"مشہور برطانوی ماہر معاشیات جان کینز نے کہا تھا کہ
مسلسل نوٹ چھاپ کر حکومت نہایت خاموشی اور رازداری سے اپنے عوام کی دولت کے
ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیتی ہے۔ یہ طریقہ اکثریت کو غریب بنا دیتا ہے مگر
چند لوگ امیر ہو جاتے ہیں"۔اسی سے ملتی جلتی بات1927ءمیں بینگ آف انگلینڈ
کے گورنر جوسیہ سیٹمب(جو انگلستان کا دوسرا امیر ترین فرد تھا )نے کہی تھی
کہ"جدید بینکاری نظام بغیر کسی خرچ کے رقم (کرنسی) بناتا ہے۔ یہ غالباً آج
تک بنائی گئی سب سے بڑی شعبدہ بازی ہے۔ بینک مالکان پوری دنیا کے مالک ہیں۔
اگر یہ دنیا ان سے چھن بھی جائے لیکن ان کے پاس کرنسی بنانے کا اختیار باقی
رہے تو وہ ایک جنبش قلم سے اتنی کرنسی بنا لیں گے کہ دوبارہ دنیا خرید
لیں۔اگر تم چاہتے ہو کہ بینک مالکان کی غلامی کرتے رہو اور اپنی غلامی کی
قیمت بھی ادا کرتے رہو تو بینک مالکان کو کرنسی بنانے دو اور قرضے کنٹرول
کرنے دو"۔
دنیا میں بڑھتی غربت کی وجوہات پر غور کیا جائے تو سب سے بڑھی وجہ حکومتی
معیشت کا قرضوں پر انحصار کرناہے۔غربت ایک ایسی جنگ ہے جس میں لوگ کسی دشمن
سے لڑے بغیر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں،یہ ایک ایسی چنگاری ہے
جوآہستہ آہستہ پورے ملک کو جلاکر خاکستر کردیتی ہے۔کسی بھی ملک کی بقاء اور
خوشحالی کا راز اس کی معاشی خوشحالی پر منحصر ہوتاہے۔معاشی خوشحالی قرضوں
سے نہیں بلکہ محنت اور ایمانداری سے آتی ہے۔موجودہ حکومت قرضے لینے اور ملک
کو مفلوک الحال بنانے والی پالیسیوں پر عمل کرنے میں سابقہ حکومتوں سے بھی
دوہاتھ آگے بڑھ چکی ہے۔آئی ایم ایف جیسے خونخوار ادارے کی غلامی میں اس حد
تک جاچکی ہے کہ ہر ہفتے اوسطا23ارب48کروڑ مالیت کے نئے نوٹ چھاپ کر افراط
زر(مہنگائی اور غربت) کی آگ بڑھکارہی ہے۔یاد رہے آئی ایم ایف(عالمی مالیاتی
ادارہ)جو بظاہر غریب ملکوں کو فنڈنگ کرکے سپوٹ کرتاہے لیکن اس کا اصل مقصد
قرضے پے قرضے دے کر من مانی شرائط منوانا اوردوسرے ملکوں کے وسائل پر قبضہ
کرنا ہے۔موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے قربتیں بہت زیادہ بڑھالی ہیں،یہی
وجہ ہے کہ آئے روز آئی ایم ایف سے قرضے لینے اور ان کی شرائط ماننے کی
خبریں آتی رہتی ہیں۔حال ہی میں آئی ایم ایف کی جانب سے منی بجٹ کی تجویز
حکومت کو دی گئی،تبھی حکومت20 ارب روپیے عوام سے جبری ٹیکس کی مد میں وصول
کرنے کی تگ ودومیں لگی ہوئی ہے۔موجودہ حکومت بظاہر یہ دعوی کرتی رہتی ہے کہ
پہلی بار ملکی زرمبادلہ بلند ترین سطح پر پہنچے ہیں،ڈالر کم ترین سطح پر
آیا ہے،پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی آئی ہے،لیکن ماہرین معاشیات بتاتے
ہیں کہ یہ سب دعوے عوامی حمایت حاصل کرنے اور انہیں دھوکے میں رکھ کر
بیوقوف بنانے کے حیلے ہیں۔
اکتوبر2013ءسے ستمبر2015تک صرف دو سال کے عرصے میں موجودہ حکومت
7ارب62کروڑ35لاکھ70ہزار ڈالر کا بیرونی قرضہ لے چکی ہے،جب کہ 9 ممالک سے
امداد کے نام پر ملنی والی4ارب13کروڑ70لاکھ15ہزارڈالر کی رقم اس کے علاوہ
ہے۔قومی بنکوں سےلیاگیا 481ارب 58 کروڑ روپیے کا قرضہ اور سٹیٹ بنک سے
اربوں نوٹ چھپواکر الگ لیے گئے ہیں،ایک رپورٹ کے مطابق 68 سالہ پاکستانی
تاریخ میں پہلی بار ملک میں گردشی نوٹوں کا حجم 31 کھرب 2 ارب 14کروڑ کی
بلند ترین سطح پر پہنچاہے۔قرضوں اور نوٹ چھاپنے کا یہ خونی کھیل کتنا
خطرناک ہے اس کا اندازہ فی الوقت شاید نہ ہو لیکن آنے والی نسلیں غلامی کی
صورت اس کا خمیازہ ضروربھگتیں گی۔اگر یہ خونی کھیل یوں ہی جاری رہا
توہرپاکستانی کےسر چڑھے ایک لاکھ8 ہزار کا قرضہ چندسالوں بعد کروڑوں میں
ہوجائے گا جس کی عدم ادائیگی اسے ظالم سامراج کا غلام بنانے کے لیے کافی
ہوگی۔
امداد،قرضے،جبری ٹیکس وصولی کی مدمیں اکھٹی کی جانے والی رقم کہاں جاتی ہے
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب میں بہت کچھ کہاجاسکتاہے۔کرپشن کے علاوہ
حکومتی عیاشیوں اور وزیراعظم کے سرکاری دوروں پر اس رقم کا وافرحصہ خرچ کیا
گیا۔قومی اسمبلی کبھی ارکان سے نہیں بھرتی لیکن پھر بھی اس پر 3 ارب روپیے
خرچ کردیے جاتے ہیں،وزیراعظم خود ارب پتی ہیں،بلکہ پوری فیملی ارب پتی
ہے،لیکن افسوس رائیونڈ جیسے محل کی دیورایں اونچی کروانے کے لیے پنجاب
حکومت سے 48 کروڑ روپیے لیتی ہے،یہ 34 کروڑ دھوپ میں جلنے والے لاکھوں
مزدوروں کی خون پسینے کی کمائی ہے۔وزیراعظم کے تین سال کے سرکاری دوروں کے
اخراجات کا حساب لگائیں تو وہ بھی کروڑوں میں ہیں،ضرورت کے تحت سرکاری دورے
اور افراد کے جانے پر کسی کواعتراض نہیں لیکن سرکاری دوروں میں اپنے بیوی
بچوں اور نواسیوں تک کو قوم کے خزانے سے مزے کروانا کہاں کی جمہوریت
ہے۔قومی اسمبلی کا ایک اجلاس 3سے 4 کروڑ میں پڑتاہے،ہرممبراسمبلی کو 75
ہزارسے زائد تنخواہ دی جاتی ہے،اجلاس میں شرکت پر 4 ہزار اضافی
الاؤنس،ریٹرن ٹکٹ،فیملی میڈیکل، بجلی، ٹیلی فون،فیول کی مدمیں لاکھوں روپیے
دیے جاتے ہیں۔حیرت ہے غریب عوام کے خون پسینے سے جمع ہونے والے لاکھوں
روپیے کروڑپتی ارب پتی اسمبلی ممبران ہرماہ کتنی بے شرمی سے ڈکارجاتے
ہیں۔عوام کی نمائندگی کا دم بھرنے والے یہ حکمران اگر عوام سے اتنے ہی مخلص
ہیں تو کیوں نہیں اپنی عیاشیوں پر اپنی دولت خرچ کرتے؟وزیراعظم کے رائے ونڈ
محل کی دیواریں اگراونچی کرنی ہیں تو وزیراعظم اپنی دولت سے 48 کروڑ روپیہ
کیوں نہیں دیتے؟بیوی بچوں نواسیوں کو امریکہ کی سیر کروانی ہے تو اس کے لیے
وزیراعظم کیوں اپنی جیب سے خرچ نہیں کرتے؟
ایک طرف موجودہ حکومت کے قرضے،نوٹ چھاپ،امداد اور جبری ٹیکس وصولی اور
عیاشیوں کی داستان ہے دوسری طرف کے پی کے حکومت کا زبردست اقدام،جسے نہ
سراہنا ناانصافی ہے۔عمران خان کی سیاست سے لاکھ اختلاف مگر ان کی باتیں اور
ان کے کام یقینا لائق تحسین ہیں۔چند دن قبل عمران خان نے ایک بیان میں
بتایا کہ کے پی کے حکومت نے سرکاری گیسٹ ہاوسسز جن پر سالانہ کروڑوں روپیے
خرچ ہوتے تھے،انہیں کمرشلائز کردیا ہے،پہلے ان سرکاری مہمان خانوں میں
سرکاری لوگ مفت آتے جاتے تھے اب انہیں یہاں رہنے کے لیے پیسے ادا کرنے ہوں
گے۔ان کے بقول ایک ماہ میں ان مہمان خانوں کی مینٹینس پر 3 لاکھ خرچ کرکے
40 لاکھ روپیے کمائے گئے جو عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیے جائیں گے۔بظاہر
عمران خان حکومت کا یہ ایک چھوٹا ساکام ہے لیکن یہ ایک بہترین کاوش ہے۔اگر
ملک میں موجود سرکاری مہمان خانے،سرکاری محلات اور سرکاری کوٹھیوں کو اس
طرز پر ڈال دیا جائے تو قوم کاخزانہ سرکاری اہلکاروں کی عیاشیوں پر خرچ
ہونے سے محفوظ ہوجائے گا۔سرکاری اہلکاروں کو بقدر ضرورت سہولیات دینے سے
انکار نہیں،لیکن سہولیات کے ضمن میں سرکاری افراد کو عیاشیوں کے لیے کئی
کئی ایکڑز کے محلات بناکردینا،بیوی بچوں اور رشتہ داروں کو سرکاری منصب کے
تحت میڈیکل،بجلی گیس،ٹریولنگ میں مزے کروانا بالکل غریب عوام پر ظلم ہے۔
عوام کو چاہیے کہ وہ بیدار ہوجائیں اور اپنے حق کے لیے لڑیں!قرضوں پر قرضے
لینا،نوٹ چھاپنا،امداد کے نام پر انہیں ٹیکسوں،غلامی اور جنگوں میں
دھکیلنا،عوام کی نمائندگی کا غم سنا کر ان کے خون پسینے کی کمائی کوعیاشی
میں اڑانا خاموش قتل ہے ۔اگر قتل اور ظلم کا یہ سلسلہ یوں ہی دراز ہوتا
چلاگیا تو ایک دن عوام رہی گی،نہ پاکستان اور نہ پاکستان کا نظریہ"لاالہ
الااللہ"کاش اس دن سے پہلےغافل قوم جاگ جائےاور حکمرانوں کے ہاتھوں بیوقوف
بن کر عالمی سامراج کے خونی کھیل سے باہرنکل آئے! |