غلطی پر کون؟(وہ لمحے میرے نہیں ہوتے۔حصہ دوم)

خوشی جان چکی تھی کہ ملاقات کے دوران فرح کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں تھی جو ہونی چاہیئے تھی۔لیکن اُس ہی دوران سہیل جو اُن دونوں کے قریب آچکا تھا اُسکی آنکھوں میں ایک نئی چمک ضرور تھی۔ جس پرخوشی کو ایک جھٹکا لگا ۔

اُسکو الوداع کہتے تو خوشی کو اپنی موجودگی کا احساس ہوتا

 زندگی جہاں مختلف چیلنجوں کا مقابلہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے وہاں ایک لڑکی کیلئے زندگی کا سب سے بڑا چیلنج اُسکی شادی ہوتی ہے۔"خوشی" بھی اُنہی لڑکیوں میں سے تھی جو انگلش میڈیم سکول سے اعلیٰ ترین نمبروں سے میٹرک پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم کی خواہش رکھتی تھی اور وہ اس ہی کو ایک اہم چیلنج سمجھتی تھی۔ اُس کے والد ایک مایہ ناز کاروباری شخصیت تھے اور والدہ شہر کے ایک مشہور قابلِ قدر اُستاد کی بیٹی۔خوشی کی ایک بڑی بہن اور ایک چھوٹا بھائی تھا۔ لہذا گھریلو ماحول میں کوئی ایسی پابندی نہیں تھی کہ مزید تعلم حاصل کرنے میں کوئی رُکاوٹ ثابت ہو ۔

والدین جہاں بھی بیٹھتے خوشی کی خوش خُلقی ،کام میں مہارت و تیزی اور قابلیت کی تعریف ہی کرتے تھے اور اُسکے والد کی کوشش تھی کہ دونوں بیٹیوں کی شادی جلد ازجلد ہو جائے۔پھر کچھ مدت بعد بڑی کی شادی تو خاندان کے ہی ایک لڑکے سے کر دی گئی جو ایک بینک میں ملازم تھا اور خوشی جسکی ابھی کالج کی تعلیم کا آغاز ہی ہوا تھا کیلئے بھی رشتے کی تلاش شروع کر دی گئی۔

وقت گزرتا رہا اور رشتے آتے رہے ۔ لیکن کوئی فیصلہ نہ ہو پا رہا تھا۔ لہذا اس دوران خوشی کو بھی اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع میسر آگیا اور ساتھ میں ایک اچھا رشتہ بھی آہی گیا۔ملٹی نیشنل کمپنی کے مناسب عمر کے افسر" سہیل "کا ۔جسکا خاندان بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل تھا۔

اگلے چند ما ہ میں خوشی کی شادی ہوگئی اور وہ اپنے خاوند سہیل کے اس رویئے سے بہت خوش ہوئی کہ وہ اُسکے ساتھ ہر بات شیئرکررہے تھے۔اپنے والدین کی جو وفات پا چکے تھے۔ اپنے بہن بھائیوں کی۔ اپنے بچپن سے جوانی تک کی ۔اپنی تعلیمی دوران کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کی اور خصوصاً اپنی موجودہ ملازمت کے دوران اُن کامیابیوں کی جن کی وجہ سے خوشی کے والدین نے بھی اُنکو پسند کیا تھا۔

خوشی کو یہ بھی بہت بھلا محسوس ہو اکہ سہیل کے خاندان کا ماحول بہت دوستانہ تھا اور گفتگو کے دوران کسی بھی بات کا خفیہ رہ جانا مشکل نظر آتا تھا۔لہذا وقتاً فوقتاً اُسکے خاوند کی جوانی کے دلچسپ قصے خاندان والوں نے بیان کر دیئے اور اس ہی دوران ہنستے کھیلتے خوشی کے کان میں یہ آواز بھی آئی کہ اُسکے سہیل کی پہلے بھی ایک لڑکی" فرح" سے منگنی ہوئی تھی۔

خوشی ایک دم اُس طرف متوجہ ہوئی اور تصدیق کرتے ہوئے جاننے کی کوشش کی کہ کیا واقعی کچھ ایسا ہوا تھا؟
ہلکی پُھلکی سی گفتگو میں کسی نے اُس منگنی کی تصدیق تو کر دی لیکن گھر جا کر خوشی نے سہیل سے اُسکی تفصیل بتانے کیلئے کہا ۔سہیل نے بتایا کہ ملازمت کے دوران چند سال پہلے جس شہر میں اُنکا تبادلہ ہوا وہاں اُنکی ملاقات فرح سے ہوئی تھی جس کا تعلق اُنکے اپنے خاندان سے ہی تھا۔ لیکن اُنکو یہ معلوم نہ تھا۔بہر حال خاندانی تعلقات کی وجہ سے اُسکے گھر عام آنا جانا شروع ہو گیا اور پھر کچھ عرصہ بعد خاندان کی رضامندی سے اُس کے ساتھ اُنکی منگنی ہو گئی۔سب بہت خوش تھے اور شادی کی تاریخ مقرر کرنے کی سوچ رہے تھے کہ ایک ایسی آواز سُنائی دینے لگی کہ جیسے وہ روک رہی ہو کہ یہ شادی نہ کرنا۔یہ آواز کہاں سے آرہی تھی؟کون تھا جو یہ شادی نہیں چاہتا تھا؟ ایسا کیا تھا کہ منگنی توڑ دی جائے؟ نہ فرح کا قصور نہ کسی خاندان والے کی داخل اندازی ۔ لیکن پھر بھی کچھ سمجھ نہ آیا اور منگی ٹوٹ گئی۔

خوشی جان چکی تھی کہ اُسکا خاوند اور اُسکے خاندان والے اچھے اور سچے لوگ ہیں اور کسی حد تک وہ اُس لڑکی فرح تک بھی پہنچ گئی تھی جس سے اُسکے خاوند کی منگنی ہوئی تھی۔لہذاُ س نے فیصلہ کیا کہ فی الوقت تمام معاملات دُرست سمت ہیں اس لیئے اپنے خاوند کا خیال ہی اُسکی اولین ترجیع رہنی چاہیئے کیونکہ اُنکی ترجیع بھی "خوشی "ہے۔

کچھ مدت بعد ایک خاندانی تقریب میں فرح بھی مدعو تھی اور خوشی بھی اپنے خاوند کے ساتھ وہاں موجود تھی۔کسی نے بِلا جھجک آگے بڑھ کا خوشی کا فرح سے تعارف کروا دیا اورخوشی نے بھی انتہائی تحمل سے ماضی کی ہر بات کو در گُزر کرتے ہوئے اُسکے ساتھ چند الفاظ میں اپنی پہلی ملاقات کے حوالے سے تبادلہِ خیال کیا۔گو کہ وہ جان چکی تھی کہ ملاقات کے دوران فرح کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں تھی جو ہونی چاہیئے تھی۔لیکن اُس ہی دوران سہیل جو اُن دونوں کے قریب آچکا تھا اُسکی آنکھوں میں ایک نئی چمک ضرور تھی۔ جس پرخوشی کو ایک جھٹکا لگا ۔
(یہاں میرا یہ شعر غور طلب ہے)!
؂ فرق ہوتا ہے اُن لمحوں میں نظروں کا
کوئی کسی کو دیکھتا ہے اور کوئی کسی اور کو

سہیل نے آگے بڑھ فرح کو سلام کیا اور حال احوال کچھ اس انداز میں پوچھا کہ ایک طرف تو وہ فرح بھی سمٹ سی گئی اور دوسری طرف خوشی بھی اپنے خاوند کی اس بے تکلفی سے حیران رہ گئی۔بہرحال گھر جا کر کچھ بحث مباحثے کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہوا اور میاں صاحب نے آئندہ کیلئے احتیاط کی حامی بھر لی۔گو کہ خوشی اپنے خاوند کی اس عادت سے بخوبی واقف تھی کہ خواتین کی محفل میں سہیل کی موجودگی کسی دلچسپی سے کام نہیں ہوتی اور خاص کر اُس وقت جب خواتین خوشی کو یہ کہتیں کہ ہائے !"تمھارے خاوند جیسا ہمارے خاوند بھی ہوتے"۔

خوشی کیلئے یہ الفاظ فخر کے ہوتے یا پریشانی کہ یہ تو کبھی نہ ظاہر کر سکی اور نہ ہی فیصلہ کر پائی کہ سچ جھوٹ کیا ہے۔ اصل میں اُسکو اپنے خاوند کے کردار پر ذرا بھر بھی شک نہیں تھا۔لیکن آئندہ کی بھی مختلف محفلوں میں فرح کی آمد پر سہیل کا جو رویہ اور خصوصی جُھکاؤ فرح کی طرف ہوتا وہ ایک دن خوشی نے اپنے عزیزوں کے سامنے ان الفاظ میں ضرور بیان کر دیا کہ :" وہ لمحے میرے نہیں ہوتے" ۔
ہاں! اُسکو الوداع کہتے ہیں تو مجھے اپنی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔
(خوشی کے دل کا حال میرے اس شعر میں)!
؂ دردِدل بن گئی اُنکی من جلی
خوشی کے لمحات پرائے ہو گئے

Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 205 Articles with 341949 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More