وہ عطر دان سا لہجہ مرے بزرگوں کا
رچی بسی ہوئی اُردو زبان کی خوشبو
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے ۔۔۔۔۔! مدتوں سے جس کیلئے تمام مکاتب فکر نے آواز
بلند کی ،صحافیوں نے اعلیٰ ایوانوں تک معاملات کو اُٹھا یا ، ادبی حلقوں
میں بحث ہوئی ،ادب کو پرموٹ کرنے والے نے برسراقتدار والوں کو با رہا باور
کراویا ،علماء ومشائخ ،سول سوسائٹی اور تمام فلاحی تنظیموں نے جس کا نظریہ
سوشل ،پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا میں پیش کیا آج اُن تمام کی کاوشیں رنگ لے
آئیں۔آسان لفظوں میں یہ کہ اب پاکستان میں اُردو زبان کے نفاذ کا اعلان ہو
چکا ہے ۔اس سے پہلے کہ میں اس کے مثبت پہلو کی جانب آؤں خبر کی تفصیلات کو
بھی آپ کی نظر کرتا چلوں۔
تفصیلات کے مطابق’’ عدالت عظمیٰ نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے اور
صوبائی وعلاقائی زبانوں کے فروغ کے حوالہ سے دائر درخواست کو منظور کرتے
ہوئے کیس کا فیصلہ جاری کردیا ہے۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں
جسٹس دوست محمدخان اور جسٹس قاضی فائزعیسیٰ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے
درخواست گزارکوکب اقبال ایڈووکیٹ کی درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ جاری
کیا۔فاضل عدالت کے فیصلہ کے نو اہم نکات ہیں (۱) آئین کے آرٹیکل251کے
احکامات یعنی ’’اردوکو سرکاری زبان کا درجہ دینے اور صوبائی وعلاقائی
زبانوں کے فروغ ‘‘ کو بلا غیر ضروری تاخیر فوراً نافذ کیا جائے۔(۲) حکومت
کی جانب سے اس عدالت کے رو برو عہد کرتے ہوئے جولائی 2015 کو اس حوالہ سے
عملدرآمدکی جو میعاد مقرر کی گئی ہے اس کی ہر حال میں پابندی کی جائے
(۳)قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کیلئے وفاقی اور صوبائی
حکومتیں باہمی ہم آہنگی پیدا کریں۔ (۴) تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور
صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کر لیا جائے۔ (۵)بغیر کسی غیر ضروری
تاخیر کے نگرانی کرنے اور باہمی ربط قائم رکھنے والے ادارے آرٹیکل251 کو
نافذ کریں اور تمام متعلقہ اداروں میں اس آرٹیکل کا نفاذ یقینی
بنائیں۔(۶)وفاقی سطح پر مقابلہ کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال کے
بارے میں حکومتی اداروں کی بالا سفارشات پر عمل کیا جائے۔(۷) عوامی مفاد سے
تعلق رکھنے والے عدالتی فیصلوں یا ایسے فیصلے جو آرٹیکل 189کے تحت اصولِ
قانون کی وضاحت کرتے ہوں اردو میں ترجمہ کروایا جائے۔(۸)عدالتی مقدمات میں
سرکاری محکمے اپنے جوابات حتیٰ الامکان اردو میں پیش کریں تا کہ عام شہری
بھی اس قابل ہو سکیں کہ وہ موثر طریقے سے اپنے قانونی حقوق نافذ کروا سکیں۔
(۹)اس فیصلے کے اجراء کے بعد اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکار آرٹیکل251 کے
احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کوبھی اس خلاف ورزی کے نتیجہ
میں نقصان یا ضرر پہنچے گا اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔ دوران
سماعت فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے اس
حوالہ سے 9ہدایات جاری کی ہیں جن کے تحت آئین کے آرٹیکل 251 پر بلا تاخیر
عمل کیا جائیگا۔ درخواست گزار کوکب اقبال نے کہا کہ ساری قوم آپ کو دعائیں
دے رہی ہے آپ کا نام تاریخ میں لکھا جائے گا اور آج قائداعظم کی روح خوش
ہورہی ہوگی یہ کام میری 17سال کی جدوجہد کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچا ہے۔
سب سے پہلے تو چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں اس فیصلے کو خراج
تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے آئین پاکستان کی روح سے اس فیصلے کو محفوظ کیا
۔ اس فیصلے کے آتے ہی ایک طرف تو مثبت پہلو نظر آتا ہے تو دوسری جانب کچھ
ادبی حلقوں میں اس کے نفاذ کو عدلیہ کی غلطی بھی قراد دیا جا رہاہے ۔
میرے نزدیک لشکری زبان کا نفاذ ملک و قوم دونوں کیلئے بہتر ثابت ہو گا ۔کسی
بھی قوم کی ترقی کی ماپ تول کی جائے تو معلوم یہی ہو تا ہے کہ وہ اپنی
ثقافت ،لباس اور اپنی زبان کو ترک نہیں کرتے ۔ چائنہ، جاپان، فرانس ،سپین
اور دیگر ممالک کی ترقی کا راز بھی یہی ہے کہ ان کے سرکاری دفاتر میں قومی
زبان نافذ ہے ،اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہی مناسب ہو گا کہ اس
سرزمین میں عدلیہ کے اس فیصلے کا کس طرح خیرمقدم کیا جاتا ہے میری ناقص سوچ
کے مطابق یہ فیصلہ بہت بہتر ہے ۔کچھ ادبی حلقوں میں بار ہا یہ نقطہ زیر بحث
ہے کہ اگر ہم نے قومی زبان کا نفاذ تمام سرکاری اداروں میں ہونے سے مسائل
ہو سکتے ہیں کچھ اداروں میں ایک مدت سے تمام تر دستاویزاتا ت کو انگریزی
میں رکھا ہوا ہے ایک دم ان کو قومی زبان میں تبدیل کرنے سے عملے کو دشواری
کا سامنا ہو گا اور اسی طر ح اگر لشکری زبان کو ہم نے یونیورسٹی کالج یا
پھر سکولوں میں نافذ کر دیا تو ہمیں بہت سی مشکلات کا سامناکرنا پڑے گاکیوں
کہ انگلش میں بہت سے باتوں میں نرمی نظر آتی ہے جبکہ اُردو میں اس طرح کی
لچک کہیں نظر نہیں آتی ۔انگریزی کے بہت سے ایسے الفاظ ہیں جن کا اردو میں
ترجمہ نا صرف مشکل ہے بلکہ کچھ لفظوں کا مطلب اُردو میں ملتا ہی نہیں ۔کسی
کے نزدیک گوگل میں جب کوئی بھی لفظ انگریزی کا تلاش کریں تو باآسانی مل
جاتا ہے مگر اردو کے الفاظ تلاش کرنا خاصا مشکل ہے ۔اگر ہم نے قومی زبان
نجی اداروں میں نافذ کر دی تو عین ممکن ہے کہ ہماری نئی نسل کو حالات سے
مقابلہ کرنے میں مشکل پیش آئے ۔کیوں کہ انگریزی گلوبل زبان ہے اور اس کے
بغیر زندگی گزارنا ناممکن ہے ۔ اس طرح کی بحث با رہا ذی شعور لوگوں کے
درمیان جسٹس جوادایس خواجہ کے اس فیصلے کے بعد سے ہو رہی ہے ۔اگر ہم اس
لشکری زبان کو دیکھیں تو اس میں تمام تر الفاظ موجود ہیں جو ہماری انگریزی
سے بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں اور ہمارے پاس ایسے بے شمار استاد موجود ہیں
جو ہر انگریزی حرف کا ترجمہ اُردو میں کر سکتے ہیں ۔نجانے ذی شعور لوگوں کو
یہ سمجھ کیوں نہیں آ رہا ہے کہ سرکاری اداروں میں اُردو زبان نفاذ ہونے سے
حالات بہتر ہو جائیں گے۔عدالت ،کچہری سے لے کر تمام دوسرے اداروں کی
درخواستیں جب اُردو میں ہوں گی تو ہر ایک کو راہنمائی ملے گی ۔کم پڑھے لوگ
بھی عدالت اور کچہری میں اپنے کیس کو بہتر طور پر پیش کر سکیں گے ،دوسرے
اداروں کے فارم جب اُردو میں ہوں گے دوسروں کو پیسے دے کر فارم پر کروانے
والے بھی ہر ایک فارم کو خود ہی پر کر لیں گے ۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر
ہمارے ملک میں اُردو زبان کا نفاذ ہو گیا توہمارا شمار نہ صرف مہذہب
معاشروں میں ہو گا بلکہ ہمارے پاکستان سے برائی اور بے روزگاری کا خاتمہ
بھی ہو جائیگا۔ |