اینٹی بائیوٹک زندگی کی ضمانت ہے کیونکہ وہ ممکنہ طور پر
جان بچاتی ہے آج کی جدید ادویات میں بیکٹیریا کے خلاف جنگ میں اس کا
استعمال ناگزیر ہے تاہم کئی مہلک بیماریوں میں اسکی تاثیر قدرے کم ہونے کی
صورت میں شفایابی کے امکانات بھی زیادہ روشن نہیں ہوتے ،نمونیا ، تپ دق یا
ٹائیفائڈ بخار ہواینٹی بائیوٹک آج کے دور میں جدید ادویات کا ایک حیرت
انگیز ہتھیار ہے۔سکاٹ لینڈ کے سائنسدان اور بیکٹیریا پر ریسرچ کرنے والے
الیگزینڈر فلیمنگ نے سن انیس سو اٹھائیس میں جراثیم کے خاتمے کیلئے ایک
تجربہ کیا جس میں اسے کامیابی حاصل ہوئی اسکی ریسرچ کے مطابق پینسیلین ہی
وہ معجزہ ہے جس سے جراثیم کوختم کیا جا سکتا ہے،تقریباً دس سال بعد میڈیسن
پر ریسرچ کرنے والے ہاورڈ والٹر فلوری اور ارنسٹ بورس چین نے پینسیلین کو
دیگر کیمیکل سے مزید موثر بنانے کی کوشش کی اور کئی سال بعد انہیں کامیابی
ملی کیونکہ وہ جنگ کا زمانہ تھااور پینسلین نے ہزاروں افراد کی جان بچائی،
انیس سو پینتالیس میں دونوں محقیقین نے میڈیسن کا نوبل انعام حاصل
کیاکیونکہ ماضی ہی نہیں بلکہ آج بھی پینسیلین ہی وہ واحد ،بہترین اور موثر
میڈیسن ہے جس سے بیکٹیریا پر قابو پایا جاسکتا ہے اور اموات میں کمی واقع
ہو سکتی ہے۔اتنی کامیابی کے بعد بھی اینٹی بائیوٹک کے کھوئے ہوئے اثر رسوخ
کیا ہیں؟۔جادو کی یہ فاسٹ بلٹ بیکٹیریا کی دشمن ہونے اور بھرپور صلاحیت
رکھنے کے باوجود اپنا اثر رسوخ کھو رہی ہے کیونکہ موجودہ جینیاتی مواد اور
ماحول اس قدر تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور بالخصوص انسانی صحت پر گہری
ضربیں لگا رہا ہے کہ یہ فاسٹ لیکن لاسٹ گولی انسانی جسم میں نئے پائے جانے
والے جراثیم پر قابض نہیں ہو سکتی دنیا کے ہر خطے میں انسان مختلف نئے
جراثیم سے متاثر ہو رہا ہے جس کے سبب مخصوص بیماریوں کے علاوہ کئی نئی
بیماریاں جنم لے رہی ہیں اور ایسی بیماریوں اور جراثیم پر قابو پانا اینٹی
بائیوٹک کی رینج سے باہر ہونے کے علاوہ مکمل طور پر بے اثر ثابت ہو رہی ہیں
،کئی بار انفرادی جراثیم اینٹی بائیوٹک کے خلاف مکمل طور پر مدافعتی نظام
کو ختم کرنے کی بجائے اضافہ کرتے ہیں کیونکہ ایک جراثیم اپنی چال چلتا ہے
اوردوسرا دوسری چال سے اینٹی بائیوٹک سے بچ نکلنے کی صورت میں دیگر کئی
پھیلے جراثیم میں تقسیم ہونے اور پھیلنے میں خطرناک حد تک اپنا کردار ادا
کرتا ہے جس سے مختلف اقسام کا بیکٹیریل ہجوم بن جاتا ہے جہاں کسی قسم کی
میڈیسن کار آمد ثابت نہیں ہوتی اور علاج ناممکن ہو جاتا ہے،دوسری طرف کئی
بار یہ دوا جراثیم کے خلاف اتنی تیزی سے پھیلتی اور فوری اثر کرتی ہے کہ
جراثیم کا مزاحمت کرنا دشوار اور فوری ان کا خاتمہ ہوجاتا ہے جبکہ پہلی
صورت میں دوا کے اثر نہ کرنے سے جراثیم اس قدر تیزی سے پھیل جاتے ہیں کہ
دیگر افراد متاثر ہوتے اور موت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں،ماہرین کا کہنا ہے اس
دوا سے اگر جراثیم مکمل طور پر ختم نہیں ہوتے تو مزید سخت اور ناقابل علاج
ہو جاتے ہیں ایسی صورت جسے ایمر جینسی کہا جاتا ہے ڈاکٹر فوری طور پر اینٹی
بائیوٹک لینے کا مشورہ دیتے ہیں اور مریض کو خاص طور پر تنبیہ کی جاتی ہے
کہ اگر تین یا چار دن کے بعد بھی صحت یاب ہو جائیں تب بھی کورس یعنی گولی
یا کیپسولز لینے سے اجتناب نہ کیا جائے اور کورس مکمل کیا جانا لازمی ہے
بدیگر صورت نیم مردہ جراثیم دوبارہ ایک نئی بیماری میں مبتلا کر سکتے
ہیں،ہر بیماری کا علاج اینٹی بائیوٹک نہیں ہوتا مدافعتی نظام کو برقرار
رکھنے کیلئے عام ادویہ بھی استعمال کی جاسکتی ہیں اور وٹامن سے بھرپور
غذائی اجزاء کا استعمال لازمی ہوتا ہے۔
عام طور پر ڈاکٹر ز اینٹی بائیوٹک کا نسخہ دینے سے اجتناب کرتے ہیں اگر
مریض کسی خاص انفیکشن میں مبتلا ہو تو پینسیلین ہی علاج کا واحد حل ہوتا
ہے۔اینٹی بائیوٹک کے خطرات اور ضمنی اثرات خاص طور پر نوزائدہ اور چھوٹے
بچوں میں منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں کیونکہ آنتوں کو نقصان پہنچانے کے
ساتھ مستقبل میں الرجی یا دیگر خطرناک بیماریوں کے لاحق ہونے کا خطرہ ہوتا
ہے، خاصی تشویش ناک بات زراعت کے پیشے سے منسلک افراد اور مویشیوں کی
بیماریوں کے پھیل جانے سے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے مثلاً پولڑی فارم وغیرہ
کیونکہ برڈ فلو کے پھیل جانے سے اموات واقع ہو سکتی ہیں مویشوں کا دودھ اور
گوشت وغیرہ انفیکشن کے پھیلاؤ میں سر فہرست ہیں۔ ادویات کے محقیقین آج کل
مکمل طور پر کسی نئے فارمولے پر ریسرچ نہیں کر رہے بلکہ پہلے سے قائم شدہ
آپشنز پر مزید ریسرچ جاری ہے کیونکہ ضمنی اثرات سے واقفیت پر پہلے سے تیار
کردہ ادویات کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لینے اور انہیں مزید بہتر بنانے
کی کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ مریض زیادہ آسانی سے شفایاب ہوں مثال کے طور
پر بریسٹ کینسر میں مبتلا افراد کیلئے ٹیمو کسفین دستیاب ہے جو نہ صرف
ٹیومر اور بیکٹیریا کے خلاف موثر انداز میں جنگ کرتی بلکہ مدافعتی نظام کی
حمایت بھی کرتی ہے اس لئے کسی نئے فارمولے کی ابتدا کرنے کی بجائے محیقیقین
اسی دوا کو مزید نئے کیمیکل اجزاء سے بہتر بنانے میں مصروف ہیں ،لیکن ہر
نئی اینٹی بائیوٹک کی دریافت کے ساتھ ساتھ نئے جراثیم بھی پیدا ہو رہے ہیں
اور موجودہ دور میں محقیقین اور جراثیم کی جنگ جاری ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس
جنگ میں جیت کس کی ہوگی محیقین کی یا جراثیم کی۔ |