کعبہ بہارِرحمت روضہ قراروراحت
نوٹ: شکر اللہ کاآج ”حج ڈائری“ کی پانچویں قسط پیش کر نے کی سعادت حاصل کر
رہاہوں۔ گزشتہ قسطوں کے متعلق قارئین کرام کے تاثرات مسلسل موصول ہوئے ۔ یہ
میر ے لئے حوصلہ افزاءبھی ہیں ۔اور ان سے اپنی غلطیاں سدھارنے میں رہنما ئی
ملتی ہے۔ میں قارئین کے ان بیش قیمت تاثرات کا تہ دل سے خیر مقدم
کرتاہوں۔جن اصحاب نے پروف ریڈنگ کی طرف توجہ دلائی یا جن دوستوں نے ڈائری
کو کتابی صورت دینے کی مخلصانہ فرمائش کی، اُن کے حکم کی تعمیل کے لئے خدا
وند قدوس سے مدد کا محتاج ہوں۔اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے ۔ میں خاص
طور پر ڈاکٹر مر غوب بانہالی صاحب کا مرہون ِ منت ہوں کہ انہوں نے اس عاصی
کو حج کے لئے مبارک باددی اور اس ٹوٹے پھوٹے سفرنامے کی قسطوں کوسراہا ۔
مرغوب صاحب ہماری ادبی دنیا کے کو کب ِ تاباں ہیں ۔ نرم دمِ گفتگو گرم دمِ
جستجوکے ایمانی قالب میں ڈھلی اُن کی شخصیت کے کیا کہنے ۔ اس شخصیت کے اندر
ایک سنجیدہ معلم، دانش ور ، شاعر، کشمیری زبان کے محب اورفارسی و عربی زبان
وادب کے عاشق کا بسیراہی نہیں بلکہ ایک اصلاح کار، دینی علوم کے شناسا،
توحید کے نغمہ خواں ، ملّی غیرت اور انسان دوستی کے پیام بر کا مسکن بھی
یہاںآباد ہے۔ حال ہی میں اُنہوں نے احتجاجاً اپنا ادبی ایوارڈ متعلقین کو
واپس کر دیا۔رب ِ کعبہ انہیں اس کا بہترین اُخروی نعم البدل دے۔معروف ادیب
و افسانہ نگار جناب حسن ساہو کے تاثرات میرے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ ہیں ۔
اللہ علم وادب کی دنیا پر اُن کا سایہ دراز فرمائے۔ سیدین وقار محکمہ تعلیم
کے ایک ادب نواز مدرس ہی نہیں بلکہ فن ِ صحافت میں قابل قدر ادراک رکھنے
والے شاہین صفت اہل قلم بھی ہیں ۔ انہوں نے برسوں”کشمیرعظمیٰ“ کے عملہ
ادارت میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ گزشتہ سال خود بھی
حج ِ بیت اللہ کا شرف حاصل کر گئے ۔ اُن کی مبارک باد اور حج ڈائری کے بارے
میں اُن کے تاثرات اور تجاویز میرے لئے کسی ہدیہ تبر یک سے کم نہیں ۔ جناب
خورشیدا حمد قانونگو ، صدر حمایت الاسلام کا ایک وسیع المشرب اور کشادہ ذہن
عالم دین ہونے کے علاوہ ہمارے معزز کالم نگار بھی ہیں ۔ ان کابے حد شکر
گزراہوں کہ میرے حج کی قبولیت کے لئے دعائے خیر کی ۔ جنوبی کشمیر کے ہمارے
ایک معروف کالم نگار جناب محمد یوسف مکرو صاحب کے پیار اور دُلار کا شکریہ
ادا کر نے کے لئے میرے پاس موزون الفاظ ہی نہیں ۔ دعاہے اللہ اُن کے
ارمانوں کی جھولی بھر تے ہوئے دوبارہ اُنہیں خانہ اطہرکعبہ کا طواف اور
روضہ کی زیارت نصیب کر دے۔ انہوں نے پہلے ہی اپنے والد نسبتی کا حج بدل
کیاہے ۔ شفیع نقیب، غلام نبی کشافی، گلشن محل یتیم خانہ کے سابق ذمہ دار
عبدالحمید بٹ گاندربل ، مجید مجروح اور کالم نویس بلال احمد پرے کا بھی دل
کی عمیق گہرائیوںسے شکر یہ اداکر نا مجھ پر واجب ہے ۔
چوتھی قسط میں دل اور دماغ کی بے راہ ریوںاور کج رویوں کے بارے میں
چندباتیں عرض کی تھیں ۔ اس بابت وضاحتاً یہ لکھناضروری سمجھتاہوں کہ دل اور
دماغ ہر سلیم ا لفطرت انسان کے لئے متاعِ گراں مایہ ہیں، یہ اللہ کی بہترین
نعمتیں ہیں جن کے بغیر خدا پرستانہ زندگی کا تصور کرنا بھی محال ہے ۔ اللہ
تعالیٰ نے اشرف المخلوقات انسان کی تخلیق وپیدائش احسن التقویم یعنی بہترین
ساخت پر کی اور پھر اسے اسفل السافلین یعنی نیچوں سے نیچ کر دیا۔(ملاحظہ ہو
سورہ” التین“۔ سورہ نمبر ۵۹ )۔ خالق ِ کائنات اپنے انعامات انسان کوبخش بخش
کر اُسے کیا سے کیا کر دیتا ہے مگر جب کوتاہ بین انسان انعاماتِ الہٰیہ کی
ناقدری اور ناشکری پر اُترآئے تو اللہ یہ سب واپس چھین کر اُسے پستیوں میں
گرادیتاہے ۔ منعم حقیقی نے بِن مانگے ہر فرد بشر کو دل و دماغ ، قوتِ سماعت
اور قوتِ بصارت کاخزانہ ودیعت کر دیا ہے تاکہ ہر دوراہے پر اُس کو اپنے
وجدان ، مشاہدات اور محسوسات کی وسیلے سے بہتر ین رہنمائی مل جائے ۔ دوسرے
لفظوں میں یہ اولادِ آدم کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ وہ خدائی نعمتوںا ور
صلاحیتوں کا صحیح ومبنی بر انصاف استعمال کر کے رشک ِ ملائکہ بن جائیں یا
ان کا غلط استعمال کرکے شیطان کی تقلید میںنیچے لڑھک جائیں ۔ قرآن کریم ان
نعمتوں کو ضائع کر نے والوں کے بارے میں کہتاہے : اور یہ حقیقت ہے کہ بہت
سے جِن اور انسان ایسے ہیں کہ جن کو ہم نے جہنم کے لئے پیدا کیاہے ۔ اُن کے
پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں،اُن کے پا س آنکھیں ہیں مگر وہ اُ ن سے
دیکھتے نہیں۔ اُن کے پا س کان ہیں مگر وہ اُن سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی
طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے
ہوئے ہیں ۔( سورہ اعراف۔۔۔ سورہ نمبر ۷)۔ معزز قارئین نوٹ فرمائیں کہ میں
نے گزشتہ شمارے میں صرف اپنے کج ادادقلب اورکج رو ذہن کی بات کی تھی۔
٭٭٭ ش م احمد
بورڈنگ کارڈ ہاتھ میں لئے اب ہمارا قافلہ سعودی ا ئر لائنز کے عالی شان
طیارے میں داخل ہو نے لگا۔ ابھی ہوائی جہاز کو اُڑان بھرنے میں ایک خاصا
وقفہ حائل تھا ۔ ہم دونوں میاں بیوی بڑے ہی اشتیاق اور پاک جذبات کے ساتھ
طیارے میں داخل ہوگئے ۔۔۔ استغفراللہ۔۔ یہاں توپہلی ہی نظر میں جواں سال
ائر ہاٹسسوں سے پالا پڑا۔ شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں نے استغفراللہ
کا کلمہ یہاںکیوں لکھا ۔ یہ خوب صورت دوشیزائیں مسکراتے ہوئے تمام
سواریوںکا پر تپاک استقبال کر رہی تھیں۔ اُن کے سر پہ فیشن ایبل سکارف اور
اس کے اوپر مخصوص وضع قطع کے دیدہ زیب کیپ تھے ، ان کے لباس کی تراش خراش
سے لے کر بناؤ سنگھار تک یہی جھلکتاتھا کہ ہم شاید کسی مغربی ملک کی سیرو
تفریح کے لئے نکلے ہیں ۔ ہماری”ضیافتِ طبع“ کے لئے ہوائی یہ فضائی کمپنی کا
انتظام تھا یا ہمیں پانی پانی کر نے کا اہتمام؟ یہ میں نہیں کہہ سکتا مگر
جدید دنیا میں چونکہ ہر چیز کمرشیلائز ہو کر رہ گئی ہے ،ا س لئے ہوائی
کمپنیاں بھی زیادہ سے زیادہ گاہکوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے واسطے ایک سے
بڑھ کر ایک دلکش تماشے دکھانے کی دوڑ میں رہتی ہیں ۔ البتہ سعودی لائنز میں
بھی یہ سارا کچھ ہو گا، اس کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔ یہ منظر دیکھ کر محسو
س ہوا جیسے کوئی چور تاک میں بیٹھا ہو اتھاکہ کب معتمرین کے دل ِ وجود سے
وہ پاکی و طہارت والا انمول تاثر جو گھر کی دہلیزسے لے کر ہوائی جہاز کے
دروازے تک قدم قدم پر ہمارا رفیقِ سفر بنا رہا ، کسی طرح کھر چ کر بھاگ
کھڑا ہو۔ حالانکہ جوش اور ولولے کی یہ بیش قیمت شئے ہماری سوچ اور ہمارے
تخیل کو نیک خیالات کے اسہپ ِ تیز گام پر سوار کر تی رہی، شعور کی
گہرائیوںمیں اُتر کر گناہوں سے تائب ہونے اور نیکیاں کمانے کا جذبہ صادقہ
کو مہمیز دےتی رہی مگر اب یہاں یہ منظر دیکھ کر اس روح پرورتاثر کے زائل ہو
نے کااندیشہ دامن گیر ہونے لگا۔ حسا س ذہن اس طرح کی صورت حال سے ہل کر رہ
جائے تو انااللہ پڑھ کر اپنے حیرت واستعجاب کا اظہار کرتاہے ۔۔۔ شوق کے
پنچھی نے میری دل شکنی کا یہ سماں دیکھا تو فقرہ بازی شروع کی ، کہا بڑے
بھولے ہو! ماضی بعید کے کس تہ خانے میں ابھی تک مقید ہو ؟ زیادہ باریک
سوچنے بیٹھو گے تو دقیانوسی اور رجعت پسند کہلاؤگے اور پھر اتنی نہ بڑھا
پاکی داماں کی حکایت ،دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند ِقبا کھول ۔ ان ائر ہاسٹس
سے اتنا سٹپٹائے تومسلمانوں کے اُن ٹی وی چنلوں پر کبھی حشم آلودہ ہوتے
ہوجوحسین وجمیل محترماؤں کوبن ٹھن کے پورے بناؤسنگھارکے ساتھ اسکرین پر
لاتی ہیں، ان سے نعت خوانیاں اور اسلامی موضوعات پر تقریریں کرواتی ہیں ؟
کیا حیا اور پردے کا ٹھیکہ صرف سعودی ائر لائنز نے لیاہے ؟یہ جو دیکھ کر تم
پشیماں ہورہے ہو، یہی اب زمانے کاچلن اور دنیا کا دستور ہے ۔ آج کل سموچے
اونٹ نگل لئے جاتے ہیں اور مچھر چھانٹے جاتے ہیں ۔ہاں ، اگر وہ حج وعمرہ
میںقرون اولیٰ کی جھلکیاں دیکھنے کی تمنا ہے تو پہلے اپنے پیکر خاکی میں
جاں پیدا کر۔ یہ دورِ جدید کی برق رفتار ترقی ہے، سطحِ زمین پر دوڑتی ہے ،
آسمانوں میں اُڑتی ، فضاؤں میں اُچھلتی ہے ۔ یہ تھوڑا ہی گئے زمانے کا وہ
پا پیادہ یااونٹوں پر کیا جانے والا روح پرور سفر محمودہے جو عازمین ِحج
وعمرہ مہینوں دشت و بیابان، صحرا وجنگل کی مسافتیں کاٹ کر، سمندروں صحراوں
کو پاٹ کر ،موسموں کے سردوگرم کو برداشت کر کرکے، قزاقوں اور ڈاکووں کے
خطرات سے بے نیاز ہوکر، بھوک اور پیاس کی سختیاں جھیل کر طے کر جاتے تھے؟
وہ خوش بخت اب کہاں جوبیت اللہ کا طویل سفر ہمالیائی تقویٰ کے جیب خرچہ پر
کرکے اپنے شوق کی پر ورش مشکلات کی خوراک سے کیا کر تے تھے ، اپنے صبر
وبرداشت کا بھرم تکالیف کی بارشوں میں بھی بہ تمام وکمال رکھتے تھے ، اپنے
گھر کی تمام فکریں اور زادِ راہ کی کمی کو توکل علی اللہ کے کھونٹے سے
باندھ کر دیوانہ وار اُسی کی راہ میں نکل آتے تھے ، وہ تواول تاآخر اللہ کے
گھر اور اس کے محبوبﷺ کی ابدی آرام گاہ کے دیدار کے خیال میں لمحہ لمحہ گھل
جاتے تھے۔ اُن کو تفریحات اور سہولیات میں نہیں اللہ کی رحمت وبرکات میں
لطف آتا تھا۔۔۔ ایک ہم اس زمانے کے لوگ ہیں کہ سفر حجاز کے دوران سہولیات
میں معمولی کمی بیشی ہو ئی تو آسمان سر پر اُٹھائیں، کام و دہن کی لذتوں
میں انیس بیس کا فرق پایاتو لڑائی جھگڑے اورطعنہ زنیاں کریں، اپنا خیال نہ
دوسروں سے شرم ۔ ارے خدا کے بندے! ہم ہی میں تووہ بھی ہیں جو مکان کی
تعمیر، شادی کی تقریب اور سامان ِ تعیش پر لاکھوں کروڑوں ضائع کر جاتے ہیں
مگر صاحبِ استطاعت ہو نے کے باوجودحج کے اہم فرض کو اندیشہ ہائے دور دراز
کے چکر میں نظرا نداز کرجاتے ہیں:اناللہ وانا الیہ راجعون
آہ نہ کر لبوں کوسی ، عشق ہے دل لگی نہیں
سینے پہ تیر کھائے جا، آگے قدم بڑھائے جا
طیارے میں تفریح ِ طبع کے اس اہتمامِ شوق کو چاہے ہم انٹرنیشنل فلائٹس کا
لازمہ ہی مانیں مگر تادیر میری پریشان خیالی نے سوالات کا کوڑا بن کر دماغ
کاکچومر نکالا ۔ اس ذہنی آویزش سے میں اپنا دامن چھڑا ہی نہیں پارہا تھا کہ
اگر یہ عام مسافرت نہیں سفر محمود ہے، تو ان محترماؤں کا یہاں کیا کام؟ کیا
یہ ڈیوٹی مرد انجام نہیں دے سکتے تھے ؟ میرے جذبات مجروح ہونے کی اصل وجہ
یہ تھی کہ یہ خوش بختانہ سفر روحوں کی طہارت سے وابستہ تھا، اس کی روحانی
تاثیر ہمہ وقت خوشگوار مشاہدات اور نیک خیالات سے مشروط تھی۔ افسوس ! مجھے
یہاں معاملہ تضاد اور دوئی کا نظر آیا ۔اس کی بہتر تصویر کشی اقبالؒ نے کی
ہے
متاعِ دین ودنیا لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافرادا کا غمزہ خوں ریز ہے ساقی
کسی بھی عام انسان کی طرح یہ غمزہ خوں ریز میرے جذبات کو پژمردہ کردیتا،
قنوطیت کا برفآب جگر کی تپش کو ٹھنڈا کرجاتااور تجسس کی آنچ کوبجھا دیتااگ
پر یشانی قلب کوفوری طور شوق کے پنچھی سے یہ دلاسہ نہ ملتاکہ اسلام ایک
العروةالوثقی(سورہ بقرہ: آیت ۶۵۲) یعنی فلاح وسعادت کی مضبوط ٹہنی ، مستحکم
سہارا ہے ، یہ ہو اکے جھونکوں سے تحلیل نہیں ہوتا، یہ نصر بن حارث کے
تماشوں اور بہکاوں سے اپنا سمت ِ سفر نہیں بدلتا، یہ کسی کی مخالفت سے نہیں
دبتا،یہ کسی کی حمایت کا محتاج نہیں ہوتا، اس کو خارجی سے زیادہ داخلی
خطرات سے بچانا ہوتاہے، یہ ابلیس کے حملے اور وسوسہ اندازیوں سے کبھی بھی
خوف نہیں کھاتا بلکہ بندہ مولائے کائنات کا حقیقی وفادار ہو تو نیک عملی کے
واحد اسلحہ سے ہرشیطان کو مات دیتا ہے، ا ور پھر شیطان شکست فاش کیوں نہ
کھائے ،ا س کا ہر حربہ تو تارِعنکبوت کی طرح انتہائی کمزور ہی ہوتاہے۔ شرط
یہ ہے کہ ایمان کا مدعی ابلیس کے جنگی کرتبوں ، اس کے بھیس بدلنے کے فن اور
ڈسنے کے سوراخوں سے ہمیشہ چوکنارہے۔ شیطان کے ساتھ ا س تازیست جنگ میں
ایمان و اَمان کے لئے یہ حدیث مبارک ایک موثرڈھال ہے : فرمایا شیطان ہر
انسان کے خون میں گردش کرتاہے ۔ کسی صحابہ ؓ نے کمال جرأ ت سے سوال
کیا:میرے آقا! کیا آپ کے ساتھ بھی یہ معاملہ ہے آپ ﷺ نے جواب دیا ہاں،مگر
ہم نے اپنے شیطان کو مشرف بہ ایمان کیا ہواہے ۔ جہاز میں بیٹھے بیٹھے اس
حدیث کی یاد دہانی سے ذہنی تعذیب وتذبذب سے چھٹکارا پایا، سکون ملا، راحت
ملی اور طبیعت سنبھل گئی ۔ یہ بات البتہ لاکھ بھلائے بھول نہ پایا کہ سفرِ
حجاز کی عظمت اور یہ ائرہا سٹسوں کا جھرمٹ بہر صورت مجموعہ اضداد ہے ۔ ۔۔
تاسف اورتعجب کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس تکلیف دہ منظر کو کئی گھنٹوں تک
سبوں نے جوں توں برداشت کرناتھا، سو کر ہی لیا۔ اسلام نے ایسے تمام نازک
مواقع پر اہل ایمان کو یکہ وتنہا نہیں چھوڑا بلکہ اُنہیںغض ِ بصر یعنی
نظریں نیچے کر نے کی ایک کارگر حکمت عملی سکھائی ہے ۔ سورہ نور میں ہے :(اے
پیغمبر) مسلمان مردوں سے کہہ دے( عورتوں کے سامنے آئیں تو) اپنی نگائیں
نیچے رکھیںاور اپنے ستر کی نگہداشت سے غافل نہ ہو ں۔ یہ اُن کے لئے زیادہ
پاک نفسی کا طریقہ ہوگا۔( ۴۲:۰۳)بات مردوںپر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ تقدیم
وتاخیر کی فطری تقسیم کو ملحوظ نظر رکھ کرآگے ملت کی بیٹیوں کے لئے بھی اسی
طرح کا حکم معاًبعد دیاگیا: اور ( اسی )طر ح مسلمان عورتوں سے بھی کہہ دیں(
مردوں کے سامنے آئیں تو) نگاہیں نیچی رکھیں۔ اپنے ستر کی نگہداشت سے غافل
نہ ہوں، اپنا بناو¿ سنگھار لوگوں کو نہ دکھائیں، مگر ہاں اُسی قدر کہ
(لازمی طور پر) دیکھنے میں آتاہے۔(۴۲:۱۳)
اس دفاعی حکمت عملی کی فرضیت ہم پر اللہ کی بڑی مہربانی ہے ۔ بایں ہمہ آج
کل چاروں طرف اندھیر نگری ہے، بے پردگی کو جدید یت ، عریانیت کو آزاد خیالی
اور بے ہودگیاں قبول کر نے کو روشن خیالی اور اعتدال نوازی بتایا جائے تو
ماں بہن بیٹی کی عزت وناموس کے رکھوالے کسی باغیرت انسان کے پاس سوائے صرف
غض ِبصر کے اور کچھ باقی نہیں بچتا۔ اُس کے پاس طاقت ،صلاحیت اور حالات کی
موافقت ہو تو بے پردگی کے خلاف زبان وقلم سے تبلیغی ودعوتی محاذ کھولنابھی
اس کا فرض ہے ۔ اسلام نے طبقہ نسواں کوعزت و تکریم والا بنایا ہے مگر ہم
اُن کو متاعِ کوچہ وبازار بنانے پر تلے ہوئے ہوں تو اس میں دوش کس کاہے؟
لیجئے طیارے نے اُڑان بھرنا شروع کیا، لگ بھگ تمام سواریاں احرام میں ملبو
س ہیں ، عمرے کی نیت میقات پر کی جائے گی۔ ا س وقت ہر دل میں مکہ معظمہ کی
سرز مین کو جلد از جلد محبت و احترام سے چومنے کا اشتیاق پل پل بے چینی کی
کروٹیں لے رہاہے ، ہر زبان پر کلمات اور دعائیں ورد ِ ہیں، پاکی قلب کی
رُوح پرورفضا کا غلبہ ہے ۔ دفعتاً زمان و مکان کی قیودپھلانگنے سے قبل جہاز
کے پبلک ایڈریس سسٹم نے ہمارے سفر محمودکی بسمہ اللہ پیغمبر کریم ﷺ کی اُس
مسنون دعا سے کی جو آپ ہر سفر کی ابتداءمیں ہمیشہ فرماتے۔ طیارہ اپنے وقت
مقررہ پر یہ ممبئی ائر پورٹ سے پرواز کر کے اب جدہ شریف کی طرف ہوا کے دوش
پر اُڑرہاہے۔ ہزاروں میل کا سفر،اللہ اللہ کتنا عظیم سفر ! طیارہ متعدد
شہروں ، وسیع سمندروں، پہاڑوں،صحراؤ ں کی سرحدیں عبور کر کے اس لافانی
ولاثانی چمن کی طرف بصد شوق جارہا ہے جس کی معطر فضاؤں کو، جس کی خوشبوؤں
کو،جس کی مٹی ہی نہیں دھول کو بھی خداوند کریم نے پورے کرہ ارض پر خصوصی
طور جاودانی شرف نصیب کیا ہے ۔ |