قاتل حسینہ کا انتقام کب ختم ہوگا؟

پاکستان کی حمایت کے جرم میں بنگلہ دیش کے دو مذید شہریوں کو پھانسی دے دی گئی ہے ۔بنگلہ دیش میں سپریم کورٹ کی جانب سے جنگی جرائم کے الزام میں صلاح الدین قادر چوہدری اور علی احسن محمد کی سزائے موت برقرار رکھنے کے فیصلے بعد ان رہنماوں کو پھانسی دی گئی ۔صلاح الدین قادر چوہدری اور علی احسن محمد کو 1971 کی جنگ میں جنگی جرائم کے الزام پر پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔صلاح الدین کا تعلق حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ہے اور وہ سابق وزیر ہیں جبکہ علی احسن محمد کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔صلاح الدین قادر چوہدری اور علی احسن محمد کی طرح بے شمار بنگلہ دیشیوں نے 1971 کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا ۔ اس جرم کی پاداش میں ان دنوں کئی رہنما سزاوں کا سامنا کررہے ہیں ۔1971 کی جنگ کے نتیجے میں بنگلہ دیش الگ ریاست بن گیا تھا۔ کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ کیا ہو گا ابھی کسی کو معلوم نہیں،ہو سکتا ہے کہ کشمیریوں کو حقیقی حق خودارادیت مل جائے۔حق خودارادیت ملنے پر ضروری نہیں کہ کشمیری اپنی قسمت کا فیصلہ آزاد اور خود مختار ریاست کے حق میں کریں۔یہ بھی ضروری نہیں کہ اس دور میں بھی کشمیریوں کی امیدوں کا مرکز ومحور پاکستان ہی ہو۔سید علی گیلانی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ میری تمام ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ ہیں تاہم اگر کشمیریوں کی غالب اکثریت خود مختار کشمیر کے حق میں فیصلہ کرتی ہے تو یہ فیصلہ مجھے قبول ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ خود مختار کشمیر میں ان لوگوں کی کیا حیثیت ہو گی جو الحاق پاکستان کے حامی تھے جنہوں نے کشمیر کو پاکستان بنانے کے لیے بندوق اٹھائی تھی۔جن کی امیدوں کا مرکز و محور پاکستان تھا۔کیا ایسے لوگ خود مختار کشمیر میں غدار قرارپائیںگے۔؟اگر ان غداروں کے خلاف کسی موقع پر ریاست کشمیرحکومت بنگلہ دیش کی طرح تادیبی کاروائیاں شروع کر دیتی ہے تو ریاستِ پاکستان کا ردعمل کیا ہوگا۔؟بنگلہ دیش میں ان دنوں پاکستان کے حامیوں کو پھانسیاں لگ رہی ہیں۔ نومبر 2014 کومطیع الرحمن نظامی امیر جماعت بنگلہ دیش کو پاکستان کے حق میں جدوجہد کرنے اور پاکستان سے وفاداری کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی توترجمان دفتر خارجہ سے پوچھا گیا کہ پاکستان کے وفاداروں کو سزائیں دی جا رہی ہیں۔مطیع الرحمن نظامی کو بھی سزائے موت سنا دی گئی ہے۔پاکستان کا اس پر کیا ردعمل ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ نظامی کی سزائے موت بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔ اگر کسی موقع پر کشمیر میں بھی ایسا ہوا تو کیا ریاستِ پاکستان اسے کشمیر کا اندرونی معاملہ قرار دے دیگی؟ریاستِ پاکستان کے ایک بڑے ہمدردی اور الحاقِ پاکستان کے پرجوش حامی سیاست دان نے مجھے بتایا کہ ریاستِ پاکستان کی ایک اعلی مقتدر شخصیت نے بازپرس کے انداز میں مجھ سے پوچھا تھا کہ آپ کی جماعت کی پالیسی میں خود مختار کشمیر کا آپشن غالب آ رہا ہے کیوں؟الحاقِ پاکستان کے پرجوش سیاسی رہنما نے امور کشمیر کی ذمہ دار شخصیت کو بتایا کہ حالات کا کوئی پتہ نہیں کل اگر ہم بھی غدار قرار دے دیئے گئے تو آپ نے تو یہی کہنا ہے کہ یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔ایسی صورت میں ہماری کیا حیثیت ہو گی اور ہم کیا کریں گے۔یہ جواب ایک ایسی حقیقت ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔شاید اسی لیے مذکورہ مقتدر شخصیت نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ درست فرماتے ہیں بنگلہ دیش میں سزاوں بارے شاید پاکستان پالیسی درست نہیں۔1971 کی جنگ میں بنگلہ دیش میں جن لوگوں نے پاکستان کا ساتھ دیا، پاکستان کی فوج کے ساتھ مل کر ریاست پاکستان کی وحدت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی وہ آج غدار ہیں۔پھانسی چڑھ رہے ہیں،جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور ریاست پاکستان ان کے دکھ درد کو نظر انداز کرکے،ہاتھ جھاڑ کر ان کی مشکلات کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دے رہی ہے۔ 1971 کی جنگ میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔آج جماعت اسلامی کے رہنما پاکستان سے وفاداری کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔2008 کے عام انتخابات کے موقع پر شیخ حسینہ واجد نے اعلان کیا تھا کہ انتخابات جیت گئی تو جنگی جرائم کی عدالت قائم کی جائے گی اور بنگلہ دیش سے غداری کے مرتکب افراد کو سزائیں دی جائیں گی۔سانحہ بنگلہ دیش یا سقوط ڈھاکہ کے ایک اہم کردار شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی بیگم حسینہ واجد نے ا نتخابات میں کامیابی کے بعد اقتدار حاصل کیا۔ حسینہ واجد نے ایک بل کے ذریعے بنگلہ دیش پارلیمنٹ سے جنگی جرائم کی عدالت کے قیام کی منظوری لے لی۔''وار کرائم فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی '' کے نام سے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس کا کام پاکستان کے وفاداروں کو تلاش کرنا اور غداروں کی فہرست میں ان کے ناموں کااندراج کرنا تھا۔کمیٹی کا کہنا ہے کہ ایسے 1600 مشتبہ افراد موجود ہیں جن کا نام اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ جنگی جرائم کی عدالت کے قیام کے بعدبنگلہ دیش کی حکومت نے متحدہ پاکستان کے حامی اور 1971 کی پاک بھارت جنگ میں پاک فوج کی امداد و اعانت کرنے والے بنگلہ دیشی شہریوں کے خلاف انتقامی کارروئی شروع کر دی۔دسمبر سنہ انیس سو اکہتر تک آج کے ملک بنگلہ دیش کو مشرقی پاکستان کہا جاتا تھا۔ تاہم انیس سو اکہتر کے اوائل میں علیحدگی کے لیے شروع ہونے والی لڑائی نو ماہ تک جاری رہی جس کے دوران بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے ۔ بنگلہ دیش کے سرکاری اعداد و شمارکے مطابق جب بنگلہ دیش کو ایک آزاد ملک بننے سے روکنے کی کوشش میں مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان میں فوج بھیجی گئی۔ اس جنگ میں تقریبا 30 لاکھ مارے گئے، ہزاروں خواتین کا ریپ بھی کیا گیا۔جنگی جرائم کی عدالت نے 2012 میں پاکستان کے وفاداروں کے مقدمات کی سماعت شروع کی۔جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیشی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنما بھی دھر لیے گئے۔ جماعت اسلامی کے رہنما عبد الکلام آزاد وہ پہلے شخص تھے جنہیں پاکستان سے وفاداری کے جرم میں 2012 میں سزائے موت سنائی گئی۔05 فروری 2013 کو عبدالقادر ملہ کی باری آئی پھر 28 فروری کو دلاور حسین سعیدی کو سزائے موت سنائی گئی۔چوہدری معین الدین کے بعد 15 جولائی 2013 کو جماعت اسلامی کے پروفسیر غلام اعظم کو 90 سال قید کی سزا سنائی گئی۔گزشتہ سال پروفیسر غلام اعظم سزا کاٹتے کاٹتے دنیا سے چل بسے۔علی حسن مجاہد کو 17 جولائی 2013 کو پھانسی دے دی گئی۔2014 بھی پھانسی اور سزائے موت سے خالی نہ رہا۔71برس کے سابق رکن پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر مطیع الرحمان نظامی کو 29 اکتوبر کو سزائے موت سنائی گئی۔مطیع الرحمان نظامی سابق وزیر اعظم اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا کے دور میں وزیر کے عہدے پر فائز رہے تھے جب بی این پی نے جماعت اسلامی سے اتحاد کر کے حکومت بنائی تھی۔۔مطیع الرحمان نظامی 2010 میں گرفتار ہوئے تھے ۔قبل ذکر امر یہ ہے کہ پاکستان سے وفاداری کے جرم میں سزا پانے والوں کے مقدمات غیر شفاف تھے۔ان کے خلاف الزامات کے حق میں کوئی گواہی موجود نہیںتھی۔انہیں عدالت میں چور،ڈاکو اوراخلاقی جرائم کے الزامات کے تحت پیش کیا گیا۔انسانی حقوق کے عالمی ادارے ان مقدمات کو غیر شفاف قرار دے کر سزائوں کو غیر منصفانہ قرار دے چکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی، پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار بھٹو اور بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ مجیب کے درمیان معاہدہ ہوا تھا ۔ معائدے میں طے پایا تھا کہ تینوں ممالک( پاکستان بھارت ، بنگلہ دیش) میں اس واقعہ کی بنیاد پر جنگی جرائم کا ٹریبونل نہیں بنے گا۔ 90 ہزار فوجیوں کو بغیر مقدمہ چلائے پاکستان کے حوالے کردیا جائیگا ۔اس معاہدے کے بعد پاکستان نے بنگلہ دیش کو قبول کرلیا تھا۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی نے بھی بنگلہ دیش کو تسلیم کرتے ہوئے وہاں کا آئین بنانے میں حصہ لیا تھا۔ ذوالفقار بھٹو اور شیخ مجیب کے درمیان معاہدہ معائدے کو نظر انداز کرنے اور پاکستان کے خلاف سخت گیر پالیسی اپنانے پر مجھے شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی بیگم حسینہ واجد سے زیادہ ریاست پاکستان کی غیر جانبداری ستارہی ہے ۔ یہ صورتحال کشمیریوں کے لیے ایک بڑا سبق ہے۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50318 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More