دربارِ نظامی
(Prof Abdullah Bhatti, Lahore)
انسانیت ظلم و جبر اور جہالت کے سمندر میں
جب غرق ہو گئی تو ہمیشہ کی طرح خالقِ ارض و سماء کو دکھی تڑپتی انسانیت پر
ترس آیا اور اپنے محبوب سرتاج الانبیا ء ﷺ کو عرب کی سر زمین پر نجات دہندہ
کے طور پر بھیجا ‘سرور کائنات ﷺ کی آمد کے بعد اور آپ ﷺ کے دنیا فانی سے
جانے کے بعد آج تک مسلمانوں نے اسلام کی اشاعت کے لیے دنیا کے کسی بھی خطے
کو اپنی برکات سے محروم نہیں رکھا ۔ مسلمان جہاں بھی گئے انسانیت نواز
ثقافت اپنے ساتھ لے کر گئے ‘علم انسان سازی اور خدمت خلق اِن کا طرہ امتیاز
رہا ہے ۔ مسلم فاتحین نے جب ہندوستان کا رخ کیا تو اُن کے ساتھ اہلِ ہُنر
کے ساتھ صوفیاء کرام بھی آئے ‘صوفیا ء کرام کی مقدس جماعت کے عظیم صوفی
خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ اِسی سلسلے میں اجمیر شریف وارد ہو ئے ۔ یہ
وہ چشمہ معرفت تھا جس سے کروڑوں لوگوں نے اپنی بے نور پیاسی روحوں کی پیاس
بجھائی۔ خواجہ معین الدینؒ سے فیض خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ اُن سے
بابا فرید گنج شکر ؒ اور پھر بابا فرید ؒ سے یہ فیض حضرت نظام الدین ؒ کو
منتقل ہوا آپ ؒ نے اپنے وقت کے فاضل ترین اساتذہ سے حدیث ‘فقہ ‘اصول تفسیر
اور علم ہندسہ کی تعلیم حاصل کی اور پھر بابا فرید گنج شکر ؒ سے روحانی
تعلیم حاصل کی ‘عوام میں آپ ؒ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ قیامت تک کے
لیے محبوب الٰہی قرار پائے ۔ خالق بے نیاز نے آپ ؒ کی عبادت ریاضت اور
مجاہدے کے بعد اپنا قرب ِ خاص عطا کیا اور شہرت کا وہ مقام بخشا کہ قیامت
تک کے لیے امر ہو گئے ۔ ہزاروں بندگان ِ خدا ہر وقت آپ کے آستانہ عالیہ پر
جمع رہتے ‘ہزاروں بھوکے آپ کے لنگر سے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ‘آپ ؒ کے لنگر
کی یہ خصوصیت تھی کہ غیر مسلموں کے لئے سبزی دال کا لنگر بنایا جا تا ۔ ہر
گزرتے دن کے ساتھ آپ ؒ کی شہرت میں اضافہ ہو تا جا رہا تھا ۔ آپ ؒ کے در پر
جو بھی آتا ہر قسم کی ضرورت سے بے نیاز ہو جا تا ۔ دنیاوی مسائل سے ستائے
ہو ئے ہزاروں مجبور بے بس لوگ اپنی جھولیا ں پھیلائے آپ ؒ کے در اقدس پرآتے
اور اپنی جھولیاں مرادوں سے بھر کو لو ٹتے ۔جب بھی کو ئی پریشان حال شخص سے
کو ئی پو چھتا کہ تم کہاں جا رہے ہو تو وہ بے اختیار پکار اٹھتا میں شہنشاہ
کے پاس جا رہا ہوں ‘سننے والا دوبارہ پو چھتا بادشاہ علاؤالدین خلجی کے
دربار میں جا رہے ہو تو جانے والا کہتا میں کسی بادشاہ کو نہیں جانتا میرے
سلطان اور شہنشاہ تو حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی ہیں میں اُن کے
دربار جا رہا ہوں ۔ دربار نظامی ؒ کی شہرت چاروں طرف پھیل چکی تھی ۔ یہاں
تک کہ عوامی حلقوں میں حضرت نظام الدین اولیاءؒ کو ہی حقیقی بے تاج بادشاہ
کہا جا نے لگا ۔ پھر اِن آوازوں میں اتنی شدت پیدا ہو گئی کہ بادشاہ
علاؤالدین خلجی کی سماعت بھی ان سے محفوظ نہ رہ سکی ‘حاسدوں نے بادشاہ سے
کہنا شروع کر دیا کہ حضرت نظام الدین ؒ کے ہزاروں مریدین ہیں اور وہ کسی
وقت بھی لشکر کا روپ دھار سکتے ہیں اور عوام بھی اصل دربار شاہی اور بادشاہ
حضرت نظام الدین ؒ کو سمجھتی ہے ۔ اور اگر بادشاہ نے اس طرف توجہ نہ دی تو
کسی دن یہ بوریا نشین تخت ہندوستان کا وارث نہ بن بیٹھے ۔ حاسدوں اور خو
شامدوں نے دن رات اِسی حاشیہ برداری سے بادشاہ کے ذہن کو منتشر کر دیا اب
وہ بھی پریشان نظر آنے لگا ۔ اب بادشاہ دن رات اِس مسئلے کے بارے میں سوچتا
رہتا کہ کس طرح پتہ چلایا جائے کہ حضرت نظام الدین ؒ اولیا اقتدار کی خواہش
رکھتے ہیں یا نہیں کئی دن سوچنے کے بعد بادشاہ نے ایک طریقہ نکالا اور بہت
چالاکی سے ایک مسودہ مرتب کرایا جس کا مضمون حسب ذیل تھا ۔ سلطان المشائخ
پو ری دنیا کے مخدوم ہیں ۔ تمام ہند کے لوگ دنیاوی اور مذہبی معاملات میں
آپ ؒ کی طرف رجوع کر تے ہیں ۔ جبکہ اﷲ تعالی نے اِس ملک کی حکومت مجھے بخشی
ہے اور عوام کی ذمہ داریاں میرے سپر د ہیں اِس لیے مُجھ پر لازم ہے کہ میں
تمام امور میں آپ ؒ سے مشورہ کروں براہِ کرم مجھے تحریر فرما دیجئے کہ میں
کس طرح امورِ سلطنت چلاؤں اور کس کام میں میری سلطنت کی بہتری ہے میں آپ ؒ
کو یقین دلاتا ہوں کہ پوری کو شش کروں گا کہ آپ ؒ کے حکم کی تعمیل کر سکوں
۔ پھر بادشاہ نے اِس تحریر کو اپنے بیٹے خضرِ خاں کے ہاتھوں حضرت نظام
الدین ؒ کے ہاں بھیجا ۔ خضرِخان سلطانی تحریر کے ساتھ نظام الدین ؒ کے درِ
اقدس پر حاضر ہو ا ۔ خضرِ خاں شاہی مسودے اور مضمون سے بے خبر تھا ۔ اُس نے
جاکر نہایت احترام سے سلطان کا خط حضور ؒ کو پیش کر دیا ۔ محبوب الٰہی نے
چند لمحے بند لفافے کو دیکھا اور کھولے پڑھے بغیر ہی بولے ‘بوریا نشین
فقیروں کو شہنشاہی کاموں سے کیا غرض ؟ میں ایک خاک نشین فقیر کی حیثیت سے
تمھارے شہر میں رہتا ہوں اور پچھلے کئی سالوں سے یہی میرا طر ز زندگی ہے‘
یہاں کے رہنے والوں کے لیے دعائے خیر کر تا ہوں اور میں جب تک زندہ ہوں یہ
دعا کر تا رہوں گا اس کے باوجود اگر شہنشاہِ ہند کو میرے یہاں قیام پر
اعتراض ہے تو پھر میں اِس شہر کو چھوڑ کر کسی دوسرے شہر چلا جا تا ہوں کیو
نکہ اﷲ کی زمین بہت وسیع ہے ۔ یہ بات کہہ کر خط پڑھے بغیر بادشاہ کے بیٹے
کو واپس کر دیا ۔ اور پھر خضرِ خاں نے جاکر اپنے والد کو تمام تفصیلات بتا
دیں ۔ بادشاہ حیران تھا کہ محبوب الٰہی نے خط پڑھے بغیر وہی جواب دیا جو خط
میں درج تھا بادشاہ بہت زیادہ حیرت میں تھا اور اِس طرح وہ حضرت نظام
الدینؒ کے روحانی تصرف اور کشف سے بھی واقف ہو گیا ۔ پھر بادشاہ نے سب کے
سامنے اعلان کیا ۔ جو لوگ مجھے حضرت ؒ کے خلاف اکسا رہے تھے وہ ہمیشہ کے
لیے اپنی گستاخ زبانیں بند رکھیں کیونکہ وہ تو واقعی بے نیاز مردِ قلندر
ہیں ‘جنہیں میری سلطنت سے کوئی غرض نہیں اور اﷲ تعالی کا شکر ادا کیا کہ وہ
ایک بڑے گناہ سے بچ گیا ۔ یہ سن کر تمام حاسدوں کے منہ اُتر گئے اور ان کی
تمام سازشیں ناکام ہو گئیں ۔ پھر سلطان خلجی نے ایک معذرت نامہ حضرت ؒ کی
خدمت میں بھیجا ۔ کہ میں حضور ؒ کا تہہ دل سے معتقد ہوں مجھے میری جرات بے
باکی اور گستاخی پر معاف کیا جائے اور یہ اعزاز بھی بخشا جا ئے کہ میں خود
حاضر ہو کر قدم بو سی کی عظیم سعادت حاصل کر سکوں جس کے جواب میں بے نیاز
مردِ قلندر نے کہا آپ ؒ کو میرے پاس آنے کی کو ئی ضرورت نہیں ہے ۔ میں یہاں
آپ کے لیے غائبانہ دعا کر تا رہوں گا کیونکہ غائبانہ دعا میں زیادہ تاثیر
ہو تی ہے ۔ ہندوستان کے بادشاہ نے جواب سنا تو بہت اداس ہوا اس کی زندگی
میں حضرت محبوب الٰہی واحد بزرگ جو نہ تو اُس کی نظر قبول کر تے تھے اور نہ
ہی اپنے پاس آنے کی اجازت دیتے تھے ۔بلاشبہ دنیاوی بادشاہ تو علاؤالدین ہی
تھا مگر دلوں اور روحوں کے حکمران تو محبوب الٰہیؒ ہی تھے جن کے دربار میں
ہزاروں سوالی اپنی جھولی پھیلائے آتے اور جھولیاں بھر لوٹتے دربارِ نظامی
سے کبھی کو ئی خالی ہاتھ نہ گیا ۔ |
|