عالمی ادارہ صحت نے پا کستان کو ایڈز کے خطرناک زون میں شامل کرلیا

یکم دسمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایڈز کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ ایڈ ز کا عالمی دن دنیا میں پہلی مرتبہ 1987 میں منایا گیا ۔اس کے مقاصد میں عوام الناس کو اس مہلک مرض کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا شامل ہے ۔ایڈ ز ہے کیا؟اس کی علامات کیا ہیں؟اسباب اور علاج کے بارے میں اور سب سے اہم اس کی وجوہات بارے لوگوں میں شعور و آگاہی فراہم کرنا ہے ۔

اس دن کی مناسبت سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کالم اور پروگرام کیے جاتے ہیں ۔زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ ایچ آئی وی وائرس کا آغاز بیسویں صدی میں شمالی افریقہ کے علاقہ سحارہ سے شروع ہوا۔ لیکن اب یہ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے ، اور ایک اندازہ کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں تین کروڑ چھیاسی لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔

ایڈز ACOUIRED AIMMUNO DEFICENCY SYNDROME کامخفف ہے ۔

ایڈز ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے، جسے ایچ آئی وی کہتے ہیں، جس میں یہ وائرس ہو اس کی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے، یعنی بیماریوں کے خلاف جو قوت ہوتی ہے، وہ ختم ہو جاتی ہے، AIDS اس وقت کہا جاتا ہے کہ جب HIV کا وائرس یا انفیکشن جسم میں موجود ہو اور ساتھ ہی ساتھ نیچے دی گئی، علامات میں سے ایک سے زیادہ علامتیں پھی پائی جاتی ہوں ۔علامات سے مراد کسی مرض کے اثرات ہوتے ہیں جو مریض محسوس کرتا ہے ۔علامات اور تشخیص میں فرق ہوتا ہے، تشخیص کسی مرض کی موجودگی کی تصدیق ،ثبوت کو کہتے ہیں ۔
ایڈز کی علامات عام سی ہی ہیں، مثلاََ بخار، سردی کا لگنا اور پسینہ ( خاص کردوران نیند پسینہ)دست ،وزن میں بہت زیادہ کمی،کھانسی اور سانس میں تنگی ،مستقل تھکاوٹ،جلد پر زخم ،مختلف اقسام کے نمونیائی امراض ،آنکھوں میں دھندلاہٹ ،جوڑوں کا درد ،گلے میں سوجن اور نزلہ زکام کا ہونا اور مسلسل سردردوغیرہ

HIV کیسے جسم میں داخل ہوتا ہے ؟ ایڈز وائرس یعنی HIV دیگر وبائی امراض کی طرح کسی متاثرہ شخص کے قریب ہونے ، بات کرنے ، اسکو چھونے یا اسکی استعمال کردہ چیزوں کو ہاتھ لگانے سے جسم میں داخل نہیں ہوجاتا۔ بلکہ مردوں اور عورتوں کے جنسی اعضاء سے ہونے والے (اخراجات) یا رطوبتیں ، متاثرہ شخص کے خون سے ،لعاب (saliva) یعنی آب دھن یا تھوک ،انجکشن کی سرنج ، ایڈز میں مبتلا ماں کا دودھ،کان ،ناک چھدوانے کے لیے جو اوزار استعمال ہوتے ہیں، ان کی مناسب صفائی نہ ہونا ، متاثرہ فرد کاشیونگ بلیڈ سے شیو کرنا اور دانتوں کی صفائی کے دانتوں کے ڈاکٹر جو اوزار وغیرہ استعمال کرتے ہیں، ان کا مناسب صحت کے اصولوں کے مطابق نہ ہونا وغیرہ ، اس کا سبب بنتی ہیں ۔اب کوئی معمولی بیماری بھی حملہ کرے تو انسان میں قوت مدافعت نہ ہونے کے سبب اس کا علاج ممکن نہیں رہتا ۔

اس مرض کا سب سے اہم سبب انفیکشن ہے ۔ایڈز کے بارے میں سنا کرتے تھے کہ اس کا علاج ممکن نہیں ہے، اس بات میں کافی سچائی ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ تازہ ترین تحقیقات میں امید کی کرن بھی نظر آتی ہے جن کا ذکر آگے کریں گے ۔

اس بیماری سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا چاہیے یہ کہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے سے ہی یہ مرض لگتا ہے۔جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے تا حال اس کا علاج دریافت نہیں ہو سکا ،اس کے لیے اس کی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے، اس لیے بھی کہ یہ عین اسلامی تعلیمات ہیں مثلا َصفائی جسے اسلام میں نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے اور جن اوزار وغیرہ سے دانت ،ناخن صاف کیے جائیں ان کا صاف ہونا ۔ایک مرد کے اپنی بیوی سے ہٹ کر زیادہ عورتوں سے تعلقات رکھنا خاص کر پیشہ ور عورت سے تعلقات رکھنا اسی طرح عورتوں کو یہ مرض مردوں سے منتقل ہوتا ہے ۔

ایک بہت ہی خاص بات جس سے میں اپنی قوم کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ۔ ایڈز یقینا ایک خطرناک بیماری ہے مگر جنسی ذرائع سے اس کے پھیلنے کا تناسب بارہ فیصد ہے ۔ جبکہ دیگر ذرائع سے پھیلنے کا تناسب اندازاََ اٹھاسی فیصد ہے ،پھر صرف جنس پر ہی اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے ۔یہ ایک پراپیگنڈہ ہے، جس کا مقصد آگاہی کے پردے میں معاشرہ بے باکی و جنس پر گفتگو کی راہ ہموار کرنا ہے ۔اس کا مقصد ہمارے معاشرے سے فطرہ شرم و جھجک کا خاتمہ ہے ۔کچھ لوگوں کا مشن ہے کہ ہمارے نصاب میں جنسی تعلیم کو شامل کیا جائے تاکہ معاشرہ میں بے حیائی پھیل سکے اور عطائی کالم نویس اس کو پڑھ کر اس کے حق میں لکھ رہے ہیں ۔جیسے ایڈز سے بچاؤ کی صرف ایک یہ ہی صورت رہ گی ہو اس لیے ان دیگر وجوہات پر بھی بات ہونی چاہئے ،جو اس کا سبب بن رہی ہیں ۔خیر اب آتے ہیں، اصل موضوع کی طرف ۔یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایڈز کوئی چھوت کی بیماری نہیں ہے، جو کسی مریض کے ساتھ بیٹھنے ،چھونے سے منتقل نہیں ہوتی اس لیے جو اس کے مریض ہوں، ان سے ہمدری کا اظہار کرنا چاہیے، اس سے نفرت کا نہیں، بات احتیاطی تدابیر کی ہو رہی تھی تو کسی کا بھی خون لگواتے وقت اس کے خون کے مکمل ٹیسٹ کروا لینے چاہیے ۔

پاکستان کو عالمی ادارہ صحت نے ایڈز کے خطرناک زون میں شامل کر لیا ہے، اب تک پاکستان میں تقریبا 8 ہزار مریض اس مرض میں مبتلارجسٹرڈہوئے ہیں اور اس سے کئی گنا زیادہ اس مرض میں مبتلا ہونے کا امکان ہے، پاکستان میں لوگ شرم کے مارے خود کو رجسٹرڈ نہیں کرواتے بلکہ اپنے گھر والوں سے اس مرض کو چھپاتے ہیں اور اسی حالت میں موت کو گلے لگا لیتے ہیں پھر پاکستان میں جہاں مردم شماری نہ ہوئی ہوں وہاں کسی قسم کے اعداد و شمار کا درست حالت میں ملنا ممکن نہیں ہے۔ جہاں نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو وہاں میڈیکل چیک اپ کا تصور کہاں ،خانہ بدوش اور بھیک مانگنے والے یا وہ جن کی زندگی قرض اور خیرات پر گزر رہی ہو وہ جب بیمار ہوتے ہیں تو ٹیسٹ کہاں کرواتے ہیں اور کروا بھی کیسے سکتے ہیں چپ چاپ قبر میں جا اترتے ہیں اور اپنے پیچھے اسی مرض کے اور مریض چھوڑ جاتے ہیں ۔

ایڈز کا مرض غربت کا شکار معاشروں کے لیے ایک ناسور بنا ہوا ہے، کیونکہ وہاں اتنا شعور ہی نہیں ہوتا کہ یہ مریض کس مرض سے مرا ہے ۔ ایک اخبار میں پڑھا ہے کہ پاکستان میں ایڈز کے ایک لاکھ سے زائد مریض ہو سکتے ہیں اور صرف 15 مراکز ہیں، جہاں اس کا ٹیسٹ مفت ہو رہا ہے ۔

روانڈا ایک ایسا ملک جہاں 90 فیصد آبادی کیتھولک ہے، وہاں کی تین فیصد آبادی ایڈز کا شکار ہے۔اسی طرح بوٹسوانا کی 23 فیصد آبادی اس مرض کی شکار ہے ۔وہاں اس مرض کا علاج یا دفاع کے لیے اسلامی طریقہ کے مطابق مردوں کے ختنے کر کے کیا جا رہا ہے اور ماہرین نے کہا ہے کہ ختنے والے مردوں میں اس بیماری کے انفیکشن کا خطرہ 60 فیصد کم ہوتا ہے ۔ اس پر تحقیق ابھی جاری ہے ۔

یہ ابتدائی تحقیقات ہیں ۔اسی طرح اسلام میں مردوں کو صرف اپنی بیوی یا بیویوں تک اور بیوی کو اپنے شوہر تک محدود رہنے کی بابت بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس مرض سے بچنے کا سب سے آسان طریقہ ہے ۔سائنسدان دن رات اس مرض کے علاج کے لیے کوشاں ہیں اور وہ بہت پر امید ہیں طبی ما ہرین نے ایک ایڈز کے کامیاب علاج کے دوا کی دریافت کا بھی عندیہ دیتے ہوئے خوش امیدی ظاہر کی ہے لیکن اس پر ابھی مزید تحقیق ہو رہی ہے ۔کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ دنیا میں کوئی مرض ایسی نہیں پیداکی گئی جس کا علاج نہ ہو۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
About the Author: Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal Read More Articles by Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal: 496 Articles with 578665 views Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
Press Reporter at Columnist at Kassowal
Attended Government High School Kassowal
Lives in Kassowal, Punja
.. View More