شناخت کی جنگ

 شناخت ہر انسان کی ضرورت ہے،بے شناخت انسان کی زندگی ایسے ہی ہے جیسے سرسبز جنگل میں سوکھا ہوا درخت ہو۔مرد ہو یا عورت،بچہ ہو یا بوڑھا،غریب ہویا امیر سب اپنی ’’شناخت‘‘اور پہچان کے بھوکے ہوتے ہیں،جب انسان پیدا ہوتا ہے تو کچھ ساتھ نہیں لاتا،سب سے پہلے اس کو اس کی شناخت،اس کا نام دیا جاتا ہے پھر وہ اس شناخت کی پہچان کروانے کیلئے پوری زندگی کھپا دیتا ہے،کوئی نامور ہوکر مرتا ہے توکوئی کسی کونے،چوراہے پر بے نام زندگی کا سفر طے کرکے اگلے جہان کی طرف بڑھ جاتا ہے،لوگ نامعلوم لاش قراردے کر دفنا دیتے ہیں۔ہمارے ملک میں بھی کئی ایسے’’بے شناخت‘‘لوگ موجود ہیں جو زندگی کی کئی دہائیاں گزارنے کے باوجود شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔یہ سوچ کر بھی ڈر لگتا ہے کہ ایک شخص زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھ چکا ہو اور اس کے ملک کا ادارہ اسے شہری ماننے سے ہی انکاری ہو۔

جی ہاں!ایسا بھی ہے،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں ہرجائز،ناجائز کام کروانارشوت کے بغیر کروانا مشکل ہے تو شناختی کارڈ کا حصول ناممکن ۔آپ کو اتنی لمبی قطاریں کہیں بھی نظر نہیں آئیں گی جتنی کہ میں شناختی کارڈ بنانے والے دفتر کے باہر مشاہدہ کیں،خبر کی جستجو مجھے بھی اس قطار میں کھینچ لائی۔وہاں کھڑے لوگوں سے شناخت کے حصول کی جدوجہد بارے پوچھا تو ہر ایک کی کہانی سن کر رونا بھی آیا اور ہنسی بھی۔کسی نے کہا کہ میرا نام’’سمیر‘‘سے ’’سمیرا‘‘رکھ دیا گیا ہے،کسی نے کہا کہ نااہل افسروں نے ماں باپ ہی تبدیل کردیے ہیں،ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ میری جنس ’’عورت‘‘درج کردی گئی ہے،یہاں عملے کی غلطی میرے لئے سزا بن گئی ہے،بلدیاتی الیکشن میں مردوں کے بوتھ پر ووٹ ڈالنے گیا تو پولنگ عملہ نے عورتوں کی طرف دھکیل دیا،وہاں گیا تو جوتیاں کھانا پڑیں،معاشرے میں رسوائی کے بعد قطار میں لگا ہوں کہ’’مجھے مرد بنادیا جائے‘‘۔

قطار میں لگے اپنی مخالف سمت میں دیکھا تو نظر ایک ساٹھ،اکسٹھ سالہ عورت پر پڑی جو کمزوری کے باعث کبھی زمین پر بیٹھتی تو کبھی کسی سہارے کی آسرے سے اٹھ کھڑی ہوتی۔اس کے پاس جاکر’’ شناخت‘‘کیلئے آنے کی وجہ پوچھی تو عجیب درد بھری کہانی سننے کو ملی،پوپلے منہ سے بولی ،بیٹا خوشی سے کون اس عذاب میں پڑتا ہے،وراثتی جائیداد کی منتقلی کیلئے شناختی کارڈ کی ضرورت پڑی تو یہاں آناپڑا،یہاں میرا کوئی پہلے دن نہیں دو ماہ میں پندرھواں چکر ہے،یہاں آکر زندگی ایسے دائرے میں پھنسی ہے کہ باہر کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا،میں جب’’ کمپیوٹر کارڈ ‘‘کے حصول کیلئے یہاں آئی تو بتایا گیا پرانا کارڈ لاؤ،دوسرے دن جب پرانے کے ساتھ آئی تو کہا گیا آپ کا ریکارڈ ہی نہیں،’’برتھ سرٹیفکیٹ لاؤ آپ کا مسئلہ حل ہوجائیگا‘‘یونین کونسل کے دفتر برتھ سرٹیفکیٹ کیلئے گئی تو وہاں کوئی ریکارڈ سرے سے موجود ہی نہیں تھا،یہاں ایک سال بعد کا ریکارڈ نہیں ملتا ساٹھ سال تو چھ دہائیاں ہوتے ہیں،یونین آفس سے ناکامی کے بعد نکاح نامے کی ڈیمانڈ کی گی۔دو ماہ گزر گئے ابھی تک’’لائن حاضر‘‘ہوں۔جس ملک کیلئے ساٹھ سال بیت گئے اس کی قومیت کی جنگ میں شائد یہیں سانسوں کا بندھن ٹوٹ جائے،میں بے نام نہیں مرنا چاہتی۔

یہ صرف اسی ادارے میں نہیں ہوتا یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے،ہرادارے،ہر افسر کا یہ حال ہے،کس کس کو گلہ دوں،کس کس کی شکایت کروں۔شناختی کارڈ کے حصول کیلئے آنیوالے ہر تیسرے بندے کی یہی کہانی ہے،یہ تو بنیادی ضرورت ہے جس کی فراہمی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے،حکومت پیسے وصول کرنے بعد بھی ذمہ داری کیوں نہیں نبھا رہی ہے،یہاں رشوت نہ دینے والوں اور ایم پی اے،ایم این اے ،وزیر شذیر کا وزٹنگ کارڈ نہ رکھنے والوں کو کیوں ذلیل کیا جاتا ہے،دوسرے اداروں کی طرح یہاں بھی وزٹنگ کارڈ اور بانی پاکستان کے فوٹو والے کاغذ کو ہی سلام ہے،اس بغیر آپ کی کسی بھی جگہ کوئی وقعت نہیں،اگر آپ کے پاس یہ دونوں ہیں یا دونوں میں سے ایک تو کسی دفتر آنے کی ضرورت نہیں،ہر کام گھرمیں بیٹھے،بیٹھائے ہوگا،اس ملک میں آپ کے پاس پیسے نہیں،سیاسی پہچان نہیں تو کوئی آپ کا رشتہ دار نہیں،کوئی دوست نہیں کوئی پرسان حال نہیں،ساٹھ سال تو کیا سو سال بھی جی لیں تو کوئی اہمیت نہیں ملے گی،آپ بے شناخت ہی مریں گے اور لوگ’’نامعلوم‘‘لاش قرار دے کر کسی کونے میں دفنا دینگے۔

Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 68447 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.