیوں لینے کا سلسلہ تو ابھی تھما بھی نہیں - یہ الگ بات کہ وفاقی وزیرفنانس گیارہ ارب روپے اخبارات کے خبروں میں تقسیم کر چکے ہیں اسی طرح تبدیلی والی سرکار بھی کچھ نہ کچھ تو کر ہی رہی ہیں اور بدل رہا ہے خیبر پختونخواہ اور نئے پاکستان کی آوازیں تو صوبے اور وفاق دونوں کی جانب سے آرہی ہیں -متاثرین زلزلہ کو امداد دینے والوں میں کچھ سیاسی لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں جو رقوم دینے سے زیادہ اپنی تصویر یں بنوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ہمارے ایک دوست کے " پبلک سٹی" کیلئے یہ سب کچھ کیا جاتا ہے- |
|
صرف دو ہزار روپے کی امدادی رقم
اور اسے بھی مخصوص افراد میں تقسیم کرنے کیلئے لوگ کیا کچھ کرتے ہیں اس کا
اندازہ پشاور کے پوش علاقے میں ہونیوالے ایک تقریب کے دوران ہوا جہاں پر
سیاسی ڈرامے بھی ہوئے اور تبدیلی کے نام پر خیبر پختونخواہ کے لوٹنے والوں
کی ہوشیاری کا بھی اندازہ ہوا- تبدیلی کی آڑ میں مسلط ہونیوالوں کے دوستوں
اور ان کے بگڑے جیالوں نے کیا کچھ کیا اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا
ہے کہ امداد کی یہ رقم بھی من پسند اور مخصوص لوگوں میں تقسیم کی گئی-
خیبر پختونخواہ میں زلزلہ آئے ہوئے بھی تقریبا ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے
متاثرین کی امداد کیلئے دی جانیوالی رقوم کیساتھ تصویریں اور سیلفیوں لینے
کا سلسلہ تو ابھی تھما بھی نہیں - یہ الگ بات کہ وفاقی وزیرفنانس گیارہ ارب
روپے اخبارات کے خبروں میں تقسیم کر چکے ہیں اسی طرح تبدیلی والی سرکار بھی
کچھ نہ کچھ تو کر ہی رہی ہیں اور بدل رہا ہے خیبر پختونخواہ اور نئے
پاکستان کی آوازیں تو صوبے اور وفاق دونوں کی جانب سے آرہی ہیں -متاثرین
زلزلہ کو امداد دینے والوں میں کچھ سیاسی لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں جو رقوم
دینے سے زیادہ اپنی تصویر یں بنوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ہمارے ایک
دوست کے " پبلک سٹی" کیلئے یہ سب کچھ کیا جاتا ہے-گذشتہ دنوں لاہور سے
امداد متاثرین زلزلہ کیلئے پشاور آئی -امداد دینے والوں میں لاہور سے تعلق
رکھنے والی کچھ خواتین بھی شامل تھی اور جن کا "گالیاں دینے والوں" سے تھا
انہوں نے پشاور کے متاثرین زلزلہ کیلئے امدادی رقم تقسیم کرنے کیلئے پشاور
کا رخ کیا- لاہور سے آنیوالی مہمانوں کا استقبال ضلع ناظم پشاور نے کیا
ساتھ ہی تین مختلف مرغن کھانوں سے پروگرام کا آغاز ہوا--ضلع ناظم پشاور نے
لنچ پر بیٹھ کر ان کے ساتھ بیٹھ کر زلزلہ زدگان کے حوالے سے با ت چیت
کی-میز پر بیٹھ کرچاول گوشت ‘ نہاری ‘ چپلی کباب کھا کر جس طرح زلزلہ
متاثرین کی بدحالی کی بات ان سے کی گئی ہمیں اندازہ ہوگیا کہ صوبائی حکومت
کو زلزلہ زدگان کے حالت کی وجہ سے نیند نہیں آتی اور ان کا ہاضمہ بھی ٹھیک
نہیں ہے-کھانے کے میز پر بیٹھ کرجب زلزلہ زدگان کی حالت سے اور مشکلات کو
سن کر لوگوں کی حالت خراب ہو اسی خدشے کے پیش نظر کولڈ ڈرنکس بھی رکھی گئی
تھی تاکہ" تبدیلی کے ڈکار" بھرپور آتے رہیں-
زلزلہ زدگان کو دی جانیوالی امدادی رقوم کی تقریب کا علم صحافیوں کو بھی
چند گھنٹے قبل ہوا تھا- اتوار جیسے دن جب کوئی پروگرام نہ ہو تو واقعاتی
رپورٹنگ کرنے والے صحافی تو اس کیلئے زور و شور سے بھاگ کر آتے ہیں لیکن
یہاں پر بھی پتہ چلا کہ بہت کم صحافی آئے ہیں-کیونکہ بیشتر کو معلوم ہی
نہیں تھا کہ پشاور میں متاثرین زلزلہ کی امداد کیلئے کیلئے کوئی پروگرام
ہورہاہے-ایسے میں زلزلہ متاثرین امداد کیلئے کیسے آئے یہ تو اللہ ہی جانتا
ہے اور ان میں کتنے زلزلہ متاثرین تھے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا
ہے کہ گلبہار کے پوش علاقے میں ہونیوالی اس تقریب میں منتظمین کے بقول بہت
زیادہ لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا منتظمین کے بقول اسی وجہ سے مہمانوں کو
پروگرام میں لنچ پہلے کرایا گیا کیونکہ متاثرین کم تھے- کرسیوں کو پرکرنے
کیلئے نزدیکی گھروں میں مقیم کرایہ داروں کو بلوایا گیا اور پوش گھرانوں کی
خواتین جن کے برقعے بھی دو ہزارسے کم کے نہیں تھے- مالک مکان اور صاحب کو
خوش کرنے کیلئے تقریب میں شریک ہوئی اور باقاعدہ دو ہزار روپے کیلئے بیٹھی
رہی-
تقریب میں ایک بہت بڑے عہدے کے مالک سرکاری افسر سے ملاقات ہوئی تو انہوں
نے بھی اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہر کوئی پیسے لینے کے چکر میں لگا
ہوا ہے- بقول ان کے زلزلے کے دوران متاثرہ گھروں کی فہرست جو اس سے قبل
بنائی گئی تھی اسے بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور تقریبا آٹھ سو گھروں
کے زلزلہ سے متاثرہ ہونے کی رپورٹ صرف پشاور میں کی گئی لیکن جب تحصیلدار
اور پٹواریوں نے رپورٹ کردی تو پتہ چلا کہ یہ تو اصل فہرست سے آٹھ گنا
زیادہ ہے-بات ہورہی تھی زلزلہ زدگان کیلئے ہونیوالی تقریب کی- زلزلہ زدگان
کی امداد کیلئے ہونیوالے پروگرام میں ضلع ناظم خود بھی سیلفی لیتے رہے جبکہ
بعض من چلے تبدیلی والی سرکار کے موقع سے فائدہ اٹھا کر تصویریں لیتے رہے
تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت دیوار پر سنہری فریم میں میں لگانے کے کام بھی
آئے- ضلع ناظم پشاور کے جانے کے بعد ٹاؤن ٹو کے ناظم پہنچ گئے جنہوں نے بھی
وقت اور موقع سے فائدہ اٹھایا اور لاہورسے آنیوالی امدادی ٹیم کیساتھ
تصویریں بنوائی- تاکہ"مرکزی سرکار" کو پتہ چلے کہ ہم بھی استقبال کرنے
والوں میں شامل تھے- امداد کیلئے نام لکھنے والوں میں صوبائی سرکار کی
پارٹی کے کچھ بڑے بڑے نام بھی شامل تھے-جنہوں نے نام لکھنے والوں کو سرگوشی
میں کہہ دیا کہ میرے بندوں کے نام بھی اس میں شامل کردو- جواب میں نام
لکھنے والے شخص نے بتایا کہ بھائی رقم لینے کیلئے چبوترے پر آنا پڑیگا- جس
پر موصوف نے کہہ دیا کہ " مڑہ دو ہزار روپے کیلئے کون آئیگا- کسی کو امداد
دیدو بعد میں لے لیں گے- یہ سرگوشیاں راقم نے سن لی کیونکہ "سن گن "کی عادت
صحافت کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی ہے- امدادی رقم دینے کے سلسلہ کا آغاز ہوا تو
پتہ چلا کہ تبدیلی والی سرکار کے کچھ کارکن جو اس وقت بھی سیلفیاں لیتے رہے
نے اپنے گھروں کی خواتین کی نام لکھ لئے تھے اسی وجہ سے بعض غریب خواتین کو
جو امداد ملی تو فوری طور پر واپس لے لی گئی کیونکہ متاثرہ خواتین کے نام
اور تبدیلی والی سرکار کے ورکروں کے گھروں کی خواتین کے نام یکساں تھے-
امداد دینے کی تقریب کا سلسلہ جاری و ساری تھا اس کے ساتھ ساتھ سیلفیوں کا
دور سب سے زیادہ چلا-کچھ خواتین کیساتھ تصویر یں لیتے رہے جبکہ بعض بلدیاتی
انتخابات میں منتخب ہونیوالوں رہنماؤں کیساتھ تصویر باقاعدہ آرڈر پربنواتے
رہے- لاہور سے امدادی رقم لیکر آنیوالی خواتین کا کہنا تھا کہ امداد دینے
کا دوسرا مرحلہ ہے اس سے قبل بھی خواتین ونگ کی عہدیدار امدادی رقوم پشاور
میں تقسیم کرتے رہے ہیں جبکہ صوبے کے دیگر علاقوں میں متاثرین زلزلہ کی
امداد بھی انہوں نے کی ہیں-ایک ماہ لیٹ امداد کے سوال پر تبدیلی والی سرکار
کی خواتین رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات تھے اس لئے
ہمیں وقت نہیں ملا اب وقت ملا ہے تو ہم نے متاثرین کی امداد کیلئے پشاور کا
رخ کیا-امداد کیلئے آنیوالی ایک شخص سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ
کرایہ دار ہے اور یہ دو ہزار روپے بھی بہت ہیں اس سے میں سیمنٹ کی بوری تو
لے سکوں گا کیونکہ میرے گھر کی دیوار گری ہیں- ضلع پشاور کی سطح پر
ہونیوالے اس پروگرام میں بہت کم تعداد میں ورکرز دکھائی دئیے جبکہ جو
دکھائی دئیے انہوں نے امداد کے نام پر آنیوالی رقم سے اپنا حصہ وصول کیا-
تبدیلی کا نعرہ لیکر آنیوالوں کی پارٹی میں خواتین گروپوں کی چپقلش کی وجہ
سے خواتین بھی بہت کم تھی-
لاہور سے آنیوالی خواتین کا جذبہ قابل قدر ہے کیونکہ ایسے وقت جب کوئی
دوسرے کو پینے کا پانی بھی نہیں دیتا- لوگوں کیلئے امداد کی رقم لاہور سے
لیکر آنا بہت بڑی بات ہے لیکن ساتھ میں خیبر پختونخواہ اور خصوصا پشاور میں
بیٹھ کر" تبدیلی آگئی ہے"کا راگ الاپنے والوں کوکم از کم اپنے دعووں کا پاس
رکھنا چاہئیے اور میرٹ پر اس طرح کی امداد تقسیم کرنی چاہئیے-ورنہ
پھرمولویوں اور تعصب پسندوں کی طرح انہیں بھی کوئی نہیں پوچھے گا-اور
پھرتجربوں کی سرزمین پر کوئی نیا تجربہ ہوگا- |
|