وزارت خزانہ کو سٹیٹ بنک کی سچی باتیں
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
تحریر : میاں خالد جمیل
عنوان : وزارت خزانہ کو سٹیٹ بنک کی سچی باتیں
|
|
سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ ریمارکس
میں کہا ہے کہ اتنا بڑا ملک قرض لے کر چلایا جا رہا ہے، کب تک بھیک سے
منصوبے چلاتے رہیں گے، عوام کو خراب طرز حکمرانی کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ
سکتے۔سپریم کورٹ کے ریمارکس کا جواب تو اسحاق ڈار یا نواز شریف ہی دے سکتے
ہیں۔ دونوں اصحاب قرضوں کے رموز سے بخوبی آشنا ہیں۔ انہیں ذاتی اور ملکی
سطح پر قرضوں کا خاصا تجربہ ہے۔ تازہ ترین تو 40ارب روپے کا شارٹ فال ہے جس
کیلئے منی بجٹ پیش کر دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف سے 50کروڑ ڈالر سے زائد
مالیت کی اگلی قسط کے حصول کیلئے اس کی تعمیل ارشاد کی گئی ہے۔ 313ایسی
درآمدی اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے جو عمومی ضروریات کا حصہ
ہیں۔ اکنامک منیجرز کو داد دینی چاہئے جنہوں نے آلو، ٹماٹر جیسی سبزیوں،
کھجور، انار، امرود، آم سیب جیسے پھلوں کو بھی نہیں بخشا۔ سبزیوں اور پھلوں
پر سبسڈی دینے کے بجائے ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کی قطعاً سمجھ نہیں آئی۔
اس وقت حکومت پر قرضہ 18097.3ارب روپے ہے۔ کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔
اول الذکر اخراجات پر خط تنسیخ پھیرنا ممکن ہی نہیں البتہ جاری اخراجات کے
بال کاٹے جا سکتے ہیں وہ بھی تب جب ارادہ ہو۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے
اور کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے میں کمی کے باوجود روپے کے پَر پھڑ پھڑا رہے ہیں۔
تیل کی ادائیگیوں کیلئے ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ ڈالر کی مانگ میں
اضافہ روپے کو پسپائی پر مجبور کرتا ہے۔ حکومت کو برآمدی تاجروں اور آئی
ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑتے ہیں۔
پچھلے دنوں روپے کی قدر میں سے قرضوں کے حجم میں 70ارب روپے کا اضافہ ہوا
ہے۔ غیر ملکی قرضہ 70ارب ڈالر ہے قرضوں کی سروس پر حکومتی ریونیو کا 50فیصد
خرچ ہو رہا ہے۔ 2014ء کے اختتام پر بیرونی قرضوں کا حجم 63.96ارب ڈالر تھا۔
حکومت اب تک 52ارب ڈالر کے قرضوں کی دستاویزات پر دستخط کر چکی ہے جو آئندہ
5سے 10سال کے دوران دستیاب ہونگے۔ حکومت کے پاس سرکاری اداروں کی نجکاری کے
سوا کوئی آپشن نہیں 18ارب ڈالر کے قرضے تو موجودہ شریف حکومت نے لئے ہیں
کوئی ایک پاکستانی بڑا ہو یا چھوٹا یہ نہیں جانتا کہ 18ارب ڈالر کس مقصد
کیلئے لئے گئے اور کہاں کہاں خرچ ہوئے 18097.3 ارب روپے کے مجموعی قرضوں کا
حساب تو کوئی نہیں جانتا ہو گا۔ سیلاب اور زلزلوں کے نام پر ملنے والی رقوم
کے استعمال کے بارے میں بھی کوئی نہیں جانتا۔ قرضے اتنے زیادہ ہیں کہ سارا
ملک بھی بیچنا پڑے تب بھی ادا نہیں ہونگے۔ بجلی اور گیس کی کمپنیاں، ریلوے،
پی آئی اے، سٹیل مل بک جائیں تب بھی قرضوں کی صحت پر معمولی اثر پڑیگا۔
حکومت نے قومی اسمبلی میں اعتراف کیا ہے کہ مالی سال 2015-16ء کی پہلی سہ
ماہی میں ٹیکس وصولیاں ہدف سے 1040ارب روپے کم رہیں۔
ہدف مقرر کرنیوالے سیکرٹری کو پوچھا جائے جس نے آمدنی کا وہ ہدف مقرر کیوں
کیا جسے پورا کرنا ممکن نہ تھا۔ پچھلے سال کے مقابلے آمدنی کے ہدف میں
19فیصد اضافہ حقیقت پسندی پر مبنی نہیں۔ ڈیوٹیاں ریگولیٹری ہوں یا ایکسائز
صارفین کے کندھوں پر ڈالی جاتی ہیں۔ اس وقت کوئی سیاسی رہنما اور جماعت بھی
ایسی نہیں جو مالیاتی امور کا تجزیہ کرے اور حکومت کو للکار سکے۔ عمران خان
تو للکارتا رہتا ہے وہ کہتا ہے بڑے ڈاکو اسمبلیوں میں ہیں چور کا احتساب
چور نہیں کر سکتا -
آئی ایم ایف کا دباؤ اتنا بڑھتا جا رہا ہے کہ کاروباری لاگت بڑھتی جا رہی
ہے گردشی قرضہ بڑھتا جا رہا ہے۔ کسانوں کیلئے ریلیف یا حکومت کے ووٹ پیکیج
نے خزانے پر 100سے 120ارب کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ رئیل اسٹیٹ ہر کیپیٹل گین
ٹیکس سے آزاد کیوں ہے؟ آئی ایم ایف کو اپنے ڈالروں کی معہ سُود واپسی کی
فکر ہوتی ہے۔ اسحاق ڈار اب تک تو پروگروتھ اور پرو انوسٹمنٹ پالیسیاں سامنے
نہیں لا سکے۔ الٹا حکومت نے ترقیاتی اخراجات میں 25فیصد کمی کا حکم
سرِتسلیم خم کیا ہے 2011ء سے 2015ء تک قرضوں کی واپسی اور دفاع کی مد میں
کُل حکومتی آمدنی کا 90سے 110فیصد خرچ ہوتا رہا ہے جاری اور ترقیاتی
اخراجات کیلئے خسارے کی سرمایہ کاری کے سوا زیادہ تر قرضے 29ملکوں کا
کنسورشیم فراہم کریگا۔عوام کا دل بہلانے کو میٹرو بسیں، اورنج لائن ٹرینیں،
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نئے سے نئے پاور پراجیکٹس کا سنگ بنیاد ہی کافی
ہیں۔ عوام بیچاروں کو قرضوں کی باریکیوں کا کیا پتہ؟
ورلڈ بنک یا ایشیائی ترقیاتی بنک کی نسبت بانڈز مارکیٹ میں داخل ہو کر ڈالر
جمع کرنا آسان ہے۔
250ارب کا گردشی قرضہ موجود ہے ان کا کارنامہ ہے کہ سندھی وڈیروں کی زمینوں
پر لگے سرکاری ٹیوب ویلوں کی بجلی کاٹ دی ہے تاہم ایک بات سچ کر دی ہے کہ
8گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کی عادت ڈال لیں 2014-15ء کی سالانہ رپورٹ میں نیپرا نے
حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جنریشن اور ڈسٹری بیوشن کے حوالے سے ساری پاور
کمپنیوں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہےنیپرا اور حکومت کی پاور پالیسی ایک
پیج پر دکھائی نہیں دیتی وزارت پانی و بجلی کو نیپرا پر بالادستی حاصل ہے
جیسے وزارت خزانہ کو سٹیٹ بنک کی سچی باتیں کڑوی لگتی ہیں سٹیٹ بنک ہو یا
نیپرا ریگولیٹری ادارے ہیں۔ قانون ان اداروں کی آزادی میں مداخلت کی اجازت
نہیں دیتا سارے سرکاری ادارے اصلاحات کے طلب گار ہیں ہمارے بارے میں دنیا
والے پیش گوئی کر رہے ہیں کہ 2050تک ہم 18ویں بڑی اکانومی بن جائینگے جبکہ
اسحاق ڈار کے نزدیک نواز شریف کے ویژن کی بدولت پاکستان کو یہ معراج 2025ء
میں ہی نصیب ہو جائیگی۔ 18ویں بڑی اکانومی بننے کیلئے گروتھ ریٹ ہی نہیں فی
کس آمدنی میں اضافہ بھی ضروری ہے۔ تیل اور گیس کمپنی کی نجکاری کے بجائے پی
آئی اے، ریلوے اور سٹیل مل کے خساروں سے جان چھڑائی جائے ضرورت سے زائد
سواریاں کشتی کو پار لگانے کی بجائے ڈبو دیتی ہیں۔ |
|