نظام وضبط کسی بھی قو م کی ترقی کے لیے
ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔جو قومیں نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ
اقوام ِ عالم میں اپنا ایک نام بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں ۔ ہماری ارض
وطن اور قوم خصوصا اس خوبی سے بھی محروم ہے ۔ سیاسی جلسوں میں ہلڑ بازی اور
افرا تفری عام ہے ۔ نظم و ضبط کا مظاہرہ بھی خال خال ہی کیا جاتا ہے ۔ جلسے
تو درکنار ، ٹی وی شوز اور قومی اسمبلی میں بھی بدنظمی کے مظاہرے عام ہیں ۔
انتخابات کے موسم میں تو اس طرح کے ہنگامے عام ہیں ۔بدلیاتی انتخابات کے
آغاز کے ساتھ ہی ملک کے طول و عرض میں سیاسی ، پارٹی بنیادوں پر جلسے جلوس
کا انعقاد کیا جا رہا ہے ۔ ہر پارٹی رہنما کی کوشش ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ
عوام تک رسائی حاصل کرکے اپنی جیت کو یقینی بنائیں۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ
جلسے منعقد کیے جا رہے ہیں ۔ جہاں جہاں کوئی جلسہ منعقد ہوتا ہے وہاں وہاں
سڑکوں کو بلاک کر دیا جاتا ہے ٹریفک کو روک دیا جاتا ہے ۔ کسی بھی سیاسی
پارٹی کے حالات کا جائزہ لینا ہو تو اس کے جلسوں میں نظم و ضبط کو دیکھ لیں
۔میڈیا اور اخبارات پارٹیوں کے جلسوں کا احوال براہ ِ راست پیش کرتے ہیں ان
میں کچھ تو درست ہوتا ہے جبکہ کچھ مبالغہ آرائی بھی ہوتی ہے ۔ہمارے ملک کی
ہر سیاسی پارٹی کے جلسے میں ہنگامہ آرائی ایک عام بات ہے اور اگر کوئی کہے
کہ اس پارٹی کے ارکان یاکارکنان نے نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا تھا تو یہ نعید
از قیاس بات لگتی ہے ۔
لیکن ہمارے ملک کی سیاست میں بھی کبھی کبھی ان ہونیاں ہو ہی جاتی ہیں اور
اس طرح کی ان ہونہوں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہماری قوم بھی نظم و ضبط
کا مظاہرہ کر سکتی ہے اگر منتظمین اور پارٹی قیادت ذہانت اور اعلیٰ نظم و
ضبط کا مظاہرہ کرے ۔ آپ بھی حیران ہوں گے کہ ہمارے ملک کی سیاسی پارٹیاں
اور نظم و ضبط، دو الگ الگ باتیں ہیں اور ناممکنات میں سے ہیں ۔ یہاں میں
ایک جلسے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتی چلوں ۔مورخہ یکم دسمبر کو راولپنڈی
کے علاقہ صادق آباد میں پی ٹی آئی نے بدلیاتی انتخابات کی مہم کو کامیاب
بنانے کے لیے جلسہ منعقد کیا۔ یہ جلسہ ایک سڑک پر منعقد کیا گیا ۔یہ جلسہ
شام کے وقت منعقد کیا گیا جب تقریبا تمام اداروں میں چھٹی ہو چکی ہوتی ہے ۔
کم و بیش جب ہم اس سڑک سے گزرے جہاں جلسہ ہو رہا تھا ، اس وقت پانچ بج کر
بیس منٹ ہو چکے تھے ۔ ہمیں یہ علم ہی نہیں تھا کہ اس علاقہ میں کوئی جلسہ
ہے ، ہماری گاڑی آفس کے بتائے گئے روٹ کے مطابق اس سڑک سے گزر رہے تھے ۔ اس
سرک پر موجود جلسے میں شامل کارکنوں کا جوش و جذبہ اور وہاں کا نظم و ضبط
ہمیں حیران کر دینے کو کافی تھا ۔ پہلی بار کوئی ایسا جلسہ میری نظر سے
گزرا ہے جہاں نہ تو سڑک کو بلاک کیا گیا تھا اور نہ ہی گاڑیوں کو روکا جا
رہا تھا ۔ منتیعنی جلسہ بھی جاری تھا اور ٹریفک بھی رواں دواں تھی ۔
منتظمیں اور کارکنان نے ایک سقید رنگ کی رسی پکڑ رکھی تھی جو سڑک کو دو
حصوں میں تقسیم کر رہی تھی ۔ ایک حصۃ وہ جس طرف کارکن اور جلسے میں شامل
افراد کھڑے تھے اور نعرے لگا رہے تھے جبکہ دوسری جانب سے سڑک پر ٹریفک رواں
دواں تھی ۔ ی لاؤڈ سپیکر پر بار بار اعلان ہو رہا تھا کہ جلسہ میں شامل
افراد رسی کے ایک جانب رہیں تاکہ دوسری جانب ٹریفک کے بہاؤ میں کوئی رکاوٹ
نہ آنے پائے ۔ اعلان سننے والے بنا کسی دھکم پیل کے رسی کی ایک جانب سرک
جاتے اور دوسری جانب آدھی سڑک کھلی رہتی ۔
راولپنڈی تو کیا اسلام آباد کے رہنے والوں کے لیے بھی ایک حیران کن جلسہ ہو
گا بلکہ یقینا یہ ناقابل ِ یقین سا لگتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی جس کے جلسوں
میں عموما ہنگامہ آرائی دکھائی دیتی ہے وہ ملک جہاں اس وقت تک جلسہ مکمل ہی
نہیں ہوتا جب تک کہ ٹریفک کو روکا نہ جائے جہاں لوگوں کو زبر دستی جلسے میں
شامل کیا جانا عام سی بات ہے۔ جہاں یہ تک ممکن ہے کہ ایک ہی پارٹی کے کارکن
آپس میں لڑ پڑیں اور کرسیاں الٹ دی جاتی ہوں ۔ وہا ں اس نوعیت کا نظم و ضبط
۔ میں بھی اگر یہ خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتی تو شاید یہ بات میرے لیے
بھی ناقابل ِ یقین ہوتی ۔ میرے ذہن میں پی ٹی آئی کے وہ جلسے گھوم گئے جن
میں بے تحاشا ہلڑ بازی کی گئی تھی اور اسلام آبا دمیں منعقد کیئے گئے تھے ۔
بات یہاں تک محدود نہیں ہے ۔ کچھ لمحے بعد کا نظارا میرے لیے اس لیے زیادہ
حیران کن تھا۔ جب پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان اس جلسے میں شرکت کی
خاطر آئے اور ان کی گاڑی ہماری گاڑی کے بالکل ساتھ سے گزری ۔ محافظ فورس کی
ایک گاڑی جس میں پانچ افراد سوار تھے اس کے پیچھے عمران خان کی گاڑی جس میں
ایک ان کا ڈرائیور اور ایک گارڈ موجو د تھا ۔ عمران خان گاڑی کی فرنٹ سیٹ
پر ڈائیور کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ اس گاڑی کے پیچھے کارکنان کی گاڑیاں تھی ۔
سیکیوڑی وجوہات کے باوجود سڑک عوام کی آمد و رفت کے لیے کھلی تھی ۔عوام کی
گاڑیوں کے درمیان سے ایک لیڈر کی گاڑی گزر رہی تھی یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ
یہ ایک عوامی لیڈر ہے جس کو عوام سے کوئی خطرہ نہیں اور جو عوام کو خطرہ ہے
وہ اس لیڈر کو بھی ہے ۔ کیا یہ واقعی ہی سیاسی جلسہ تھا جس میں ایک پارٹی
کا راہنما شامل ہو رہا تھا؟ ہم سب کے لیے یہ سب کچھ حیران کن تھا ۔ کوئی
روٹ نہیں لگایا گیا تھا عوام کو کوئی دانستہ تکلیف نہیں دی گئی تھی ۔ کوئی
لڑائی جھگڑا نہیں ہو رہا تھا ۔اگرچہ عمران خان زیادہ وقت وہاں نہیں رکے اور
جلد واپس لوٹ گئے تاہم یہ نظم وضبط قائم ہو جانا ( جو کہ ہماری ملکی سیاست
میں تقریبا ایک ناممکن سی بات لگتی ہے )اور قائم رہنا منتظمین کا حقیقتاایک
کارنامہ ہی سمجھنا چاہیے اور عمران خان کا وی آئی پی پرٹوکول کی خاطر عوام
کو تکلیف نہ دینا خالصتا ان کی اچھی سوچ کا مظہر ہے ۔
میرے پی ٹی آئی سے کچھ نظریاتی اختلافات ہیں ۔عمران خان صاحب کے بعض بیانات
سے مجھے بھی پاکستان کے بہت سے لوگوں کی طرح اختلاف ہے ۔لیکن یہ نظم و ضبط
اور اس طرح سے جلسہ منعقد کروایا جانا اور اس جلسے کے دوارن ٹریفک کو نہ
روکا جانا اور وی آئی پی پروٹوکول کو محدود رکھنا جس میں عوام کو تکلیف کا
سامنا نہ کرنا پڑے یہ عمل واقعتا قابل ِ تعریف ہے ۔ ایسے عمل کی تعریف کی
جانا بھی ضروری ہے اور دوسری پارٹیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اچھی رسم کو
اپنائیں ۔آپ کے کسی جلسے سے عوام کو کوئی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے تب ہی
آپ اس قابل ہیں کہ آپ عوام کی نمایئدگی کریں ۔
ایسے نظم و ضبط کا مظاہرہ ہر پارٹی، ہر پارٹی کے چیئرمین کو کرنا چاہیے ۔
سیاسی راہنماؤں اور لیڈروں کو خود پر اس حد تک اعتماد ہونا چاہیے کہ اگر وہ
عوامی نمائندے ہیں تو عوام سے انھیں کوئی نقصان نہیں ہو گا اور یہ تب ہی
ممکن ہے جب وہ اپنا کام اس قدر اچھے طریقے سے سرانجام دین کہ عوام کے دلوں
میں ان کے لیے غم و غصہ کی بجائے عزت اور محبت ہو ۔ بلٹ پروف شیشوں کے
پیچھے کھڑے ہو کر تقریر کرنے والے عوامی لیڈر ہو ہی نہیں سکتے ۔ آج کے دور
میں جب دنیا ایک گلوبل ویلج کی حیثئت اختیار کر چکی ہے وہاں ان نمائندگان
کو اور زیادہ احتیاط اور نظم و ضبط سے کام لینا چاہیے کیونکہ تمام عالم اب
ان جلسوں کو لائیو دیکھ رہا ہے اور یہ سب پاکستان کے سفیر کے طور پر خود کو
دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔ |