بلدیاتی انتخابات کے مہیب نتائج

بلدیاتی انتخابات میں علاقائی سیاست کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے ، لسانیت اور قوم پرستی کی سیاست کا غلبہ ووٹ کے حصول کیلئے زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔گو کہ بلدیاتی انتخابات سیاسی بنیادوں پر ہو رہے ہیں لیکن یہاں ایک افسوس ناک صورتحال دیکھنے میں آئی کہ قومی جماعت کہلانے والی پارٹیوں کے عہدے داران بھی قوم پرستی سیاست کو بڑے تن من دھن کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں اور عوام میں ان کی تقاریر میں دو اہم نکات بڑے اہم نظر آئے ایک ، امن و امان کے حوالے سے دعوے کہ کراچی میں امن لانے والے ہم ہیں اور اس کے خلاف کہ کراچی میں بد امنی کی ذمے دار کون سی جماعت ہے اور دوسرا اہم نکتہ یہ رہا کہ قوم ( پاکستان یا مسلم قوم نہیں ) کو اس کے حقوق نہیں ملے اور دوسری قوم نے ان کی قوم کے حقوق غصب کرلئے ، پختون ، سندھی ، بلوچ ، پنجابی غرض یہ کہ جتنی زبانیں اتنی ہی قومیں تھیں لیکن اگر کوئی نا تھی تو مسلم قوم نہیں تھی ۔

ایک غلط فہمی بڑی شد و مد کے ساتھ پھیلائی جاتی رہی کہ نیازی برادری ، پختون قوم نہیں ہے۔پختون قوم کو یہ تو معلوم ہے کہ نیازی برادری کا تعلق بھی پختون قوم سے ہے لیکن جہاں جہاں نیازی برادری کے پینل کھڑے تھے ان کے سامنے پختونوں کے پینل چاہیے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہوں ، ان کی مخالفت کا سب سے پہلا نعرہ نیازی کو پختون قومیت سے باہر نکالنا تھا۔تاریخ بتاتی ہے کہ نیازی قبیلے کا تعلق لودی(لودھی) ( مگر یہ لودھی پنجاب کی لودھی خاندان جوکے راجپوت نسل سے ہیں لودھی کہلواتے ہیں ان سے لگ ہیں ) پشتون خاندان سے ہیں یہ کوئی ۱۵ عیسوی میں یہاں قیام پذیر ہوئے یہ پہلے پشتون قبیلے ٹی جو اس علاقے میں وارد ہوئے اور جاٹوں اور سکھوں کو باہر نکال کیا ، اس قبیلے کے اثرا و کھنڈرات آج بھی دہلی کے گردو نواح میں موجود ہیں جن میں خاص کر عیسا خان نیازی کا مقبرہ ہے جو آج بھی ہمایوں کے مقبرے کے ساتھ موجود ہے اس قوم کی پہلی سکونت دہلی میں تھی اور پشتونو کی پہلی اور شروع دور حکومت میں وہاں قیام پذیر تھے مگر مغلوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد یہ اس علاقے میں دیگر افغان قوموں کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے آباد ہوگئے اور وقت با وقت اور نیازی قبائل افغانستان سے آکر آباد ہوتے چلے گئے آج بھی کچھ نیازی قبیلے پشتو بولتے ہیں جن میں بخیرے خیل ، سلطان خیل اور بوری خیل سرِ فہرست ہیں ، نیازی قبیلے کے مشہور لوگوں میں عیسا خان نیازی جو کہ شیر شاہ سوری کے مشیر تھے ، ہبت خان نیازی گورنر پنجاب و جرنیل تھے۔عیسا خیل، نیازیوں کا سب سے بڑا قبیلہ کہلاتا ہے جو تمام نیازیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے نادر شاہ کے ساتھ ملکر جنگ بھی لڑ چکا ہے اور نواب کا خطاب بھی حاصل کیا۔

یہاں اس بات کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ میانوالی پنجاب میں اگر آباد ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں رہا کہ وہ کسی دوسرے ملک میں ہونے کی وجہ سے اپنی رویات و ثقافت سے جداگانہ ہے۔کیونکہ پشتونوں کی طرح ان کی خواتین بھی شٹل کاک برقعہ پہنتی ہیں، اسی طرح ہزاریے ول کو سرحدی پنجابی کہنا بھی تعسب کی علامت ہے میں جب بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مختلف برادریوں کے پروگراموں اور سیاسی جماعتوں کی میٹنگز میں جاتا رہا تو مجھے اس بات کی کافی حیرانگی بھی ہوئی کہ ووٹ کے خاطر اگر قوموں کا تشخص بھی بگاڑ دینے سے کسی کو ووٹ حاصل ہوتے ہیں تو ہونے دو ، لیکن اس کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس عمل سے نفرتوں کا جو بیج بویا جارہا ہے اس کے نتائج کس قدر خطرناک نکل سکتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کراچی ڈویژن کے نائب صدر نجیب اﷲ خان نیازی اس سیاست سے نالاں نظر آئے اور انھوں نے مجھ سے شکوہ بھی کیا کہ سیاست میں نفرتوں کے بیج نہیں بونے چاہیں۔میں ان کی اور کی مخالف میٹنگز میں گیا تو نیازی اور پختون قومیت کے نام پر قومی جماعت کہلانے والی جماعتوں کے لیڈروں نے اس بات کا بڑا پرچار کیا کہ نیازی پختون قوم کے مخالف ہیں، تاریخ سے نا بلد ہونے کی وجہ سے انھیں یہی نہیں معلوم کہ نیازی برادری بھی ان کی طرح پختون قوم ہی ہے ، جس طرح پختون قوم میں اکثر قومیتیں اپنا نام کے ساتھ حسن زئی ، یوسف زئی ، سواتی ، کوہاٹی ، آکا خیل ، ، بونیری خٹک اور دیگر استعارے لگاتی ہے اسی طرح نیازی برادری بھی اپنے بڑوں کے نام کی پیروی کرتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ نیازی لگاتے ہیں ۔

بہرحال ہمیں اس بات کو ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر اردو بولنے والا کراچی میں ہے اور اس کی زبان اردو ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا تعلق ہم ہندوستان سے اس طرح جوڑیں کہ وہ پاکستانی نہیں بلکہ بھارتی کہلائے، اردو بولنے والے تو ہر جماعت میں ہیں۔ ہر لسانی قوم کی طرح ان میں بھی جرائم پیشہ ہیں اور پھر قانون نافذ کرنے والے کسی جماعت کے خلاف کوئی کاروائی کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی قوم کے خلاف کاروائی کر رہے ہیں ۔ میں نے یہ بات بھی محسوس کی کہ جب پختون قوم ، بلوچ قوم پر آپریشن کیا جاتا ہے تو اسے ایسا سمجھا جاتا ہے جیسے کسی دوسری مخلوق کے خلاف پاکستانی مخلوق کاروائی کر رہی ہو ، بلوچ ہو یا پختون ہو ، پاکستان کے شہری ہیں ان کے اپنے حقوق ہیں ، ان کے اپنے وسائل ہیں ان میں بھی دوسروں لسانی اکائیوں کی طرح جرائم پیشہ افراد ہیں ، اس لئے ان کے خلاف آپریشن نہیں بلکہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کہلوانا زیادہ پسند کرتا ہوں ۔ عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری یونس بونیری سے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دلچسپ گفتگو ہوئی ، کیونکہ ان کی جماعت سہ فریقی اتحاد کے طور پر حصہ لے رہی ہے اور ان کے بعض امیدواروں نے پی پی پی کے نشان پر الیکشن کیلئے باچا خان بابا کی تصویر ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ لگائی ہوئی تھی ،خدائی خدمت گاروں کو یہ عمل پسند نہیں آیا کہ اب باچا خان بابا ، پی پی پی کیلئے ووٹ مانگ رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ بابا کا نشان گم ہوگیا ۔ یونس بونیری نے اس کو سیاسی عمل قرار دیا کہ سیاسی اتحادوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے جبکہ ہمارے پارٹی کے نشان لالٹین سے کراچی میں170امیدوار چیئرمین شپ کا الیکشن لڑ رہے ہیں ۔متحدہ قومی موومنٹ کے رابطہ کمیٹی کے رکن گل فراز خٹک کا کہنا تھا کہ ان کا کراچی میں کسی سے مقابلہ نہیں اس لئے انھیں کسی سے اتحاد کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے ، گل فراز خٹک کے مطابق 200سے زیادہ حلقوں پر ان کا کوئی مقابل ہی نہیں ہے اور جنھوں نے کاغذات نامزدگی جو داخل کرائے ہیں وہ رسمی کاروائی ہے۔ان کا خیال تھا کہ حیدرآباد کی طرح کراچی میں بھی ان کو کامیابی ملے گی۔میرے پوچھنے انھوں نے بتایا کہ ان کی تمام انتخابی مہم عوام خود چلا رہے ہیں ، لہذا آپریشن میں دشواریوں کی باوجود انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پی پی پی کراچی ڈویژن کے جنرل سیکرٹری ندیم احمد بھٹو کراچی میں کامیابی کے حوالے سے بڑے پر امید نظر آئے کہ سندھ میں ملنے والی کامیابیوں کا اثر کراچی میں بھی نظر آئے گا۔اور کراچی کا مئیر پی پی پی کا جیالا ہوگا۔انھوں نے پارٹی میں گروپ بندیوں اور پارٹی فیصلوں سے اختلاف رکھنے والوں کا آزاد حیثیت سے کھڑے ہونے پر پریشانی کا اظہار کیا کہ جو پارٹی کے فیصلے کو قبول نہیں کرتے وہ دراصل پارٹی سے مخلص ہی نہیں ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور عوام ان کو ہی ووٹ دے گی۔تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ذمے داران بھی پر امید نظر آئے لیکن نتائج کیا ہوتے ہیں یہ بلدیاتی آخری مرحلے میں سامنے آجائیں گے۔لیکن میرے لئے یہ بات اہم ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں جو پارٹی بھی جیتے گی اپنے پیچھے اس نے لسانیت کے پودے کو مزید مضبوط کرنے کا عمل بھی سر انجام دیا ہے ، پی پی پی ، سندھیوں ، اے این پی ، پختونوں اور متحدہ مہاجروں کی سیاست کرتی نظر آئی تو ان کے مقابلے میں مذہبی جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ ن سے پاکستان راہ پارٹی کا اتحاد ، جمعیت علما اسلام ف کا پی پی پی سے اتحاد اور تحریک انصاف کا جماعت اسلامی سے اتحاد کراچی میں کئی نئے راستے بنا جائے گا۔یہ اتحاد مستقبل میں دیرپا نہیں ہونگے کیونکہ یہ سب وقتی ضرورت کے تحت ہیں بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے بعد ہی ان میں دراڑ پڑ جائے گی کامیابی کی واحد صورت یہی ہوسکتی ہے کہ جب قومی جماعتیں تمام سیاسی جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم بھی کریں۔ جمہوریت کے اس پر فریب ووٹ کے نظام میں بندے گنا جارہے ہیں تولے نہیں جارہے ۔ جمہوریت کے نام پر عوام کو بے وقوف بنانا اور مک مکا کی سیاست کے ساتھ مٹی پاؤ کی سیاست بھی عروج پر ہے ، ۵ دسمبر کو عوام پھر جمہوریت کے نام پر دھوکہ کھاکر لمبی لمبی قطاروں میں جھوٹے ووٹ ڈالیں گے۔ جھوٹی گوائیاں دیں گے ، آپس میں لڑیں گے ، خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔لیکن مغرب کے اس نظام سے تبدیلی کبھی بھی نہیں آسکتی کیونکہ جمہوری نظام فریب ہے۔صرف ایک گذارش ہے کہ لسانیت ، فرقہ پرستی ، صوبائیت اور بن سوچے ووٹ ڈال کر آپس میں نفرتیں نہ بڑھائیں ، بھارئی چارے کو نقصان نہ پہنچائیں تشدد کو نہ اپنائیں کیونکہ تفرقہ متحدہ مسلم قومیت کیلئے زہر قاتل ہے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744853 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.