۶ دسمبر: مندرنہیں بنائیں گے (قسط دوم)

کسی زمانے میں سنگھ پریوار کا نعرہ تھا ’مندر وہیں بنائیں گے‘ لیکن اباس کا موقفبدل کر ’مندر نہیں بنائیں گے ‘ہوگیا ہے۔ اس تبدیلی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک تو اس باسی کڑھی میں اب ابال نہیں آتا ۔ عوام اس کی جانب متوجہ نہیں ہوتے ۔ اس کے ذریعہ عوام کا جذباتی استحصال کرکے ووٹ حاصل کرنا ناممکن ہو گیاہےوغیرہ وغیرہ ۔ جہاں تک مندر کی تعمیر کا سوال ہے سنگھ والوں کو اس میں دلچسپی نہ پہلے تھی نہ اب ہے ۔ سنگھ پریوار کےلوگ تو صرف کیمرےکےآگے پوجا پاٹ کرتے ہیں اور اس کے ہٹتے ہی سیاسی داؤں پیچ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ رام مندر کےبیج سے ساراتیل نکالا جا چکا ہے اب اس کے برادے پر مکھیاں بھنبھناتی ہیں ۔ ویسے بعید نہیں کہ اس نسل کے گزر جانے کے بعد جو یہ کھیل تماشے دیکھ چکی ہےایسے نئے لوگوں کے سامنے جو واقف نہ ہوں یہ مسئلہ پھر سے زندہ کردیاجائے ۔ پونر جنم میں وشواس رکھنے والے یہ لوگ خود تو دوبارہ جنم نہیں لے سکتے ۔ مگران کے پیدا کردہ تنازعات مثلاً گائے ، لو جہاد ، گھر واپسی ، یکساں سول کوڈ ، دستورکی شق۳۷۰ ،مسلمانوں کی آبادی وغیرہ کا باربار جنم ہوتا رہتا ہے ۔
رام مندر تحریک کے متعلق مذکورہ دعویٰ محض خام خیالی نہیں ہے۔۶ دسمبر ؁۱۹۹۲ کے بعد رونما ہونے والے واقعات پر غائر نظر ڈالنے پر یہ حقیقت اپنے آپ عیاں ہوجاتی ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ رام مندر کی تحریک ؁۱۹۸۴ سے اٹھ کر ؁۱۹۹۲ میں بامِ عروج پر پہنچی ۔ اس پورے عرصے میں ہندوستان کے اندر کانگریس یا تیسرے محاذ کی حکومت تھی مگر اس کے زوال کا آغاز شیلا دان سے ہوا جب قومی جمہوری محاذ کے نام پر بی جے پی برسرِ اقتدار تھی ۔ اٹل جی دورِ اقتدار میں۱۵ مارچ ؁۲۰۰۲ کو وشوہندو پریشد کے اشوک سنگھل اور رام جنم بھومی نیاس کے مہنت رام چندر پر مہنس نے عارضی رام مندر کے اندر سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے علامتی پوجا پاٹ کا اعلان کرکے ہلچل مچادی۔ ان لوگوں کو امید تھی کہ جب نرسمہاراو ہمیں چور دروازے سے مسجد کو ڈھانے کی اجازت دے سکتے ہیں تو ہمارے اپنے لوگ پوجا کرنے سے کیونکر روک سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔مرکزی حکومت نے وی ایچ پی اور آر جے این کو مجبور کیا کہ وہ شیلا نیاس کرنے کے بجائے دگمبر اکھاڑہ ہی میں وزیراعظم کے دفتر سے آنے والے شتروگھن سنگھ کو شیلا دان کردیں ۔شیلا دان کیلئے بابری مسجد کی اراضی سے قریب جس رام کوٹ محلہ کا اعلان کیا گیا تھا وہاں تک بھی جانے کی اجازت حکومت نے انہیں نہیں دی ۔

کارسیوک رام بھکتوں نےاس تبدیلی کو دھوکہ دھڑی قرار دیا اور سنگھل و پرمہنس پر خوب لعن طعن کی۔ وی ایچ پی کے اس احمقانہ اقدام کی مخالفت کرتے ہوئےنرموہی اکھاڑے کے مہنت جگناتھ داس نے کہا سرحد پر کشیدگی کے چلتے یہ تنازعہ غیر دانشمندانہ ہے ۔مہنت جگناتھ نے واضح کیا چونکہ رام مندر کی زمین پر حق ملکیت کا دعویٰ نرموہی اکھاڑے کا ہے اس لئے مندر زمین کسی اور کو نہیں دے سکتی ۔انہوں نے یہ سنگین الزام بھی لگایا کہ اشوک سنگھل نے انہیں حق ملکیت منتقل کرنے کے عوض دس کروڈ روپئے رشوت کی پیشکش کی جسے یہ کہہ کر مستردکر دیا کہ میں اپنا عقیدہ نہیں بیچ سکتا۔ رام چبوترہ کے دعویدار مہنت رگھور داس نے الزام لگایا کہ ان کا اکھاڑہ ؁۱۸۸۵ سے عدالتی جنگ لڑ رہا ہے۔ وی ایچ پی والے عوام کو بیوقوف بنارہے ہیں ۔ جب ان کو زمین ہی نہیں ملے گی تو وہ مندر کیسے بنائیں گے ؟ ایودھیا کے چوتھے بڑے اکھاڑےہنومان گڑھی کے سربراہ مہنت گیان داس بھی وی ایچ پی کے مخالف تھے۔ وہ سب عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنے کے قائل تھے۔ ان کا یہ الزام بھی تھا کہ سنگھ پریوار نے رام چندر پرمہنس کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور ان کا استحصال کررہاہے ۔

پرمہنس مورتی رکھنے سے لے کربابری مسجد کی شہادت تک توبہت سرگرم تھے مگر؁۲۰۰۲ میں شیلادان کے تماشے نے ان کا دل توڑ دیا ۔ سپریم کورٹ نے چونکہ جون کی تاریخ دے رکھی تھی اس لئے اشوک سنگھل نے عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ۱۰۰ دنوں کا پورن آہوتی یگیہ شروع کردیا مگر رامچندر پرمہنس اس سےکنارہ کش ہوگئے ۔ان کا لب ولہجہ بدل گیا اور وہ باہمی مفاہمت سے اس قضیہ کو چکانے کا راگ الاپنے لگے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ رام مندر کو مقامی لوگوں پر چھوڑ دیا جاتا تووہ بڑی آسانی سے نمٹ جاتا مگر سیاستدانوں نے اپنے مفاد کی خاطر اسے بگاڑ دیا۔ اپنے مقلدین سے انہوں نے یہاں تک کہا کہ میرا مندر کسی ایک بھی مسلمان کے خون پر نہیں بنے گا۔۶ جولائی ؁۲۰۰۳ کو دل کا دورہ پڑنے سے رامچندر پر مہنس کا انتقال ہوگیا ۔ وی ایچ پی کے نائب صدر گری راج کشور نے الزام لگایا کہ ایک ماہ قبل لال کرشن اڈوانی سے ملاقات کے بعدوہ شدید دباو میں تھے اور ان کے ہلاکت خیزدورے کا سبب اڈوانی جی ہیں۔ اس طرح گویا نائب وزیراعظم اور وزیرداخلہ اڈوانی نے نادانستہ سہی رام جنم بھومی تحریک کی ایک ٹانگ توڑ دی ۔

؁۲۰۰۴ میں بالآخر بی جےپی حکومت رام للاّ کو اپنے پیش رونرسمہا راو کے تعمیر کردہ عارضی چھجےّمیں چھوڑ کر رخصت ہوگئی ۔ اس تحریک میں دوسری دراڑ ؁۲۰۰۹ کے انتخاب سے قبل پڑی جب اڈوانی جی پھر ایک بار وزیراعظم کی دوڑ میں کمر کس کے اترے۔ اس وقت ان کی راہ کا سب سے بڑا روڑہ بابری مسجد کی شہادت کا داغ تھا ۔ رتھ یاترا کے مہارتھی ایل کے اڈوانی نے اپنا دامن اجلا کرنے کیلئے پہلے تو یہ صفائی دی کہ ان کا ارادہ بابری مسجد کی مسماری نہیں تھا۔ اس کے بعد بولے وہ بابری مسجد کی مسماری پرسوگوار تو ہوئے مگر انہیں اس کا افسوس نہیں ہے ۔ آگے چل کرجب محسوس ہوا کہ یہ کافی نہیں ہے تو اعلان کردیاکہ ۶ دسمبر ان کی زندگیکا رنجیدہ ترین دن تھا ۔ یہ اعتراف انہوں نے نہ صرف اسلام آباد میں جاکر کیا بلکہ اپنی سوانح حیات ’’میرا ملک میری زندگی‘‘ میں بھی اسے درج کیا۔ اڈوانی جی اپنی ساری قلابازیوں کے باوجود نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔

اشوک سنگھل نے اڈوانی جی کے رویہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایااور کہا اڈوانی جی اس طرح کا مدافعانہ رویہ ترک کردیں ۔ وہ ہندووں کی تاریخ کا روشن ترین باب تھا ۔ تپن گھوش نامی راشٹرسنگھ کے ایک مخلص کارکن نے ۶ دسمبر ؁۲۰۰۹ کو اشوک سنگھل کے نام ایک کھلا خط لکھا ۔ اس خط کاا قتباس اندر کی کہانی بیان کرتا ہے۔ اس خط کےاندررام مندر کی تعمیر میں خارجی رکاوٹوں کا ذکر کرنے کے بعد کہا گیا تھا کہ رام مندر تحریک کے رہنماوں سے ایک عظیم غلطی سرزد ہوئی۔انہوں نے رام مندر تحریک کے ذریعہ حاصل کردہ سرمایہ کو سیاست کی نذر کردیااور اکثریت میں آنے سے قبل ہی اقتدار پر فائز ہوگئے۔ اس کے پس پشت اقتدار کالالچ کارفرما تھا ۔ تحریکی رہنما وں نےحرص و ہوس کے علاوہ مایوسی و انتشار کا شکار ہوکر اپنے نظریات سے مفاہمت کرلی اور اس جرم میں نہ صرف بی جے پی بلکہ پورا سنگھ پریوار شریک ہے۔انہوں نے اپنی گاڑیوں پر سرخ بتی لگوانے کیلئے رام مندر کو لال بتی دکھادی ۔ جب تک پہلے مندر اور پھر اقتدار تھا تحریک کامیاب تھی لیکن جب اقتدار کی مندر پر فوقیت ناکامی کا سبب بن گئی ۔ اصول ونظریات پر اقتدار و آسائش کی ترجیح نے بیڑہ غرق کردیا۔ تپن کا خیال تھا سنگھ نے جلد بازی سے کام لیا ۔ اسے اکثریت میں آنے کا انتظارکرنا چاہئے تھا مگر آج اگر وہ زندہ ہے تو کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ بی جے پی کا اپنے بل بوتے پر اقتدار میں آنا بھی رام مندر کے کسی کام نہیں آسکا۔

؁۲۰۰۱۴ کے انتخابات سے قبل اڈوانی جی کاٹکٹ کٹ گیا۔ مودی جی نے رام مندر کا سہارا لینے کے بجائے’سب کا ساتھ اور سب کا وکاس‘ والا نعرہ بلند کرکے اپنےدامن پر لگےگجرات فسادکے داغ کی پردہ پوشی کی اور اقتدار میں آگئے اس طرح گویا رام مندر تعمیر کرنے کی ذمہ داری سے وہ اپنے آپ سبکدوش ہوگئے۔ اب وی ایچ پی والے بھی ان پر یہ الزامات نہیں لگا سکتے تھے کہ انہوں نے رام مندرکے نام پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد اسے بھلا دیا۔ اشوک سنگھل کو بھی اس بات کا شدید احساس ہو گیاتھا کہ مودی حکومت ان کے مرہونِ منت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال ۲۱ دسمبر کو اشوک سنگھل نے ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی میں طول طویل تقریر کی اور دعویٰ کیا کہ ان پچاس سالہ جدو جہد کے نتیجے میں ۸۰۰ سال کی غلامی کے بعد ہندو اپنا گنوایا ہوا سامراج قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اسی بیان کو محمدسلیم نے ایوان پارلیمان میں راجناتھ سے جوڑ کر ہنگامہ مچا دیا۔

اشوک سنگھل نے بارہویں صدی کے پرتھوی راج چوہان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ۸۰۰ سال بعد ملک ہندوتوا کی محافظ سرکار عالمِ وجود میں آئی اور مرحلہ وارہماری اقدار کو قائم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے ہندو سماج کے ذریعہ عالمی فلاح و بہبود کی بات کی اور کہا ہم لوگوں کا دین نہیں بلکہ ان کا دل بدلنا چاہتے ہیں ۔یہ بات اشوک سنگھل نے گھر واپسی تحریک کے دوران کہی تھی ۔ عالمی جنگ سےلے کر اسلامی دہشت گردی تک بے شمار مسائل سنگھل کی تقریر میں زیر بحث آئے لیکن وہ رام مندرکے ذکرسے خالی تھی ۔ جو شخص رام مندر کے بغیر ایک نوالہ نہ نگلتا ہو اس کااس مسئلہ کو ڈکار جانا کھلا اعتراف تھا کہ رام چندر پرمہنس کی موت کے گیارہ سال بعد سنگھل بھی مایوسی شکار ہوچکے ہیں اور یہ کارِ خیر بھی بی جے پی کے زیر اقتدار ہوا۔

۱۵ ستمبر؁۲۰۱۵ کو اشوک سنگھل ۸۹ ویں سالگرہ کے موقع پر ان کی سوانح حیات بنام ’ہندوتوا کے پرودھا‘ کا اجراء عمل میں آیا۔ اس موقع پر آرایس ایس کےصدر موہن بھاگوت ، وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کے علاوہ سوامی ستیامترانندا گیری ، سادھوی رتھمبرا، سادھوی نرنجن جیوتی ، راگھوالو ریڈی ، مرکزی وزراءمہیش شرما اور ہرش وردھن موجود تھے ۔ ان لوگوں نے اشوک سنگھل کی خدمت میں طول طویل خراجِ عقیدت پیش کیا مگر سوائے وی ایچ پی کے صدر وشنو ہری ڈالمیا کے کسی نے جھوٹے منہ رام مندر کے تعمیر کی بات بھی نہیں کی۔ ڈالمیا نے کہا جنم دن کے موقع پر تحفے تحائف دینے کی قدیم روایت ہے ۔ میں وزیراعظم سے کہوں گا کہ وہ اشوک سنگھل جی کو ان کی ۹۰ ویں سالگرہ پر رام مندر کا تحفہ دیں ۔ راجناتھ سنگھ یہاں موجود ہیں اور وہ اس پیغام کو مودی تک پہنچا سکتے ہیں ۔ بیچارے ڈالمیا نہیں جانتے تھے کہ آئندہ سالگرہ کا تحفہ لینے کیلئے سنگھل خود موجود نہیں ہوں گے ۔ اس مجلس کے بعد مبصرین نے لکھا تھا کہ اشوک سنگھل خود مودی سرکار کے رام مندر کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دینے سے بہت تشویش کا شکار ہیں۔ اس تقریب کے دوماہ بعد اشوک سنگھل بھی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے اور اس طرح رام جنم بھومی تحریک کی دوسری ٹانگ بھی ٹوٹ گئی بلکہ بی جے پی کے ہی دورِ اقتدارمیں اشوک سنگھ کے ساتھ رام مندر تحریک نے بھی دم توڑ دیا ہے ۔ تپن کمار گھوش نے اشوک سنگھل کی حیات میں ان کو خیربادکہتے ہوئے ؁۲۰۰۹ میں لکھا تھا پورے سنگھ پریوار میں رام مندر کے سب سے بڑے حامی ہونے کے باوجو د آپ اس جنم میں جس حقیقت کا ادراک نہ کرسکے لیکن چونکہ ہندو پونر جنم میں وشواس رکھتے ہیں اس لئے مجھے یقین ہے کہ اگلے جنم میں آپ یہ ضرور دیکھیں گے۔

اس سال ۳۰ ستمبر کو وشو ہندو پریشد کی ایک پریس کانفرنس میں سبرامنیم سوامی بھی شریک ہوئے اور مرکزی حکومت پر زور دیا کہ وہ بابری مسجد کی خطۂ اراضی کو اپنی تحویل میں لے کر مسلمانوں کو اس کے عوض سریو ندی کے دوسری جانب مسجد کی تعمیر کیلئے متبادل جگہ عطا کردے۔ اس موقع پر سوامی نے بتایا کہ وہ وزیراعظم کو خط لکھ کر مندر کی تعمیر کیلئے کئی تجاویز پیش کرچکے ہیں لیکن ابھی تک اس کا جواب نہیں آیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹویٹر کے بادشاہ مودی جی کی اس نازک معاملہ میں خاموشی حیرت انگیز نہیں ہے؟ سوامی نے یہ بھی کہا وہ امیت شاہ سے اس مسئلہ پر قومی کونسل کے خصوصی اجلاس کی درخواست بھی کرچکے ہیں لیکن وہاں بھی سناٹا چھایا ہوا ہے۔ صحافیوں نے جب پوچھا اس بابت بی جے پی حکومت کا موقف کیا ہے تو اشوک سنگھل نے مبہم جواب دیتے ہوئے کہا رام مندر کی تعمیر پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ اشوک سنگھل نے یہ بھی بتایا تھاکہ جنوری کی ۱۰ اور ۱۱ تاریخ کو دہلی میں رام مندر کا مسئلہ کےقانونی حل پر بحث کرنے کیلئے ایک قومی سیمینار کا انعقاد کیا جائیگا۔ اشوک سنگھل نہیں جانتے تھے کہ فرشتۂ اجل ان کوسیمینار میں شریک ہونے کا موقع نہیں دے گا۔

ایودھیا شہرکے فیصل آبادمیں رہنے والےمحمد مصطفیٰ اپنی پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ۶ دسمبر ؁۱۹۹۲ کے دن اشوک سنگھل نے فوجی لباس زیب تن کررکھا تھا اور کارسیوکوں کو احکامات صادر کررہے تھے ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس قیامت کی گھڑی میں محمد مصطفیٰ وہاں کیا کررہا تھا ؟ دراصل اس وقت محمد مصطفیٰ کا نام شیو پرساد تھا ۔ وہ بجرنگ دل کا کپتان تھا ۔ اس نے چار ہزارلوگوں کو اس بات کی تربیت دی تھی کہ بابری مسجد کو کیسے شہید کیا جائے۔ وہ ان چند بدنصیب لوگوں میں سے ایک تھا جو بابری مسجد کے گنبد پر چڑھ گئے تھے۔ مسجد کی شہادت کے بعد اس کے اندر داخل ہونے والوں اور واپس آکر فیصل آباد میں رام رام ۔جئے شری رام کا نعرہ لگانے والوں میں شیوپرساد پیش پیش تھا ۔

شیو پرساد کی تقدیر نے پلٹا کھایا ۔ اس کے اندر احساسِ جرم نے جنم لیا ۔ اس کو محسوس ہونے لگاکوئی بہت بڑا گناہ اس سے سرزد ہوگیا ہے وہ بے چین رہنے لگا۔ اسی کیفیت میں ؁۱۹۹۷ کے اندر وہ ملازمت کی خاطر شارجہ پہنچ گیا ۔ یہاں بھی کام میں اس کا دل نہ لگتا تھا ۔ ؁۱۹۹۸ میں جمعہ کے دن وہ ایک مسجد کے باہر سے گزررہا تھا کہ اس کے کانوں میں اردو خطبے کے الفاظ پڑے ۔ وہ رک کر سننے لگا ۔ اللہ کی ہدایت اس کے دل میں اترنے لگی ۔اس کے بعد ہر جمعہ کو مسجد کے قریب بیٹھ کر خطبہ سننا اس کا معمول بن گیا یہ سلسلہ تقریباً ایک سال تک جاری رہا یہاں تک کہ بابری مسجد کی شہادت کے ۷ سال بعد ۶ دسمبر ؁۱۹۹۹ کو شیوپرساد نے اسلام قبول کرلیا ۔یہ کائنات ہستی ایک امتحان گاہ ہے جس میں مختلف لوگوں کو ایک ہی امتحانی پرچہ ملتا ہے لیکن وہ متضاد نتائج سے ہمکنار ہوتے ہیں ۔اشوک سنگھل اور شیوپرساد کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

محمد مصطفیٰ (شیوپرساد)کے کٹر سنگھیوالد ترکال پرشاد اور دوسرے اہل خانہ کو جب پتہ چلا کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے تو وہ اس کے سخت مخالف ہوگئے ۔ وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے لوگ اسے جان سے مارنے دھمکی دینے لگے لیکن محمد مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ اس کےدین رحمت سے پھرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اب تو جان اسی دین حنیف پر جائیگی ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے اہل خانہ اور دیگر سنگھی بھی اسلام قبول کرلیں ۔ اشوک سنگھل کے حق میں تو محمد مصطفیٰ کی دعاقبول نہیں ہوئی لیکن کون جانے کس کے حق میں قبول ہوجائے؟ اشوک سنگھل اور شیوپرشاد (محمد مصطفیٰ) کی زندگی میں ان تمام لوگوں کیلئےپیغامِ نصیحت ہے جو دیدۂ عبرت نگاہ رکھتے ہیں ۔ اشوک سنگھل کے عبرت ناک انجام پر خواجہ عزیزالحسنین مجذوب کی مشہور زمانہ نظم یاد آتی ہے ؎
اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا
اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا
ہر ایک چھوڑ کے کیا کیاحسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یہیں ٹھاٹ سارا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2073 Articles with 1265249 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.