وزیر خزانہ پر قرض لینے کا بھوت سوار ہے
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
آج میں کسی ادبی موضوع پر لکھنا چاہتا
تھا’جناح ‘ اخبار کا اداریہ پڑھ کر میری سوچ کا دھارا 2013ء کی انتخابی مہم
کے تانے بانے بننے لگا میاں صاحب نے اپنا ایک منشور پیش کیا تھا، اپنی
انتخابی تقریروں میں گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان کیا کرتے تھے کہ وہ حکومت میں
آکر غربت کا خاتما کردیں گے، غریب کو مشکلات سے نجات دلائیں گے، ملک کو
قرضوں سے نجات دلائیں گے ، کشکول توڑ دیں گے، بھیک نہیں مانگے گے، اپنے
وسائل پر بھروسہ کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ ڈھائی سال کی
حکمرانی میں یہ تمام باتیں کہیں دکھائی نہیں دیں۔ میاں صا حب کہا گیا آپ کا
منشور، کیا ہوئے آپ کے وعدے غربت کو ختم کرنے کے، غریب کی مشکلات کو دور
کرنے کے، کہا گیا آپ کا وعدہ کہ آپ کشکول توڑ دیں گے۔ آج سب کچھ ویسا کا
ویسا ہی ہے۔ نہ غربت ختم ہوئی، نہ غریب کی مشکلات میں کمی آئی، نہ کشکول
ہاتھ سے چھوٹا ، نہ قرض لینے کے عادت گئی، نا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے
سامنے ہاتھ پھیلانے کی عادت گئی بلکہ اس میں تیزی آچکی ہے۔ وزیر خزانہ قرض
حاصل کرنے کے ایکسپرٹ بن چکے ہیں بہ الفاظِ دیگر اسحٰق ڈار صاحب آئی ایم
ایف اور ورلڈ بنک سے قرض حاصل کرنے کے ’ماہر حصولِ قرضہ جات ‘ بن چکے ہیں ۔
انہیں وزیر خزانہ سے ’وزیر حصول قرضہ جات‘ بنا دیا جائے تو بہتر ہوگا۔
انہوں نے ایسے گُر سیکھ لیے ہیں کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک قرض کی منظوری
میں ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر قرض کی اگلی قسط کی منظوری دے دیتے
ہیں۔کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جو قرض وہ دے رہے ہیں وہ کئی گنا
ہوکر واپس انہیں کے پاس آجائیگا، وزیر خزانہ ، اپنے سمدھی وزیر اعظم پر ایک
اور احسان داغ دیتے ہیں کہ دیکھو سمدھی جی میں اس باربھی قرض حاصل کرنے میں
کامیاب ہوگیا۔ ہوئی نہ میری سیٹ پکی چوتھی ٹرم کے لیے۔
نوید ہو کہ لمحہ موجود کی حکومت نے قرضوں کی ادائیگی کے لیے 313درآمدی
اشیاء پر آئندہ 72گھنٹوں میں ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس
کا بنیادی مقصد وزیر خزانہ نے یہ بیان کیا ہے کہ ایسا کرنے سے حکومت
کا40ارب روپے ریونیو کا شارٹ فال پورا کرنے کی شرط کی تکمیل ہوجائے گی۔
چناچہ وزیر موصوف نے درآمدی اشیاء پر ریگو لیٹری ڈیوٹی بڑھانے کا فیصلہ کر
لیا ہے۔ اس کے لیے 5دسمبر سے پہلے پہلے یہ اقدام کرنا ہوگا۔ یہ درآمدی
اشیاء ہیں کیا؟ فہرست پر نظر ڈالی جائے تو عقل حیران اور پریشان ہوجاتی ہے
کہ اس فہرست میں ایسی اشیاء کی کثرت ہے جو عام بلکہ غریب عوام کے استعمال
کی ہیں۔بلکہ روز مرہ ضروری استعمال میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ وزیر خزانہ
تجربہ کار ہیں، میاں صاحب جب بھی وزارت اعظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں
خزانہ کسی اور کو دینے کا سوچتے بھی نہیں اس لیے کے خزانہ ہے ہی ایسی چیز
غیر کو کیوں جائے۔گھر کی چیز گھر ہی میں رہے تو اچھا ہے۔ اسحٰق ڈار صاحب
ٹہرے اپنے وہ بھی سمدھی جی، اعتماد اور اعتبار کا یہ عالم ہے کہ 313اشیاء
کی جوفہرست تیار کی گئی ہے میاں صاحب نے اس کو ایک نظر دیکھنے کی زحمت بھی
نہیں کی، اگر میاں صاحب از خود اس فہرست کو دیکھ لیتے تو یقینا وہ وزیر
خزانہ کے اس اقدام کو روک دیتے۔ میرا تو خیال یہ بھی ہے کہ یہ فہرست وزیر
خزانہ صاحب نے بھی نہیں دیکھی بلکہ ان کے محکمے کے کارندوں نے جو فہرست
نیچے سے بھیج دی انہوں نے اس کاموضوع دیکھ کر اور یہ دیکھ کر کہ ان سے بین
الا قوامی مالیاتی ادارے کے اربوں روپے کا ریوینو شارٹ فال پورا ہونے کی
شرط کی تکمیل ہوجائے گی انہوں اس فیصلے کو میاں صاحب کی جانب بڑھا دیا ۔
موصوف وزیر نے اس کے اثرات و مضمرات پر قطعناً سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں
کی۔ وزیر اعظم صا حب کو اتنی کہا فرست کے کہ وہ اس فہرست کو دیکھیں جس میں
آلو ، مٹر ، گاجر مولی لکھا ہو انہیں تو بیرون ممالک کے دوروں سے ہی فرست
نہیں۔عمران خان کے سوالوں کا جواب دینے میں اپنی پوری صلاحیتں صرف کررہے
ہیں۔ کاش میاں صاحب یہ دیکھ لیتے کہ ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھا نے کے لیے جن
اشیاء کو فہرست میں شامل کیا گیا ہے ان کا تعلق امیروں سے ہے یا غریب عوام
سے ۔
زرا دیکھئے، اس پر سر دھننے کو جی چاہتا ہے کہ جو اشیاء در آمدکی جاتی ہیں
جن پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھانے کی کاروائی عمل میں لائی جانے والی ، جو غریب
عوام پر مہنگائی کا بم بن کر گر نے والی ہے اس فہرست میں پھل جن میں
ناشپاتی، امرود، آم، کینو، لیمو، چکوترا، سیب، کشمش، انار، کھجور، سبزیوں
میں کھیرا، ٹماٹر، آلو، مٹر، لوبیا، دہی، مکھن، ڈیری مصنوعات، پنیر، کھویا،
ڈبل روٹی، مشروبات، ٹوتھ پیسٹ، صابن، اچار اور اس طرز کی دیگر استعمال کی
اشیاء اس فہرست کا حصہ ہیں۔ کیا یہ اشیاء غریب عوام کے روز مرہ استعمال کی
نہیں؟ ان اشیاء کو کیا رائے ونڈ میں رہنے والے، ڈیفنس، کلفٹن، سیٹلائٹ ٹاؤن
، جوہر ٹاؤم، گلشن اقبال، بنی گالااور اسلام آباد کے پوش اور بڑے علاقوں
والے استعمال کرتے ہیں؟وزیر خزانہ کی اس ماہرانہ کاروائی سے غریب اور نچلے
درجے کے عوام مہنگائی کے سیلاب تلے دب جائیں گے۔ امیروں پر کوئی اثر نہیں
ہوگا۔ وزیر اعظم صاحب اب بھی وقت ہے اس اہم مسئلہ کی جانب کچھ توجہ کیجئے
اور اگر ممکن ہوسکے تو ان احکامات کو واپس لے کر غریب عوام کو مہنگائی سے
بچالیجئے۔
موجودہ سال کا بجٹ پیش ہو ئے چار ماہ کا عرصہ ہوچکااب وزیر موصوف کو اس کی
ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ بیٹھے بٹھائے غریب عوام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی
کیا سوجی۔ سب جانتے ہیں کہ ہمارا ملک قرضوں پر چلا یا جارہا ہے۔ قرض لیا،
اس قرض پر سود ادا کرنے کے لیے قرض لیا، واپس کردیا، قرض کی اقساط ادا کرنی
ہیں اس کے لیے قرض لیا اور واپس کردیا۔ آئی ایم ایف سے قرض لیا ورلڈ بنک کا
قرض اتار دیا، ورلڈ بن سے قرض لیا آئی ایم ایف کا قرض اتار دیا۔ کچھ
منصوبوں پر ظاہر کردیا باقی کھایا پیا گیا۔ لمحہ موجود کے وزیر خزانہ اس
بات پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا عمل اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ
پاکستان کی بقا اور سلامتی صرف اور صرف قرضوں کے حصول میں ہے۔ اس ملک کو
قرضوں سے ہی چلایا جاسکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وزیر خزانہ ، خزانہ کے
محکمہ کے اعلیٰ افسران اپنی تمام تر صلاحتیں اور کوششیں اس بات پر صرف کرتے
ہیں کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کو کس طرح شیشے میں اتارا جائے کہ وہ قرض
دینے پر مسلسل آمادہ رہیں۔ دیگر باتوں کے علاوہ یہ معاملہ بھی گورننس کے
بہتر نہ ہونے کی صورت ہے۔ جس کی نشاندھی ہم جیسے کالم نگار، تجزیہ نگار،
اخبارات کے اداریے مسلسل کرتے رہیں ہیں۔حکومت کی خراب کارکردگی جسے بیڈ
گورننس کہا گیا پر عسکری قیادت نے بھی توجہ دلائی، جس پر حکومت چلا اٹھی۔اب
چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی کھلے الفاظ میں کہہ دیا کہ’ بیڈ گورننس سے
لاتعلق رہ کر عوام کو حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑسکتے، کیا ہمیشہ بھیک
مانگ کر ملک چلائیں گے۔ بھیک کے پیسوں سے منصوبے بنائیں گے اور پھر انہیں
چلانے کے لیے مذید بھیک درکار ہوگی‘۔ حکومت کی آنکھیں اب بھی نہ کھلیں تو
پھر کب کھلیں گے ، اور پھر کس طرح پانی سر سے اوپر بہتا ہے، اعلیٰ اختیارات
کے ادارے حکومت کی توجہ واضح الفاظ میں ، آسان اور سہل زبان میں ، حکومت کی
توجہ بیڈ گورننس کی جانب مبذول کرارہے ہیں کہ خدارا اپنی کارکردگی کو بہتر
کیجئے، قرضوں سے ملک کو چلانے کی روش کو بدلیں، بے شمار ایسے منصوبے بنائے
جاسکتے ہیں جن سے حکومت کی آمدنی کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ ہمارا ملک بے پناہ
مختلف النوع قسم کی معدنیات سے مالا مال ہے، درآمد کے بجائے برآمدات کو
بڑھانے کی ضرورت ہے۔ عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کو متعارف کرانے کی
ضرورت ہے، تجارت، صنعت کو فروغ دیا جائے، ملک کے ایسے ادارے جو دودھ دیتی
گائیں تھے اب بے کار اور ناکارہ ہوچکے ہیں ان کو از سرِ نو دودھ دینے والی
گائیں بنائیں،میرٹ کو آسمانی صحیفہ سمجھ کر اس پر عمل کریں، اگر ملک و قوم
کی بھلائی چاہتے ہیں تو رشتہ داری ، دوستی، اقربہ پروری، فرقہ واریت،
لسانیت ہر قسم کے تعصب سے اپنے آپ کو پاک کرتے ہوئے صرف اور صرف میرٹ پر
لوگوں کا انتخاب کریں۔ آپ کے سمدھی بے پناہ خوبیوں کے مالک ہیں لیکن انہوں
نے پاکستان کوقرضوں کے دلدل میں پھنساد یا ہے نکالنے کی کوئی تدبیر نہیں
کی۔ ملک میں ٹیلنٹ موجود ہے، ایسے لوگوں کو تلاش کرنا آپ کے لیے کوئی مشکل
نہیں، ٹیلنٹ تلاش کیجئے اور خیر باد کہہ دیجئے اپنے دائیں اور بائیں
خوشامدیوں کو، قرض سے محبت کرنے والوں کو، قرض دلوانے کے ماہرین کو ان سے
فلاح کی امید نہیں۔ علاوہ ازاں حکومت میں شامل صدر مملکت سے لے کر وزیر
اعظم تک، وزیروں، سفیروں سے لے کر مشیروں تک سب کو اپنے طرز حکمرانی کو
بدلنا ہوگا۔اپنے رہن سہن کو بدلنا ہوگا، سادگی کو اپنا نا ہوگا، اخراجات کو
کم سے کم کرنا ہوگا، ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے روز مرہ کے اخراجات کو
کنٹرول کرنا ہوگا، وزیر اعظم صاحب کو اپنے غیر ملکی دورہ پر نظر ثانی کرنا
ہوگی، اپنے ساتھ فوج ظفر موج کی روایت کو ختم کرنا ہوگا۔ قرض اتاروں ملک
سنواروں اسکیم کہا گئی؟ اسے زندہ کیجئے سب سے پہلے پرانے اکاؤنٹ کا کھوج
نکالیے کہ کتنا سرمایا آیاتھا اور وہ کہا ں گیا، کس کس کے پیٹ میں گیا۔ قرض
کی لعنت سے چھٹکارہ ہی ملک اور قوم کی بقا ہے۔ مالیاتی اداروں کے دباؤ تلے
ملک و قوم کو نہ دباتے جائیں ، یہ ہمیں مٹی تلے دبا کر اوپر اشتہار لگادیں
گے جس پر لکھا ہوگا ہے کوئی خریدار ۔ |
|