زندگی تو یوں بھی گزر ہی گئی ہے اور باقی
بھی یوں ہی گزر جائے گی ۔لیکن اتنے سبق تو ضرور سکھا گئی ہے کہ اگر دوسروں
سے تذکرہ کریں تو وہ مان لیں گے کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔پھر ایسا کیا ہے کہ
اُس ہی پیچ پر کھیلتے ہوئے اُس سبق کو بھول جاتے ہیں اور کرتے وہی ہیں جو
معاشرے میں بے رحمی کا سبب بن جاتا ہے۔ چاہے وہ اُنھوں نے کسی کے ساتھ کی
ہو یا اُنکے ساتھ کوئی کر گیا ہو اور فیصلہ بھی نہ ہو سکے کہ "غلطی پر کون"
تھا؟
"فرح "کی سچی کہانی:
زندگی خوبصورت گز ر رہی تھی او ر فرح کو سب سمجھا بھی رہے تھے کہ لڑکیوں کو
جوانی میں لڑکوں سے دُور رہنا چاہیئے ۔کیونکہ وہ تو خود ابھی اپنے خوابوں
میں کھوئے ہوئے ہوتے ہیں اور اُوپر سے جوانی کا نشہ اور مست حرکات سے وہ
لڑکیوں کو بھی ایسے ہی خواب دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جنکے سحِر میں اُن میں
سے کچھ لڑکیاں آہی جاتی ہیں ۔
بس فرح کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔ متوسط گھرانے کی وہ لڑکی ایک ایسے
لڑکے کی خوابوں کی تعبیر بن گئی جو اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جلد ہی
ایک اچھی ملازمت حاصل کر چکا تھا اور اُس نے اپنی ذاتی گاڑی بھی خرید لی
تھی۔وہی پرانی کہانیوں کی طرح قسمیں وعدے اور مستقبل کے خواب۔ لیکن کہیں
ایسا کچھ تھا جو اُس لڑکے کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ فرح
سے شادی کرے یا نہ کرے۔
دونوں کے گھر والوں کو علم تھا اور وہ اُن دونوں کے معاملے میں کوئی رخنہ
بھی نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔لہذا اُن دونوں کی ملاقاتوں کانتیجہ یہی نکلا کہ
اُن دونوں کی منگنی کر دی گئی۔ فرح کتنی خوش تھی۔جیسے اُس کو سارا جہاں مل
گیا ہو۔ پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھے۔زندگی ایک نہیں دو قدم آگے نظر آرہی
تھی۔
شادی کی تاریخ مقرر کرنے کیلئے دونوں خاندانوں میں رابطے ہو رہے تھے لیکن
اچانک لڑکے کا رویہ کچھ بدلتا ہوا نظر آیا۔وہ اپنے بھائیوں سے اس کا ذکر
بھی کر رہا تھا۔ اچانک یہ خبر خاندان میں پھیل گئی ۔سب حیران تھے۔کیونکہ
ایسا ہوا تو یہ اچھا نہیں ہو گا۔فرح ایک اچھی اور خوش خلُق لڑکی تھی۔اُسکی
خاندان میں عزت تھی اور یہ تمام معاملہ بھی طویل ملاقاتوں کے بعد انجام پا
یا تھا۔
فرح ٹوٹتی ہوئی نظر آرہی تھی لیکن کوئی بھی کچھ نہ کر پا رہا تھا۔ دوسری
طرف لڑکے کا بھی یہی حال تھا۔کیونکہ وہ بھی دونوں خاندانوں میں اپنی قابلیت
و محنت اور دوسروں کا خیال رکھنے کے معاملے میں بہت اہمیت کا حامل
تھا۔اُسکے دوست احباب کا حلقہ بھی قابلِ تعریف تھا ۔پھر یہ ہچکچاہٹ کیسی
۔فیصلہ "نہ" کا ہوا اور وہ "چھوڑ" گیا۔ منگنی کیا ٹوٹی فرح ہی ٹوٹ گئی۔ماں
اور بہن سے اُسکی شکل نہیں دیکھی جارہی تھی۔سب خاموش ۔
فرح کی خوشیاں غم میں ڈھل گئیں اور لڑکے کی شاد ی اگلے چند ماہ میں ایک اور
اچھے اور معزز گھرانے کی لڑکی سے ہوگئی۔اِس خبر نے اُسکوایک طاقت دی اور
اُس نے فیصلہ کیا کہ یہ سب زندگی کے ساتھ ہے۔لہذا اُسکو شادی کر لینی
چاہیئے۔ماں بہن نے ایک اچھا رشتہ تلاش کر کے فرح کی شادی کر دی۔ لیکن ابھی
چند ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ اُسکے خاوند نے اُسکو ماضی کے حوالے سے طعنے
دینے شروع کر دیئے اور الگ رہنے لگا۔اس دوران فرح کے گھر ایک چاند سا بیٹا
پیدا ہوا۔
فرح کا خیال تھا کہ اب اُسکے خاوند کے دِل میں کوئی رحم آجائے گا اور
معاملات بہتر ہو جائیں گے لیکن بعض افراد کے دِل صاف کرنا انتہائی مشکل کام
ہو تا ہے۔بس کچھ ایسا ہی ہوا اور اُس نے فرح کو طلاق دے کر" رشتہ ہی توڑ"
دیا۔دوسرا جھٹکا۔یہ کیسی پہاڑ جیسی زندگی ہے؟ بہرحال فرح نے ایک ادارے میں
ملازمت کر لی اور زندگی کی نئی روشنی کی تلاش میں اگلا قدم بڑھا دیا۔اس
دوران اُسکی والدہ انتقال کر گئی اور بہن نے منت سماجت کر کے ایک معزز لڑکے
سے فرح کی شادی کروا دی۔
اگلے چند سالوں میں فرح کی زندگی خوشگوار نظر آنا شروع ہو ئی تو خاندان
والوں نے بھی سُکھ کا سانس لیا اور فرح نے بھی اپنا ایک چھوٹا سا ذاتی مکان
بنا لیا۔ ساتھ میں بیٹے کی بہترین تعلیم پر خصوصی توجہ دینی شروع کر دی۔اس
میں اُسکا خاوند اُس کا بھر پور ساتھ دے رہا تھا۔لیکن پھر اچانک ایک خبر
آئی اور فرح دھڑم سے زمین پر گر گئی۔اُسکا دِل سے ساتھ دینے والا ساتھی
اُسکا خاوند دِل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا تھا۔اوہ!تیسرا جھٹکا۔
فرح کیلئے اب اپنے بیٹا کا ہی سہارا رہ گیا۔خاندان والے بھی دُکھی تھے اور
اُسکو کہہ رہے تھے کہ حوصلہ کرنا اور جب تک بیٹا کسی اچھی ملازمت پر نہیں
لگ جاتا اپنے خاوند کی اُس رقم کو احتیاط سے خرچتے ہوئے زندگی گزارنے کی
کوشش کرنا جو اُسکے محکمے کی طرف سے تمھیں ملے گی۔لیکن یہاں معاملہ کچھ اور
ہی تھا۔وہ یہ کہ خاوند کی وفات والے دن یہ راز کُھلا تھا کہ وہ پہلے بھی
شادی شُدہ تھا اور اُس میں سے اُسکی اولاد بھی ہے۔ یعنی وہ "چُھپا" گیا
تھا۔ لہذا جب فرح نے اپنے خاوند کی رقم حاصل کرنے کیلئے محکمے میں درخواست
دی تو اُسکا جواب یہ آیا کیونکہ آپکی کوئی اولاد آپ کے اس خاوند میں سے
نہیں ہے لہذا یہ رقم پہلی بیوی کی اولاد کو ملے گی۔
فرح کی اگلی اُمید تھی اُسکا بیٹا جو اپنی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک
بہترین ملازمت کی تلاش میں تھا۔لیکن بغیر سفارش کے وہ ممکن نظر نہیں آ رہی
تھی۔بہرحال کسی ایک کا تعلق کام آ ہی گیا اور اُسکو معمولی تنخواہ پر ایک
پرائیویٹ ادارے میں سیلزکی ملازمت مل ہی گئی۔اُس نے بھی محنت اور ہوشیاری
کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلد ہی مارکیٹ میں اپنی ایسی پوزیشن بنا لی کہ ایک اور
ادارے نے اُس کو بہتر تنخواہ پر سیلز آفیسر رکھ لیا۔
فرح نے اس پر کچھ سُکھ کا سانس لیا اور بیٹے کی شادی کے متعلق سوچنے
لگی۔جلد ہی ایک اچھے گھر کی لڑکی جس نے ماسٹر کیا ہوا تھا کا رشتہ
اُسکوپسند آ گیا اور بیٹے کی شادی اُس سے کردی۔
فرح آج بیٹھی ہوئی کیا سوچ رہی ہے کہ جو بیٹا میری جان ہے ،جسکے لیئے اُس
نے ہر غم کو حوصلے کے ساتھ برداشت کیا ہے۔ٍوہ اُس کو وقت نہیں دے رہا۔ وہ
اپنی بیوی کے ساتھ زیادہ وقت گزار رہا ہے۔
گھر کا ماحول چند ماہ میں ماں بیٹے میں سے کسی ایک کیلئے" پرایا" ہوا جاتا
ہے۔وہ ماضی میں بھی غموں کی وجہ سے پیٹ کے السر کی مریضہ رہ چکی تھی اور آج
بھی ڈاکٹروں نے اُسکو ایک دفعہ پھر اُس ہی مرض کی مریضہ قرار دے دیا
ہے۔"50"سالہ فرح جو دیکھنے میں عمر میں کہیں زیادہ لگتی ہے اُسکا علاج ہے
خوشی۔جبکہ بیٹا کہتا ہے ماں میں وہی ہوں ۔ آپ کہو تو میں اپنی بیوی کو
اُسکے ماں باپ کے گھر چھوڑ آتا ہوں۔آپ جو سوچ رہی ہیں ویسا کچھ نہیں ہے۔ یہ
گھر آ پ کا ہے اور ہم سب آپ کے ہیں۔لیکن۔۔۔۔۔
فرح کا"ذہنی تناؤ" اُسکو کچھ سمجھنے نہیں دے رہا۔وہ اسکو بھی زندگی کا ایک
نیا جھٹکا سمجھ رہی ہے اور" کھوج رہی ہے "کہ یہ کیسے رویئے ہیں! ایک چھوڑ
گیا ،ایک توڑ گیا ،ایک چُھپا گیا اور ایک آج اپنا بیٹا اُسکو پرایا ہوتا
ہوا نظر آرہا ہے۔یا وہ بذاتِ خوداپنے رویئے سے شکست کھا چکی ہے؟
صدیوں سے یہ فیصلہ کرنا مشکل رہا اور آئندہ صدیوں رہے گا۔
بہرحال میں اپنے ہی ایک شعر سے ایک شکست خوردہ کی سوچ کو بیان کرنے کی کوشش
کرتا ہوں!
ِ متروں کے پھیر سے فطرتوں کے کھیل سے ہو گئی میں من جلی
حقیقتوں کے زہر سے غیبتوں کے سحر سے ہوگئی میں من جلی
دُنیا کے اس گُلشن میں اب آرزو میں کیا کروں
تمھاری نزاکتوں سے اپنی حماقتوں سے ہی ہوگئی میں من جلی
(عارف جمیل) |