بلدیاتی انتخابات کا تیسرا مرحلہ اور کراچی کا مقدر

ملک میں یہ پہلی بار ممکن ہوا ہے کہ یہاں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کسی جمہوری حکومت کے زیر انتظام ہوگا غالباً اسے جمہوریت کا حسن کہا جاسکتا ہے ۔ انتخابات کا یہ سلسلہ تو 2013ء ہی سے شروع ہو گیا تھا اور اس کا آغاز بھی پاکستان کے سب سے زیادہ شورش زدہ صوبے بلوچستان سے ہوا جو یقینا خوش آئند امر ہے البتہ ان انتخابات کو مکمل ہونے میں وقت زیادہ لگا مگر دیر آید درست آید کی مصداق پھر بھی بلوچ عوام کیلئے یہ اچھی نوید لانے کا باعث ہے ۔ ملک کے دیگرصوبوں میں ان انتخابات کیلئے کوئی موثر انداز میں اقدامات نہیں کئے گئے جس گمان غالب تھا کہ یہ سلسلہ یہیں تھم جائے گااگر سپریم کورٹ مداخلت نہ کرتی ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ احکامات کارگر ثابت ہوئے اور رواں سال خیبر پختون خواہ میں لوکل باڈیز الیکشن ہوئے اور اب صوبہ پنجاب اور سندھ میں مرحلہ وار انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے ۔ صوبہ پنجاب اور سندھ میں ہونے والے گزشتہ دو مراحل کے انتخابات میں کافی گہما گہمی اور جوش و خروش پایا گیا اور ساتھ ہی اس بات کا بھی تعین ہوگیا کہ سیاسی جماعتوں میں اپنے ہی اندر کس قسم کی صورتحال پائی جاتی ۔ پنجاب میں میانوالی ، لاہور ، گوجرانوالہ ، فیصل آبادو دیگر اور سندھ میں ہونے ہونے والے انتخابات میں کئی اضلاع میں قدیم اور نو وارد سیاسی جماعتوں کے مابین کافی گرما گرمی دیکھی گئی ۔ حیدرآباد ، بدین اور لاڑکانہ میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن بھی واضح ہوگئی کہ کس کتنا اثرورسوخ کہاں کہاں ہے ۔ میاں والی جو کہ پی ٹی آئی کا گڑھ سمجھا جارہا تھا وہاں پر کامیاب ہونے والوں کی اکثریت آزاد امیدواروں کی رہی جبکہ تحریک انصاف مجموعی طور پر دوسری کامیاب جماعت کی حیثیت سے ابھر کرآئی جس سے یہ تاثر کسی حد تک زائل ہوگیا کہ عمران خان کی جماعت میانوالی ضلع کی مقبول ترین جماعت ہے ۔ فیصل آباد میں مسلم لیگ ن کے دھڑوں میں کانٹے کا مقابلہ ہواجو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پارٹی میں کس قدر کشیدگی پائی جاتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار خال خال ہی کامیاب ہوئے۔ لاڑکانہ میں پی پی پی نے میدان مارا اور بدین میں پی پی پی ہی پی پی پی کے مدمقابل سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر ذوالفقار کے روپ میں رہی ، اسی طرح حیدر آباد جو 1988 ء سے یہاں کی مقبول ترین جماعت تصور کی جاتی ہے اس نے حسب سابق اس بار بھی اپنا لوہا منوالیا ہے اور اس بات کا عندیہ دیدیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ ہی وہ جماعت ہے جو یہاں کے عوم کے دلوں پر راج کررہی ہے ۔ ان انتخابات نے جہاں ملک میں اقردار کی نچلی سطح پر منتقلی کو یقینی بناے کی کوشش کی ہے وہیں اب تک کے نتائج کے مطابق عوام پر واضح کردیا کہ چاروں صوبوں کی زنجیر پی پی پی اب صرف اندرون سندھ میں محدود ایک سیاسی جماعت بن کر رہ گئی ہے ۔ دونوں مراحل کے انعقاد پر حکومتی سطح پر کہا جارہا ہے کہ ان مراحل کے دوران کسی قسم کی ہنگامہ آرائی یا بدنظمی نہیں ہوئی اور الیکش کمیشن کی جانب سے وضع کئے گئے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کو یقینی بنایا گیا ہے جبکہ فافن کی رپورٹ کے مطابق ایسا نہیں ہوا ۔ فافن کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں ہونے بلدیاتی انتخابات میں 7887بے ضابطگیاں ہوئیں اور کئی مقامات پر خواتین کو ووٹ دالنے سے روکا گیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق سندھ اور پنجاب کے 2108پولنگ اسٹیشنوں پر 7887 بے ضابطگیا ں نوٹ کی گئی ہیں جہاں انتخابی قوانین کی بے دریغ خلاف ورزی کی گئی اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ انھیں روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاسکی ۔ اکثر اضلاع میں الیکشن کمیشن کے احکامات ماننے سے دی آر اووز نے انکار کیا جبکہ خود الیکشن کمیشن اپنے ضابطہ اخلاق کی عمل داری میں بے بس نظر آیا ہے ۔ سندھ اور پنجاب کے 30 فیصد پولنگ اسٹیشنوں کی حدود 200میٹر کے اندر الکیشن مہم چلتی رہی ، پنجاب میں 25اور سندھ میں262 پولنگ اسٹیشنوں پرسیاسی پارٹیوں کے امیدوار اور سیاسی ورکرز تشیری مہم چلاتے ہوئے تشہری سلپ بانٹے رہے ، کئی پولنگ اسٹیشنز پر تربیت یافتہ اسٹاف کا فقدان رہا ، سابق قومی اسمبلی اسپیکر فہمیدہ مرزا بھی ایک پولنگ اسٹیشن پر اس بات کا گلا کرتی ہوئی دکھائی دیں ۔ دونوں صوبوں کے 15 فیصد پریزائڈنگ آفیسرز کا کہنا تھا کہ ان کے پاس پولنگ اسکیم ہی نہیں ہے ۔ فافن کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے کی نسبت دوسرے مرحلے میں انتخابی عمل بہت حد تک پرامن تھا البتہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سمیت ووٹنگ کا عمل متاثر رہا ۔ یہ صورتحال تو گزشتہ دو مرحلوں کی تھی لیکن 5دسمبر کو ہونے والا آخری راؤنڈ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس مرحلہ میں پاکستان کی معاشی شہہ رگ کراچی شامل ہے جہاں ایک عرصہ سے حالات کشیدہ ہیں اور اس بار تقریباً تمام جماعتیں میدان میں ہیں ۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے گزشتہ ادوار کا جائزہ لیا جائے تو یہاں مجموعی طور پر دو جماعتوں نے ہی میئر شپ حاصل کی ہے ، ایک جماعت اسلامی جبکہ دوسری جماعت متحدہ قومی موومنٹ ہے ۔ 1979 سے 1987 تک جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی ، جنور ی 1998 سے جولائی 1992 تک ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار، اگست 2001 سے مئی 2005 تک جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ خان ایڈووکیٹ اور اکتوبر 2005 سے فروری 2010 تک کراچی کی نظامت متحدہ کے مصطفی کمال نے کی ۔عبدالستار افغافی کے مد مقابل کوئی بڑی سیاسی یا غیر سیاسی جماعت نہ تھی ، ڈاکٹر فاروق ستار جب میئر منتخب ہوئے تو اس وقت جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کررکھا تھا ،اسی طرح نعمت اﷲ خان کے ناظم منتخب ہونے کے موقع پر ایم کیو ایم نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا جبکہ کسی اور کی اکثریت نہ ہونے سبب وہ کراچی کے اقتدار پر براجمان رہے اور مصطفی کمال کے میئر بننے کی وجہ بھی جماعت کا انتخابات میں حصہ نہ لینا تھا ۔ یعنی یہ بات طے ہے کہ جماعت اسلامی اور متحدہ اس شہر کی دو بڑی جماعتیں ہیں جو اس پر حکمرانی کرچکی ہیں لیکن کسی ایک کی غیر مودگی غیر موجودگی کی صورت میں ، لیکن اس بار نہ صر ف یہ دونوں جماعتیں سرگرم ہیں بلکہ پی ٹی آئی سمیت دیگر کئی سیاسی جماعتیں بھی کراچی کے سیاسی منظر نامہ کا حصہ بن رہی ہیں ۔ البتہ پی پی پی کو ہم یہاں کی غیر مقبول جماعت کے طور پر ہی تصور کریں گے کیونکہ پی پی پی صوبائی یا قومی اسمبلی کی نشستوں کے لحاظ سے بھی یہاں قابل کامیابی کبھی بھی حاصل نہیں کرسکی ہے یعنی اس خیال کو دل سے نکال لیا جائے کہ اس جماعت کی جانب سے شہر کراچی کے منظر نامہ تبدیل ہوسکتا ہے ۔ کراچی شہر کا نقشہ آبادی کے لحاظ سے بڑا منفرد ہے ۔ شہر میں داخل ہوں تو سہراب گوٹھ اور وہاں سے چاروں جانب سرحدی پٹی پر پشتون آباد ہیں ، اندرون شہر میں کہیں ، اردو بولنے والے اکثریت میں ہیں تو کہیں دیگر زبان بولنے والے جتھوں کی صورت آباد ہیں ۔لہذٰ ا یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہاں کوئی بھی سیاسی جماعت کوئی بڑی کامیابی سے ہم کنار ہوگی ۔ جماعت اسلامی نے مجوزہ انتخابات میں تحریک انصاف سے سیاسی ہم آہنگی نبالی ہے اور وہ مل کر کراچی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے جس سے اسے ممکنہ طور فائدہ ہوسکتا ہے جو اے این پی کیلئے خوش آئند نہیں جبکہ اے این پی نے جے یو آئی کے سیاسی مفاہمت کرلی ہے البتہ متحدہ اکیلے ہی ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہے ۔ ایم کیو ایم کیلئے ایک صدمہ یہ ہے کہ 11مارچ 2015میں نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے بعد اس کی عام میں مقبولیت پر کافی اثر ڈالا ہے اور ان دنوں بھی اس کے کئے نامزد امیدوار رینجرز کی تحویل میں ہیں جس کا کسی حد تک فائدہ آفاق گروپ کو ہوسکتا ہے ۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ 2013 ء کے عام انتخابات میں سب سے پہلے کراچی میں 11 مئی کو ٹھیک الیکشن والے دن سب سے پہلے دھاندلی کا شور ہوا اور جماعت اسلامی نے دوران پولنگ اس کا انکشاف کیا اور اسی وقت بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنے تمام پولنگ ایجنٹس واپس بلوالئے اور اس الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیدیا ،بعدازاں شہر کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی یہاں دھاندلی کی آواز بلند کی جبکہ تحریک انصاف نے اپنی ناکامی کے بعد ہی اس پورے انتخاب کو ملی بھگت اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو جعلی کہا۔ اس بار چونکہ تمام سیاسی جماعتیں میدان میں ہیں لہذٰا اس بات کا بھی امکان ہے کہ کسی بھی طرح کی بدانتظامی یا غفلت کی صورت میں انتخابات کے غیر جانبدارانہ ہونے کی بازگشت سنائی دی جاسکتی ہے ۔

کراچی میں ہونے والا بلدیاتی انتخابات کا تیسر ا مرحلہ جہاں سیاسی جماعتوں کیلئے اہمیت رکھتا ہے وہیں عوام کیلئے بھی اس کی اہمیت بہت اہم ہوگئی ہے کیونکہ یہاں بہت عرصہ مسائل کا انبارلگ رہا ہے ، لوگوں کو بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ،امن وا مان ، سیوریج ، گلی محلوں کی استرکاری سمیت پینے کے صاف پانی کا مسئلہ جان لیوا ثابت ہورہا ہے ۔ لوگ صبح سے رات گئے پانی کے حصول میں سرگرداں رہتے ہیں ۔ صوبائی اور وفاقی سطح پر عوامی مسائل پر غفلت نے انہیں مایوس کردیا ہے اور اب جب سے لوکل باڈیز کے الیکشن کا اعلان ہوا ہے انہیں امید ہوچلی ہے کہ اب ان کی مشکلات میں کمی واقع ہوگی ۔

کراچی شہر کی بد قسمتی ہے کہ یہاں جب بھی کوئی مثبت پیش رفت ہونے لگتی ہے تو حالات کی خرابی آڑے آجاتی ہے ، ان دنوں پورا شہر انتخابات کی گہما گہمی میں مصروف ہے ایک بار پھر حالات کو خرابی کی جانب موڑا جارہا ہے جس سے عوامی حلقوں میں خدشہ پایا جارہا ہے کہ شاید موجودہ حالات ان الیکشنز کی معطلی کا باعث نہ بن جائیں ۔ گوکہ حکومت اور رینجرز سمیت تمام قانون نافذکرنے والے اداروں کی جانب سے حالات کی بہتری اور بلدیاتی انتخابات کے پرامن انعقاد کی بھر پور یقین دھانی کرائی جارہی ہے لیکن عوام میں مایوسی لہر
دوڑ گئی ہے کہ انہوں نے جو امیدیں لگائیں ہی ان پر پانی نہ پھر جائے ۔ ہم سمجھ رہے تھے بلوچستان جیسے شورش زدہ اور کے پی کے جیسے پر آشوب صوبے میں الیکشن کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا لیکن اﷲ نے بڑا کرم کیا جو وہاں پر تمام مراحل نہایت خوش اسلوبی سے طے پاگئے اور اﷲ سے پوری امید ہے کہ تیسر امرحلہ بھی نہایت پرامن ہواور کراچی کی کھوئی ہوئی رونقیں بحال ہوجائیں ۔
 

Mujahid Hussain Shah
About the Author: Mujahid Hussain Shah Read More Articles by Mujahid Hussain Shah: 60 Articles with 43508 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.