ابو سے آخری ملاقات

نوٹ: مضمون نگار علی احمد مبرور مصلوب علی احسن مجاہد کابیٹا ہے۔ اصل مضمون بنگالی زبان میں روزنامہ” سنگرام“ میں شائع ہوا تھا۔ مذکورہ مضمون کا انگریزی ترجمہ لندن میں مقیم ایک بنگلہ دیشی طالب علم نے کیا ہے، جس کا اردو ترجمہ نذرِ قارئین پیش خدمت ہے۔

ایمان کی یہ شان کہ حیران رہ گیا
علی احمد مبرور۔۔۔ ڈھاکہ

۱۲ نومبر ۵۱۰۲ءشام کے ۸ بجے میں پراناپلٹن ڈھاکہ میں وکیل کے چیمبر میں بیٹھاہواتھا۔

باقی ساری فیملی اس وقت”اتارا ڈھاکہ“ کے گھر میں موجود تھی۔ مجھے اطلاع ملی کہ ہمارے گھر والوں کو بذریعہ فون آخری ملاقات کیلئے جیل حکام نے بلاوا بھیجا ہے۔ ڈپٹی جیلر نے میرے بڑے بھائی تجدید کو ۹ بجے شام تک پہنچنے کی ہدایت کی تھی۔ میں نے فوراََ تحریک اسلامی کے ذمہ داروں اور وکلاءکے ساتھ رابطہ کیا آیا وہ والد صاحب تک کوئی پیغام تو نہیں پہنچانا چاہتے ۔ پھر میں نے وضو کیا اور جیل کی طرف روانہ ہوا۔ اسی اثناءمیں گھر کے دوسرے لوگ بھی جیل پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ رات کے ۱۱ بجے تک میرے گھر کے ۵۲ افرادجیل خانہ پہنچ گئے تھے۔ ضروری تلاشی کاروائی کے بعد ہم جیل کے ”راجانی گاندھا“ حصہ میں پہنچ گئے جہاں موت کی سزا پانے والے افراد رکھے گئے تھے۔ ابو ۸ نمبر کی بارک میں تھے، پھانسی دینے سے پہلے عبدالقادر ملا مصلوب اور قمر الزماں مصلوب کو بھی اسی بارک میں رکھا گیا تھا۔ پچھلے چند ماہ سے اسی بارک میں ہم ابو سے ملاقاتیں کررہے تھے۔

مجھ سے پہلے ابو کا ایک پوتا، میری والدہ اور بہن مذکورہ بارک تک پہنچ گئے تھے۔ میں وہاں پہنچنے والا گھر کا چوتھا فرد تھا۔ باقی لوگ میرے بعد ہی وہاں پہنچے۔ میرا خیال تھا کہ شاید ابو کو ہماری آخری ملاقات کی اطلاع پہلے ہی مل چکی ہوگی اور وہ ہمارا انتظار کررہے ہوں گے، لیکن وہاں پہنچنے پر میں نے ابو کو گہری نیند میں پایا۔ وہ داہنی کروٹ اپنا ہاتھ چہرے کے نیچے رکھے ہوئے سو رہے تھے،جیسے میں عموماََ ان کو سوتے ہوئے دیکھتا آیا ہوں۔ وہ اس چھوٹے سے کمرے میں بغیر تکیے کے جائے نماز پر لیٹے ہوئے تھے۔ ہم نے اور میرے بھتیجوں نے ان کو زور زور سے ابو! ابو! اور داداجی ! داداجی ! پکار ا لیکن وہ لیٹے رہے۔ ایک منٹ کے وقفے کے بعد ابو نے نیند بھری آواز میں جواب دیا: کون ؟ ہمیں دیکھنے کے بعد وہ کہنے لگے آپ سب، نصف شب کے وقت! خیریت ہے؟ کیا جیل حکام نے آپ کو بلایا ہے؟

کیا یہ ہماری آخری ملاقات ہے؟ اس دوران جائے نماز پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا:انہوں نے (جیل حکام) نے مجھے کوئی اطلاع نہیں دی۔” توکلت علی اللہ “چند لمحوں کے لئے انہوں نے توقف کیا، شاید وہ نیند کے غلبے سے خود کو چھڑانے کی کوشش میں تھے اور ہمیں کچھ کہنے کیلئے خود کو تیار کررہے تھے۔ ہم نے جواب دیا : ہاں ابا ہم اپنے اس باپ سے آخری بار ملنے آئے ہیں جو شہادت کی موت مرنے کیلئے تیار ہے ، ہم اپنی دولت و فخر سے ملنے آئے ہیں۔ میری بہن نے کہا:ہم اپنے معزز اور باوقار باپ سے ملنے کیلئے آئے ہی۔میری ماں نے ان کو ہمارے نزدیک آنے کیلئے کہا: اچھا،الحمد للہ کہہ کروہ کھڑے ہو کر ہمارے پاس آئے۔ ابو نے فیروزی رنگ کی قمیص اورنیلی دھاری والا پاجامہ پہنا تھا۔ اپنی چپل ڈھونڈ کر پہن لی اور ہماری طرف بارک کے سامنے والے حصے میں آئے اور کہا”ذرا میں دیکھوں کون کون آیا ہے؟وہاں روشنی کی کمی تھی ۔ بارک میں لگا آہنی جنگلے کا بنا دروازہ مقفل تھا، جس کے باہر فولاد کی بنی جالی تھی۔ میرے بھائی نے فولادی جالی کا دروازہ کھولا۔ میرے بڑے بھائی نے ہر کسی کا نام پکارنا شروع کیا تو ابو نے کہا:مجھے خود دیکھنے دو کہ کون کون آیا ہے“۔اس نے ہر ایک کو الگ الگ نام سے پکارا اور ہر ایک کے ساتھ آہنی سلاخوں کے بیچ میں سے ہاتھ ملایا۔ ہرایک سے الگ الگ بات کی اور ہر ایک کے ذاتی مسائل کے بارے میں پوچھا۔

اس کے بعد میں نے بات کاآغاز کرتے ہوئے کہا:اباجی آپ شہیدہونے جارہے ہیں،جس سے آپ کی اور ہماری دنیا وآخرت میں عزت افزائی ہوگی، اس لئے آپ کوئی فکر نہ کریں۔ آپ کے والد صاحب اور ہمارے دادا جان مولانا عبدالعالی نے آپ کو تحریک اسلامی کے لئے وقف کیا تھا۔ آج اس وقف کا بہترین اختتام ہونے جارہا ہے، آپ نے اپنی طالب علمانہ زندگی، نوجوانی اورادھیڑعمری کاسارازمانہ تحریک اسلامی کودیااوراب آپ اپنے گلے میں پھانسی کاپھندہ بھی اسی مقصد کیلئے ڈالنے جارہے ہو۔ آپ کے مرحوم والد صاحب کواس شہادت سے سب سے زیادہ خوشی محسوس ہوگی۔ میری یہ باتیں سننے کے بعد ابا جی نے آہنی سلاخوں کو پکڑ کر کہا:الحمد اللہ، آپ سب کو پتہ ہے کہ جیل حکام نے مجھے اطلاع بھی نہ دی کہ وہ مجھے آج ہی پھانسی دے رہے ہیں۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے ؟یہ سن کر ہم پر ایک جذباتی کیفیت طاری ہوئی۔ ابا جی نے ہم کو دلاسہ دیا اور کہا :آنسو مت بہاﺅ۔ سنو میں تم سے کچھ کہنے جارہا ہوں۔ پھر اس نے معمول کے مطابق اونچی اورمضبوط آواز میں کہنا شروع کیا۔

نحمدہ ونصلّی علیٰ رسول الکریم ۔ الحمد للہ رب العالمین۔ الصلوٰة و والسلام علیٰ سیدالمرسلین وعلیٰ اٰلہ و اصحابہ اجمعین۔ امّا بعد : اللہ کی حمد وثنائ۔ میں جیل حکام کا ممنون ہوں کہ انہوں نے اس طرح ہی سہی لیکن ہم کو ملنے کا موقع تو دیا۔جیل حکام دراصل خود بھی بے بس ہیں۔ انہوں نے حتی المقدور میری عزت کی اور میرے ساتھ اچھا برتاﺅ کیا۔ انہوں نے مجھے ایک مکتوب لکھنے پر مجبور کیا، جو نہ لکھنے کی صورت میں ان کیلئے مشکلات پیدا ہوجاتیں۔ میں نے پہلے انکار کیا لیکن ان کے اصرار پر میں نے وہ مکتوب لکھا تاکہ ان کیلئے کوئی مشکلات کھڑی نہ ہوں۔ میں نے ابو سے اس مکتوب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا:میں نے صدر مملکت کے نام مکتوب میں لکھا کہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل ایکٹ بنگلہ دیش میں اور عالمی سطح پر بھی متنازعہ رہا اور ملک کے دستور سے بھی متصادم ہے ۔اس کے تحت مجھے اپنے دفاع کیلئے بہت کم مواقع دئے گئے۔ مجھے دستور کے دئے ہوئے شہری حقوق سے بھی محروم رکھا گیا۔ ٹربیونل نے مجھے دو الزامات کے تحت سزائے موت سنائی۔ اپیل کے بعد مجھے ایک الزام سے بری قراردیا گیا اور صرف دوسرے الزام کے تحت سزا سنائی گئی۔ ایک الزام سے بری کرکے صرف دوسرے الزام کے تحت میری سزائے موت غیر قانونی ہے۔ اس دوسرے الزام کے تحت بھی عدالت میں صرف ایک گواہ پیش کیا گیا۔ اس نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیاکہ میں نے کسی کو قتل کیا ہے۔ کسی مقتول کے افرادِ خانہ بھی یہ کہنے سے قاصر رہے کہ میں نے کسی کو قتل کیا ہے۔ میری سزا سنانے کے بعد بھی کسی مقتول کے افراد خانہ نے یہ نہیں کہا کہ ہم کو انصاف مل گیا ہے۔ میرے خلاف صرف یہ الزام ہے کہ میں(پاکستانی) فوجی آفیسروں کے ساتھ ملا تھا اور پلان بنایا تھا۔ گواہ نے عدالت میں کہا کہ اس نے مجھے (علی احسن مجاہد) نظامی صاحب (مولانا مطیع الرحمان نظامی) اور پروفیسر غلام اعظم صاحب کو اکھٹے دیکھا۔ وہ ہم میں سے کسی کو نہیں جانتا تھا۔ بعد میں اس نے صرف ہمارے نام سنے تھے۔ پروفیسر غلام اعظم صاحب کے خلاف بعد میں وہ الزام ثابت نہیں ہوا، نظامی صاحب کو اسی الزام کے تحت عمر قید کی سزا سنائی گئی مگر صرف مجھے اس الزام کے تحت سزائے موت سنائی گئی۔ مجھے یقین تھا کہ مجھے سزائے موت سنانے کے بعد وہ اس عدالتی کارروائی کو مزید مضحکہ خیز بنائیں گے۔ یہی سب چیزیں صدر بنگلہ دیش کے نام میں نے مکتوب میں لکھ کربھیج دیں۔انہوں نے میری اس ’’معافی کی درخواست‘‘پرایک ڈرامہ رچاکرمجھے اپنے گھروالوں جماعت اسلامی اور عام لوگوں میں بدنام کرنے کی کوشش کی۔ اس ظالم حکومت سے معافی کا تو کوئی سوال ہی نہیں بنتا ہے۔ میں معصوم، معصوم اور صرف معصوم ہوں۔ یہ مجھے مظلومانہ موت مارنے جارہے ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو انسانیت کیلئے انصاف تو طلب کرتے ہیں مگر خود انسانیت سے بالکل عاری ہیں؟ یہ نصف شب ایک آدمی کو گہری نیند سے جگاتے ہیں اور اس کے گھر والوں کو پھانسی دینے سے پہلے آخری بار ملنے کیلئے کہتے ہیں۔ انہوں نے یہی سب کچھ صلاح الدین چودھری کے ساتھ بھی کیا۔ یہ کیسی انسانیت ہے؟ انہوں نے بھی (صلاح الدین قادرنے) صدر مملکت کو انگریزی زبان میں اس عدالتی کارروائی کے نقائص کے بارے میں ایک مکتوب لکھا۔ آپ سن لواگرآپ سب کے جانے کے بعد مجھے آج رات پھانسی دی گئی تو یہ صرف ایک قتل ِناحق ہوگا۔آپ میرے اس قتل کاکوئی بدلہ مت لینا، آپ کو کچھ نہیں کرنا ہے۔ میری موت کے بعد اس نا انصافی میں ملوث ہرفردبشرکواللہ کی عدالت میں جوابدہی کے لئے کھڑا ہونا پڑے گا۔

میں آج آپ کو اپنا صحیح یوم پیدائش بتانے جارہا ہوں۔ ہمارے زمانے میں گواس کو محفوظ رکھنے کا رواج نہ تھا اور اساتذہ خود سے یوم پیدائش لکھ دیتے تھے۔ میرا اصلی یوم پیدائش ۱۴ اگست ۱۹۴۷ئ،۲۷ رمضان المبارک ہے۔ شیخ حسینہ واجد مجھ سے صرف ایک مہینہ چھوٹی ہے۔ وہ مجھے بہت اچھی طرح جانتی ہے، وہ جانتی ہے کہ میں بے گنا ہ ہوں کیونکہ وہ مجھے بہت عرصے سے جانتی ہے۔میں عمرہ کیلئے بہت دفعہ مکہ المکرمہ گیا ہوں۔ میں نے کئی بار حج بھی کیا ہے۔ الحمد للہ۔ میرے والد صاحب جنت الماویٰ مکہ میں مدفون ہیں۔ ان کی قبر اُم المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ کی قبر مبارک کے ایک طرف ہے۔ وہاں کچھ صحابیوں ؓکی قبریں بھی موجود ہیں۔ میرے والد صاحب کی قبر بھی وہیں ہے۔ میں جب بھی عمرے کیلئے جاتا تھا تو اپنے ساتھیوں کو والد صاحب کی قبر دکھاتا تھا۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنے والد صاحب کے پہلو میں دفنایا جاﺅں لیکن (زیر لب مسکراتے ہوئے) اگر میں یہ کہوں تو جیل حکام کو پریشانی ہوگی۔ اس مسئلے کیلئے میں اپنے بڑے بیٹے کو ذمہ دار بناتا ہوں ،وہ باقی افراد خانہ کے ساتھ مشورے کے بعد میرے دفنانے کی جگہ کا فیصلہ کرے گا۔

اسی درمیان ڈپٹی جیلر نے دروازہ کھٹکھٹایااوراطلاع دی کہ ملاقات کے صرف۵منٹ باقی ہیں۔ ابو نے جیل آفیسر کی طرف دیکھا اورکہا:آپ لوگ مجھے جانتے ہیں، آپ نے مجھے دیکھا ہے۔ آج میں تھوڑی بہت انسانی ہمدردی کی توقع رکھتا ہوں۔ میں جب اپنی بات مکمل کروں گا تو ایک منٹ بھی زائد نہ لوں گا۔ آفیسر نے جواب دیا: جناب ہم شاہد ہیں کہ آپ نے ہمیشہ اپنا تعاون دیا، ہم آپ کی بہت عزت کرتے ہیں۔ ابو نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:میرے بیٹے اور بیٹیاں یہاں ہیں۔ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ نماز کے بارے میں ہمیشہ سنجیدہ رہو، ہمیشہ حلال کمائی پر گزارا کرو، اس کے باوجود بھی کہ تم کو سختیاں جھیلنی پڑیں۔ میں ۵ سال تک مکمل مرکزی کابینہ کا وزیر رہا۔ الحمد للہ !میں نے اپنی ذمہ داری محنت سے اور اَحسن طریقے پر انجام دی۔ کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ میں نے کسی کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ گو کہ ارد گرد کے ماحول میں بدعنوانیاں ہو رہی تھیں مگر میں نے حرام کمائی کا ایک ٹکہ بھی اپنے جسم میں داخل نہیں ہونے دیا۔ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بہترین سلوک کرنا، ان میں سے کچھ باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھنے والے ہوں گے اور کچھ نہیں۔ کچھ رزق حلال کے متعلق سنجیدہ ہوں گے اور کچھ نہیں ہوں گے۔ شریعت میں دو راہیں موجود ہیں، عزیمت اور رخصت کی راہیں۔ آپ کی ذمہ داری ہے ہر ایک کے ساتھ بہترتعلقات استوار کرکے ان کی صحیح راہ کی طرف رہنمائی کرنا۔ میں نے ہمیشہ یہی کیا ہے اور اس کے بہترین نتائج دیکھے ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے، جو قطع رحمی کرے گا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ہمسائیوں کے حقوق کی نگرانی کرنا۔ فرید پور اور ڈھاکہ میں میرے ہمسائیوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنا۔ ہم بہن بھائیوں میں جائداد کے حوالے سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ آپ بھی ہمیشہ ایسے ہی رہنا اور ایسے مسائل پر کبھی جھگڑا مت کرنا۔ ضرورت پڑنے پر اپنے حق سے دستبردار ہوکر قربانی دینا ہی بہتر ہوگا۔ سیرت رسولﷺ اور سیرت صحابہؓ پر زیادہ سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کرنا۔ مجھے پتہ ہے کہ تم نے اس موضوع پر بہت ساری کتابیں پڑھی ہوں گی، مگر پھر سے پڑھنا۔ مجھے اپنی اولاد پہ بھروسہ ہے، اپنا ہر فیصلہ باہمی مشورے سے طے کرنا، میری طرف سے وکیلوں کا شکریہ ادا کرنا۔ انہوں نے بے شک بہت محنت کی۔ اگر انہوں نے پیسہ مانگا ہوتا تو وہ پانچ دس کروڑ سے کم نہ ہوتا۔ انہوں نے اس قانونی لڑائی کو زیادہ تر بلا معاوضہ ہی لڑا۔

مجھے یقین ہے کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور اسلامی چھاتروشبر جیسی کوئی دوسری نعمت نہیں۔ جتنا مجھے علم ہے یہ دونوں تنظیمیں دنیا میں بہترین ہیں۔ میں ان دونوں سے مطمئن ہوں۔ پچھلے چند سالوں میں بہت سارے قائدین اور کارکنان کو شہیدکیا گیا، ہزاروں زخمی بھی ہوئے اور بہت سارے میری طرح جیل میں ہیں۔ خصوصاَ اسلامی چھاترو شبر نے پچھلے ۵ سالوں میں جو قربانیاں دی ہیں، وہ بے بدل قربانیاں ہیں۔ میری شہادت سے اس ملک میں تحریک اسلامی کو ہزاروں گنا تقویت فراہم ہوگی اور اس سے معاشرے میں مثبت تبدیلی آئے گی۔ صرف دو لوگوں کے بغیر، جنہوں نے میرے خلاف عدالت میں گواہی دی، بہت غریب تھے۔ انہیں دباﺅ کے تحت غریبی کی وجہ سے میرے خلاف جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کیا گیا۔ میں اُن سب کو معاف کرتا ہوں۔ اُن کے خلاف کوئی انتقامی کاروائی مت کرنا۔ اپنی ماں کا بہت خیال رکھنا۔ وہ مجھ سے بہترین مسلمان ہے۔ اللہ نے اس کو سلیم الفطرت ذہن اور دل عطا کیا ہے جس کا میں شاہد ہوں۔ پھر ابو نے کہا:جہاں تک مجھے علم ہے شہید مرتے وقت درد محسوس نہیں کرتالیکن آپ میری آسان موت کیلئے دعا کرنا۔ اُمید ہے کہ اللہ کے فرشتے مجھے لینے کیلئے آجائیں گے۔

پھرابونے دعا کیلئے ہم سب کے ساتھ اپنے ہاتھ اٹھائے۔اس نے ظالم کی تباہی کیلئے دعا کی۔ اپنے افراد خانہ کو اللہ کی حفاظت میں دے دیا۔ اس نے اپنے والدین اور اپنے چھوٹے مرحوم بھائی شعیب کیلئے دعا کی اوراپنی مرحومہ بیٹی ممتحنہ کیلئے بھی دعا کی۔ میرے بڑے بھائی تجدید نے کہا:ابو آپ شہید ہونے جارہے ہیں اورقیامت کے دن آپ کو سفارش کا حق دیاجائے گا۔ ہمیں بھی اس فہرست میں شامل رکھنا۔ ابو نے اپنی بہوﺅں کا حال پوچھا اور ان کے والدین کی خیریت معلوم کی اور اُن کو سلام بھیجا۔ انہوں نے جیل حکام کا ان کے تعاون دینے پر شکریہ ادا کیا۔ اُن سے کہا کہ اگر کبھی میری وجہ سے تکلیف ہوئی ہو تووہ معاف کرنا۔ ابونے جیل آفیسروں کو ہدایت دی کہ جیل میں محفوظ ان کی رقم جیل ملازموں میں تقسیم کی جائے۔ انہوں نے جیل کے ملازموں سے کہا کہ مولانا نظامی (امیر جماعت) اور مولاناسعیدی (نائب امیر) اور دوسرے جیل کے ساتھیوں تک اُن کا سلام پہنچایا جائے۔ انہوں نے ملک کے تمام لوگوں کو سلام بھیجا اور ان سے دعا کی بھی درخواست کی۔ پھر ابو نے اپنی شہادت کی قبولیت کیلئے دعا کی۔ ابونے ہر ایک کے ساتھ آخری بار ہاتھ ملایااوراللہ حافظ کہا۔ پھرہم سب بارک سے باہر آئے۔ میں نے آخری بار واپس مڑ کے اپنے ابو کے زندہ چہرے کی طرف دیکھا۔ مجھے وہ منظرہمیشہ یاد رہے گا۔ انشاءاللہ میں وہ صاف و شفاف چہرہ کبھی نہیں بھولوں گا۔ میں آپ سب سے اپنے ابو کے بلندی درجات کے لئے دل سے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 353453 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.