پچھلے کئی ہفتوں سے کراچی کے اندر مختلف سیاسی جماعتوں کے
لئے جشن کا سماں بنا ہوا ہے۔ ہر کوئی اپنی جماعت کی سر بلندی اور دوسری
جماعتوں پر ممتاز ہونے کے لئے مختلف قسم کے حربوں کا استعمال کررہا ہے۔
کوئی جھنڈے گلیوں اور کوچوں میں لگا رہا ہے، کسی نے چھوٹے سائن بورڈز کی
بھر مار کی ہے اور کوئی وال چاکنگ میں مصروف نظر آتے ہیں۔مگر ان سب کے اندر
کئی باتیں مشترک ہیں۔جیسے کہ ہر سیاسی جماعت کے دفتر میں ڈیگ کا ہونا ضروری
ہے چاہے وہ جو بھی لگائیں مگر کم ازکم ایک ڈیگ ہونا لازمی ہے اور جہاں جہاں
ان حضرات کا جلسہ ہو وہاں ان حضرات سے پہلے ڈیگ پہنچ چکا ہوتا ہے۔اس کے
ساتھ ساتھ اکثر سیاسی جماعت والے تو گاڑیوں کے اند ڈیگوں کو گھماتے رہتے
ہیں اور مائک پر سلسلہ وار اپنی جماعت کی کامیابی کے لئے سر گرم رہتے ہیں
چاہے اس سے کسی کو تکلیف ہو یا کسی کی نیند خراب ہورہی ہو اس سے ان پر کوئی
اثر کہاں پڑنے والا؟
ان تمام سیاسی جماعتوں کے اندر ایک اور مشترک امر انتخابی اخلاق ہیں۔ وہ
لوگ جو پورا سال نہ کسی سے صحیح طریقے سے ملتے ہیں اور نہ ہی مسکرا کر سلام
کرتے ہیں وہ بھی ایسے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں جیسے وہ ہمارے محسن خاص ہوں۔
ان سیاسی جماعتوں والے حضرات کے پاس سے جب کوئی ان الیکشن کے دنوں میں
گزرتا ہے وہ ان کی ایسے خاطر و تواضع کرتے ہیں کہ بندہ اپنے آپ پر رشک کرنے
لگ جاتا ہے۔ویسے واقعی ان کی خاطر و تواضع قابل دید ہوتی ہے۔کیونکہ ان کے
سامنے مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے ووٹ۔ اور اسی مقصد کا حصول صرف اور صرف
انتخابی اخلاق کے اندر مضمر ہے۔خاطر و تواضع کی بات ہوئی ہے تو اس کے اندر
بھی سیاسی جماعتوں کا الگ الگ شعار ہے۔کوئی چائے سے تواضع کرتا ہے تو کوئی
چائے کے ساتھ دوسرے لوازمات بھی پیش کرتے ہیں کوئی کولڈرنک تو کوئی بالاتری
کے لئے پھلوں کو پیش کرتے ہیں۔
ایذاء مسلم حرام ہے۔ چاہے وہ جہاں بھی ہو، جس طریقے سے بھی ہو اور جس وقت
بھی ہو۔مگر صرف اور صرف وقتی متانت کے لئے اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے اس
طرح کے راستے اپنانا جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے یہ غلط ہے اور یہ باتیں
ہم اپنی ذہنوں سے نکال دیتے ہیں ۔ سڑکوں اور گزرگاہوں کو اپنے جلسے و جلوس
کے لئے بند کرنا، بلند آواز سے ڈیگ چلانا یہ سارے کام ایذاء میں شامل ہیں
اس گناہ کے اندر تمام سیاسی جماعتوں کے بڑے حضرات اور جو ان کے ماتحت ہیں
وہ شامل ہیں۔جب باقی جگہوں پر انتخابی اخلاق کا مظاہرہ ہوسکتا ہے تو یہاں
پر بطریق اولی ہونا چاہیے۔
اخلاق تمام اچھے کاموں کا سرچشمہ ہے۔اگر یہی اخلاق سالہا سال ہے تو اس کے
اندر اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل بھی ہوگا اور اپنے مقاصد کے حصول
کے لئے بھی کسی کے سامنے نہیں جھکنا پڑے گا۔ |