یہ پہلا موقع کہ فوج کو کھل کر چیلنج کیا گیا
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کو صوبائی حکومت کی منظوری سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر رینجرز ڈاکٹر عاصم کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانا چاہیے تو کیا سندھ حکومت اس کی منظوری دے گی۔ اس صورتحال میں اگر یہ سمجھا جائے کہ معاشی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ڈیڈ لاک کا شکار ہوگئی ہے تو بادی النظر میں تو ایسا ہی لگتا ہے اور سیاسی قیادت بالخصوص سندھ حکومت اور بوجوہ زرداری کے پریشر میں آئی وفاقی حکومت اگر فوج کی صحیح طور پر پشت پناہی یا تعاون نہ کر سکی تو پھر اس آپریشن کی ناکامی میں کوئی شک و شبہ نہیں رہنا چاہیے ۔
جنرل راحیل شریف ایک محب وطن سپاہی کی حیثیت سے وہ وطن کو بیرونی خطرات کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر بھی قومی دولت کے چوروں‘ ڈاکوئوں اور دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کی سوچ پورے مستحکم عزائم کے ساتھ رکھتے ہیں۔ ان کی قیادت میں فوج نے جس آپریشن کا معاشی دہشت گردوں کا گھیرا تنگ کرنے کیلئے آغاز کیا ہے پاکستانی عوام سوفیصد اس کی پشت پر ہیں اور اگر بدقسمتی سے سیاسی قیادت اس عمل میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے تو اس رکاوٹ کو دور کرنے میں عوام دل و جان سے فوج کے ساتھ ہوں گے |
|
آج سندھ حکومت کے رویہ سے منظرنامہ یہ بن
رہا ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین ایک ایک کر کے انکی مقدمات سے بریت کا سلسلہ
شروع ہوگا۔ فوج منہ دیکھتی رہ جائے گی اور عوام ان طاقتور لوگوں سے اور
زیادہ مرغوب ہو جائیں گے کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔ یہی وہ بننے
والا منظرنامہ ہے جسٹس (ر) شائق عثمانی جیسے آئین و قانون کے شناور اس
نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کراچی میں معاشی دہشت گردوں کے خلاف آئینی و قانونی
آپشنز ختم ہوگئے ہیں شاید ایسے حالات کا پہلے سے اندازہ تھا تب ہی تو نیشنل
ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کو صوبائی حکومت کی
منظوری سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر رینجرز ڈاکٹر
عاصم کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانا چاہیے تو کیا سندھ حکومت اس کی
منظوری دے گی۔ اس صورتحال میں اگر یہ سمجھا جائے کہ معاشی دہشت گردوں کے
خلاف کارروائی ڈیڈ لاک کا شکار ہوگئی ہے تو بادی النظر میں تو ایسا ہی لگتا
ہے اور سیاسی قیادت بالخصوص سندھ حکومت اور بوجوہ زرداری کے پریشر میں آئی
وفاقی حکومت اگر فوج کی صحیح طور پر پشت پناہی یا تعاون نہ کر سکی تو پھر
اس آپریشن کی ناکامی میں کوئی شک و شبہ نہیں رہنا چاہیے یہاں سوال پیدا
ہوتا ہے کہ یہ ناکامی کس کی ہوگی۔ فوج ریاست کی یا 19 کروڑ عوام کی اور کیا
فوج ریاست اور عوام اس ناکامی کا متحمل ہو سکیںگے۔ ہرگز نہیں اور اگر ہرگز
نہیں تو پھر دوسرا راستہ کیا ہے۔ دوسرا راستہ تو آئینی آپشن ختم ہو جائے تو
پھر غیر آئینی آپشن ہوا کرتا ہے کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ سیاسی قیادت نے
ذاتی مفادات کی خاطر اگر اپنا موجودہ رویہ تبدیل نہ کیا تو اگر آئین خطرے
میں نہ پڑا تو یقینی طور پر موجودہ سیاسی بندوبست ضرور لپیٹا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف پوری سیاسی قیادت کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے۔ 12
اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویزمشرف کے اقدام کی عوامی سطح پر مزاحمت نہیں ہو
سکی تھی اب تو عوام اس تلملاہٹ کا شکار ہیں کہ آخر سیاسی قیادت چوروں‘
ڈاکوئوں اور عوامی خزانے کو اپنی جیبوں میں بھرنے والوں کو کیفر کردار تک
پہنچانے میں قائدانہ کردار کی بجائے ان کے ’’چوکیدار‘‘ کا کردار کیوں
اپنائے ہوئے ہے۔
اب عوام کی نظریں فوج پر ہیں جنرل راحیل شریف تاحال پوری کوشش کرتے ر ہے
ہیں کہ سیاسی قیادت پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کے سلسلے میں شروع کئے
عمل میں بھرپور تعاون کرے لیکن ڈاکٹر عاصم کے حوالے سے بلی تھیلے سے باہر
آگئی ہے اور اسے دوبارہ تھیلے میں ڈالنے کیلئے جو کچھ کرنا پڑے گا بہتر ہے
وہ نہ ہو جنرل جہانگیر کرامت نے استعفیٰ طلب کرنے پر ’’سرنڈر‘‘ کر دیا مگر
سول گورنمنٹ کی بالادستی کا تاثر قائم کیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اس کا
پس منظر خواہ کچھ تھا زرداری سیٹ اپ کو ان کی جانب سے مشفقانہ رویہ کی
سوغات ملی۔ جنرل راحیل شریف ایک محب وطن سپاہی کی حیثیت سے وہ وطن کو
بیرونی خطرات کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر بھی قومی دولت کے چوروں‘ ڈاکوئوں
اور دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کی سوچ پورے مستحکم عزائم کے ساتھ رکھتے
ہیں۔ ان کی قیادت میں فوج نے جس آپریشن کا معاشی دہشت گردوں کا گھیرا تنگ
کرنے کیلئے آغاز کیا ہے پاکستانی عوام سوفیصد اس کی پشت پر ہیں اور اگر
بدقسمتی سے سیاسی قیادت اس عمل میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے تو اس رکاوٹ کو
دور کرنے میں عوام دل و جان سے فوج کے ساتھ ہوں گے اس لئے سیاسی قیادت ملک
کی اس تبدیل شدہ صورتحال کا جتنا جلد ادراک کر لے بہتر ہے ملک کے ڈیڑھ دو
سو کرپٹ افراد کو بچانے کیلئے پورے سیاسی نظام کو دائو پر نہ لگایا جائے۔
ایان علی کے کیس نے چور اور چوکیدار کی ملی بھگت کو بے نقاب کر دیا ہے چند
لاکھ ڈالر بیرون ملک لے جانے کے جرم میں عدالت کے چکر لگا رہی ہے مگر سٹیٹ
بنک کے علم میں لائے بغیر نشاط گروپ کے 9 ارب ڈالر سنگاپور منتقل ہوگئے مگر
کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور سٹیٹ بنک کی جانب سے سینٹ کو اس
لاعلمی کے جواب کے باوجود کسی کو نشاط گروپ سے اس سلسلے میں پوچھ گچھ کی
توفیق نہ ہوئی۔ غیر ملکی اثاثوں کے حوالے سے 64 افراد کی فہرست سامنے آئی
ہے اب جو ڈیڈ لاک کی صورت پیدا ہوگئی ہے اس کے خاتمے کی ایک صورت تو آئینی
اور قانونی یہ ہے کہ آئین میں ترامیم کے ذریعہ موجودہ عدالتی نظام کو اتنا
مضبوط بنایا جائے اور پراسیکوشن کا سسٹم اتنا موثر ہو کہ بڑے سے بڑے مجرم
کیلئے رہائی کا کوئی راستہ نہ نکل سکے لیکن ایسی قانون سازی تو خود اپنے
خلاف قانون سازی کے زمرے میں اس لئے آئے گی کہ اس سے بہت سے اپنوں کی
گردنیں شکنجوں میں پھنسیں گی۔ تو کیا وہ ہوگا جو نہیں ہونا چاہیے اس لئے
ملک میں جمہوریت پسند اور سیاسی نظام کے تسلسل کے حامی شدید خواہش رکھتے
ہیں کہ سیاسی قیادت اپنا رویہ تبدیل کردے۔، |
|