''تحریک آزادی کشمیر اور آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کا کردار''
(Athar Massood Wani, Rawalpindi)
اس عنوان سے آزاد کشمیر ریڈیو میرپور،ایف ایم93کا ایک خصوصی پروگرام کشمیر ہائوس اسلام آباد میں منعقد ہوا ۔پروگرام کے کمپیئر بلال رفیق اور شہزاد راٹھور تھے۔سٹیشن ڈائریکٹر محمد شکیل چودھری بھی اس موقع پر موجود تھے اور انہوں نے اس پروگرام کی غرض و غایت بیان کی۔قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر اس پروگرام کی رپورٹ پیش ہے۔ |
|
اس عنوان سے آزاد کشمیر ریڈیو میرپور،ایف ایم93کا ایک خصوصی پروگرام
کشمیر ہائوس اسلام آباد میں منعقد ہوا ۔پروگرام کے کمپیئر بلال رفیق اور
شہزاد راٹھور تھے۔سٹیشن ڈائریکٹر محمد شکیل چودھری بھی اس موقع پر موجود
تھے اور انہوں نے اس پروگرام کی غرض و غایت بیان کی۔قارئین کی دلچسپی کے
پیش نظر اس پروگرام کی رپورٹ پیش ہے۔
سید یوسف نسیم۔مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے اندر برسر پیکار حریت قیادت
اور ان کے آئین کے مطابق مقبوضہ کشمیر ،ریاست جموں و کشمیر ایک متنازعہ
ریاست ہے جس کی تعریف وہ ہے جو13اگست1947ء کو تھی، جس میں جموں ،لداخ ،گلگت
بلتستان ،آزاد کشمیر اور وادی شامل ہیں۔ہمارا یہ موقف ہے کہ ریاست جموں و
کشمیر کے لوگوں کو جو حق عالمی برادری نے دیا ہے ،جس کو ہندوستان اور
پاکستان نے قبول کیا ہے ،وہ حق خود ارادیت کا حصول ہمارا مسلمہ پیدائشی حق
ہے ۔یہ سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طور ہی مزاکرات کے ذریعے اقوام متحدہ
کی قرار دادوں کے مطابق حل ہونا ہے اور ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے
ہندوستان نے روز اول سے ہی ان سب چیزوں کو ماننے کے باوجود اپنے وعدوں سے
مکرتا گیا اور اس ریاست کے اندر لوگوں نے باضابطہ ایک تحریک شروع کی جو
کبھی محاذ رائے شماری کے نام سے ،کبھی الفتح کے نام سے اور اب کل جماعتی
حریت کانفرنس کے پاس اس کا' کمانڈ اینڈ کنٹرول' ہے ،لوگوں کی خواہشات کو
دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔اس ضمن میں آزاد کشمیر اور آزاد
کشمیر کی سیاسی جماعتوں کا بہت اہم کردار بنتا ہے ۔گزشتہ68سال میں آزاد
کشمیر کی عوام نے مقبوضہ کشمیر کی عوام سے کوئی کم کردار ادانہیں کیا بلکہ
زیادہ کیا۔1947ء میں آج جو ہم بیس کیمپ دیکھ رہے ہیں،آزاد خطہ،دیکھ رہے
ہیں،ہم سلام پیش کرتے ہیں ان قائدین کو ان مجاہدین کو جنہوں نے یہ خطہ اس
وقت آزاد کرایا اور آج ہمارے پاس بیس کیمپ کی صورت میں موجود ہے ۔لیکن
بدقسمتی یہ رہی کہ آج تک آزاد کشمیر کے اندر آئینی طور ،جو قائد اعظم محمد
علی جناح نے پاکستان کی کشمیر پالیسی بنائی تھی ،اس پالیسی کے مطابق آزاد
کشمیر حکومت کا جو کردار تھا،یہ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر ہے نہ کہ
آزادکشمیر حکومت ۔اس کا بنیادی مقصد جو ہم سمجھتے ہیںوہ یہ تھا کہ آزاد
کشمیر کی حکومت اور سیاسی جماعتیں مل کر پوری ریاست کو ہندوستان کے ناجائز
تسلط سے آزاد کرائیں گی ،ایسا آئینی کردار ہمیں آزاد کشمیر سے نہیں
ملا،سیاسی جماعتوں سے بھی اس انداز میں نہیں ملا لیکن عوام کی قربانیاں کسی
بھی صورت میں کم نہیں ہیں ۔ہمارا سیاسی ،سفارتی محاذ ہے ،ہمارا عسکری محاذ
بہت فعال تھا لیکن نائن الیون کے بعد عالمی دبائو اور ضروریات کے مطابق ہم
نے اس کو 'لو پروفائل' پر لے لیا لیکن اس کی جگہ جو ہم نے سفارتی محاذ کو
فعال بنانا تھا اور ہندوستان دنیا کے فورمزمیں اپنے جھوٹے کیس کو سچ ثابت
کرنے میں کامیاب رہا لیکن ہم اپنے سچے کیس کو اس انداز میں پیش کرنے میں
کامیاب نہیں ہو سکے جس انداز میں حکومت پاکستان نے اور ہم سب نے مل کر کرنا
تھا۔لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ بے بہا قربانیاں 'آر پار' کے کشمیریوں نے
دیں ،ان قربانیوں کی وجہ سے اور جو ہندوستان کی طرف سے تسلط ،ظلم،تشدد،اور
آٹھ لاکھ فوج ،آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ،اس قسم کے جو ظلم و تشدد ہوئے
اس سے عالمی سطح پر انسانی حقوق کے حوالے سے ہمارے کاز کو سپورٹ ملی ۔آج
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح آج آپ نے 'تھنک ٹینکس' کو،جو حضرات یہاں
موجود ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی جماعتوں کے اندر 'تھنک ٹینکس' بھی سمجھے
جاتے ہیں اور ڈپلو میٹک اور پولیٹکل اور صحافتی محاذ کے ہمارے ہیروز ہیں
،جو کام کر رہے ہیں ،ان کو آج آپ نے یہاں اکٹھا کیا اس پر میں آپ کو
مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ہندوستانی میڈیا،ریڈیو کشمیر سرینگر ،دور درشن سرینگر اور ہندوستانی
نشریاتی ادارے جو ریاست کے اندر موجود ہیں،جبکہ ایک وقت تھا کہ آزاد کشمیر
ریڈیو کو ہر دن صبح ہم مقبوضہ کشمیر میں سنا کرتے تھے اور ہندوستان نے
کپواڑہ،پونچھ،کرگل ،لیہ کے اندرکئی ریڈیو سٹیشن قائم کئے اور میڈیا کے محاذ
پر وہ کشمیری قوم کو اتنا 'مس گائیڈ' کر رہے ہیں ،اس کے جواب میں ہم نے یہ
ضرور کیا کہ ریڈیو آزاد کشمیر کی نشریات مقبوضہ کشمیر گھر گھر سنی جاتی
تھیں لیکن اب 'فریکوئنسی' کی کمزور ی کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں سنی نہیں
جا سکتیں۔ہندوستانی میڈیا میں ہمارے خلاف جو سازشیں ،جو پروپیگنڈہ ہو رہا
ہے ،جو ہندوستان کے دانشور کشمیریوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں
،ان کا مقابلہ کرنے کے لئے نہ ہمارے پاس آزاد کشمیر ٹیلی وژن کی فریکوئنسی
اتنی طاقتور ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ اسے دیکھ سکیں ،نہ آزاد کشمیر ریڈیو
کی فریکوئنسی اتنی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کے منحوس پروپیگنڈے
کا زمینی حقائق کے مطابق جواب دے سکے۔
انفرادی طورہمارے بہت سارے ساتھیوں نے سفارتی محاذ پر وہ ماہرین تیار کر
لئے جن کی ہمیں ضرورت تھی ،امجد یوسف صاحب آپ کے سامنے بیٹھے ہیں ،اسی طرح
ہماری حریت میں سے بھی الطاف وانی ہیں،کچھ ایسے لوگ ہیں جو کو واقعی سفارتی
محاذ پہ ،یونائیٹڈ نیشنز کی' نارمز'ضروریات کے مطابق کچھ لوگوں کو تیار کیا
گیا ۔لیکن بدقسمتی سے ابھی تک آزاد کشمیر میں حکومت یااسمبلی کے اندر ایسی
ٹیم نہیں بنائی گئی جو مسئلہ کشمیر کے بارے میں آگاہی بھی رکھتی ہو اور
دنیا میں جا کر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرے ۔جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ حریت
قیادت کو کبھی ویزہ ملتا ہے کبھی نہیں ملتا،لیکن ہمارے پاس آزاد کشمیر
پارلیمنٹ ایسا فورم تھا کہ جہاں اگر ہم نے ایک ٹیم بنائی ہوتی جو صرف کشمیر
پر کام کرتی ،دنیا کے مختلف ملکوں میں ماہرین کو ساتھ لے کر جاتی ،جن کی
یہاں کمی نہیں ہے ، چناچہ جو ہو نا چاہئے تھا وہ نہیں ہو رہا ہے،انفرادی
طور پر لوگ کوشش کر رہے ہیں ۔لبریشن سیل کے نام سے جو ادارہ یہاں قائم ہوا
تھا ،اس ادارے کو صرف تحریک آزادی کشمیر کے لئے رکھا گیا ہوتا اور اس کا
بجٹ صر ف سفارتی محاذ،انسانی حقوق کے محاذ پر خرچ کرنے کے لئے رکھا جاتا تو
بہت بہتر رہتا۔آج تحریک صرف دو چیزوں سے زندہ ہے ،ایک جو کشمیری اپنی جانیں
دے رہے ہیں اور ہندوستان کے ظلم کی وجہ سے۔اسی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ آج
تحریک آزادی کشمیر دنیا کے' پاور سینٹرز' کی دلچسپی کی وجہ بنی ہے ،اس خطے
میں اگر امن کی ضرورت ہے تو مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ہو گا،ہندوستان کو اگر
سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کی خواہش ہے تو اس کو یونائیٹڈ نیشنز کی
ریزولوشنز پر عمل کرنا ہو گا ،ریاست کے تنازعہ کو ختم کرنا ہو گا،ہمارا کیس
مبنی بر حق ہے اور صرف اس میں یہ ہے کہ موزوں افراد موزوں جگہوں پر کام
کریں،کسی کو خوش کر نے کے لئے آپ ادھر ادھر ٹورز کا پروگرام کریں اور کہیں
کہ کشمیر پر کام ہو رہا ہے ،تو میں اس سے مایوس ہوں۔یہاں آل پارٹیز الائنس
کے طور پر کام کر رہی تھی جس میں آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں شامل
تھیں اور حریت کانفرنس کی مبصر کے طور پر اس کے اجلاسوں میں شرکت کرتی تھی
،لیکن بدقسمتی سے نامعلوم وجاہات کی بناء پر وہ الائینس بھی ختم ہو گیا۔
آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں کشمیر پر ضرور بات کرتی ہیں لیکن جس منظم
طریقے سے ،میں تجویز دوں گا کہ اگر ہر پارٹی میں ایکسپرٹ پر مشتمل ایک بورڈ
بنایا جائے ،اس قسم کی ایک ٹیم بنائی جائے سیاسی جماعتوں کے اندر اور ان کی
پاکستانی میڈیا ،پالیسی ساز اداروں کے ساتھ ،فارن آفس،حریت کانفرنس کے ساتھ
ورکنگ ریلیشن شپ ہو تو ہم وہ راستہ ضرور نکال لیں گے ہماری مقبوضہ ریاست
کشمیر کی آزادی کی طرف جاتا ہے۔
امجد یوسف۔سب سے پہلے ایف ایم93اور روزنامہ جموں و کشمیر کا شکر گزار ہوں
کہ آپ نے اس محفل کا انعقاد کیا،یوسف نسیم صاحب نے کشمیر کے حوالے سے تفصیل
سے بات کی ۔میں کیونکہ پارٹی اور حکومت کی نمائندگی کر رہا ہوں،پیپلز پارٹی
کی بنیاد ہی کشمیر پر رکھی گئی،بھٹو صاحب نے، اس وقت وزیر تھے اور یہی وجہ
اختلاف کی وجہ بنی۔پیپلز پارٹی میں جو باتیں کشمیر کے حوالے سے کی جاتی ہیں
۔اس وقت انٹرنیشنل فورم پر ہماری ایک جگہ پر نمائندگی ہے وہ یہ کہ کشمیریوں
کو 'او آئی سی' میں آبزرور سٹیٹس حاصل ہے اور یہ کریڈٹ محترمہ بینظیر بھٹو
شہید کو جاتا ہے کہ انہوں نے 'کیسابینکا 'میں اس وقت میر واعظ عمر فاروق
چیئر مین تھے،نمائندگی دلائی کشمیریوں کو 'او آئی سی ' میں اور وہ میر واعظ
عمر فاروق کا بازو پکڑ کر سب سے تعارف کراتی تھیں۔بینظیر بھٹو کا وژن یہ
تھا کہ ہمیں کشمیریوں کو اس قابل بنانا چاہئے کہ وہ اپنا کیس خود پیش
کریں،اس میں طاقت بھی ہو گی اور اس میں وزن بھی ہو گا۔جہاں تک آزاد کشمیر
حکومت کی بات ہے،اس حکومت کے دور میں ایک کوآرڈینیشن کونسل بنی ،اس کے
کنوینئر عبدالرشید ترابی صاحب تھے،اس میں ایک پورا کیلنڈر آف ایکٹیوٹی
ترتیب دیا گیا۔اس اشو پہ میں سیاسی جماعت سے ہٹ کر بات کروں گا،میرے نزدیک
مسئلہ کشمیر سے متعلق اصل پرابلم بیان کروں گا۔1947ء سے لے کر آج تک آزاد
کشمیر کی سیاسی جماعتوں،قیادتوں نے اس مسئلے کو اقتدار میں ،مظفر آباد کی
حکومت میں داخل ہونے کا ایک ذریعے بنایا،اور آزاد کشمیر کے اندر جو دلچسپی
تحریک آزادی کشمیر سے ہے اس کا مقصد ہوا ہو گا،میں سب کے بارے میں بات نہیں
کرتا ،لیکن اگر 20فیصداس کے ساتھ ہمدردی تھی تو80فیصدلوگوں کی
intentionسیلف پروجیکشن،اقتدار میںجانے کا ایک راستہ اور یہ ایک ایسی روٹین
بن گئی ہے کہ آزاد کشمیر میں جو بھی حکومت ہو جو بھی لیڈر ہے وہ صبح اٹھ کر
کشمیر پر بیان دے دیتا ہے اور میں دعوے سے یہ بات کہتا ہوں کہ آزاد کشمیر
کے سیاسی رہنمائوں کو بلائیں جو قیادت ہے ،میرا نہیں خیال کہ انہیں کشمیر
کے بارے میں زیادہ پتہ ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے ۔اس کے دو تین پہلو
ہیں،ایک تو یہ کہ سیاسی اشو،ایک اس کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا پہلو
ہے ۔ دنیا کے اندر مختلف ادارے جس میں یونائیٹڈ نیشنز ہے ،پارلیمنٹس
ہیں،یورپی یونین،یو ایس ہے،دنیا کے اندر مختلف ٹھنک ٹینکس ہیں،میں اس بات
کا برملا اظہار کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں اصل مسئلہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں
آج تک تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے اگر کوئی کام ہوا تو وہ سیاست زدہ
ہوا،ہماری حکومتوں نے کوئی کام نہیں کیا،کسی سیاسی رہنما نے کوئی کام نہیں
کیا،سوائے پروجیکشن کے ،سوائے اپنا ذاتی اقتدار حاصل کرنا یا اقتدار میں
رہنا یا اس تک پہنچنا۔مسئلہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے ،یہ بیس کیمپ کی
حکومت تھی،ہمارے ہاں ّآئینی طور پر صرف ایک ایڈوائیزر ہے ،ایکٹ 74ء کے اندر
صرف ایک ایڈوزئیزر ہے اور وہ مشیر رائے شماری ہے ۔،جو کہ صدر آزاد کشمیر کے
ساتھ ہوتا ہے ،جنہیں رائے شماری کے حوالے سے کام کرنا ہے ،وہ صرف تین ماہ
کے لئے لگا ممتا ز راٹھور کی حکومت میں سلطان علی صاحب ،اس کے علاوہ آج تک
مشیر رائے شماری نہیں لگا،یہ ہے ہماری دلچسپی ۔آزاد کشمیر حکومت کے پاس
فارن پالیسی نہیں ہے ،یہ اسلام آباد کا موضوع ہے لیکن اس کے باوجود بھی
ہمارے پاس ایک طاقت ہے جسے 'دیاسپورہ' کہتے ہیں،یورپ امریکہ میں رہنے
والے،اس 'دیاسپورہ' میں جا کر انہیں اکٹھا کرنے کے بجائے انہیں تقسیم کر
رہے ہیں ،برادریوں کی بنیاد پر ،جماعتوں کی بنیاد پر ۔ایک وقت تھا جب1989ء
میں تحریک چلی تو لوگ پیسے بھی دیتے تھے ،لوگ تحریک کو سپورٹ بھی کرتے
تھے،آج لوگ اس نام پر سپورٹ کرنے کے بجائے وہ اسے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں
،کیونکہ ہم نے اس کو بھی کاروبار بنا لیا،دنیا میں جہاں بھی آزادی کی
تحریکیں چلتی ہیں'دیاسپورہ' ہمیشہ تحریکوں کو چلاتا ہے ،تحریک کو سپورٹ
کرتا ہے لیکن یہاں اس کے برعکس صورتحال ہو گئی ۔برطانیہ میں ہمارے ممبر
پارلیمنٹ ہیں وہ بھی بیچارے جو مخلص ہیں ان کو بھی ہم سیاست زدہ کر دیتے
ہیں۔ان کو بھی چاہئے کہ آزاد کشمیر کی سیاست میں کردار ادا کرنے کے بجائے
،اپنے لیول کر برقرار رکھتے ہوئے وہاں برٹش پارلیمنٹ،یورپی یونین میں کام
کریں۔آزاد کشمیر کے اندرہماری پالیسیاں ایڈہاک ازم پر استوار ہیں۔پچھلے تیس
سال سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق ادارہ میں ایک وفد جاتا ہے ،2002ء تک جو
وفد جاتا تھا ،اس میں کوئی پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کس نے جانا ہے ،یہ وزیر
اعظم صاحب نے کہہ دیا،یہ فلاں صاحب نے کہہ دیا،یہ فلاں صاحب کی سفارش
آگئی۔2002ء میں ایک فیصلہ ہو اکہ مستقل طور پر آٹھ ،دس ،بارہ افراد کا ایک
گروپ بنایا جائے جو 'یو این' کے میکنزم ' کو جانتے ہیں ،جب تک آپ کو یہ
معلوم نہ ہو کہ تھانے میں 'ایف آئی آر ' کہاں درج ہو گی،اس کے ساتھ
دستاویزات کون کونسی ہونی چاہئیں،اگر آپ ہر دفعہ کسی سفارشی کو بھیجیں گے
جس نے صرف تقریر پڑھنی ہے ،یہ وہ اپروچ ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق
کے حوالے سے جو صورتحال ہے ،اس بارے میں آزاد کشمیر میں کوئی کام نہیں ہو
رہا ،کوئی دستاویزات تیار نہیں کی جا رہیں،کوئی ایسا نظام نہیں ہے کہ
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو باقاعدہ مانیٹر کیا جائے،لیکن ایسا کوئی کام
یہاں نہیں ہو رہا۔ہم تقریریں کرتے ہیں لیکن آزاد کشمیر میں لوگوں کو پتہ ہی
نہیں ہے۔آپ کسی سینئر وکیل سے پوچھیں کہ ڈریکولین لاء ہے کیا؟آرمڈ فورسز
سپیشل پاورز ایکٹ کیا کہتا ہے،پبلک سیفٹی ایکٹ کیا کہتا ہے اور ان کی کونسی
ایسی شقیں ہیں جو انسانی حقوق کے اصولوں کے خلاف ہیں،جیسا کہ یوسف نسیم
صاحب نے کہا کہ آزاد کشمیر میں سیاسی کارکن ہوں،وکلاء ہوں یا جو بھی طبقات
ہیں،آج تک ہم ایسے لوگوں کو تیار نہیں کر سکے جو باہر جا کر آپ کا کیس پیش
کر سکیں۔آزاد کشمیر کے سب لیڈروں سے پوچھیں کہ اقوام متحدہ کی کشمیر پر
قراردادیں کس چیپٹر کے تحت ہیں،آیا وہ بائینڈنگ ہیں،یہ بھی کسی کو نہیں
پتہ،یہ چیپٹر6کے تحت ہیں جو بائینڈنگ نہیں ہیں۔آپ جب تک اپ ٹو ڈیٹ نہیں ہوں
گے،آپ دنیا کے اندر کیس پھر پیش کر سکیں گے کہ جب آپ کو معلوم ہو گا کہ اس
مسئلے کی بیک گرائونڈ کیا ہے،کشمیر اشو کا دنیا کے دوسرے مسائل سے
موازنہ۔دنیا میں جن قوموں نے آزادی لی،ایسٹ تیمور کا صدر 2003-4میںہمارے
ساتھ جنیوا میں یوتھ ہاسٹل میں رہتا تھا،اور جب وہ صدر بنا ملک آزاد ہواتو
اس نے وہاں آ کر پھر خطاب کیا اور اسی یوتھ ہاسٹل میں قیام کیا جہاں وہ صدر
بننے سے پہلے بھی رہا کرتا تھا۔جن قوموں نے آزادی لی ،ان کی قول وفعل میں
تضاد نہیں ہوتا۔جن قوموں میں ،جن سیاسی قیادتوں میں،جن لوگوں میں قول وفعل
میں تضاد ہو گا ،ہم اپنی جھوٹی انا اپنی غلط پالیسیوں کا دفاع کرتے رہیں
گے،یہ معاملہ آگے نہیں بڑہے گا،یہ سیاست بازی کا معاملہ نہیں ہے ،یہ آزاد
کشمیر ،مظفر آباد کی کرسی کا معاملہ نہیں ہے،ایک لاکھ لوگوں نے جان دی،دس
بارہ ہزار لوگ گمشدہ ہیں،آٹھ دس ہزار بیوہ ہیں،ایک لاکھ سے زیادہ یتیم بچے
ہیں،آج تک کسی سیاسی قیادت نے یہ بات کی کہ برطانیہ میں جا کر کہے کہ
مقبوضہ کشمیر کے ایک ایک یتیم بچے کی کفالت کر لو،یہ ہے کام کرنے
والا،برطانیہ میں کیا ہمارے ایک لاکھ افراد نہیں ہیں جو مہینے کا دس ہزار
روپیہ یتیم کشمیری بچے کی تعلیم اس کی صحت کے لئے دے سکتے ہیں،یا بیوہ کے
لئے نہیں دے سکتے ہیں؟ بنیادی طور پر جب تک ہم ان چیزوں سے باہر نہیں نکلیں
گے ،اقتدار دینے والی رب کی ذات ہے ،رزق دینے والی رب کی ذات ہے،ہم بغیر
کسی وجہ کے لوگوں کو غیر ضروری طور پر اسلئے ڈیفنڈ نہیں کرتے ،کسی کوبھی
ڈیفنڈ نہ کریںتو اس سے قربانیاں دینے والوں،کنٹرول لائین پر رہنے والے
لوگوں، جہاں میں رہتا ہوں وہاں آج تک ،خصوصا بٹل سیکٹر میں کبھی سیز فائر
نہیں ہوا،مجھے معلوم ہے کہ وہاں لوگوں کی کیا حالت ہے،میرے حلقے
میں516افراد ہیںمرد اور خواتین، جن کی ٹانگیں نہیں ہیں ،یہ لوگ جو مصائب کا
سامنا کر رہے ہیں ،ان کے ساتھ ہم مذاق کریں،روزانہ صبح اٹھ کر ایک بیان دے
دیں۔آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کا جو کردار ہونا چاہئے اس پر میں مطمئن
نہیں ہوں اور اس صورتحال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
خواجہ فاروق احمد۔سب سے پہلے م یںآپ کا اور ریڈیوآزاد کشمیر کا شکریہ ادا
کرتا ہوں کہ ایک اہم موضوع پر ہمیں یہاں اکٹھا کیا ہے۔جرمنی کے ایک وزیر
اطلاعات کا کہنا تھا کہ مسلسل اتنا جھوٹ بولو کہ وہ سچ لگنے لگے۔کسی کا قول
ہے کہ سچ ابھی تسمے باندھ رہا ہوتا ہے اور جھوٹ پوری دنیا کا چکر لگا کر آ
جاتا ہے۔ہماری مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور ان دو مثالوں کا چولی دامن کا ساتھ
ہے۔ہمارا درست کیس تھا لیکن ہم خود اپنے آپ کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں کہ ہم
اپنے سچے کیس کو بھی دنیا کے سامنے پیش نہ کر سکے۔اور آج یہ تلخ حقیقت
ہمیںسیاسی جماعتوں کے موقف سے ہٹ کریہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ ہم آج انڈیا
کے جھوٹے موقف کے سامنے عالمی فورمز پہ ،جو مروت میں ہماری بات مانتے بھی
ہیں لیکن دوست ممالک اس حقیقت کے اظہار میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔اس کی
بنیادی وجہ یہ ہے کہ تسلسل کے ساتھہ کشمیر پر ہماری کوئی پالیسی نہیں
رہی۔1947سے لیکر1958ء تک پاکستان میں ایک دور تھا جس میں پاکستان میں
حکومتوں کی تبدیلی کا بھی بڑا کردار ہے،1958ء میں جب پہلا مارشل لاء لگا
اور فوجی حکومتوں کا تسلسل آیا ،تھوڑے تھوڑے عرصے کے لئے سیاسی حکومتیں بھی
آتی رہیں، پھر ایک دور وہ آیا کہ سیاسی حکومتیں تو بنیں لیکن ان کے پاس
دفاع نہیں تھا،ان کے پاس فارن پالیسی نہیں تھی ،آپ یہ کہہ سکتیں ہیں کہ ان
کے پاس حکومتیں تو تھیں لیکن اقتدار نہیں تھا اور اس میں جب بھی کسی کو
اقتدار دینے کا فیصلہ ہوتا تھا تو اس سے فارن پالیسی کا اہم شعبہ لے لیا
جاتا تھا۔آج بھی ہمارا وزیر خارجہ نہیں ہے اس میں آزاد کشمیر کی سیاسی
جماعتوں کو ہی مورد الزام نہیں ٹہرایا جا سکتاکہ ہماری نااہلی ،کوتاہی کی
وجہ سے ہم نے مسئلہ کشمیر کو آج اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ کبھی اسے دہشت
گردی کے واقعات سے جوڑا جاتا ہے ،کبھی پارلیمنٹ پر حملے سے جوڑا جاتا
ہے،دنیا میں کسی جگہ کوئی بات ہو جائے تو ایکدم آپ دفاعی پوزیشن پر چلے
جاتے ہیںجیسا کہ ابھی پیرس پر حملہ ہوا تو ہمارے ایک ذمہ دار وزیر نے بیان
دے دیا کہ پاکستانیوں کو پوری دنیا میں ذرا ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔کشمیر
کے معاملے میں ہمیں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے
،چاہے ہمارا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، ہمیں خود اپنے گریبان میں
جھانکنا چاہئے کہ کیا بحیثیت کشمیری اگر کبھی ہمارے پاس اقتدار آیا ،کیا ہم
نے ا پنی ذمہ داری پوری کی ہے ،اس میں ہم اگر سو فیصد نہیں تو اسی فیصد
ناکام رہے ہیں۔اسے بد قسمتی کہہ لیں کہ آزاد کشمیر میں اقتدار ایک میوزیکل
چیئر کا کھیل بن چکا ہے،جس طرح میرے دوست امجد یوسف صاحب نے کہا کہ ہم نے
مسئلہ کشمیر کو اقتدار کے لئے ایک سیڑھی بنا لیا ہے۔ہم اگر دورہ بھی کرتے
ہیں تو مسئلہ کشمیر کی آڑ میں کرتے ہیں ،اخبارات میں ہمارا ہر بیرونی دورہ
کامیاب ہوتا ہے ،ہم نے ہر دورے میں مسئلہ کشمیر کو کامیابی سے اجاگر کیا ہو
تاہے ،اتنی کامیابی سے اجاگر کیا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ اجاگر ہو کر
کہاں جاتا ہے۔یہ روایت ہی نہیں رہی اور ایسا بہت کم ہوا ہے کہ ہمارا کوئی
وفد بیرونی دورے پر جاتا ہے تو کیا کبھی اس وفد نے واپس آ کر کوئی رپورٹ
پیش کی ہے کہ وہ کس سے ملا،اس نے کیا کاروائی کی اور انہوں نے اس دورے میں
کیا حاصل کیا ہے،واپس آکر مظفرآباد میں یا راولپنڈی میں یا کشمیر ہائوس میں
پریس کانفرنس کر دی کہ ہم نے مسئلہ کشمیر اجاگر کر دیا۔ کبھی ہم فارن میڈیا
سے جا کر ملیں ،کبھی ان کا سامنا ہی نہیں کر سکتے ،یو این کی بلڈنگ کے اندر
داخل ہو نا ہم بڑی کامیابی سمجھتے ہیں،ہم وہاں کس سے ملے ،کس سے بات
کی؟کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرنے ہم ہمیشہ یورپی ممالک ،امریکہ وغیرہ جاتے
ہیں،کیا ہم کبھی مسئلہ کشمیر کے لئے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک گئے،کبھی اس
مقصد کے لئے چین گئے ،جو چین ہمارے خطے کا ایک بہت اہم فریق بنتا جا رہا ہے
اور آئندہ پانچ دس سالوں میں فرنٹ کے ایک دو ممالک میں شامل ہو گا،ہم نے
کبھی ضرورت ہی نہیں سمجھی کہ کبھی ہم روس جائیں ،جو پھر خطے میں اثرو رسوخ
حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے،ہم اسے قائل کرنے کی کوشش کریں جو اس وقت
پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے اور وہ بین الاقوامی تناظر میں اس وقت انڈیا سے
دور ہوتا جا رہا ہے،لیکن ہم نے کبھی روس اور چین کو اس حوالے سے دیکھا ہی
نہیں ہے،ہم کینڈا،واشنگٹن،لندن جاتے ہیں لیکن اس طرف ہم بھی کبھی جانے کی
کوشش نہیں کی۔ہماری جو بھی حکومت ہو اس کا بنیادی فرض یہ ہے کہ ہم کشمیری
اپنا مقدمہ خود پیش کریں،بجائے فارن آفس کے بابو کی طرف دیکھنے کے بجائے ہم
خود جائیں اور جنیوا کے فورم پر جائیں،ناروے جائیں،لندن جائیں اور ہماری
کوشش یہ ہونی چاہئے کہ وہاں کے پرنٹ و الیکڑانک میڈیا سے ملیں،وہاں کے تھنک
ٹینک سے ملیں۔ہم جب باہر جاتے ہیں تو ہم اپنے ہی کشمیریوں سے ملتے ہیں،اپنے
ہی کشمیریوں سے مسئلہ کشمیر پر بات کر کے ہم واپس آ جاتے ہیں ،ہم نے کبھی
کوشش ہی نہیں کی کہ ہم برطانیہ کے لوگوں سے،یورپی لوگوں سے ،پارلیمنٹ کے
لوگوں سے ارکان کانگریس سے یا دوسرے لوگوں سے ملیں اور ان کو مسئلہ کشمیر
کے حوالے سے اصل حقیقت بتائیں کہ مسئلہ کشمیر کی تاریخ کیا ہے۔ میں حال ہی
میں کشمیر گیا ہوں،میرا دو ہفتے کا مختصر سا دورہ تھا،میں اپنے ان کشمیری
بھائیوں کی ہمت کو آج بھی سلام پیش کرتا ہو ں کہ جس طرح مسلسل ظلم و جبر کی
صورتحال میں وہ وہاں پہ رہ رہے ہیں ،ہر جمعہ کو جمعہ کی نماز کے بعد جامعہ
مسجد کے باہر انڈین آرمی پر پتھرائو کرتے ہیں،وہ ہماری تمام تر غلطیوں کے
باوجود کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ ہیں، ان کی قربانیوں کو ہم نے قدر
کی نگاہ سے دیکھا ہی نہیں ہے۔ہمارا یک ادارہ لبریشن سیل ہے،کیا اس ادارے نے
آج تک جتنے مظالم ہوئے ہیں،جتنی قتل و غارت گری وہاں ہوئی ہے اور ہو رہی
ہے،کیا ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کی کہ ہم یہ دیکھیں کہ وہاں کتنی ہماری
مائوں ،بہنوں کی عصمت دری ہوئی، کتنے گھر جلائے گئے،کتنے بچے یتیم ہوئے اور
کتنے مکانات تباہ ہوئے،آج بھی وہاں ان لوگوں کو روزگار کے مسائل ہیں،گزشتہ
سال سات ستمبر کو وہاں جو تباہ کن سیلاب آیا ،کئی دنوں تک آبادیاں پانی میں
ڈوبی رہیں ۔آپ صرف سیاسی جماعتوں کو مورد الزام نہیں ٹہرا سکتے ،ہم ایک
ایسی میوزیکل چیئر کے کھیل میں پھنس گئے ہیں کہ پانچ سال اپنے پورے کرتے
ہیں،ایک بیان جاری کر دیتے ہیں اور پھر اگلے الیکشن کی تیاری کرتے
ہیں،الیکشن ،آزاد کشمیر کا اقتدار اور تحریک آزادی کشمیرجس طرح ہم نے آپس
میں گڈ مڈ کر دیئے ہیں کہ اس میں مسئلہ کشمیر ،تحریک آزادی کشمیر،مقبوضہ
کشمیر ،ایل او سی پہ بسنے والے ،ان کی قربانیاں پس منظر میں چلی گئی ہیں
اور مسئلہ کشمیر کو ہمارا دشمن تاریخ کے کوڑے دان میں پھیکنے کی کوشش کر
رہا ہے،میں ان لوگوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو آج بھی اپنے خون سے ،اپنی
قربانیوں ،اپنی جدوجہد سے تحریک آزادی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ،بیس کیمپ کا
کردار اس میں نہایت اہم ہے۔بہتری کی ہر وقت امید رکھنی چاہئے،میں سمجھتا
ہوں کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے،میرا یہ ایمان ہے اور مقبوضہ کشمیر کے
دورے کے بعد میرے اس ایمان میں زیادہ تقویت مجھے ملی ہے کہ یہ مسئلہ انشاء
اللہ کبھی نا کبھی ضرور حل ہو گا،انڈیا اس تحریک کو دبا نہیں سکے گا،اسے
تاریخ کے کوڑہ دان میں پھینکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔اس کے لئے ہماری
حکومت کو چاہئے کہ ہم الیکشن میں جتنا زور لگاتے ہیں،جتنی توانائیاںخرچ
کرتے ہیں،اپنی پالیسی کے بنیادی مسئلہ کشمیر کو سمجھیں،ہم الیکشن میں اتحاد
کر سکتے ہیں،سیٹ ایڈ جسمنٹ کر سکتے ہیں تو مسئلہ کشمیر کے نام پر ہماری
کونسل ہونی چاہئے،جس طرح کہ کونسل بنائی گئی تھی،کیا وجہ ہے کہ اس کونسل کے
اجلاس نہیں ہو رہے۔ہمارے پاس آج بھی آزاد کشمیر میں ایسی شخصیات موجود ہیں
جن پر سب اتفاق کر سکتے ہیں،اقتدار سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی
انحصار کر سکتے ہیں،اگر کوئی ایسا ادارہ بنے جو صرف کشمیر کے حوالے سے ہو
اورلبریشن سیل کر ہم سیاست زدہ کرنے کے بجائے،روزگار کا ذریعہ بنانے کے
بجائے،لبریشن سیل کو صرف اپنی پبلسٹی کا ادارہ بنانے کے بجائے اس ادارے کے
قیام کے مقاصد کو اپنائیں تو ہم 'اے پی ایچ سی' اور سیاسی جماعتوںکی خدمات
بھی حاصل کر سکتے ہیںاور اسے ایک ایسا ادارہ بنا سکتے ہیںجو مسئلہ کشمیر کو
صحیح معنوں میں اجاگر کرے اور آزاد کشمیر کے پیسے کو صرف سیر سپاٹے کے لئے
خرچ نہ کریں اور دنیا کے اہم ترین پانچ ممالک جو سیکورٹی کونسل کے مستقل
رکن ممالک ہیں اور دیگر ممالک میں جا کر صحیح معنوں میں پیش کریں۔
عبدالرشید ترابی۔کشمیر کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس میں سیاسی
جماعتوں کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔پاکستان کے حالات میں کئی مدو جزر
آئے اور کئی فارمولے زیر بحث آئے ،ان کا لب لباب یہی تھا کہ کشمیر کی تقسیم
کو قبول کر لیا جائے،لائین آف کنٹرول کو سرحد تسلیم کر لیاجائے لیکن آزاد
کشمیر کی سیاسی جماعتوں،سیاسی شخصیات نے ہمیشہ ملکر مزاحمت کی اور اس کے
نتیجے میںہم کسی ناخوشگوارواقعے، حادثے سے بچتے بھی رہے۔آج کے دور میں بھی
اس کی بڑی اہمیت ہے،مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طور پر یا لیڈر شپ اپنے
اپنے مطابق کوئی نہ کوئی اقدام بھی کرتی رہتی ہیں،اس میں عمومی آگاہی بھی
ہے ،اس میں آزاد کشمیر میں رائے عامہ کا دبائو بھی ہوتا ہے۔خاص طور پر
گزشتہ پچیس سال سے جوکشمیر میں نئے انداز سے تحریک اٹھی ہے،ایک بڑی تعداد
میں لوگ وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں،اس میں ہمارے قائدین حریت بھی
ہیں،مہاجرین ہیں مجاہدین ہیںاور پھر لائین آف کنٹرول پر کشیدگی کی صورتحال
رہی تو اس طرف کا ایک بڑا حصہ بھی حالت جنگ میں رہا ہے،یعنی کسی نہ کسی طور
پر سرگرمیاں تو رہی ہیں لیکن ایک ہدف متعین کر کے کہ ہماری یہ سرگرمیاں ایک
سمت میں ہوں اور کوئی نتیجہ نکلے اور کسی ہدف کی جانب پیش رفت ہو ، اس
حوالے سے کمی رہی ہے۔آزاد کشمیر حکومت کی تاسیس کے وقت اس کا ایک ہدف مقرر
کیا گیا تھا کہ یہ تحریک آزادی کشمیر کا ایک حصہ ہو گی بلکہ اس کی ترجمان
ہو گی اور آہستہ آہستہ وہ کردار مدھوم ہو گیا،تحلیل ہو گیا،ایکٹ74ء کے تحت
آج ہماری حکومت چل رہی ہے۔جب مقبوضہ کشمیر میں کوئی تحریک مزاحمت نہیں تھی
بلکہ1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ایک مایوسی کی کیفیت تھی،اورشیخ
عبداللہ جو1947-48ء میں غلط فیصلہ کر گئے،بعد میں ان کو اپنی غلطی کااحساس
بھی ہوا،پھر انہوں نے رائے شماری کا نعرہ لگایا،پھر بیس بائیس سال وہ جیلوں
میں رہے،شیر کشمیر قرار پائے،اس وقت تک وہ تحریک آزادی کشمیر کی مزاحمتی
تحریک کی ایک علامت بن چکے تھے۔پاکستان کے ٹوٹنے کے عمل میں انہوں نے بھی
مایوس ہو کر 'سلینڈر' کیا،اندرا گاندھی سے ایک 'ایکارڈ' کر لیا۔اگرچہ لوگوں
کی جو کمٹمنٹ تھی،انہوں نے اس موقع پر بھی ،وزیر اعظم بھٹو صاحب نے جو
ہڑتال کی ا پیل کی ،لوگوں نے اس کا بھر پور جواب دیتے ہوئے اس 'ایکارڈ' کو
مسترد کیا لیکن مزاحمت کی علامت لیڈرت شپ 'سلینڈر' کر چکی تھی۔ان حالات میں
اس وقت ایکٹ74ء معرض وجود میں آیا اور اس کی رو سے آزاد کشمیر حکومت کا
کوئی کردار تحریک آزادی کشمیر میں نہیں ہے،جو ایک انحراف ہے1947ء کے عزم
آزادی سے۔اس سارے عرصے میں کم از کم ہم تو مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ اور یہ
مطالبہ اب بھی جاری ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کا وہ سٹیٹس،وہ کردار بحال ہو
اور اس کے مقاصد متعین ہوں،ہر حکومت کے مقاصد متعین ہوتے ہیں،ہماری اس
حکومت کا تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے کوئی کردار متعین نہیں ہے آئینی
طور پر،اس کے نتیجے میں ایک خلفشار ہے،اگر وہ کردار متعین ہو تو ملک کے
اندر اور باہر ،جہاں جہاں ہماری کمیونٹی،گروپس،ادارے،شخصیات ہیں،اپنے اپنے
دائرے میں کام کر رہے ہیں، بیس کیمپ کا کردار ان سب کو آپس میں 'کوآرڈینیٹ'
کر سکتا ہے۔آج تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایکٹ74ء میں وہ ترامیم جس پر تمام
جماعتوں کا اتفاق بھی ہو چکا ہے یعنی آزاد کشمیر حکومت کے بنیادی کردار کی
بحالی اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت کا جب مقصد متعین ہو گا کہ تحریک آزادی
کشمیر میں بنیادی کردار ادا کرنا ہے تو اس کے نتیجے میں ہمارے سیاسی کلچر
میں بھی تبدیلی آئے گی۔ سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے اپنی تجاویز سامنے
رکھی ہیں ،اب یہ حکومت آزاد کشمیر اور حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے ۔ادھر
کوئی تحریک نہیں ہے اور ادھران کو اس کی اہمیت کا ادراک و احساس نہیں
ہے۔بنیادی طور پر ذمہ داری تو ہماری ہے ،آزاد کشمیر حکومت اور آزاد کشمیر
کی لیڈر شپ کی ہے ۔سب سیاسی جماعتیں اس کی اہمیت محسوس کرتی ہیں،سارے
آزادکشمیر کے دانشور،ہمارے صاحب قلم ،صحافی ،بار ایسوسی ایشنز ہیں ،سب سے
ہم نے' ان پٹ'حاصل کر کے شامل کیا،تو اس کو 'پراسیس' ہو کر آگے بڑہنا
چاہئے۔ہم ایک حالت جنگ کی کیفیت میں ہیں،ہم بیس کیمپ کے اندر محض اقتدا ر
کے کھلواڑ کی ایک عیاشی نہیں کر سکتے ،جب قوموں پر جنگ مسلط ہوتی ہے تو وہ
کیسے ردعمل ظاہر کرتی ہیں،ہمیں تاریخ کی ان مثالوں کو سامنے رکھنا
چاہئے۔پارلیمنٹ کے اندر اور باہر قوم کو اکٹھا کرنا بہت ضروری ہے۔ہمیں آزاد
کشمیر میں روائیتی انداز سے ہٹ کر، جب تک ہم اپنے مقصد کی تعین کے بعد اس
تحریک کو آگے نہیں بڑہاتے،آزاد کشمیر میں اتفاق رائے سے ایک قومی حکومت
ہونی چاہئے جو ہر سطح پر اپنے مقصد کے لئے کام کر سکے۔اسی سے ہماری جماعتوں
کو اپنی حکومت بچانے کے لئے اپنی تمام پارلیمانی پارٹی میں جھنڈیاں تقسیم
کرنا پڑتی ہیں۔پچھلے طویل عرصے سے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ جس بھی پارٹی کی
حکومت ہوتی ہے تو ہماری تمام حکمران پارلیمانی پارٹی فلیگ ہولڈر پر مشتمل
ہوتی ہے،جو جیتتے ہیں وہ وزیر بن جاتے ہیں ،جو ہارتے ہیں وہ مشیر بن جاتے
ہیں،جن کو ٹکٹ نہیں ملتے وہ کوآرڈینیٹر بن جاتے ہیں۔اس چھوٹے سے خطے میں
فیگ ہولڈرز کا اتنا بڑا مجموعہ،امریکہ میں16وفاقی وزیر ہیں،برطانیہ میں
12ہیں اور ہمارے ہاں29ہیں ،مشیر وغیرہ اس کے علاوہ ہیں،یہ لچھن نہیں ہوتے
ہیںان قوموں کے جنہوں نے آزادی کی جنگ جیتنا ہوتی ہے۔اس لئے بنیادی اقدامات
،اصلاحات کی ضرورت ہے۔
صغیر چغتائی۔آج کے موضوع کے حوالے سے کہ اس میں صرف سیاسی جماعتوں کا ہی
کردار نہیں ہے اس میںآزاد کشمیر حکومت ایک فریق ہے،حکومت پاکستان کا بھی
ایک کردار ہے،میں اس جماعت کی یہاں نمائندگی کر رہا ہوں جو آزاد کشمیر کے
قیام سے پہلے وجود میں آئی اور جس نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے بھی
پہلے لوگوں کے اندر بیداری کی تحریک چلائی۔قیام پاکستان کے وقت مسلم
کانفرنس کی قیادت نے قرار داد الحاق پاکستان منظور کر کے کشمیریوں کی سیاسی
سمت کا تعین کیا۔مسلم کانفرنس کی اس وقت کی لیڈر شپ نے عملی طور پر جہاد
میں بھی حصہ لیا،اس کے بعد بھی جب بھی ضرورت پڑی مسلم کانفرنس نے ہمیشہ
نظریاتی طور پر اپنی جماعت کی اور اپنے لوگوں کی ،آزاد کشمیر میں صحیح سمت
کا تعین کیا۔اس وقت آزاد کشمیر کے اندر جو مذہبی ،سیاسی ہم آہنگی نظر آتی
ہے اس میں مسلم کانفرنس کا بڑا کردار ہے۔مشرقی پاکستان کے سانحے کے وقت
پاکستان ،آزاد کشمیر اور وہاں کی لیڈر شپ میں بھی مایوسی تھی،شیخ عبداللہ
جیسا بڑا لیڈر بھی مایوس ہو گیا لیکن اس وقت جو آزاد کشمیر میں قیادت تھی
،انہوں نے الحاق پاکستان کا نعرہ دیکر کشمیریوں کو ایک نیا ولولہ دیا اور
آج وہی نعرہ ہے کہ آج مقبوضہ کشمیر کے اندر بھی علی گیلانی صاحب اسی ،نوے
سال کی عمر میں وہ بھی کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگا رہے ہیں۔میں
سمجھتا ہوں کہ مسلم کانفرنس نے آزاد کشمیر کے اندر ادارے بنانے میں اپنا
کردار ادا کیا،جہاں تحریک کے حوالے سے ان کا ایک کردار تھا ،انہوں نے
نوجوانوں کی سیاسی تربیت بھی کی اور پاکستان کے اداروں کے ساتھ پاکستان کی
حکومتوں کے ساتھ مسلم کانفرنس کے اختلافات بھی رہے لیکن انہوں نے نظریاتی
طورپر ہمیشہ نوجوانوں کی صحیح رہنمائی کی ،وہ جو ان کا نعرہ تھا،تحریک کی
جو بنیاد تھی بیس کیمپ کے اندر نظریاتی طور پر صحیح سمت میں چلاتے رہے۔آج
کے دور میں بھی آزاد کشمیر کے اندر مختلف سیاسی جماعتیں اپنا اپنانعرہ دے
کر جا رہی ہیں،تحریک کے حوالے سے جدوجہد کر رہی ہیں ،مسلم کانفرنس کا تحریک
کے حوالے سے بڑا موقف ہے ۔سیاسی جماعتوں کا اپنا کردار ہے،مسلم کانفرنس جب
حکومت میں بھی رہی انہوں نے لبریشن سیل کی بنیاد رکھی تھی،آج اس کو روزگار
سیل بنا دیا گیا،اگرہم اس کو پراپر یوٹیلائیز کرتے تو کشمیر اور تحریک کے
حوالے سے بہت سی چیزوں میں ہمیں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔امجد ہوسف
صاحب،یوسف نسیم صاحب نے جن چیزوں کی نشاندہی کی میں بھی اس سے اتفاق کرتا
ہوں،آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کو کشمیر کے اشو پر اپنی جماعتوں کی
طرف سے ایک ایک نمائندہ دینا چاہئے جو موجودہ صورتحال میں مسئلہ کشمیر کے
حوالے سے ایک پالیسی بنانی چاہئے جس پر سب کا اتفاق رائے ہو ،ایک ایسی ٹیم
تیار ہو جومسئلہ کشمیر پر ہر فورم پہ جائیں تو میرا خیال ہے کہ دنیا ہماری
بات سننے کو تیار ہے ،وہ کشمیریوں کی بات کو توجہ سے سنتی ہے ،ہمارے دوست
نے درست کہا کہ ہم مسئلہ کشمیر کو درست طور پر دنیا میں اجاگر نہیں کر سکے۔
چودھری محمد سعید۔گزشتہ دس سال میں جب جمہوریت نہیں تھی تو مسئلہ کشمیر کے
مختلف آپشنز پر غور ہونا شروع ہو گیا،آئوٹ آف بکس کی باتیں شروع ہو
گئیں،ایک کنفیوژن پیدا ہو گیا کہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی کشمیر پر
منظور شدہ قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل سامنے آئے گا یانئے آئوٹ
آف بکس ،مختلف فارمولے پر بات ہو گی ،مختلف فارمولے مارکیٹ میں آ گئے ہیں
لیکن پاکستان مسلم لیگ اپنے پرانے موقف پر پوری طرح ڈٹی ہوئی ہے۔وزیر اعظم
نواز شریف نے حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب میں اور امریکی
اداروں اور عہدیداروں سے ملاقاتوں میں بھی اس بات کا اظہار کیا کہ کشمیریوں
کی مدد و حمایت کو جاری رکھیں گے اور مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرایا
جائے ،یہی ہمارا موقف ہے ۔پاکستان کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے منشور کا
بھی حصہ ہے اور آزاد کشمیر میں بھی آزادی کشمیر ہماری ترجیح ہے۔میں کسی ایک
حکومت کا نہیں کہتا لیکن ہم مجموعی طور پر اس میں فیل ہوئے ہیں تحریک آزادی
کشمیر کے مقصد کی پیروی کرنے میں۔یہاں درست کہا گیا ہے کہ یہاں سیاسی
جماعتیں اور ساری چیز یں زینہ بن گئی ہیں مظفر آباد کے اقتدار میں پہنچنے
کے لئے ،یہ ہماری ترجیح نہیں ہے۔امجد یوسف صاحب نے بجا کہا کہ ہمارے پاس
کوئی' ڈاکومیٹیشن' نہیں ہے ،کوئی ایسی جگہ نہیں ہے کہ جہاں جا کر آپ یہ
معلومات حاصل کر سکیں کہ ایکٹ چوہتر
کے بعد کیسے یہ تحریک چلتی رہی،کتنے لوگ اس جدوجہد آزادی میں شہید ہوئے۔یہ
باتیں بالکل صحیح ہیں لیکن 'ڈاکومنٹیشن' ہونی چاہئے دنیا میں اپنا کیس پیش
کرنے کے لئے ۔کشمیر لریشن سیل یہاں بنایا گیا اس کا کیا حال کر دیا ہم نے
،یہ انحطاط پذیری پورے معاشرے میں ہوئی ،سیاسی جماعتوں کے اندر بھی اور
معاشرتی طور پر بھی ۔لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی گئی،حکومت کی پہلی ترجیح
مسئلہ کشمیر ہو سکتی ہے اور ہونا بھی چاہئے لیکن حکومت اس علاقے کے لوگوں
کی دیلفیئر کو دیکھ رہی ہوتی ہے،ایجوکیشن کو دیکھ رہی ہوتی ہے،روزگار کو
دیکھ رہی ہوتی ہے،سرمایہ کاری کو دیکھ رہی ہوتی ہے،کسی ایک سمت میں بھی ہم
ٹھیک نہیں جا رہے ہیں،یہاںبے روزگاری دیکھ لیں۔لوگوں کی توجہ تحریک آزادی
سے ہٹ کر ان چیزوں کی طرف چلی گئی ہے جو ان کی روز مرہ کی ترجیح ہے۔اب بھی
یہ سوال دنیا میں اٹھتا ہے کہ اس مسئلے پر بات کرنے کے لئے چھتری کون فراہم
کرے گا ،ہم بہت ساری چیزوں کو مکس کر دیتے ہیں،ایسٹ تیمور کا کیس ہے،سائوتھ
سوڈان کا کیس ہے ،ابھی حالیہ دنوں میں سکاٹ لینڈ کا کیس ہے ،اس کا کوئی
تعلق نہیں ہے مسئلہ کشمیر سے ،وہاں تو آئین کے اندر لکھا تھا کہ اتنے سالوں
کے بعد ،اگرچہ وہ غیر تحریر شدہ معاہدہ تھا کہ وہ مزاکرات کریں گے اور اگر
چاہیں گے کہ سکاٹش رہنا چاہتے ہیں برطانیہ کے ساتھ کہ نہیں۔جس ڈیاسپورہ کی
ہم بات کرتے ہیں اس کو ہم نے بری طرح تقسیم کر کے رکھ دیاہے۔آج برطانیہ میں
ہمارے ہائی کمیشن کے پاس تین سو تیرہ رجسٹرڈ پاکستانی جماعتیں ہیں جو مختلف
طریقوں سے وہاں کام کر رہی ہیں اور مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔مجھے پہلی بار
بحیثیت سیاستدان برطانیہ کی پارلیمنٹ کے اندر کسی کمیٹی روم میں جانے کا
اتفاق ہوا،ہم یہاں کے طریقے وہاں استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ،برطانوی
ارکان پارلیمنٹ کو ان کے حلقہ انتخاب کے لوگوں کی بنیاد پر ان کو ملوث کر
تے ہیں،اپنے ہی لوگوں کے اندر بیٹھ کر مسئلہ کشمیر پر بات کر کے آ جاتے
ہیں۔کبھی ہم نے انٹرنیشنل میڈیا کو' انوالو نہیں کیا ۔بیرون ملک لوگ پوچھتے
ہیں کہ کشمیر میں تنی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں،شہادتیں ہوئیں،اتنا
مالی طور پر نقصان ہوا ،اس کی عالمی میڈیا میں کوریج موجود نہیں ہے۔دنیا کے
وہ پانچ چھ سٹیشن جنہیں اچھی سیر گاہیں بھی کہا جاتا ہے ،برطانیہ
دبئی،امریکہ ،کینڈا، اس کے علاوہ دنیا میں دو سو ممالک ہیں،وہاں کبھی جانے
کی کوشش نہیں کی گئی ۔جو ہوا سو ہوا ،وقت کی پکار یہ ہے کہ آزاد کشمیر کی
سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو جائیں،ایک مشترکہ،متفقہ کشمیر پالیسی بنائیں، اس کے
پیرا میٹر بنائیں کہ ہم نے تحریک آزادی کشمیر کو دنیا میں کیسے پیش کرنا
ہے،اس کی 'ڈاکومنٹیشن' ہو،مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو
رہی ہیں ،کالے قوانین کے ذریعے کشمیریوں کو دبانے کی کوشش ہو رہی ہے،معاشی
طور پر کشمیر کو فتح کرنے کی کوشش بھی کی جار ہی ہے،بھارتی وزیر اعظم کا
اکنامک پپیکج وہاں کے عوام نے مسترد کیا ہے،لیکن مقبوضہ کشمیر میں برسر
اقتدار لوگ بتدریج زمین پر لائیں گے ،بیس کیمپ میں تو اس کا عشر عشیر بھی
نہیں ہے۔آزاد کشمیر کی کوئی بھی جماعت ہو وہ اسلام آباد میں آ کر بیٹھے
ہوئے ہیں،وقت آ گیا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اشوز کی ترجیحات
متعین کریں جس میں سر فہرست تحریک آزادی کشمیر ہے ،اس کے لئے وسائل مہیا
کرنا،اگرچہ ہمیں حکومت پاکستان کی اس سلسلے میں معاونت اخلاقی ،سیاسی مدد
حاصل رہی ہے لیکن ہم نے کبھی وسائل پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔اب جو
کشمیر لبریشن سیل کے نام سے جو پیسے اکٹھے کرتے ہیں،اسے ایک بوجھ تصور کیا
جاتا ہے،لوگوں کے اندر وہ جذبہ نہیں رہا کہ اس کا استعمال کیا ہو گا،کیا
واقعی وہ آزادی کشمیر کے لئے استعمال ہو گا ؟پہلے ہم اپنی جماعتوں کے اندر
اس حوالے سے کام کریں ،پھر آل پارٹیز کانفرنس ہو گی کہ ہم نے اپنی ایک سمت
ترتیب دینی ہے اور اس سمت میں تحریک آزادی کشمیر پہلی ترجیح ہے،اس کے حل کے
لیئے ہمارے پاس کیا کیا فورم مہیا ہیں،ہمیں انٹرنیشنل میڈیا کو کیسے
استعمال کرنا ہے،یونائیٹڈ نیشنز،او آئی سی کے اندر کون جائیں گے،خواجہ صاحب
نے بڑی پتے کی بات کہی کہ سچ تسمے باندہ رہا ہوتا ہے اور جھوٹ دنیا کا چکر
لگا کر آ جاتا ہے۔او آئی سی میں ہماری آبزرور کی حیثیت ضرور ہے اور ہماری
خوش قسمتی ہے کہ ہندوستان کوشش کے باوجود وہاں آبزرور کا سٹیٹس بھی حاصل
نہیں کر سکا اور اگر خدا نہ کرے کہ وہ ایسا کر لیتا ہے ،کئی عالمی فورمز
میں ہمارے سچے کیس کو پیش کرتے ہوئے جس مزاحمت کا سامنا ہے شاید ہمیں او
آئی سی کے اندر بھی اسی طرح کی صورتحال درپیش آ سکتی ہے۔او آئی سی نے بہت
تیر نہیں چلائے،بہت جاندار قسم کا موقف کہ کشمیر کاز کو اپنے چارٹر کا حصہ
بنا لے اور اس کی پیروی کرے اور 'او آئی سی' کے ممالک اس کے پیچھے کھڑے ہو
جائیں،پاکستان اس کو لیڈ کرے اور باقی اسلامی بلاک اس کے پیچھے کھڑا ہو
جائے،ان کے اپنے مسائل ہیں ،وہ اپنی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں لیکن ہمیں
اپنا کام کرنا ہے،ہمارے ایک صدر الجیریا گئے تھے تو احمد بن بلا نے کمرے کی
کھڑی کا پردہ اٹھا کر انہیں قبرستان دکھاتے ہوئے کہا کہ آزادی کے لئے اتنی
قربانیوں کی ضرورت ہے۔ کشمیری اس سے زیادہ قربانیاں دے چکے ہیں ،کشمیری اس
سے زیادہ نقصان اٹھا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اپنا مقصد حاصل نہیں کر
سکے۔اس کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ ہمارے میں اتحاد و اتفاق کا فقدان ہے
،ہمارے میں لیڈر شپ کی کمی ہے،ہم نے اپنی سمت صحیح نہیں کی ہے ،اب بھی
سیاسی جماعتوں کے پاس وقت ہے کہ وہ کشمیر کے معاملے میں اپنی سمت درست کر
لیں اور اس پر کام کرنا شروع کر دیں تو پھر آزادی کی منزل بھی ّآ سکتی ہے۔
ندیم کھوکھر۔ایم کیو ایم نے اپنی جماعت کے اندر کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی
اور اس حوالے سے کام کیا جاتا ہے۔
بشارت عباسی۔آزاد کشمیر کے اندر تمام سیاسی جماعتیں آج تک مسئلہ کشمیر اور
تحریک آزادی کشمیر کو صرف اقتدار میں آنے کا ایک ذریعہ بنا تی رہی ہیں۔یہاں
بیٹھے تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سیاسی
جماعتوں کا تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے ایسا کردار نہیں ہے جو کردارہونا
چاہئے تھا،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم تنزلی کا شکار ہیں،پوری دنیا میں
ادارے ہوں،افراد ہوں ،بیوروکریسی ہو ،وہ آگے جاتے ہیں ،ہم ساٹھ سالوں میں
تنزلی کا شکار ہوئے ہیں۔مین ایک مثال دیتا ہوں کہ جس چیئر پر چالیس سال قبل
وزیر خارجہ کے طور پر ذولفقار علی بھٹو جس چیئر پر بیٹھتے تھے اس چیئر پر
حنا ربانی کھر بیٹھتی رہی ہے دونوں مین بہت زیادہ فرق ہے،جس چیئر پر وزیر
اعظم کے طور پر وہ بیٹھتے رہے اس پر راجہ پرویز اشرف بھی بیٹھتے رہے
ہیں،بہت سار ا فرق ہے ،اسی طرح آپ آزاد کشمیر کے اندر دیکھیں، جس چیئر پر
غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان ،مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب
بیٹھتے رہے،کے ایچ خورشید مرحوم بیٹھتے رہے ،انہوں نے اپنے کردار ،افکار
،نظریات اور عمل سے واضح کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے لئے ،تحریک آزادی کشمیر
کے لیئے کتنے مخلص تھے،آج وہاں کیا حالت ہے ،وہ سب ہمارے سامنے ہے ۔تو اس
لئے میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ ،ابھی یہاں سے ایک وفد
امریکہ گیا،کوئی آدمی یہ پوچھنے کو تیار نہیں ،آزاد کشمیر میں ہسپتالوں میں
لوگوں کو ادویات نہیں مل رہیں،لوگوں کو علاج معالجے کے پیسے نہیں مل رہے
اور ایک سرکاری وفدپچانوے لاکھ کے خرچے پہ بیرون ملک دورہ کرتا ہے ،کون ہے
جو ان سے پوچھ سکے کہ آپ ہمارے ٹیکسوں کے پیسے سے گئے اور یہاں لوگوں کی
ادویات کے لئے پیسہ نہیں ہے ،کہاں مسئلہ کشمیر اجاگر کیا؟اسی طرح گزشتہ
پچاس سال سے جا رہے ہیں تحریک آزادی کشمیر کے نام پہ،جب آپ یہ کہتے ہیں
ایکٹ چوہتر ہمیں یہ کہنے کی اجازت نہیں دیتا،یہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا تو
کیا یہ ایکٹ آپ کو یہ اجازت دیتا ہے کہ آپ دو تین کروڑ روپیہ لیکر وفودکو
بھیجیں اور وفود جا کر گھوم پھر کر واپس آ جائیں،کیا ہم میں سے کوئی سوال
کر سکتا ہے کہ اس پارلیمانی وفد کو یا اس سے پہلے پارلیمانی وفود گئے ہیں،
کہ آپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کیا کیا ہے؟میں سمجھتا ہوں کہ کوئی نہیں
پوچھ رہا ہے،مک مکا کا سارا ایک چکر ہے،اس کو آپ بیس کیمپ کہتے ہیں اس کو
ریس کیمپ بنا دیا گیا۔اس موجودہ اسمبلی کے سترہ ممبران اسمبلی ایسے ہیں ،جو
حکومت اور اپوزیشن دونوں سے ہیں ،سترہ ارکان اسمبلی نے ان چار سالوں میں
اپنے گھر بنائے ہیں،آپ وہ بجٹ دکھائیں جس میں آپ چار سالوں میں گھر بنا
سکتے ہیں،ہم توبیس بیس سال میں اپنا گھر نہیں بنا سکتے لیکن بنائے ہیں،کوئی
پوچھنے کے لئے بھی نہیں تیار کہ کیا آڑے آ جاتا ہے ،جب آپ کے خلاف عدم
اعتماد کی تحریک آئے گی ،جب آپ کے خلاف کوئی ایکشن لے گا تو یہ بات آڑے آ
جاتی ہے کہ بیس کیمپ کو خطرات لاحق ہو ں گے،تحریک آزادی کو خطرات ہوں گے،ہم
لوگ مایوس ہو چکے ہیں،قربانیاں دیں مقبوضہ کشمیر کے اندر ،وہ آج قربانیاں
دے رہے ہیں اسوقت بھی قربانیاں دے رہے تھے،آزاد کشمیر کے اندر بھی عام آدمی
مسئلہ کشمیر ،تحریک آزادی کشمیر کے لئے قربانی دے رہا ہے،یہاں یوسف نسیم
صاحب بیٹھے ہیں جو اپنی والدہ کے جنازے کو کندھا نہیں دے سکے،ایسے مہاجرین
،مجاہدین موجود ہیں جو اپنے والدین کے جنازوں کو کندھا نہیں دے سکے،صرف اس
لئے ہجرت کی کہ کشمیر بنے گا پاکستان اور لا الہ اللہ کے لئے انہوں نے ہجرت
کی لیکن ہمارا کردار یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی یہ بات کہہ کر مبرا نہیں ہو
سکتا کہ سیاسی جماعتیں کردار ادا نہیں کر رہیں،ہم میں سے ہر ایک شخص اس بات
کا ذمہ دار ہے،ہمیں کیا کردار ادا کرنا چاہئے،میں بحیثیت میڈیا پرسن یہ
کہتا ہوں کہ ہم کیا کردار ادا کر رہے ہیں،ہم سمجھتا ہوں کہ ہم کسی حد تک
زیادہ کردار ادا کر رہے ہیںکہ جو سیاسی لوگوں کے بیانات آتے ہیں تو ہم بھی
ہنس کر اسے لگا لیتے ہیں کہ آزادی کشمیر کے لئے یہ ہو گیا،وہ ہو گیا،ہم بھی
ہنس کر اس کی کوریج کر دیتے ہیں۔ہمیں اپنا کردار کس طرح سے ادا کرنا چاہئے
۔
اطہر مسعود وانی۔میں سب سے پہلے شکریہ ادا کروں گا شکیل صاحب ،بلال
صاحب،راٹھور صاحب اور خاص طو ر پر ریڈیو آزاد کشمیر کا کہ جس کا تحریک میں
ایک اہم اور بنیادی کردار رہا ہے۔میں اپنی بات کو ایک صحافی کی حیثیت سے ہی
پیش کروں گا،سب سے پہلے یوسف نسیم صاحب نے مربوط انداز میں تمام پہلوئوں پر
روشنی ڈالی ہے،کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جس کا انہوں نے احاطہ نہ کیا ہو،امجد
یوسف صاحب نے ایک سیاسی کارکن کے طور پر تنقیدی انداز سے انہوں نے ہمارا
موضوع پیش کیا۔عبدالرشید ترابی صاحب ،ہمارے سنیئر ہیں ،انہوں نے ایک سیاسی
رہنما کے طور پر اس حوالے سے اپنی رہنمائی پیش کی ۔خواجہ فاروق صاحب ایک
پرانے سیاسی کارکن،سیاسی رہنما ہیں اور مسئلہ کشمیر کو انہوں نے مختلف
ادوار میں دیکھا ہے ،انہوں نے اس کا بیان بھی کیااور صغیر چغتائی صاحب نے
اپنی جماعت کا موقف بھی پیش کیا اور اس حوالے سے بات کی ،چودھری سعید صاحب
نے پریکٹکل انداز میں اپنے خیالات پیش کئے اور اس حوالے سے عملی اقدامات کی
ضرورت پر زور دیا۔
تحریک آزادی کشمیر اور سیاسی جماعتوں کا کردار،اس حوالے سے میں اپنی رائے
دوں گا کہ آزاد کشمیر کا قیام تحریک آزادی کشمیر کا ایک اہم سنگ میل ہے اور
آزاد کشمیر چاہے اس میںکتنی ہی خرابیاں ہوں کتنی بھی اس میں گراوٹ آئے لیکن
اس کے باوجود یہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی بھارت سے آزادی کی جاری تحریک کی
کامیابی کی ایک نوید ہے۔آزاد کشمیر حکومت جب قائم ہوئی،اس کا اعلان آزادی
آپ دیکھ لیں ،یہ تمام ریاست جموں وکشمیرکی اور تحریک آزادی کشمیر کی
نمائندہ حکومت کے طور پر وجود میں آئی تھی۔اس کے بعد پاکستان کے حوالے سے
ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ،ہمارے ساتھیوں نے اس پر بات کرنے سے احتراز کیا
ہے کہ پاکستان نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے خصوصی حیثیت
قائم رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی پاسداری میں
موقف اپنایا ہے۔لیکن پاکستان کی حکومتوں ، اسٹیبلشمنٹ ،بیوروکریسی نے آزاد
کشمیر کو وہ سٹیٹس نہیں دیا جو اس کا حق تھا،جو تحریک آزادی کشمیر کا حق
تھا اور جو اس آزاد خطے اور گلگت بلتستان کے مفاد میں تھا۔آزاد کشمیر میں
کچھ ہی سال انقلابی حکومت میں ہمارا وزیر دفاع آزاد کشمیر میں رہا لیکن چند
ہی سال بعد اس کو کلی طور پر تبدیل کر کے وفاقی وزیر امور کشمیر اور وفاقی
اداروں کے اتنا تابع رکھ دیا کہ آزاد کشمیر میں ایک سیاسی انحطاط پذیری
،سیاسی انتشار کو ہوا ملی۔اس کا نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج آزاد کشمیر میں
ہمارا میرٹ کلی طور پر قبیلائی اور علاقائی ازم بن چکا ہے۔آزاد کشمیر
میں،جیسا کہ میں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے
مطابق یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ آزاد کشمیر میں عوام کے حق میں اچھا
عوامی نظم و نسق قائم رہے۔ اسی بات کا آپ دوسرا پہلو دیکھیں کہ اگر آزاد
کشمیر میں با اختیار اور باوقار حکومت قائم ہو گی تو وہ پار کے کشمیری
،ہمارے بھائی جو اپنی جانوں کے نزرانے دے رہے ہیں ،اپنی عزتیں لٹا رہے ہیں
اور جس طرح خواجہ فاروق صاحب نے اس کا بڑے اچھے انداز میںبیان کیا کہ یہاں
سے جانے والا حیران ہو جاتا ہے کہ کس طرح وہ نامساعد حالات میں بھی انہوں
نے اپنے ہتھیار نہیں ڈالے اور بھارت سے آزادی کے لئے،اپنے حق آزادی کے لئے
جدوجہد کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔لیکن دوسری طرف آزاد کشمیر میں
،بلاشبہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی،اس میں بڑا عمل دخل ہماری سیاسی لیڈر
شپ کا ہے،اس کے بعد ہم پاکستان کی حکومتوں سے بھی کہتے ہیں کہ ان کی
پالیسیاں صحیح نہیں رہی ہیں اور ابھی بھی انہوں نے کشمیر کاز سے متعلق
صحیح'اپروچ' نہیں اپنائی ۔آزاد کشمیر میں اگر ایک بااختیار اور باوقار
حکومت قائم ہوتی ہے تو اس سے تحریک آزادی کو بلواسطہ نہیں بلکہ براہ راست
بڑی تقویت پہنچے گی۔مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آزاد
کشمیر کی حکومت اور سیاسی جماعتوں سے متعلق کوئی اچھی رائے نہیں پائی جاتی
،وہ باشعور ،پڑھے لکھے لوگ ہیں اور آج کے سوشل میڈیا اور دوسرے رابطوں کی
بدولت کوئی بھی واقعہ سب کے علم میں آجاتا ہے ۔ہماری انہی خرابیوں کی وجہ
سے آج یہ حالت ہے کہ گزشتہ کچھ مہینوں سے ہندوستان جو روائتی طور پر
کشمیریوں کا دشمن ہے پاکستان کا دشمن ہے،وہ بھی آزاد کشمیر اور گلگت
بلتستان سے متعلق ایک منفی میڈیا مہم شروع کر رکھی ہے ،دنیا کوگمراہ کرنے
کے لئے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو
رہی ہیں۔حالانکہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے ،آزاد کشمیر گلگت بلتستان میں
جتنا لوگوں کو اپنی بات کہنے کا ،ہر مکتبہ فکر کو اپنی بات کہنے کا ،بھر
پور طور اپنی بات پیش کرنے کا ،اور ریاستی میڈیا اس کو بھرپور انداز میں ان
کو پیش کرتا ہے ،یہ الگ بات ہے کہ ان کی عوام میں کوئی پزیرائی نہیں ہے۔اس
طرح کے کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم اپنے کاز کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
یہاں سیاسی جماعتوں کی بات کی گئی ہے ،میں تو سمجھتا ہوں کہ ہماری سیاسی
جماعتیں اس سیاسی کردار کے ساتھ موجود ہی نہیں رہیں،تقسیم ہو چکی ہیں بری
طرح اور سیاسی جماعتوں میں سیاسی طریقہ کار کا فقدان کیا خاتمہ ہو چکا
ہے۔آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں میں اگر عہدوں کی بات کریں تو اس کے عہدے
ایسے ہی ہیں جیسے کسی کو مصنوعی پھول لگے ہوئے گلدان دے دیئے جائیں کہ یہ
آپ اپنے ڈرائینگ روم میں رکھیں اور جو آپ سے ملنے آئے اس کو بتائیں کہ وہ
میرا گلدان ہے،میرا جماعت میں یہ عہدہ ہے،اس پر آپ جو بھی اپنی سیاست کر
سکتے ہیں،اپنا مفاد حاصل کر سکتے ہیں ،آپ کریں۔اس کے علاوہ ہماری سیاسی
جماعتوں میں ،کیا وہ مسئلہ کشمیر کو مخاطب کریں گی،ان کے اجلاس ہی نہیں
ہوتے ہیں ،ہوں تو نمائشی انداز میں ہوتے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں نے مل
کر جو اسمبلی قائم کی اس کا حال یہ ہے کہ ارکان اسمبلی ،تمام اس میں برابر
کے ذمہ دارہیں،آزاد کشمیر اسمبلی کو انہوں نے ارکان اسمبلی کے مفادات کے
تحفظ کا باہمی ایک کلب بنا دیاہے،اپنے وظائف مقرر کرا لئے ہیں،اپنے حقوق کا
تو بھر پور طور پر انہوں نے تحفظ کیا ہے ،اس پر پہرہ دے رہے ہیں لیکن آزاد
کشمیر کے عوام،جس طرح انہیں ہر شعبے میں خراب کیا ،یہ خرابیاں تو اب اتنی
بڑھ چکی ہیں کہ اب کہا جا رہا ہے کہ آزاد کشمیر کا ہر شعبہ بری طرح تباہ ہو
چکا ہے،ہمارے وقتی مفاد دیکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم یہ مفاد حاصل کر
کے ہم نے بڑی عقلمندی کا ثبوت دیا ہے لیکن کشمیر کاز سے انہوں نے کنارہ کر
کے اپنی عزت ،اپنے مفادات اپنی حرمت کو بھی انہوں نے ختم کیا ہے۔آزاد کشمیر
کے رہنمائوں نے جس طرح کشمیر کاز کو پاکستان کی وزارت خارجہ اور وزارت دفاع
کے سپرد کر کے مسئلہ کشمیر سے بری الذمہ ہو گئے ،گلگت بلتستان کو وفاقی
حکومت کے حوالے کردیا اور اپنے مقامی امور ،مقامی عناد اور مخالفت میں ملوث
ہو گئے تو اس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ آزاد کشمیر کا خطہ آج اپنے مقامی حقوق
کے لئے رو رہا ہے،بلک رہا ہے لیکن اس کو حقوق نہیں ملیں گے،کیونکہ اس کے
لئے آپ کو کردار کا مظاہرہ کرنا پڑے گا،ہم باتیں کرتے ہیں کہ 'ڈاکومیٹیشن '
ہونی چاہئیں،اس طرح ہونا چاہئے ،اس طرح ہونا چاہئے لیکن جب میرٹ بنتا ہے تو
اس میں دیکھا جاتا ہے کہ کون سی بڑی برادری ہے،اس کو ہم نے ایڈ جسٹ کرنا
ہے،بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج اآزاد کشمیر کا اپنا ایک مسئلہ کشمیر
نہیں بلکہ اس کے دس اضلاع کے دس مسئلہ کشمیر ہیں،میرپور کے کیا مسائل ہیں
،مظفر آباد والے کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ،راولاکوٹ کے کیا مسائل
ہیں،کوٹلی والے کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ،ہر کوئی اپنی یونین کونسل ،اپنی
تحصیل ،اپنے ضلع ،اپنی برادری کی دنیا میں جی رہا ہے۔
تحریک آزادی کشمیر کے لئے آزاد کشمیر کا کیا کردار ہے ،وہ تو سب کے سامنے
واضح ہے اور سیاسی جماعتوں کا کردار کیا ،سیاسی جماعتوں کا تو کوئی حال ہی
نہیں رہا۔رشید تربی صاحب یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ،ابھی پچھلے عرصے میں ،اسی
حکومت کے دور میں ایک اچھا کام ہو اکہ کل جماعتی رابطہ کونسل بنی،انہوں نے
ایک دو سال کی اپنی ورکنگ بھی ترتیب دی اور اگر اس پر کام ہوتا بڑا مثبت
کام ہو سکتا تھالیکن آج یہ کوئی کہنے کو تیار نہیں ،کوئی بتانے کو تیار
نہیں کہ کس نے اس کو رکوایا،کس نے اس کا نوٹیفیکیشن نہیں ہونے دیا ،کس نے
اس کو بے عمل کیا ،اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنے تمام معاملات میں ،تحریک آزادی
کشمیر میں بھی نمائشی انداز رکھتے ہیں،ہم منافقانہ انداز رکھتے ہیں،سچی بات
کیا ہے وہ ہم بتانے کو تیار نہیں ہوتے ،ان تمام خرابیوں میں کشمیریوں کی
منزل ،جدوجہد،ہم کشمیری کہتے ہیں کہ ہم ''بائی چوائس' پاکستانی ہیں،اس لئے
کسی کشمیری کو پاکستان کے کسی ادارے سے پاکستان کی محبت کا ،پاکستان سے
عقیدت کا ،پاکستان جو ہمارے ایمان کا حصہ ہے،اس کے لئے ہمیں کسی سے کوئی
سرٹیفیکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں دوسرے
یا تیسرے درجے کی مخلوق کی طرح ڈیل کیاجائے،ہم بات کرتے ہیں کہ ہمیں کینڈا
جانا چاہئے ،روس جانا چاہئے لیکن ہماری اپروچ تو اسلام آباد کی وزارت خارجہ
تک نہیں ہے،پاکستان کی کشمیر پالیسی میں ہماری کوئی مشاورت شامل نہیں ہے
،ہمیں پوچھنا بھی گوارارہ نہیں کرتے،اسی طرح چودھری اور چودھراہٹ کی طرح
لوگوں کو دوسرے تیسرے درجے کی طرح ڈیل کیا جاتا ہے،اس طرح سے ڈیل کرنے کا
انداز ابھی بھی قائم ہے۔باتیں کافی تلخ ہو جائیں گی لیکن آپ نے بڑا اچھا
ایک ایسا موضوع 'تحریک آزادی کشمیر اور سیاسی جماعتوں کا کردار ' دیا ہے،جس
میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان اور کشمیر کاز کے تمام امور اسی کے اندر آ
جاتے ہیں لیکن اگر بات کی جائے تو۔
بلال رفیق ۔کہ کیسے تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے ہم کیسے ٹریک پر آ سکتے
ہیں؟
عبدالرشید ترابی۔اول روز سے ہم نے کوشش کی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر سے
متعلق جو بھی مسائل ہیں،اس میں ہم اپنا کردار ادا کریں۔ایک تو ساری جماعتیں
اس کو اپنا ایجنڈا بنائیں۔خاص طور پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی ذمہ داری
ہے کہ وہ اپنی قیادت کو یہ باور کرائیں اور انہیں قائل کریں کہ اس کی نزاکت
کیا ہے اور یہ صورتحال زیادہ دیر تک نہیں چلے گی۔وہاں لوگ قربانیاں دے رہے
ہیں اور یہاں ہمارا نوجوان فرسٹریشن کا شکار ہے ،نہ گورنینس ٹھیک ہے نہ
تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے کوئی حکومت ،یہاں لاوا پکے گا اور یہاں سب
انتظام درہم برہم ہو جائے گا، اس سے پہلے ہماری لیڈر شپ پاکستان کی قیادت
کو بھی باور کرائے کہ آزاد کشمیرکے سٹیٹس کے تعین کے حوالے سے انہوں نے جو
فیصلہ کرنا ہے وہ کریں اور دوسرے حکومت کو تحریک آزادی کشمیر کا حصہ بنائیں
اور سیاسی جماعتیں بھی اپنی بساعت کے مطابق کوشش کریں۔
سید یوسف نسیم۔خرابیاں ہیں اس کے لئے چند تجاویز ہیں کہ ہم دنیا اور مقبوضہ
کشمیر کے سامنے آزاد کشمیر کو ایک نمونے کے طور پر پیش کریں تا کہ وہ
انسپائر ہوں کہ غلام کشمیر اور آزاد کشمیر میں کیا فرق ہوتا ہے۔پاکستان سے
اصلاح ہونا ضروری ہے ورنہ ہم آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کو کچھ نہیں کہہ
سکتے ۔کشمیرکمیٹی میں ،وزارت امور کشمیر میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
خواجہ فاروق احمد۔ہمیں واقعی اس کشمیر کو ایک ماڈل سٹیٹ بنانا ہے تا کہ ہم
انہیں بتا سکیں کہ اگر ہم نے آزادی لی ہے تو آزادی کے پھل یہ ہیں۔آزاد
کشمیر کی لیڈر شپ کو بہت سے معاملات میں ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
صغیر چغتائی۔بنیادی بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں گڈ گورنینس ضروری ہے اور
گڈ گورنینس کو یقینی بنانے کے لئے حکومت پاکستان کا یو این چارٹر کے اندر
ایک رول متعین ہے اور وہ رول حکومت پھر ہی ادا کر سکتی ہے کہ وہاں سیاسی
مداخلت نہ ہو ،جب حکومت پاکستان خود بنیاد رکھتی ہے کرپشن کی ،وہاں جب
الیکشن آتے ہیں تو یہاں سے وزارت امور کشمیر کی طرف سے بہت سی سکیمیں دی
جاتی ہیں ،وہاں جب ان کا ذاتی مفاد آ جاتا ہے تو وہاںکرپشن کیسے کنٹرول
کریں گے۔
امجد یوسف ۔وانی صاحب نے جو گفتگو کی تھی میں نوے فیصد اس سے اتفاق کرتے
ہوئے،دس فیصد گنجائش اس لئے رکھی کہ کچھ باتیں ایسی ہیں،بہت اچھی گفتگو کی
انہوں نے آزاد کشمیر کے حوالے سے۔آزاد کشمیر میں گورنینس،معاملات کو بہتر
بنانا یہ سب باتیں ضروری ہیں لیکن یہ کیسے ہو گا،اس میں صرف مرکزی حکومت یا
وزارت امور کشمیر ذمہ دار نہیں ،مثلا ہماری ریاستی جماعت بھی چودھری شجاعت
سے ٹکٹ لیتی رہی،مداخلت ہر دور میں ہوتی رہی۔ریاست کے اندر سیاسی لیڈر شپ
کا معیار بہت گرا ہے،اس میں گراوٹ آئی ہے،صرف سیاسی کارکن ذمہ دار نہیں
ہے،میڈیا کے لوگ بھی ہیں ،کیا آپ اپنے اخبار میں خبر میرٹ پر لگاتے
ہیں،نہیں لگاترے کیونکہ جو اشتہار دے گا اس کی بڑی خبر لگائیں گے اور ذاتی
تعلق میں بھی۔یہ بحیثیت مجموعی ہمارے معاشرے کی 'ریفلیکشن' ہے ،ہمیں ہر
شعبے میں بہتری کی ضرورت ہے۔حکومت پاکستان کو ،وزیر اعظم پاکستان کو چاہئے
کہ آزاد کشمیر کوآرڈینیشن کونسل نے انہیں جو خط لکھا تھا ،وہ خط میں نے
ڈرافٹ کیا تھا ڈیڑھ سال پہلے،اس پر فاروق حیدر صاحب،چودھری مجید صاحب،ترابی
صاحب،عتیق صاحب،سب کے دستخط ہیں ،آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی میٹنگ
بلائیں،کشمیر کمیٹی کے حوالے سے جو سفارشات ہیںکو زیر غور لائیں اور سیاسی
جماعتیں بھی کوشش یہ کریں کہ اپنی اپنی جماعتوں کے اندر جو باصلاحیت لوگ
ہیں جو بات سمجھتے ہیں ان کو آگے لانے کی کوشش کریں۔ہمارے ہاں یہ بھی ہوتا
ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کا لیڈر ہے وہ اچھے آدمی کو اس لئے آگے نہیں
کرتے کہ کہیں وہ آگے نہ بڑھ جائے اور سب سے بڑی بات یہ کہ میڈیا سے کہوں گا
کہ آٹھ نو ماہ بعد الیکشن ہو گے،ریاستی میڈیا لوگوں کو ایجوکیٹ کرے کہ لوگ
اچھے لوگوں کو ووٹ دیں،چاہے وہ کسی بھی جماعت کا ہو،اسمبلی میں اچھے لوگ
جائیں گے تو گھر کم بنیں گے،دورے کم ہوں گے اور اگر کوئی جائی گا تو اچھی
بات کرے گا۔
چودھری محمد سعید۔شاید یہ ایک کانفرنس اس مسئلے کے حل کے لئے کارآمد نہ ہو
ایسی بہت سی کانفرنسز ہوں جس میں کشمیری لیڈر شپ اپنا موقف پیش کرے۔اگر ہم
اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں ،اپنے اندر اتفاق و اتحاد پیدا کر لیں تو پھر ہم
آگے بھی سمجھانے کے قابل ہوں،کسی دوسرے کو ذمہ دار ٹہرانے سے بات نہیں بنے
گی،کشمیر کونسل نہ ہوتی تو یہاں ایک ٹکہ بھی نہ ہوتا،جس طرح ہم اپنے بجٹ کو
چلاتے ہیں،جس طرح خرچ کرتے ہیں،ان کے پاس تو دو ارب رو پیہ ہوتا ہے ہمارے
ٹیکسز اکٹھے کرنے کے بعد اگر ہم اپنا کیس صحیح طرح پیش کریں تو چاہے آزادی
کشمیر کا مسئلہ ہے،ہماری اکنامی کا مسئلہ ہے،ہمارے سیاسی استحکام کا مسئلہ
ہے،اس کو اگر ہم صحیح پیش کریں تو ہو حکومت کسی کی بھی ہو ،ت وکئی ہماری
مخالفت نہیں کرتا کوئی ہمارے کیس کو مسترد نہیں کرتا۔
اطہر مسعودوانی۔سیاسی جماعتیں کسی بھی خطے کو ،ملک کو سوچ و اپروچ دیتی ہیں
کہ کیا اور کس پر کام ہونا چاہئے۔سب سے پہلے کہ آزاد کشمیر کے سیاستدانوں
اور سیاسی جماعتوں کو آزاد کشمیر کے غیریب عوام پر رحم کرنا چاہئے،اپنی سوچ
اور اپروچ میں تبدیلی لائیں،ہم پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر کے نقیب بننے سے
پہلے ہم پاکستان میں اپنی کوشش کریں،ہمیں یہ نظر آئے کہ پاکستان کی خارجہ
پالیسی،دفاعی پالیسی میں ہماری مشاورت شامل ہے ،پاکستان کی فوج اور حکومت
کے ساتھ ملکر آزاد کشمیر میں ایک بااختیار اور باوقار حکومت بنانے کے لئے
سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما اپنا کردار اداکریں۔
ندیم کھوکھر۔سیاسی جماعتوں کے اختلافات سے بالاتر ہو کر مسئلہ کشمیر پر
مشترکہ جدوجہد کریں۔ |
|