مرکزی حکومت آج کل دلت رائے دہندگان کی جانب خاص توجہ فرمارہی
ہے۔ برطانیہ میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے گھر کو خرید کر نمائش گاہ
بنانے کی تقریب میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ مہاراشٹر نے شرکت کی ۔دلتوں کے
مسیحا اور دستور ساز کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی ۱۲۵ ویں
جینتی دھوم دھام کے ساتھکاایوان پارلیمان میں منائی گئی ۔ اس موقع پر
وزیرانسانی وسائل سمرتی ایرانی نے شرد یادو کے جلد کی رنگ والے بیان کا
حوالہ دیتے ہوئے کہا تصور کیجئے اگر دستور سازی کے وقت ایسے رہنما موجود
ہوتے خواتین کےحقوق کا کیا حشر ہوتا؟ شرد یادو نے انشورنس بل پر بحث کرتے
ہوئے سمرتی ایرانی سے یہ تک کہہ دیا تھا کہ مجھے پتہ ہے تم کون ہو؟ جس وقت
سمرتی ایرانی اپنے حقوق کی بحالی پر ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کو خراجِ
عقیدت پیش کررہی تھیں اس وقت ہریانہ میں خود ان کی پارٹی کے وزیر انل وِج
ایک خاتون پولس کمشنر کے حقوق کی پامالی کررہے تھے ۔ بھری محفل میں اس
کتوتہین کرکے الٹا تبادلہ کروارہے تھے۔ ہریانہ حکومت کے رویہ پر کلیم
عاجزکا یہ شعر صادق آتا ہے؎
بڑی ہی چالبازی آئے ہے اس آفت جاں کو
شرارت خود کرے ہے اور ہمیں تہمت لگاوے ہے
قول و عمل کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ باتیں ہوا میں ہوتی ہے اس لئے
فقروں اور جملوں کو بہ آسانی سے توڑا مروڈا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس عمل
چونکہ زمینی حقیقت ہوتا ہے اس لئے اس کا انکارو تردید بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس
پر اگر کوئی حرکت ویڈیو کے فیتہ کے اندر قید ہوکر سوشیل میڈیا میں کینسر کی
مانند پھیل جائے تب تو اس کا مسترد کرنا غیرممکن ہوجاتا ہے۔ عدم رواداری پر
شاہ رخ خان یا عامر خان کے بیانات کو غلط رنگ سے پیش کرنا نام نہاد دیش
بھکتوں کیلئے جس قدر سہل ہے انل وِج کی سنگیتا کالیا کے ساتھ کی جانے والی
بدسلوکی کو حق بجانب ٹھہرانا اتنا ہی مشکل ہے۔
انل وِج نے عوام کے سامنے اپنا رسوخ دکھانے کی خاطر پہلے تو دھونس جماتے
ہوئے شراب کی اسمگلنگ کےروک تھام کی تفصیل طلب کی۔ اس کے جواب میں یہ بتائے
جانے پر کہ پولس نے ۲۵۰۰ پرچہ اسی سال کاٹے مگر عدالت نے انہیں رہا کردیا
اور وہ پھر شراب بیچنے لگے ۔ اس پر منہ زور وزیر نے پوچھا پھر آپ نے کیا
کیا؟ جواب ملا ہم ان کو جان سے تو نہیں مارسکتے؟اس پر وزیرصاحب نے پولس پر
شراب بکوانے کا سنگین الزام لگا دیا۔ جب اس کا یہ جواب ملا کہ شراب کے
لائسنس تو حکومت دیتی ہے بات بڑھ گئی اوریہ بحث وتکرار اپنے حدود سے نکل
گئی ۔ اس سےچراغ پا انلِ وِج نے سنگیتا کالیا کو دفعان ہونے کا (گیٹ
آوٹ)حکم دے دیا۔ سنگیتا نے جب کہا کہ میں نہیں جاوں گی تو وہ خود دم دبا
کر چل دئیے اور سنگیتا کالیا کا تبادلہ کروادیا۔ سنگیتا کالا پہلے تو اپنی
بیباکی سےوزیر صحت کو بیمار کیا اور وزیر کھیل کود کو عملاً سمجھادیا کہ
کسی آئی پی ایس افسر کے ساتھ الجھنا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔
اس واقعہ میں عدم رواداری کی وجوہات ، اس کا رویہ اور انجام سب کچھ واضح
طور پر نظر آتا ہے۔ عدم روداری کی بنیادی وجہ کبر و غرور ہوتا ہے۔ شراب
اسمگلنگ کی شکایت کرنے والے عام آدمیاور وزیر موصوف کے لب و لہجے میں فرق
کی بنیادی وجہ عہدے اور حیثیت کاتکبر ہے ۔میں وزیر ہوں ۔ میری ہر بات درست
ہے ۔ میرے آگے ہرکسی کو سرِ تسلیم خم کرلینا چاہئے اور اگر کوئی ایسا نہیں
کرتا تو میں اسے ذلیل و رسوا کروں گا۔ اس کو دھونس دھمکی دوں گا ۔ یہ عدم
رواداری کا طور طریقہ ہے اس کے نتیجے میں اگر میرا مخالف میدان چھوڑ کر
بھاگ کھڑا ہو تو اپنی پیٹھ تھپتھپاوں گا ورنہ اپنا گال سہلاتے ہوئے وہاں سے
بھاگ کھڑا ہووں گااور پھر چھپ کر اس سے انتقام لوں گا۔ یہ ساری باتیں
سنگیتا اور انل کے تنازع میں کھل کر سامنے آگئیں ۔ اقتدار کے نشے میں
لڑکھڑانے والوں کیلئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
انل وِج کوئی نوعمر سیاستداں نہیں بلکہ پانچ مرتبہ انتخاب جیت چکے ہیں اس
کے باوجود ان کی کم فہمی کا یہ عالم ہے کہ دادری سانحہ کے بعد انہوں
نےوزیراعظم کو خط لکھ کر بنگالی شاہی چیتے کے بجائے گائے کواس لئے قومی
جانور بنانے کا مطالبہ کیاکیونکہ ان کے خیال میں ملک کے بیشترحصے میں گائے
کو مقدس مان کر اس کی عبادت کی جاتی ہے ۔ اس مطالبے کے بعد ایسا لگا کہ گئو
ماتا سے عقیدت و محبت وِج سے یہ مطالبہ کروارہی ہے مگرسنگیتا کالیا کے
سانحہ کے بعدایک اور پہلو سامنے آگیا ۔ گیٹ آوٹ کہنے کے بعد چپ چاپ گیٹ
آوٹ ہونےوالا کاغذی شیر دلیرچیتے کا شکاری نہیں بلکہ بے ضرر گائے کا بھکت
ہی ہوسکتاہے۔
ہریانہ میں بی جے پی کوگزشتہ سال جب پہلی بار اقتدار ملاتو اس وقتانل
وِجوزیراعلیٰ کی دوڑ میں سب سے آگے تھے۔ وہ وزیراعلیٰ تو نہیں بن سکےاس کے
باوجودتین عدد اہم وزارتی قلمدان ان کے پاس ہیں۔ سچ تو یہ ہے خود سرانل وِج
وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹرکو بھی منہ نہیں لگاتےاوراپنے بڑ بولے پن کی وجہ
سے ہمیشہ ذرائع ابلاغ میں رہتے ہیں۔مرکزی حکومت کی جانب سے ’بیٹی بچاو۔
بیٹی پڑھاو‘ مہم کو ہریانہ میں عملی جامہ پہنانے کیلئے جب فلمی اداکارہ
پرنیتی چوپڑہ کو علامتی سفیر(برانڈ ایمبسیڈر) بنایا گیا تو وہ کافی ناراض
ہوگئے اور کہا میں نہیں جانتا کہ کس نے انہیں میرے شعبہ کی ذمہ داری دے دی۔
اس کے بعد وزیراعلیٰ پر تنقید کرتے ہوئے کہہ دیا ۔ میرے شعبے میں خونصی
دلچسپی لینے کیلئے وزیراعلیٰ آپ کا شکریہ ، میں اب بے فکر ہوگیا ہوں ۔
انل وِج کی بیانات کی روشنی میں فسطائی ذہنیت کو سمجھا جا ستازہے ۔ انہوں
نے جون میں کہا تھا یوگا ایک قدیم ہندوستانی حکمت ہے جس کا لوہا ساری دنیا
تسلیم کرتی ہے ۔یوگا کی مخالفت کرنے والے لوگ غدار ہیں۔ ان کا منہ بند
کردیا جانا چاہئے۔ جہاں تک غداری کا سوال ہے فی الحال حکومتِ وقت کی مخالفت
کرنے والاہر شخص وطن کا باغی ہے لیکن منہ بند کروانے والے نے یہ نہیں بتایا
کہ اس کارِ خیر کو کیسے عملی جامہ پہنایا جائے؟ شاید وہ جانتے نہ ہوں یا
کوئی ایسا طریقہ ان کے ذہن میں ہو جس کا اظہار سیاسی طور پر نقصان دہ ہو۔
اس سانحہ میں جب اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا تو اسے پتہ چلا کہ مخالفین کی چونچ
کیسے بند کی جاتی ہے؟ سنگیتا کالیا نے جس طرح وزیر موصوف کا بینڈ بجایا ہے
اس کے بعد کوئی ذی عقل وزیر کسی خاتون افسر سےبھری محفل میں الجھنے کی
گستاخی نہیں کرے گا۔
مثل مشہور ہے کہ ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا
ہے اگر ایسا ہے تو ہر مرد کی رسوائی کے آگے بھی کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ
ہونا چاہئے۔ عامر خان کو لیجئے کل تک وہ بے مثال بھارت کا سفیر (یعنی
انکریڈبل انڈیا کا برانڈ ایمبسیڈر ) ہونے کے سبب دیش بھکتوں کی نظر میں
ہیرو نمبر ون تھا لیکن عدم رواداری کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر اسے
اپنی اہلیہ کرن راو کا خدشہ یاد آگیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنی
اہلیہ کی بات کو توجہ سے سنتاہی نہیں یا فوراً اپنی یادداشت سے نکال دیتا
اور اگر وہ بھی ممکن نہیں تھا تو کم ازکم بھری محفل میں اسے بیان کرنے سے
گریز کرتا لیکن بیچارے عامر کا ’دل ہے کہ مانتا نہیں ‘۔اس نے نہایت احتیاط
اور افسوس کے ساتھ اپنی ہندو اہلیہ کی بات بیان کرکے ’قیامت سے قیامت تک‘
پھر سے ریلیز کردی۔ اربابِ اقتدار اور ان کے ہمنوا اپنے چہیتے ’سرفروش‘ کے
زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے اس کو پھانسی پر چڑھانے کا مطالبہ کرنے لگے ۔
انل وِج سے بھی یہی غلطی ہوئی کہ اول تو انہیں سنگیتا سے سوال کرنا نہیں
چاہئے تھا۔ کرہی لیا تھا تو ان کے جواب کونظر انداز کراگلے سوال کی جانب
بڑھ جانا چاہئےتھا۔ اگر ایسابھی ممکن نہیں تھا ان سے سرِ بازار الجھنے کے
بجائے خاموشی سے تبادلہ کروادیتے لیکن وہ ان سارے محاذوں پر ناکام ہوگئے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے تو عوام کے سامنے ذلیل ہوکر رنچھوڑ داس کہلائے اوربعد
میں ابلہ ناری پر ظلم کرنے والے بزدل مہاویر کے لقب سے نوازے گئے۔ بات یہیں
پر ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ تو’بس ایک جھانکی ہے، معافی اور جیل باقی ہے‘۔
آگے خطرناک مراحل ان کےمنتظر ہیں ۔ ہریانہ کی سڑکوں پر ان کے پتلے جلائے
جارہے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ میں ان پر عامر اور شاہ رخ سے تنقید ہورہی ہے۔
سرکاری افسران کی تنظیم نےسنگیتا کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہم ان کی جرأت کو
سلام کرتے ہیں اور یہ توقع کرتے ہیں کہ اعلیٰ افسران کے وقار کا خیال رکھا
جائیگا ۔ معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر یہ توہین نہیں ہے تو
اور کیا ہے؟
یہ معاملہ زبانی معافی تلافی سے آگے بھی جاسکتا ہے۔ جس بابا صاحب امبیڈکر
کی تعریف و توصیف آج کل آسمان سے باتیں کررہی ہے انہیں کے وضع کردہ دستور
ہند میں ۱۹۸۹ کے اندر دلتوں اور قبائلی لوگوں کو بر سرِ عام توہین سے
محفوظ رکھنے کیلئے ایکترمیمکی گئی جس کے ذریعہ دلتوں کی کھلے عام اہانت کو
قابلِ تعزیز جرم قرار دیا گیا۔ ہریانہ کی شیڈول کاسٹ شیڈول ٹرائب ایسو سی
ایشن کےعہدیدار ایشور سنگھ نے بتایا کہ انہوں نے ریاست کے چیف سکریٹری سے
سات دن کے اندر ایک تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے ۔ انہوں نے اس معاملے پر کڑا رخ
اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ لوگ حکومت کے جواب سے مطمئن نہیں ہوں گے تو
وزیرموصوف کے خلاف عدالت میں تعزیری مقدمہ داخل کریں گے۔
اس مقدمہ کے تحت اگر انل وِج کا وارنٹ جا ری ہوجائے تب بھی انہیں وزارت سے
ہاتھ دھونا پڑے گا اور اس کے بعد جیل بھی جانا پڑسکتا ہے۔ اگر انہوں نے جیل
جانے سے کسی طرح اپنے آپ کو بچا بھی لیا تب بھی پارٹی کی بدنامی تو بہت
ہوگی ۔ اس کے نتیجے میں بہوجن سماج کو ساتھ لے کر اترپردیش میں انتخاب لڑنا
بھی بی جے پی کیلئے مشکل ہوجائیگا اور اتر پردیش انتخاب کے بعدبھی انل وِج
کو اپنا وہی بیان دوہرانا پڑے گا جو انہوں نے بہار کےنتائج کودیکھکر دیا
تھا ۔ انہوں نے کہا تھا ’’بہار انتخاب میں ذات پات کی سیاست کامیاب ہوگئی
اور اتحاد ، یکجہتی اور ترقی ہار گئی۔ دیش کیلئے یہ بہت منحوس (اشبھ دن )
ہے۔ ہوشیار(ساودھان)۔ ۸ نومبر ملک کیلئے مبارک تھا یا منحوس اس پر تو
اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ۲۷ نومبر انلِ وِج کیلئے یقیناً منحوس ترین دن تھا
۔اس واقعہ میں سرکار دربار کے لوگوں کی خاطر یہ نصیحت ہے کہ ؎
بات گرچہ بےسلیقہ ہو کلیم
بات کرنے کا سلیقہ چاہیے
اس بارایوان پارلیمان کے سرمائی اجلاس میں یوم دستور کا اہتمام کر کے
ڈاکٹربابا صاحب امبیڈکر کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ۔ اس موقع پر بھی
وزیرداخلہ اپنے آپ کو عامر خان کی چٹکی لینے سے نہیںروک سکے اور کہہ گئے
کہ ہزارہا توہین برداشت کرنے کے باوجود ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے دل میں
ملک چھوڑنے کا خیال نہیں آیا۔ اس احمقانہ بیان میں وزیرداخلہ نے اول تو یہ
تسلیم کیا کہ بابا صاحب امبیڈکر تک کی توہین کی جاتی تھی۔ دوسرے انہوں
نےاہانت آمیزسلوک کرنے والوں کی مذّمت کرنے کے بجائےعوام کو بلاواسطہ ذلت
برداشت کرنے کی نصیحت کرڈالی۔ اس کے علاوہ یہ بھی فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب نے
سیکولرزم اور سوشلزم کے الفاظ کودستور میں شامل کرنا ضروری نہیں سمجھا
تھا۔راجناتھ نے یہاں تک کہا کہ فی الحال سیکولرزم کا سب سے زیادہ غلط
استعمال کیا جارہا ہے۔ اس طرح گویا یوم دستور پر وزیرداخلہ نے دستورہند کی
جڑ پر کلہاڑی چلا دی ۔
ایوان کے اندرکانگریس کے پارلیمانی بورڈ کے رہنما ملک ارجن کھرگے اس اوٹ
پٹانگ منطق پر خاموش نہیں رہ سکے اور درمیان میں اسپیکر مہاجن کے منع کرنے
کے باوجود میں کھڑے ہوگئے۔ یہ دیکھ کر راجناتھ سنگھ خود بیٹھ گئے اور کھرگے
کو اپنا موقف رکھنے کا موقع دیا۔ کھرگے نے راجناتھ کے تینوں اعتراضات کا
ترکی بہ ترکی دے کر ان کے لیڈر بنائے جانے کو حق بجانب ٹھہرا دیا۔ کھرگے نے
کہا آپ لوگ زیادہ دیش بھکتی کا ناٹک نہ کریں ۔ آپ آریہ قوم کے لوگ اس
ملک میں حملہ آور بن کر باہر سےآئے ہیں ۔ بابا صاحب کو ملک چھوڑ کر جانے
کا خیال کیوں آتا وہ تویہاں کے اصلی باشندوں میں سے تھے ۔ ہم (دلت/دراوڈ)
تمام تر ذلت و رسوائی برداشت کرنے باوجود ۵۰۰۰ سالوں سے اس ملک کا دفاع
کررہے ہیں ۔
ہندوتوانوازوں کو آئینہ دکھانے کے بعد کھرگے نے کہا بابا صاحب سیکولرزم
اور سوشلزم کے الفاظ دستور میں شامل کرنا چاہتے تھے لیکن اس وقت حالات
سازگار نہیں تھے ۔ ایسا ہندو کوڈ بل کے ساتھ بھی ہوا تو کیا آپ چاہتے ہیں
کہ میں یہاں ان لوگوں کے نام بتاوں جنہوں نے اس کی مخالفت کی تھی ۔ آخری
بات انہوں نے یہ کہی کہ اگر دستور کی بنیادوں سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی
گئی تو اسے برداشت نہیں کیا جائے گا اورملک میں زبردست خون خرابہ ہوگا۔ اس
طرح گویا عامر خان کو جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی بلکہ راجناتھ
سنگھ کو ان کے سوال کا منہ توڑجواب ایوان کے اندر ہی مل گیا ۔
عدم روادری پر مہیش بھٹ کے تاثرات زیادہ قرین قیاس ہیں اس لئے کہ وہ ان کے
ذاتی تجربات ہیں ۔ انہوں نے کہا ’’ہمارے اجداد نے ہم سے کہا تھا کہ یہ ملک
سب کا ہے اور لیکن اب یہ ملک ہم سے کہہ رہا ہے کہ ’’دیکھو! یہ ہمارا ملک
ہے، تمہارا نہیں ہے‘‘۔ مہیش بھٹ کے والد ا ہندو مگروالدہ مسلمانتھیںوہ ان
سے کہتی تھیں ’’تم تو ایک ہندو باپ کی اولاد ہو۔ تم اپنی اسی پہچان کولے کر
آگے چلو، کیوں کہ یہ ملک اُن کا ہے۔ جیسا وہ چاہتے ہیں، ویسا ہی ہوگا۔‘‘ جب
وہ اپنی والدہ سے لڑتے اور ملک کے آئین میں برابر ی کے حق کا تذکرہ کرتے تو
وہ کہتیں ’’ بیٹا !زیادہ حجت مت کیا کرو۔ اس ملک نے، اس سوچ نے گاندھی کو
نہیں بخشا، تو تجھے کیا بخشے گا۔ یہ تجھے بھی مار ڈالیں گے۔ میں کچھ نہ کر
سکوں گی !۔۔۔‘‘ یہ اس وقت کی بات ہے، جب بی جے پی یا آر ایس ایس سے
اقتدارسے دور تھے اب تو ان کے ہاتھ میں قوم کی زمامِ کار ہے ایسے میں کلیم
عاجز کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
تمہاری انجمن ہےجس کو چاہو بےوفا کہہ لو
تمہاری انجمن میں تم کو جھوٹا کون سمجھے گا |